جس کے گچھے سے لچھے جھڑیں نور کے ان
ستاروں کی نزہت پہ لاکھوں سلام
آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے نورانی
سچے موتیوں کی لڑی جیسے دانت مبارک جن سے نور کی کرنیں چھن چھن کر باہر آتی اور گلیاں
بازار روشن ہو جاتے ہیں۔
الحدیث: اذا تکلم رئی کالنور یخرج من بین ثنایاہ (شرح
حدائق بخشش، ص 1030)
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے رُخسار نرم و نازک تھے اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا منہ فراخ، دانت
کشادہ اور روشن تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گفتگو فرماتے تو آپ کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک
نور نکلتاتھا اور جب کبھی اندھیرے میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرا دیتے تو دندان مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی۔ (سیرت مصطفٰی، ص
575)
بے شک آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب مسکراتے تو در ودیوار روشن ہو جاتے تھے، اس ضمن میں ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ سنتے ہیں:
1۔ نورانی
مسکرانا
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں سحری کے وقت کچھ سی رہی تھی کہ میرے ہاتھ سے سوئی گر گئی اور
چراغ بجھ گیا،اتنے میں حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے آئے، آپ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرۂ
اقدس کے نور سے سارا کمرہ جگمگا اٹھا اور سوئی مل گئی۔ ( فیضان عائشہ صدیقہ، ص483)
سوزنِ گم شدہ ملتی ہے تبسم سے تیرے شام
کو صبح بناتا ہے اجالا تیرا( ذوقِ نعت، ص 17)
آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مسکراتا چہرہ اتنا روشن تھا کہ کمرے میں اندھیرا ہو گیا
ہے اور آپ کی نورانیت سے وہ اندھیرا ایسا دور ہوتا ہے کہ باریک سوئی بھی اس کی
روشنی سے مل جاتی ہے۔ سبحان اللہ
2 ۔رحمت
ملنے پر مسکرانا
اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کی طرف سے نعمت و رحمت ملنے پر مسکراتے اور خوش ہوتے تھے، اس ضمن میں ایک واقعہ سماعت کرتے ہیں:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :نبی
کریم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم ہمارے
درمیان موجود تھے، ہم نے دیکھا آپ پر اُونگھ
طاری ہوتی ہے(یہ دراصل
وحی نازل ہونے کے لمحات تھے) جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے آنکھ کھولی تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے ہیں،ہم نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !کس چیز نے آپ کے چہرے پر ہنسی بکھیر دی ہے؟ آپ نے ارشاد
فرمایا:مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے (سورۂ کوثرکی تلاوت فرمائی) فرمایا: تم جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ عرض کی:اللہ پاک اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ وہ دریا ہے، جس کا میرے ربّ کریم نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے، اس میں بڑی خیر ہے، یہ وہ حوض ہے کہ قیامت کے دن میری اُمت کے لوگ اس سے پانی پینے
آئیں گے۔(صحیح مسلم، ص
103،ح 892)
(مدنی چینل کاسلسلہ:
شان ِمحمدی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ،قسط 15)
3۔اللہ
پاک کے دشمن کے ڈھیر ہونے پر فرحت و سرور سے ہنسے
حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میرے
والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوہ ٔ خندق کے دن ہنسے،حتٰی کہ آپ کے دندانِ مبارک ظاہر
ہوگئے،حضرت عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے پوچھا:کس بات پر ہنسے تھے؟ انہوں نے کہا:ایک کافر ڈھال لئے
ہوئے تھا اور حضرت سعد گو بڑے تیر انداز
تھے، لیکن وہ اپنی ڈھال کو ادھر
اُدھر کر لیتا تھا، جس کی وجہ سے اپنی
پیشانی کا بچاؤ کر رہا تھا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ تیر نکالا، جس وقت اس نے ڈھال سے سر اٹھایا، فوراً ایسا تیر مارا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور
فوراً گر گیا، ٹانگ بھی اوپر کو اُٹھ گئی، پس حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس قصّہ پر ہنسے، میں نے پوچھا: اس میں کونسی بات پر؟ انہوں نے
فرمایا:حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر۔(شرح شمائل ترمذی، ج 2، ص
92)
کائنما اللؤلؤ المکنون فی صدف من
سعدتی منطق منہ و مبتسم
ترجمہ:جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گفتگو فرماتے یا مسکراتے تو گویا آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دہن اور لب دوکانیں ہیں(جن میں دندان یوں پتیاں ہیں) جیسے سیپ میں اچھوتے موتی چھپے ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے نورانی
دندانِ مبارک کو سیپ میں چھپے موتی سے تشبیہ
دی جا رہی ہے،جس طرح موتی سیپ میں صاف ستھری نکھری نکھری ہوتی،اس طرح آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا کلام آپ کا مسکرانا صاف ستھرا اور ہر نقص سے پاک ہوتا۔
(شان مژدہ شرح قصیدہ بردہ شریف، ص86)
4 ۔تعجب
سے مسکرائے
حضرت ابو ذر رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے:نبی
کریم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا: میں اس شخص کو خوب جانتا ہوں جو
سب سے اوّل جنت میں داخل ہو گا اور اس سے واقف ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا
جائے گا، اس کے لئے حکم ہو گا ،اس کے
چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے اور کبائر کو خفی رکھا جائے گا۔ جب اس پرصغائر
پیش کئے جائیں گے تو وہ اقرار کرے گا اور انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی اور وہ
اپنے دل میں بہت خوفزدہ ہو گا، ابھی صغائر
کا ہی نمبر ہے، کبائر پر دیکھیں کیا گزرے
کہ اس دوران حکم ہو گا کہ اس شخص کو ہر ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی دے دی جائے تو وہ
شخص یہ حکم سنتے ہی خود بولے گا: میرے تو ابھی بہت گناہ باقی ہیں، جو یہاں نظر نہیں آتے، حضرت ابو ذر رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ مقولہ نقل
فرما کر ہنسے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دانت مبارک ظاہر ہو گئے۔(شرح شمائل ترمذی، ج 2، ص
77)ہنسی اس بات پر
تھی کہ جن گناہوں کے اظہار سے وہ ڈر رہا تھا، ان کے اظہار کا خود طالب بن گیا۔
لباں سرخ آکھاں کہ لعلِ یمن چٹے
دند موتی دیا ہن لڑ یاں
میرے محبوب کے لب لعلِ یمن کے مانند ہیں اور سفید دانت ایسے ہیں، جیسا کہ موتی کی لڑیاں ہوں۔(کلام پیر مہر علی)
5 ۔تالیف
قلب کے لئے مسکرانا
حضرت سماک بن حرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ
عنہ سے کہا: کیاآپ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی مجلس
میں شرکت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا :ہاں، بہت مرتبہ، آپ جس جگہ صبح کی نماز پڑھتے تھے، طلوعِ آفتاب
سے پہلے وہاں سے نہیں اٹھتے تھے، جب آفتاب
طلوع ہوتا تو آپ وہاں سے اٹھتے تھے، صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم باتوں میں مشغول ہوتے تھے اور زمانۂ جاہلیت کے کاموں کا
تذکرہ کرتے اور ہنستے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی مسکراتے تھے۔(شرح صحیح مسلم، کتاب الفضا ئل، ص 772)
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آخرت کی باتوں پر ہنستے تھے اور دنیاوی
پر صرف مسکرا دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اُمورِ آخرت کی وجہ سے ہمیشہ غمگین رہتے تھے اور لوگوں کے
ساتھ ظاہر طور پر بکثرت تبسم فرماتے کہ ان کی تالیفِ قلب ہوتی ہے۔ (ص773)
جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس
تبسم کی عادت پر لاکھوں سلام
صحابہ کرام رضی اللہ
عنہم فرماتے ہیں:حضور
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گفتگو فرما تے ہوئے مسکرا کر بات کرتے
اور آپ کے لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ کا نور برستا رہتا۔ (شرح حدائق بخشش، ص
1030)