فقہاء کے ہاں صرف دانت کھل جانا، آواز پیدا نہ ہونا تبسم یعنی مسکرانا ہے، تھوڑی آواز بھی پیدا ہونا، جو خود سنی جائے، دوسرا نہ سُنے ضحک ہے، زیادہ
آواز پیدا ہو کہ دوسرا بھی سنے اور منہ کھل کھل جائے قہقہہ یعنی ٹھٹھا ہے۔(مراٰۃ، جلد6، باب الضحک، ص320، نعیمی کتب خانہ گجرات)
یاد رہے!حضور
صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم مسکراتے
تھے ، قہقہہ مار کر کبھی نہ ہنسے کہ ہنسنا قلب میں غفلت پیدا کرتا ہے، تبسّم خوش
اخلاقی ہے، اس سے سامنے والے کو خوشی ہوتی
ہے، جہاں کہیں روایت میں ہنسنا لکھا ہے، اس سے مراد قہقہہ نہیں ہے۔
(مراٰۃ، جلد6، باب الضحک، ص320، نعیمی کتب خانہ گجرات)
ایک مرتبہ جب لوگوں نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں بارش رُک جانے کی شکایت کی، تو میٹھے مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے منبر بچھانے کا حکم دیا، جو عید گاہ میں بچھا دیا گیا اور مقررہ دن وہاں
تشریف لے جاکر بارش کے لئے دعا فرمائی اور ہاتھوں ہاتھ اس
دعا کی قبولیت ظاہر ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسجد تک نہ آنے پائے تھے کہ سیلاب بہہ گئے۔
جب میٹھے مصطفے صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے لوگوں
کو پناہ کی طرف دوڑتے دیکھا تو ہنسے، حتی
کہ دندانِ مبارک ظاہر ہوگئے، یہ تبسّم خوشی
اور تعجب کے طور پر تھا کہ ابھی تو یہ لوگ بارش مانگ رہے تھے، جب آئی تو بھاگ رہے ہیں۔(مراٰۃ، جلد2، باب الاستسقاء، ص397۔398، نعیمی کتب خانہ
گجرات)
غیب کی خبریں دینے والے پیارے آخری نبی
صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے آخری
جنتی کے بارے میں خبر دی، جس پر قیامت کے دن اس کے چھوٹے گناہ پیش کرکے پوچھا جائے
گا:تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں گناہ کئے؟ وہ انکار کی طاقت نہ رکھے گا اور ڈر رہا
ہوگا کہ بڑے گناہ تو ابھی باقی ہیں، کہیں وہ بھی پیش نہ کر دئیے جائیں، کہا جائے گا:تیرے لئے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی
ہے، تو وہ کہے گا: میں نے اور بڑے کام کئے
تھے، جنہیں یہاں نہیں دیکھ رہا ہوں، حضرت
ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نےدیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنس پڑے، حتی کہ
داڑھیں چمک گئیں۔حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کی
حالت کی تبدیلی پر تبسم فرمایا کہ ابھی تو گناہِ کبیرہ سے ڈر رہا تھا، اب خود مانگ رہا ہے۔(مراٰۃ، جلد7، باب الحوض والشفاعۃ، ص331۔332، ایضاً)
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سواری پر سوار ہونے کے بعد اللہ پاک کی حمد و ثنا بیان کی اور اللہ پاک کی
بارگاہ میں کچھ یوں عرض کی: میں نے یقیناً
اپنی جان پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے اور تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا، پھر آپ ہنسے، وجہ پوچھنے پر فرمایا: تمہارا ربّ اپنے بندے سے
خوش ہوتا ہے، جب وہ کہتا ہے: خدایا! میرے گناہ بخش دے، ربّ کریم فرماتا ہے: میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے
سوا کوئی گناہ نہیں بخشتا۔مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:گناہ تو خدا ہی بخشتا ہے،اس کے محبوب بندے شفاعت
کرتے ہیں، مگر براہِ راست گناہ نہیں بخشتے۔(مراٰۃ، جلد4، باب خاص وقتوں کی دعا، ص41)
رسول اللہ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے عرفہ
کی شام اپنی اُمّت کے لئے دعائے مغفرت کی، پھر مزدلفہ میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صبح دعا کی، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسے/ مسکرائے، خدمتِ عالی میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے عرض کی:ہمارے
ماں باپ فدا! اس گھڑی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسانہ کرتے تھے، اللہ پاک حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خوش و خرم رکھے۔ کیا چیز آپ کو ہنسا رہی ہے؟فرمایا:جب اللہ پاک
کے دشمن ابلیس نے دیکھا کہ اللہ پاک نے میری دعا قبول کرلی اور میری اُمّت کو بخش
دیا تو مٹی اٹھا کر اپنے سر پر ڈالنے لگا اور ہائے وائے پکارنے لگا، ہم نے جو اس کی گھبراہٹ دیکھی تو ہمیں ہنسی آگئی۔(مراٰۃ، جلد 4، صفحہ 321)
غزوۂ تبوک یا حنین سے واپسی پر جب حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے، ہوا چلی، جس سے طاق میں رکھی ہوئیں کھیل کی گڑیوں سے پردہ
ہٹ گیا، ان گڑیوں کے درمیان ایک گھوڑا تھا،
جن کے کپڑے کے دو پر تھے، سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے گھوڑے کے پروں کے متعلق پوچھا:یہ کیا ہے؟ تو بولیں:کیا
آپ نے نہ سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے
کے پر تھے؟ فرماتی ہیں:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسے، حتٰی کہ میں نے آپ کی داڑھیں دیکھ لیں۔(مراٰۃ، جلد5، ص113، نعیمی کتب خانہ گجرات)
جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس
تبسم کی عادت پر لاکھوں سلام
جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس
تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام
اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نور بلکہ قاسمِ نور(یعنی نور بانٹنے والے) ہیں۔شفا شریف میں ہے:جب نور والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تھے تو در و دیوار روشن ہو جاتے۔(شمائل ترمذی، شفاء
الباب الثانی)
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ کا بیان
ہے:آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم گفتگو
فرماتے تھے تو آپ کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک نور نکلتا تھا اور جب کبھی
اندھیرے میں مسکرا دیتے تو دندانِ مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی تھی۔(سیرت مصطفی، صفحہ575، شمائل ترمذی)
ام المؤمنین صحابیہ بنتِ صحابی حضرت بی
بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا روایت فرماتی ہیں:
میں سحری کے وقت گھر میں کپڑے سی رہی تھی
کہ اچانک سوئی ہاتھ سے گر گئی اور ساتھ ہی چراغ بھی بجھ گیا، اتنے میں نور والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر میں داخل ہوئے اور سارا گھر نور والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرہ ٔانور کے
نور سے روشن ہو گیا اور گمی ہوئی سوئی مل گئی۔
سوزنِ گمشدہ ملتی ہے تبسم سے تیرے شام کو صبح بناتا ہے اُجالا تیرا(ذوقِ نعت)
(شان ِمصطفے پر 12بیانات، ص97)
صحابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم (موقع کی
مناسبت سے) سب سے زیادہ
مسکرانے والے تھے۔
حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔
عَنْ عَبْدَاللہ
بِنْ الْحَارِثْ قَالَ مَا کَانَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اِلَّا تَبَسُّمَاحضرت عبداللہ بن
حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا صرف تبسم ہوتا تھا یعنی آپ غالب اوقات تبسم فرماتے اور مسکراتے۔
تبسم کے معنی ہیں:مُنہ کھل جاتا ہے، مگر آواز نہیں آتی۔(شانِ مصطفے پر 12بیانات، شمائل ترمذی)
حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں :میں نے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کبھی پورا کھل کر ہنستا ہوا نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کے کوّے دیکھ لیتی۔وَاِنَّمَا کَانَ
یَتَبَسَّمُ آپ تبسم بھی کرتے تھے۔
وضاحت:حضور اکرم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم سے قہقہہ
لگانا، ٹھٹھا مارنا کبھی ثابت نہیں، بہت ہنسنا دل کو غا فل کر دیتا ہے جب کہ مسکرانے سے اپنا دل تازہ اور مخاطب کا دل خوش ہوتا ہے اور موہ لیتا ہے۔(مراۃالمناجیح، جلد
نمبر 8، صفحہ نمبر 74، 81)
حضرت ابو ذر رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں :حضور
اقدس صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا:میں اُس شخص کو خوب جانتا ہوں، جو
سب سے اوّل جنت میں داخل ہو گا اور اس سے بھی واقف ہوں، جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا، قیامت کے دن ایک آدمی دربارِ الہٰی میں حاضر کیا
جائے گا، اس کے لئے یہ حکم ہوگا کہ اس کے
چھوٹے چھوٹے گناہ اس پر پیش کئے جائیں اور بڑے بڑے گناہ مخفی رکھے جائیں، جب اس پر چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے کہ تو نے فلاں دن، فلاں گناہ کئے ہیں، تو وہ اقرار کرے گا، اس لئے کہ انکار کی کوئی گنجائش نہ ہوگی اور اپنے
دل میں نہایت خوفزدہ ہو گا( کہ ابھی تو صغائر ہی کا نمبر ہے، کبائر کا دیکھیں کہ کیا گزرے) کہ اس دوران میں یہ حکم ہو گا کہ اس شخص کو ہر ہر گناہ کے
بدلے ایک نیکی دی جائے تو وہ شخص یہ حکم سنتے ہی بول اٹھے گا: میرے تو ابھی بہت سے گناہ باقی ہیں، جو یہاں نظر نہیں
آتے! حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کا مقولہ فرماکر ہنسے، یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک ظاہر ہو گئے۔ہنسی اس بات پر تھی کہ جن
گناہوں کے اظہار سے وہ ڈر رہا تھا، ان کے
اظہار کا خود طالب ہو گیا۔
منزل کڑی ہے شانِ تبسّم کرم کرے تاروں
کی چھاؤں نور کے تڑکے سفر کریں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:حضور
اقدس صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا:میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے
آخر میں آگ سے نکلے گا، وہ ایک ایسا آدمی
ہو گا، جو زمین پر گھسٹتا ہوا دوزخ سے
نکلے گا، اس کو حکم ہوگا : جا! جنت میں داخل ہو جا! وہ جا کر دیکھے گا کہ لوگوں نے تمام جگہوں پر قبضہ کر رکھا ہے، سب جگہیں پُر ہو چکی ہیں، لوٹ کر بارگاہِ الہٰی میں اس کی اطلاع کرے گا، وہاں ارشاد ہوگا: کیا
دنیاوی منازل کی حالت بھی یاد ہے؟ وہ عرض کرے گا :ربّ العزت خوب یاد ہے! اس پر
ارشاد ہو گا: کچھ تمنائیں کرو، وہ اپنی تمنائیں بیان کرے گا۔ وہاں سے ارشاد ہوگا: تم کو تمہاری تمنائیں اور خواہشات بھی دیں
اورتمام دنیا سے دس گنا زائد عطا کیا، وہ عرض کرے گا:اےاللہ پاک! تو بادشاہوں کا بادشاہ ہو کر مجھ سے تمسخر کرتا ہے(کہ وہاں ذرا سی بھی جگہ نہیں ہو تو تمام دنیا سے دس گنا زیادہ
مجھے عطا کر رہا ہے)۔حضرت ابنِ
مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :میں نےنبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ اس شخص کا یہ مقولہ نقل فرما رہے تھے تو
آپ کو ہنسی آگئی، یہاں تک کہ آپ کے دندانِ مبارک بھی ظاہر ہو گئے۔
واقعہ:حضرت ابنِ ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:حضرت
علی رضی اللہ عنہ کے پاس(ان کے
زمانہ خلافت میں)ایک مرتبہ(گھوڑا وغیرہ) کوئی سواری لائی گئی، آپ نے رکاب میں
پاؤں رکھتے ہوئے بسم اللہ کہا اور سوار ہوئے تو الحمدللّٰہ کہا، پھر یہ دعا پڑھی:سُبْحٰنَ
الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾ وَ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا
لَمُنۡقَلِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾۔ پھر حضرت
علی رضی اللہ عنہ نے الحمدللہ تین مرتبہ کہا، پھر اللّٰہُ اکبر تین مرتبہ کہا، پھر سبحنک انی ظلمت نفسی فاغفر لی فانہ لا یغفرالذنوب
الا انت کہا، اس دعا کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت
ابنِ ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی
تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی اسی طرح دعائیں پڑھی تھیں اور اس کے بعد نبی رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی تبسم فرمایا
تھا، میں نے بھی حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم سے تبسم
کی وجہ پوچھی تھی، جیساکہ تم نے مجھ سے پوچھی تو حضور انور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:اللہ پاک بندے کے اس کے کہنے پر کہ میرے گناہ تیرے سوا
کوئی معاف کر نہیں کر سکتا، خوش ہو کر
فرماتا ہے:میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی شخص گناہ معاف نہیں کر سکتا۔
جس تبسّم نے گلستاں پہ گرائی بجلی پھر
دکھادے وہ ادائے گلِ خنداں ہم کو
حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے
والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوۂ خندق کے دن ہنسے،حتی کہ آپ کے دندانِ مبارک ظاہر ہوگئے،حضرت
عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے پوچھا:کس بات پر ہنسے تھے؟ انہوں نے کہا:ایک
کافر ڈھال لئے ہوئے تھا اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ گو بڑے تیر انداز
تھے،لیکن وہ اپنی ڈھال کو ادھر اُدھر کر لیتا
تھا،جس کی وجہ سے اپنی پیشانی کا بچاؤ کر رہا تھا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ تیر
نکالا، جس وقت اس نے ڈھال سے سر اٹھایا،
فوراً ایسا تیر مارا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور فوراً گر گیا، ٹانگ بھی اوپر کو اُٹھ
گئی، پس حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس قصّہ پر ہنسے، میں نے پوچھا: اس میں کونسی بات پر؟ انہوں نے
فرمایا:حضرت سعد کے اس فعل پر۔
نبی کریم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت سعد
رضی اللہ عنہکی تیراندازی اور کافر کے ماہرانہ کرتب کے باوجود ہدف کا
نشانہ بننے پر فرحت و سرور سے ہنسے کہ اللہ پاک کا دشمن ڈھیر ہو گیا۔(باب ماجاء فی ضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ،
شمائل ترمذی)
حضرت انس رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے:رسول
اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے مجھے ایک دن
کسی کام کے لئے بھیجا، میں نے کہا:اللہ
پاک کی قسم! میں نہ جاؤں گا اور میرے دل میں یہ تھا کہ اس کام کے لئے جاؤں گا، جس کا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حکم دیا، چنانچہ میں روانہ ہو گیا، حتی کہ میں کچھ بچوں کے پاس سے گزرا، جو بازار
میں کھیل رہے تھے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے میرے پیچھے سے میری گردن پکڑی، فرماتے ہیں :میں نے حضور
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف دیکھا، آپ ہنس رہے تھے، فرمایا: اے انس! کیا
تم وہاں جا رہے ہو،جہاں جانے کا میں نے تم
کو حکم دیا تھا،میں نے عرض کی: ہاں! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میں جا رہا ہوں۔(مراۃ المنا جیح،
ج8، ص67)
لو وہ آئے مسکراتے ہم اسیروں کی طرف خرمنِ
عصیاں پر اب بجلی گراتے جائیں گے
معلوم ہوا!نبی
پاک صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا
تبسم کی صورت میں ہوتا تھا اور آپ کی یہ عادت و خصلتِ مبارکہ اس بات کی مقتضی ہے
کہ ہم سے جتنا ہو سکے، اس عادت میں آپ کی متابعت کی کوشش کریں ۔
حضور کے مسکرانے کے واقعات از بنت اللہ بخش یار جامعۃ
المدینہ للبنات فیضان اعلی حضرت
ہمارے پیارے آقا،
مکی مدنی مصطفے صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خوبصورت چہرے والے، مسکراتی شخصیت ہیں، ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمیشہ خندہ پیشانی اور بشاشت سے متصف
رہے، مسکرانا پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے اور سنت میں عظمت ہے، تبسم خوش اخلاقی ہے، اس سے سامنے والے کو خوشی
ہوتی ہے۔
اعلیٰ حضرت ،امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جس کی تسکیں سے
روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم
کی عادت پہ لاکھوں سلام
واقعات:
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: میں جب سے مسلمان ہوا، مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا اور مجھے نہ دیکھا، مگر تبسم فرمایا۔ وضاحت:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ تبسم اظہارِ خوشی یا اظہارِ کرم کے لئے ہوتا تھا۔(مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 281)
حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،میں نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم سے زیادہ کسی کو مسکرانے والا نہ پایا۔(شرح خرپوتی، صفحہ
104)
تبسم میں ہزار ہا
حکمتیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہر ادا میں ربّ کریم کی حکمتیں ہوتی ہیں۔
حضرت جابر بن سمرہ
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نہ اٹھتے تھے اپنے اس مصلے سے جس میں فجر کی نماز پڑھتے، حتی کہ سورج طلوع ہو جاتا، پھر جب سورج طلوع ہو جاتا تو اٹھتے اور
لوگ باتیں کرتے تھے تو جاہلیت کے زمانہ کے کاموں کے ذکر میں مشغول ہو جاتے تو
ہنستے تھے اور نبی کریم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تھے۔(مشکوٰۃ شریف
مترجم، جلد دوم، صفحہ 492)
حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا سے مروی ہے:
فرماتی ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کبھی بھی کھل کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا گوشت نظر آئے، بلکہ
آپ مسکراتے تھے۔ (بخاری،
کتاب لآداب، باب التبسم و الضحک، 125/2،الحدیث 4092)
حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں
نے حضور اقدس صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ
تبسم(مسکرا نے) والا نہیں دیکھا۔ (شمائل ترمذی، ہنسنے کا بیان، حدیث نمبر 216)
آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی اکثر
ہنسی تبسم (مسکرانا) ہوتی تھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دندانِ مبارک اولے کی طرح چمک دار سفید ظاہر ہوتے تھے۔(شمائل ترمذی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
گفتگو کیسی ہوتی، حدیث نمبر 213)
1۔عرش کے
مالک سے کمی کا اندیشہ نہ کیجئے
ایک مرتبہ کسی ضرورت مند نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے پاس تو اس وقت کچھ موجود نہیں ہے،
تم میرے نام سے خرید لو، جب کچھ آجائے گا
تو میں ادا کردوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! آپ کے پاس جو کچھ تھا، آپ دے چکے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ مقولہ (کہنا)نا گوار گزرا تو ایک انصاری صحابی نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! جس قدر جی چاہے، خرچ کیجئے اور عرش کے مالک سے کمی کا اندیشہ نہ
کیجئے، آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو انصاری کا یہ کہنا بہت پسند آیا اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تبسم فرمایا، جس کا اثرچہرۂ انور پر بھی ظاہر ہوتا تھا۔(شمائل ترمذی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے
اخلاق وعادات، حدیث نمبر 333)
2۔بسم
اللہ اولہ و آخرہ پڑھنے کی برکت
ایک شخص بغیر بسم اللہ پڑھے کھانا کھا رہا تھا، جب کھانا کھا چکا اور صرف ایک
لقمہ باقی رہ گیا تو اس نے یہ لقمہ اٹھایا اور کہا : بسم اللہ اولہ وآخرہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تبسم کیا اور فرمایا: شیطان اس کے ساتھ کھا رہا تھا، جب
اس نے اللہ(پاک)کا نام ذکر کیا تو جو کچھ اس شیطان کے پیٹ میں تھا، اُگل دیا۔(بہار شریعت، ح 16، ص 364)
3۔ اتنا
مسکرائے کے مبارک داڑھوں کو دیکھ لیا
حضرت مہیب بن سنان رضی اللہ عنہ کی آنکھ دکھ رہی تھی اور وہ کھجور کھا رہے تھے تو حسن اخلاق کے پیکر صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : تمہاری آنکھ دُکھ رہی ہے اور تم کھجور کھا رہے
ہو؟ عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! میں دوسری طرف سے کھا رہا ہوں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ان کے جواب پر مسکرادیئے، راوی بیان کرتے ہیں:اتنا مسکرائے
کہ میں نے آپ کی مبارک داڑھوں کو دیکھ لیا۔(احیاء العلوم، ج 3)
4۔ نماز میں
مسکراتے چہرے مبارک کا دیدار
حضرت انس رضی اللہ
عنہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بیماری کے
دنوں کا واقعہ بیان کرتے ہوئے) فرماتے ہیں:پیر کے روز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ کی اقتدا میں
فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرۂ مبارکہ کا پردہ اٹھایا اور صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کو صفوں کےاندر نماز میں دیکھ کر مسکرادیئے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ گمان کرتے ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نماز کے لئے تشریف لانا چاہتے ہیں، صف میں پیچھے کی طرف آنے لگے اور خوشی کے مارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہمکی نظریں نماز ہی میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرۂ مبارک کی طرف لگ گئیں اور قریب تھا کہ سب حضرات
نماز توڑ دیتے، مگر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : نماز مکمل کرو، پھر مکانِ عالی شان میں تشریف
لے گئے اور پردہ ڈال دیا۔(فیضان نماز، ص336 بخاری، ج1، ص404، ح 1205)
5۔اللہ
پاک کی بندہ نوازی اور شانِ کریمی پر مسکراہٹ
حضرت ابوذر
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں یقیناً جانتا ہوں، سب کے بعد جنت میں کون داخل ہو گا اور سب سے آخر
میں جہنم سے کون نکلے گا! ایک شخص ایسا ہو
گا جسے قیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں
پیش کیا جائے گا، اللہ پاک فرشتوں سے فرمائے گا:اس شخص کے صغیرہ گناہ اس پر پیش
کئے جائیں اور اس سے کہا جائے گا: تو نے فلاں دن فلاں فلاں کام کیا تھا؟ وہ شخص اقرار کرے گا اور کہے گا: میں اپنے اندر ان
کاموں سے انکار کی سکت نہیں پاتا اور وہ ابھی اپنے کبیرہ گناہوں سے ڈر رہا ہو گا
کہ ان کا حساب نہ شروع ہو جائے، اس شخص سے
کہا جائے گا :جا تجھے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی دی جا تی ہے، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:یہ بیان فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خوشی ہوئی اور چہرۂ اقدس پر سُرور سے تبسم کے آثار نمایاں
ہوئے۔(مسلم کتاب الایمان،
باب ادنی اہل الجنۃ منزلہ فیھا، ص 119، ح
190)آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کبھی قہقہہ نہیں لگایا، لہٰذا ہمیں بھی کوشش کرنی چاہئے کہ یہ سنت بھی
زندہ ہو اور ہم زور زور سے نہ ہنسیں۔فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:قہقہہ شیطان کی طرف سے اور مسکرانا اللہ پاک کی طرف سے ہے۔(المعجم الصغیر، للطبرانی، ج 2، ص104)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں :میں نےنبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پورا ہنستے نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کے انتہائی تالو کو دیکھ لیتی، آپ مسکرایا کرتے تھے۔(بخاری شریف، مراۃ المناجیح)
حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے بہت تھے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب
سے مسلمان ہوا، مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا اور مجھے نہ دیکھا، مگر تبسم فرمایا یعنی جس موقع پر اجازت لے کر حاضر ہونا ہوتا، مجھے بغیر اجازت حاصل کئے حاضری کی اجازت تھی اور آپ مجھے دیکھا کرتے تو تبسم
فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کا یہ دیکھنااظہارِ خوشی یا اظہارِ کرم کے لئے ہوتا تھا۔
حضرت عبد اللہ بن
حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔(شمائل ترمذی:218)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں،جو سب سے پہلے جنت میں داخل
ہو گا اور اس شخص کو بھی جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک شخص کو دربارِ الٰہی میں پیش کیا
جائے گا کہ اس کے چھوٹے گناہ اس کے سامنے رکھ دو اور اس کے بڑے گناہ اس سے مخفی
رکھو۔ پھر کہا جائے گا: فلاں دن تو نے یہ
کیا تھا؟فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟ وہ
اقرار کرے گا،انکار نہ کر سکے گا اور اپنے بڑے گناہوں پر خوفزدہ ہو گا! پس کہا
جائے گا :اسے ہر گناہ کے بدلے میں ایک نیکی دی جائے تو وہ بول اٹھے گا: میرے تو اور بھی بہت گناہ ہیں، جو میں نے یہاں نہیں دیکھے، جناب ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پس قسم
ہے میں نے حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنسے، یہاں تک کہ اگلے دانت نظر آئے۔(شمائل ترمذی، حدیث
221)یعنی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا، آپ کا مسکرانا تعجب کی وجہ سے تھا، جب اس شخص نے صغائر کو نیکیوں میں تبدیل ہوتے دیکھا
تو اس کے اندر نیکیوں کی حرص و طمع پیدا
ہوئی تو بول اٹھا: میرے بڑے گناہوں کی وجہ
سے بھی مجھے نیکیاں دی جائیں۔تبسم میں ہزار حکمتیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہر ادا میں ربّ کریم کی حکمتیں
ہوتی ہیں۔
ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نہایت ہی عمدہ اوصاف کے مالک تھے، آپ کی عاداتِ کریمہ میں سے ایک بہت ہی پیاری
عادت مسکرانا بھی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خود بھی نہایت کثرت کے ساتھ مسکرایا کرتے اور صحابہ کرام علیہم رضوان کو بھی اس کی تعلیم دیتے تھے، اسی وجہ سے آپ کو متبسم بھی کہا جاتا ہے، یعنی مسکرانے والے۔
حضرت عبداللہ ابنِ حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم سے زیادہ
مسکرانے والا کوئی نہ دیکھا۔
حضور اکرم
صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم مسکرانے
کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:تمہارا اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرانا صدقہ
ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم جب
مسکراتے تو آپ کا چہرۂ مبارک اس قدر مہکا کرتا کہ صحابہ کرام علیہم رضوان کیسے ہی غمزدہ کیوں نہ ہوں، آپ کو دیکھ کر وہ بھی مسکراتے اور اپنا غم بھول
جاتے۔
جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس
تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام
اسی اثناء
میں چند واقعات ذکر کئے جاتے ہیں:
1۔امت کو
بشارت اور آپ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی
مسکراہٹ
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے
ہوئے خوشی خوشی باہر تشریف لائے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:حضور !آپ کی مسکراہٹ کی وجہ کیا ہے؟فرمایا: ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا:(حدیث شریف کا مفہوم ہے)آپ کا جو اُمّتی آپ پر دُرودپاک پڑھتا ہے، اللہ پاک اس پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے اور
اس کے گناہ معاف فرماتا ہے اسی وجہ سے آپ
مسکرا رہے تھے کہ آپ کی اُمّت کو بشارت ملی۔
2۔صحابی
کے ساتھ آپ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کا مزاح
حضور اکرم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے
صحابہ علیہم الرضوان کے ساتھ مزاح بھی فرمایا کرتے تھے، لیکن یاد رہے! مزاح وہ ہے جس سے آپ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئے اور دوسرے
کے چہرے پر بھی اور کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو، چنانچہ بیان کیا جاتا ہے: ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس ایک صحابی آئے اور انہوں نے عرض کی:حضور! مجھے اونٹ
چاہئے! آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہم
تو اونٹ کا بچہ دیں گے، کہا:حضور !میں اونٹ کے بچے پر کیسے سواری کروں
گا؟ مجھے اونٹ چاہئے! نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہم توتمہیں اونٹ کا بچہ ہی دیں گے،پھر جب انہوں
نے دوبارہ درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہر اونٹ کسی نہ کسی اونٹ کا بچہ ہی ہوتا ہے! یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی مسکرا دئیے اور وہ صحابی بھی مسکرانے لگے۔
3۔صحابیہ
کے ساتھ آپ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کا مزاح
ایک بار ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ان صحابیہ نے کچھ بات کی، پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان سے فرمایا:تمہارے شوہر وہی ہیں نہ، جن کی آنکھوں میں سفیدی ہے؟صحابیہ نے کہا:حضور !میرے
شوہر کی آنکھوں میں سفیدی نہیں ہے(سفیدی ایک بیماری بھی ہوتی ہے)، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے اور فرمایا:کون سی آنکھ ہے جس میں سفیدی نہیں؟ آنکھ میں ایک حصّہ تو سفید
ہوتا ہی ہے نا۔
4۔اُمّت
کو غازیانہ شان میں دیکھ کر مسکرائے
مراۃالمناجیح میں ہے:ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت اُمِّ حرام بنتِ ملحان رضی اللہ عنہا کے پاس
تشریف لے گئے، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کچھ کھلایا، پھربیٹھ
گئیں اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا سر ٹٹولے لگیں،
حضوراکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سو گئے، پھر ہنستے ہوئے جاگے، حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے عرض کی:حضور! کیا چیز آپ کو ہنساتی ہے؟تو
آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:
میری اُمّت کے کچھ لوگ مجھ پر پیش کئے گئے، اللہ پاک کی راہ میں غازی جو اس سمندر
کی فراخی میں سوار ہوں گے، جیسے تختوں پر
بادشاہ یا بادشاہ کی طرح تختوں پر ، میں
نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم !اللہ
پاک سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل فرما دے۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دعا کی برکت سے حضرت اُم حرام رضی اللہ عنہااللہ پاک کے پیارے
ان غازیوں کی فہرست میں آگئیں۔
5۔اُمّت
کے لئے روئے اور اُمّت کے لئے ہی مسکرائے
ایک بارحضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور اکرم، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسلم پہلے مسکرائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان!یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !آپ کس بات پر تبصرہ فرما رہے ہیں؟ تو
حضور اکرم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا:میرے دو امتی اللہ پاک کے حضور گر پڑے(قیامت کا منظر ارشاد فرما رہے تھے)یعنی گھٹنوں کے بل گر پڑے ، اللہ پاک کے سامنے، ان میں سے ایک نے دوسرے پر مطالبہ کیا :اے اللہ
پاک!اس نے مجھ پر دنیا میں ظلم کیا ہے، میرا
حساب اس سے دلوا، تو جو ظالم تھا، اس نے
کہا:میرے پاس تو کچھ نہیں! اتنا فرمانا ہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، پھر اُمّت کے غمخوار آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرمانے لگے:اللہ پاک اس مظلوم سے کہے
گا: اس کے پاس تو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں، تو اپنے سر کو اٹھا، وہ اٹھائے گا
اپنے سر کو تو سامنے جنت کو دیکھے گا، اللہ پاک اس سے فرمائے گا: توکیا دیکھ رہا ہے
جنت میں؟ تو وہ کہے گا:میں دیکھ رہا ہوں
کہ چاندی کے شہر ہیں اور اس میں سونے کا محلات ہیں تو اللہ پاک سے وہ عرض کرے گا: یہ کس کے لئے ہیں؟ تواللہ پاک فرمائے گا:اس کے لئے جو اس کی قیمت دے دے۔ تو
وہ شخص عرض کرے گا:اس کی قیمت کون دے سکتا ہے؟ تو اللہ پاک فرمائے گا: تو اس کی قیمت
دے سکتا ہے!تو وہ مظلوم کہے گا:میں کیسے دے سکتا ہوں؟ تو اللہ پاک فرمائے گا:تو اپنے
اس بھائی کو معاف کر دے، یہ اس کی قیمت ہو
جائے گی،تو وہ کہے گا:میں اسے معاف کرتا
ہوں، تو اللہ پاک فرمائے گا:اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر جنت کے اندر داخل ہو جا۔یہ فرما کرآپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرانے لگے۔
یعنی روئے تو وہ بھی اُمّت کے غم میں اور مسکرائے وہ بھی امت کے لئے،
ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہم سے کتنی محبت فرماتے تھے، اللہ پاک ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خاطر اپنی نفسانی خواہشات کو ترک کرنے کی توفیق مرحمت
فرمائے۔ اللہ پاک ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اس پیاری ادا(مسکرانے) کو ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے، دوسروں کے ساتھ مسکرا کر خندہ پیشانی کے
ساتھ ملنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین یا رب العالمین
یا الہٰی جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں ان
تبسم ریز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو
جس کے گچھے سے لچھے جھڑیں نور کے ان
ستاروں کی نزہت پہ لاکھوں سلام
آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے نورانی
سچے موتیوں کی لڑی جیسے دانت مبارک جن سے نور کی کرنیں چھن چھن کر باہر آتی اور گلیاں
بازار روشن ہو جاتے ہیں۔
الحدیث: اذا تکلم رئی کالنور یخرج من بین ثنایاہ (شرح
حدائق بخشش، ص 1030)
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے رُخسار نرم و نازک تھے اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا منہ فراخ، دانت
کشادہ اور روشن تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گفتگو فرماتے تو آپ کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک
نور نکلتاتھا اور جب کبھی اندھیرے میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرا دیتے تو دندان مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی۔ (سیرت مصطفٰی، ص
575)
بے شک آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب مسکراتے تو در ودیوار روشن ہو جاتے تھے، اس ضمن میں ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ سنتے ہیں:
1۔ نورانی
مسکرانا
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں سحری کے وقت کچھ سی رہی تھی کہ میرے ہاتھ سے سوئی گر گئی اور
چراغ بجھ گیا،اتنے میں حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے آئے، آپ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرۂ
اقدس کے نور سے سارا کمرہ جگمگا اٹھا اور سوئی مل گئی۔ ( فیضان عائشہ صدیقہ، ص483)
سوزنِ گم شدہ ملتی ہے تبسم سے تیرے شام
کو صبح بناتا ہے اجالا تیرا( ذوقِ نعت، ص 17)
آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مسکراتا چہرہ اتنا روشن تھا کہ کمرے میں اندھیرا ہو گیا
ہے اور آپ کی نورانیت سے وہ اندھیرا ایسا دور ہوتا ہے کہ باریک سوئی بھی اس کی
روشنی سے مل جاتی ہے۔ سبحان اللہ
2 ۔رحمت
ملنے پر مسکرانا
اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کی طرف سے نعمت و رحمت ملنے پر مسکراتے اور خوش ہوتے تھے، اس ضمن میں ایک واقعہ سماعت کرتے ہیں:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :نبی
کریم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم ہمارے
درمیان موجود تھے، ہم نے دیکھا آپ پر اُونگھ
طاری ہوتی ہے(یہ دراصل
وحی نازل ہونے کے لمحات تھے) جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے آنکھ کھولی تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے ہیں،ہم نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !کس چیز نے آپ کے چہرے پر ہنسی بکھیر دی ہے؟ آپ نے ارشاد
فرمایا:مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے (سورۂ کوثرکی تلاوت فرمائی) فرمایا: تم جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ عرض کی:اللہ پاک اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ وہ دریا ہے، جس کا میرے ربّ کریم نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے، اس میں بڑی خیر ہے، یہ وہ حوض ہے کہ قیامت کے دن میری اُمت کے لوگ اس سے پانی پینے
آئیں گے۔(صحیح مسلم، ص
103،ح 892)
(مدنی چینل کاسلسلہ:
شان ِمحمدی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ،قسط 15)
3۔اللہ
پاک کے دشمن کے ڈھیر ہونے پر فرحت و سرور سے ہنسے
حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میرے
والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوہ ٔ خندق کے دن ہنسے،حتٰی کہ آپ کے دندانِ مبارک ظاہر
ہوگئے،حضرت عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے پوچھا:کس بات پر ہنسے تھے؟ انہوں نے کہا:ایک کافر ڈھال لئے
ہوئے تھا اور حضرت سعد گو بڑے تیر انداز
تھے، لیکن وہ اپنی ڈھال کو ادھر
اُدھر کر لیتا تھا، جس کی وجہ سے اپنی
پیشانی کا بچاؤ کر رہا تھا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ تیر نکالا، جس وقت اس نے ڈھال سے سر اٹھایا، فوراً ایسا تیر مارا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور
فوراً گر گیا، ٹانگ بھی اوپر کو اُٹھ گئی، پس حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس قصّہ پر ہنسے، میں نے پوچھا: اس میں کونسی بات پر؟ انہوں نے
فرمایا:حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر۔(شرح شمائل ترمذی، ج 2، ص
92)
کائنما اللؤلؤ المکنون فی صدف من
سعدتی منطق منہ و مبتسم
ترجمہ:جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گفتگو فرماتے یا مسکراتے تو گویا آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دہن اور لب دوکانیں ہیں(جن میں دندان یوں پتیاں ہیں) جیسے سیپ میں اچھوتے موتی چھپے ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے نورانی
دندانِ مبارک کو سیپ میں چھپے موتی سے تشبیہ
دی جا رہی ہے،جس طرح موتی سیپ میں صاف ستھری نکھری نکھری ہوتی،اس طرح آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا کلام آپ کا مسکرانا صاف ستھرا اور ہر نقص سے پاک ہوتا۔
(شان مژدہ شرح قصیدہ بردہ شریف، ص86)
4 ۔تعجب
سے مسکرائے
حضرت ابو ذر رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے:نبی
کریم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا: میں اس شخص کو خوب جانتا ہوں جو
سب سے اوّل جنت میں داخل ہو گا اور اس سے واقف ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا
جائے گا، اس کے لئے حکم ہو گا ،اس کے
چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے اور کبائر کو خفی رکھا جائے گا۔ جب اس پرصغائر
پیش کئے جائیں گے تو وہ اقرار کرے گا اور انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی اور وہ
اپنے دل میں بہت خوفزدہ ہو گا، ابھی صغائر
کا ہی نمبر ہے، کبائر پر دیکھیں کیا گزرے
کہ اس دوران حکم ہو گا کہ اس شخص کو ہر ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی دے دی جائے تو وہ
شخص یہ حکم سنتے ہی خود بولے گا: میرے تو ابھی بہت گناہ باقی ہیں، جو یہاں نظر نہیں آتے، حضرت ابو ذر رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ مقولہ نقل
فرما کر ہنسے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دانت مبارک ظاہر ہو گئے۔(شرح شمائل ترمذی، ج 2، ص
77)ہنسی اس بات پر
تھی کہ جن گناہوں کے اظہار سے وہ ڈر رہا تھا، ان کے اظہار کا خود طالب بن گیا۔
لباں سرخ آکھاں کہ لعلِ یمن چٹے
دند موتی دیا ہن لڑ یاں
میرے محبوب کے لب لعلِ یمن کے مانند ہیں اور سفید دانت ایسے ہیں، جیسا کہ موتی کی لڑیاں ہوں۔(کلام پیر مہر علی)
5 ۔تالیف
قلب کے لئے مسکرانا
حضرت سماک بن حرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ
عنہ سے کہا: کیاآپ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی مجلس
میں شرکت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا :ہاں، بہت مرتبہ، آپ جس جگہ صبح کی نماز پڑھتے تھے، طلوعِ آفتاب
سے پہلے وہاں سے نہیں اٹھتے تھے، جب آفتاب
طلوع ہوتا تو آپ وہاں سے اٹھتے تھے، صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم باتوں میں مشغول ہوتے تھے اور زمانۂ جاہلیت کے کاموں کا
تذکرہ کرتے اور ہنستے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی مسکراتے تھے۔(شرح صحیح مسلم، کتاب الفضا ئل، ص 772)
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آخرت کی باتوں پر ہنستے تھے اور دنیاوی
پر صرف مسکرا دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اُمورِ آخرت کی وجہ سے ہمیشہ غمگین رہتے تھے اور لوگوں کے
ساتھ ظاہر طور پر بکثرت تبسم فرماتے کہ ان کی تالیفِ قلب ہوتی ہے۔ (ص773)
جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس
تبسم کی عادت پر لاکھوں سلام
صحابہ کرام رضی اللہ
عنہم فرماتے ہیں:حضور
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گفتگو فرما تے ہوئے مسکرا کر بات کرتے
اور آپ کے لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ کا نور برستا رہتا۔ (شرح حدائق بخشش، ص
1030)
حضور کے مسکرانے کے واقعات از بنت حمد اللہ عطاریہ
جامعہ فیض رضا سیالکوٹ
پیارے آقا
صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے
کے 5واقعات
پیارے آقا صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی عاداتِ
مبارکہ میں سے ایک عادت مسکرانا بھی تھی جیسا کہ حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: فرماتے ہیں:میں نے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ تبسم فرمانے والا نہ دیکھا۔(شمائل ترمذی، ص 738حدیث214)
جس کی تسکیں سے روتے ھوئے ہنس پڑیں اس
تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام
(حدائق بخشش)
1)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے: فرماتے ہیں:حضرت عمر ابنِ خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم سے حاضری
کی اجازت مانگی، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں تھیں جو آپ سے کلام کر رہی تھیں اور زیادہ اونچی آواز
سےمانگتی تھیں تو جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو
ان سب نے حجاب میں جلدی کی ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور رسول
اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنس رہے تھے۔عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !اللہ پاک آپ کے دندان کو ہنستا رکھے تو نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :میں ان عورتوں سے تعجب کرتا ہوں جو میرے پاس تھیں
جب انہوں نے آپ کی آواز سنی تو پردے میں جلدی کی۔ (صحیح بخاری شریف. ص651 حدیث 3683)
2)حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا سے روایت ہے: فرماتی
ہیں: رسول اﷲ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم غزوۂ تبوک یا حنین سے واپس تشریف لائے۔ اُمُّ المؤمنین رضی اللہ
عنہا کے طاق میں پردہ
تھا،ہوا چلی اور پردے کا کنارہ ہٹ گیا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کھیل کی
گڑیا دکھائی دیں ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: عائشہ یہ کیا ہے ؟ بولیں: میری گڑیاں ہیں۔ آپ نے ان کے درمیان ایک
گھوڑادیکھاجس کے کپڑے کے دو پر تھے تو فرمایا: یہ کیا ہے جسے ہم بیچ میں دیکھ رہے ہیں؟
بولیں: گھوڑا ہے۔ فرمایا: اس کے اوپر کیا ہے ؟ میں بولی: دو پر ہیں۔ فرمایا: کیا گھوڑے
کے پر ہیں؟ بولیں: کیا آپ نے نہ سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تھے ؟ فرماتی ہیں: حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسے حتی کہ میں نے آپ کی کچلیاں دیکھ لیں ۔(سنن ابو داؤد شریف جلد 2 ص#333 حدیث 4932 مکتبہ رحمانیہ)
3)حضرت عبداﷲ ابن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے : فرماتے ہیں:خیبر کے دن میں نے ایک چربی کا تھیلا پایا تو میں اسے لپٹ گیا میں
نے کہا : آج میں اس میں سے کسی کو کچھ نہ دوں گا! پھر میں نے ادھر ادھر دیکھا تو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم میری طرف
دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ (بخاری شریف ج#2 ص82
حدیث #4214)
4)حضرت انس
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: فرماتے
ہیں :رسول اللہ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں میں
سب سے اچھے اخلاق والے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے ایک دن کسی کام کے لیے بھیجا ، میں نے کہا :اللہ پاک کی قسم! میں نہ جاؤں گا اور میرے دل میں یہ تھا
کہ اس کام کے لئے جاؤں جس کا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حکم دیا چنانچہ میں روانہ ہوگیا حتی کہ میں کچھ بچوں پر
گزرا جو بازار میں کھیل رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے میرے پیچھے سے میری گردن پکڑی ۔فرماتے ہیں:میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے ۔فرمایا: اے انیس! کیا تم وہاں
جارہے ہو جہاں جانے کا میں نے تم کو حکم دیا تھا؟ میں نے عرض کی: ہاں۔ یا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میں جارہا ہوں۔ (مسلم شریف ج#2 ص#260 حدیث#6015)
5 )حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے: فرماتے ہیں: جب سے مسلمان ہوا مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا اور
مجھے نہ دیکھا مگر تبسم فرمایا۔(بخاری شریف جلد #1 ص673# حدیث 3822)
مسکرانا پیارے آقا صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی بہت پیاری
سنت ہے اورمسکرانے کے بہت سے طبی فوائد بھی ہیں۔اللہ پاک ہمیں اس پیاری سنت پر عمل
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الآمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
یا الٰہی جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں ان
تبسم ریز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو
(حدائق بخشش)
جب ایک عاشقِ رسول کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹ و تبسم کی بات کی جاتی ہے، تو اس کے سینے میں موجود دل جھومنے لگتا ہے، آئیے!
پہلے تبسم کی تعریف ملاحظہ کیجئے، پھر آخری
نبی صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے تبسم
مبارک کا ذکر کیا جائے گا۔
تبسم کی
تعریف
تبسم سے مراد وہ ہنسی جس میں صرف دانت ظاہر ہوتے ہیں، آواز پیدا نہیں
ہوتی۔(مراۃالمناجیح)
1۔حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ حسین کسی کو نہ دیکھا، گویا آفتاب آپ کے چہرے میں رواں تھا، جب ہنستے تھے، دیواریں روشن ہو جاتیں۔( جامع الحدیث، جلد
5، حدیث نمبر 3244)
بہارِ خلد صدقے ہو رہی ہیں روئے عاشق پر کھلی
جاتی ہیں کلیاں دل کی تیرے مسکرانے سے (ذوقِ نعت )
2۔حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ تبسم فرمانے والا کسی کو نہ دیکھا۔( مراۃ المناجیح، جلد 6، باب فی ضحک)
رحمتِ عالم سرہانے مسکراتے آئیے جاں بلب ہوں آگیا اب وقتِ رحلت یا رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم( وسائل بخشش )
3۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو منہ کھول کر اس طرح ہنستے نہ دیکھا کہ آپ کے منہ کا اندرونی حصّہ( کوا) نظر آئے، آپ صرف تبسم فرمایا کرتے تھے ۔ (ریاض الصالحین، باب الوقار دارالسکینہ، حدیث نمبر 702)
جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑے اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام (حدائقِ بخشش)
4۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تو درودیوار روشن ہو جایا کرتے تھے۔(مصنف عبد الرزاق، 242/10، حدیث 20657)
اک بار مسکرا کر مجھے دیکھ لیجئے دم توڑ دوں گا قدموں میں وارفتگی کے ساتھ( وسائل بخشش )
5۔حضرت عبداللہ
بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہفرماتےہیں:حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہنسی
مبارک صرف تبسم ہوا کرتی تھی۔ (شمائل ترمذی، باب
ما جاء فی ضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم)یعنی تبسم
فرمایا کرتے، کبھی قہقہہ نہ لگاتے ۔
یا الٰہی جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں ان تبسم ریز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو( حدائقِ بخشش)
مسکراہٹ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے
دلوں کو فتح کیا جاسکتا ہے، ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑا جا سکتا
ہے،غم زدوں کو سامانِ تسکین فراہم کیا جا سکتا ہے،غیروں کو اپنا بنایا جا سکتا ہے
اور ہمارے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹ کی تو کیا بات ہے! آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس قدر مسکراتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک نام ہی متبسّم(تبسم فرمانے والا، مسکرانے والا) ہے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی میٹھی میٹھی مسکراہٹ کا ذکر کرتے ہوئے عاشقوں کے امام
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس
تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام
حضور صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے
مسکرانے کے پانچ واقعات ملاحظہ کیجئے:
1۔ایک
مرتبہ حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی کچھ اَزواج
آپ سے خرچ کا تقاضا کرتے ہوئے بلند آواز سے گفتگو کر رہی تھیں، اتنے میں مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ نے حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو ان کی آواز سن کر وہ جلدی
سے پردے کے پیچھے چلی گئیں، اس پر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسنے لگے۔(صحیح البخاری، جلد دوم، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، کتاب الآداب باب التبسم واضحک، حدیث 6085، صفحہ 425)
یاد رہے!حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا
اکثر مسکرانے کی حد تک ہی ہوتا تھا۔
2۔ایک
مرتبہ ایک اَعرابی نے آپ کے پاس آ کر اس زور سے آپ کی چادر مبارک کھینچی کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے شانہ اقدس پر
نشان پڑ گئے اور کہا:اللہ پاک کا جو مال آپ کے پاس ہے، اس میں سے مجھے دیئے جانے کا حکم فرمائیے، آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دیئے، پھر آپ نے اسے دیئے جانے کا حکم فرمایا۔(صحیح البخاری، جلد
دوم، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، کتاب الآداب باب التبسم واضحک، حدیث 6088، صفحہ 426)
3۔ایک
دفعہ مدینے میں قحط پڑ گیا، ایک شخص کے
عرض کرنے پر حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا
فرمائی، آپ کی دعا کی برکت سے اس قدر بارش ہوئی کہ ایک جمعہ سے اگلے جمعہ تک
لگاتار بارش ہوتی رہی، اگلے جمعہ کے دورانِ
خطبہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کی:ہم ڈوب گئے، اپنے ربّ سے دعا کیجئے کہ بارش کو ہم سے روک دے،
آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرا دیئے، پھر
دعا فرمائی۔(صحیح
البخاری، جلد دوم، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، کتاب الآداب باب التبسم واضحک، حدیث 6093، صفحہ 427)
4۔ایک شخص
جس نے روزۂ رمضان کی حالت میں اپنی بیوی سے ہمبستری کر لی تھی، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اسے بطورِ کفارہ ٹوکرا کھجوروں کا صدقہ کرنے کا حکم فرمایا، اس نے عرض
کی: کیا اپنے سے زیادہ کسی محتاج پر صدقہ کروں؟اللہ پاک کی قسم!مدینے کے دونوں
کناروں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں، اس پر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں،پھر فرمایا:اچھا
تم لوگ ہی کھا لو۔(صحیح
البخاری، جلد دوم، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، کتاب الآداب باب التبسم واضحک، حدیث 6087، صفحہ 426)
5۔حضرت
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے ایک دن کسی کام کے لئے بھیجا، میں نے کہا:اللہ پاک کی قسم! میں نہ جاؤں گا اور
میرے دل میں یہ تھا کہ جس کام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حکم دیا ہے، اس
کے لئے جاؤں گا، چنانچہ میں نکلا،یہاں تک
کہ کچھ بچوں پر گزرا،جو بازار میں کھیل رہے تھے،اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پیچھے سے میری گردن پکڑی (شفقت سے)، میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ مسکرا رہے تھے۔(مشکوۃ المصابیح، جلد دوم، باب فی اخلاقہ فی شمائلہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم، حدیث 5551، صفحہ 527، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ)
نبی کریم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتوں
میں ایک بہت پیاری سنت مسکرا کر دیکھنا ہے، حدیثِ پاک میں ہے:اپنے مسلمان بھائی کو
دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ ہے۔(ترمذی شریف، حدیث نمبر 1956)
1۔ جب کسی
کو مسکراتا دیکھیں تو یہ دعا پڑھئے: اضحک اللہ سنک(اللہ پاک تجھے مسکراتا رکھے)
جیسا کہ روایت میں ہے:ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سرکار صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے دربارِ
گوہر بارمیں حاضر ہونے کی اجازت مانگی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس (ازواجِ مطہرات میں سے) قریشی عورتیں بیٹھیں ہوئی تھیں، جو آپ
صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم سے محوِ
گفتگو تھیں، زیادہ بخشش کا مطالبہ کررہی تھیں اور ان کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں، جب حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو وہ جلدی سے اُٹھ کر پردے میں چلی گئیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی( جب یہ اندر داخل ہوئے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تبسم فرما رہے تھے، یہ عرض گزار ہوئے:اضحک
اللہ سنک یارسول اللہ ( کیا
بات ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر تعجب ہے، جو میرے پاس حاضر تھیں کہ انہوں نے جب تمہاری
آواز سنی تو وہ جلدی سے اُٹھ کر پردے میں چلی گئیں۔
2۔حضرت
ابو ذر غفاری رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں، جس کو سب
سے آخر میں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، وہ شخص بروزِ قیامت حاضر لایا جائےگا، ارشاد ہو گا: اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ اس پر پیش
کرو اور بڑے بڑے گناہ ظاہر نہ کرو، اس سے
کہا جائے گا : تو نے فلاں فلاں دن یہ کام کئے، وہ مقر ہوگا اور اپنے بڑے بڑے گناہوں سے ڈرتا ہو
گا کہ ارشاد ہو گا:اسے ہر گناہ کی جگہ ایک
نیکی دو، اب کہہ اٹھے گا :الٰہی! میرے اور بہت سے گناہ ہیں وہ تو سننے میں آئے ہی نہیں!یہ فرما کر حضورِ انور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اتنا ہنسے کہ آس پاس کے دندانِ مبارک ظاہر ہوئے۔(جامع حدیث ، جلد 4 ، فتاویٰ افریقہ، ص 143)
3۔ہمارے پیارے
نبی صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے کبھی
قہقہہ نہیں لگایا، بلکہ مسکرایا کرتے تھے،
چنانچہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :ایک بار رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف فرما تھے، دو بکریاں ایک دوسرے کو سینگیں مار رہی تھیں، ایک نے دوسری
کو ٹکر مار کر گرا دیا، یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرادئیے، پوچھا گیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! آپ کس وجہ سے مسکرائے؟ فرمایا: مجھے اس بکری پر تعجب ہوا،
اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! قیامت کے دن اس کا بدلہ ضرور لیا
جائے گا۔(مسند امام احمد،
جلد8، ص 120، ح 21567)
4۔حضرت امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے:رسول
اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے حضرت
حسان بن ثابت رضی اللہ
عنہ سے فرمایا: کیا
تم نے حضرت ابو بکر(رضی اللہ عنہ ) کی مدح میں کچھ کہا ہے؟ انہوں نے عرض کی، جی ہاں! ارشاد فرمایا:کہو میں سن رہا ہوں۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار پڑھے:
وہ بلند غار میں دو میں سے دوسرے تھے حالانکہ
دشمن ان کے ارد گرد پھرتے تھے
جب وہ پہاڑ پر چڑھے تھے وہ
رسول اللہ کے محبوب ہیں
لوگ جانتے ہیں کہ کوئی شخص ان کے برابر نہیں
راوی کہتے ہیں: اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس قدر ہنسے کہ آپ کی مبارک داڑھیں ظاہرہوگئیں اور ارشاد
فرمایا: حسان! تم نے سچ کہا! وہ ایسے ہی ہیں،
جیسے تم نے کہا۔(طبقات ابن سعد، ج
3، ص 129)
5۔حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں ( ہجرت کے
موقع پر قبا میں) نبی کریم
صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی خدمت
میں پہنچا، آپ کے سامنے روٹی اور کھجوریں
تھیں، نبی کریم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھ
سے فرمایا :قریب آؤ! کھاؤ، میں کھجوریں
کھانے لگا تو آپ نے ارشاد فرمایا: تم کھجوریں کھا رہے ہو،حالانکہ تمہاری آنکھ دُکھ
رہی ہے؟ میں نے عرض کی:میں دوسری طرف سے کھا رہا ہوں،یہ سن کر پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرا دیئے۔(ابن ماجہ، ج 4،ص 91 ، حدیث 3443)
جس کی تسکین سےروتے ہوئے ہنس پڑیں اس
تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام
حضور
پر نور صلی اللہ علیہ وسلم خوش مزاج ہنس مکھ اور اکثر تبسم فرمایا کرتے تھے۔
کئی واقعات ایسے ہیں جن میں سرکار صلی اللہ علیہ
وسلم کے اُن پرنور رخسار ہائے مبارکہ پر سُہانی مسکراہٹ بِکھری، جنہیں دیکھنے
کیلئے عاشقان رسول تڑپا کرتے ہیں۔
حصول برکت کیلئے چند واقعات حاضر خدمت ہیں:
1:حضرت
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کا چہرہِ انور خوشی سے جگمگا رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی مسرور
ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا چہرئہ مبارک یوں نور بار ہو جاتا تھا جیسے
وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے چہرہِ انور ہی سے آپ کی
خوشی کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔
(صحیح
البخاري، 3 / 1305، الرقم: 3363(ملخصا)
2:حضرت
عبداﷲ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : خیبر کے دن میں نے ایک چربی کا تھیلا
پایا تو میں اس سے لپٹ گیا، میں نے کہا کہ آج میں اس میں سے کسی کو کچھ نہ دوں گا
پھر میں نے ادھر ادھر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میری طرف (دیکھ کر)
مسکرا رہے تھے۔
(مشکوٰۃ
المصابیح، حدیث: 4000)
3:حضرت
صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے سامنے روٹی اور کھجور رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: قریب آؤ اور کھاؤ ، میں کھجوریں کھانے لگا تو نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: تم کھجور کھا رہے ہو
حالانکہ تمہیں آشوب چشم کی شکایت ہے ، میں نے عرض کیا: میں دوسری جانب سے چبا رہا
ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔(سنن ابن ماجہ، حدیث: 3443)
4:سیدنا
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے پاس آنے سے مجھے کبھی نہیں روکا اور آپ
نے جب بھی مجھے دیکھا تو مسکرا دیئے۔(مسند احمد، حدیث: 11657)
5:سیدنا
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ہنس پڑے، کسی نے آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے
رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)! کس چیز نے آپ کو ہنسا دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا: کچھ لوگوں کو اس حال میں جنت کی طرف لایا جا
رہا ہے کہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
(مسند
احمد، حدیث: 5112)
اللہ
تعالیٰ ہمیں حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ و الضحیٰ کی زیارت نصیب فرمائے۔
اٰمین
جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں
اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام