مسکراہٹ ایک ایسا ہتھیار ہے  جس کے ذریعے دلوں کو فتح کیا جاسکتا ہے، ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑا جا سکتا ہے،غم زدوں کو سامانِ تسکین فراہم کیا جا سکتا ہے،غیروں کو اپنا بنایا جا سکتا ہے اور ہمارے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹ کی تو کیا بات ہے! آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس قدر مسکراتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک نام ہی متبسّم(تبسم فرمانے والا، مسکرانے والا) ہے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی میٹھی میٹھی مسکراہٹ کا ذکر کرتے ہوئے عاشقوں کے امام اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے پانچ واقعات ملاحظہ کیجئے:

1۔ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی کچھ اَزواج آپ سے خرچ کا تقاضا کرتے ہوئے بلند آواز سے گفتگو کر رہی تھیں، اتنے میں مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو ان کی آواز سن کر وہ جلدی سے پردے کے پیچھے چلی گئیں، اس پر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسنے لگے۔(صحیح البخاری، جلد دوم، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، کتاب الآداب باب التبسم واضحک، حدیث 6085، صفحہ 425)

یاد رہے!حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا اکثر مسکرانے کی حد تک ہی ہوتا تھا۔

2۔ایک مرتبہ ایک اَعرابی نے آپ کے پاس آ کر اس زور سے آپ کی چادر مبارک کھینچی کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے شانہ اقدس پر نشان پڑ گئے اور کہا:اللہ پاک کا جو مال آپ کے پاس ہے، اس میں سے مجھے دیئے جانے کا حکم فرمائیے، آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دیئے، پھر آپ نے اسے دیئے جانے کا حکم فرمایا۔(صحیح البخاری، جلد دوم، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، کتاب الآداب باب التبسم واضحک، حدیث 6088، صفحہ 426)

3۔ایک دفعہ مدینے میں قحط پڑ گیا، ایک شخص کے عرض کرنے پر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا فرمائی، آپ کی دعا کی برکت سے اس قدر بارش ہوئی کہ ایک جمعہ سے اگلے جمعہ تک لگاتار بارش ہوتی رہی، اگلے جمعہ کے دورانِ خطبہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کی:ہم ڈوب گئے، اپنے ربّ سے دعا کیجئے کہ بارش کو ہم سے روک دے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرا دیئے، پھر دعا فرمائی۔(صحیح البخاری، جلد دوم، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، کتاب الآداب باب التبسم واضحک، حدیث 6093، صفحہ 427)

4۔ایک شخص جس نے روزۂ رمضان کی حالت میں اپنی بیوی سے ہمبستری کر لی تھی، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اسے بطورِ کفارہ ٹوکرا کھجوروں کا صدقہ کرنے کا حکم فرمایا، اس نے عرض کی: کیا اپنے سے زیادہ کسی محتاج پر صدقہ کروں؟اللہ پاک کی قسم!مدینے کے دونوں کناروں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں، اس پر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں،پھر فرمایا:اچھا تم لوگ ہی کھا لو۔(صحیح البخاری، جلد دوم، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، کتاب الآداب باب التبسم واضحک، حدیث 6087، صفحہ 426)

5۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے ایک دن کسی کام کے لئے بھیجا، میں نے کہا:اللہ پاک کی قسم! میں نہ جاؤں گا اور میرے دل میں یہ تھا کہ جس کام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حکم دیا ہے، اس کے لئے جاؤں گا، چنانچہ میں نکلا،یہاں تک کہ کچھ بچوں پر گزرا،جو بازار میں کھیل رہے تھے،اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پیچھے سے میری گردن پکڑی (شفقت سے)، میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ مسکرا رہے تھے۔(مشکوۃ المصابیح، جلد دوم، باب فی اخلاقہ فی شمائلہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، حدیث 5551، صفحہ 527، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ)