حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: فرماتی ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کبھی بھی کھل کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا گوشت نظر آئے، بلکہ آپ مسکراتے تھے۔ (بخاری، کتاب لآداب، باب التبسم و الضحک، 125/2،الحدیث 4092)

حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ تبسم(مسکرا نے) والا نہیں دیکھا۔ (شمائل ترمذی، ہنسنے کا بیان، حدیث نمبر 216)

آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اکثر ہنسی تبسم (مسکرانا) ہوتی تھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دندانِ مبارک اولے کی طرح چمک دار سفید ظاہر ہوتے تھے۔(شمائل ترمذی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی گفتگو کیسی ہوتی، حدیث نمبر 213)

1۔عرش کے مالک سے کمی کا اندیشہ نہ کیجئے

ایک مرتبہ کسی ضرورت مند نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے پاس تو اس وقت کچھ موجود نہیں ہے، تم میرے نام سے خرید لو، جب کچھ آجائے گا تو میں ادا کردوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! آپ کے پاس جو کچھ تھا، آپ دے چکے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ مقولہ (کہنا)نا گوار گزرا تو ایک انصاری صحابی نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! جس قدر جی چاہے، خرچ کیجئے اور عرش کے مالک سے کمی کا اندیشہ نہ کیجئے، آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو انصاری کا یہ کہنا بہت پسند آیا اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تبسم فرمایا، جس کا اثرچہرۂ انور پر بھی ظاہر ہوتا تھا۔(شمائل ترمذی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اخلاق وعادات، حدیث نمبر 333)

2۔بسم اللہ اولہ و آخرہ پڑھنے کی برکت

ایک شخص بغیر بسم اللہ پڑھے کھانا کھا رہا تھا، جب کھانا کھا چکا اور صرف ایک لقمہ باقی رہ گیا تو اس نے یہ لقمہ اٹھایا اور کہا : بسم اللہ اولہ وآخرہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تبسم کیا اور فرمایا: شیطان اس کے ساتھ کھا رہا تھا، جب اس نے اللہ(پاک)کا نام ذکر کیا تو جو کچھ اس شیطان کے پیٹ میں تھا، اُگل دیا۔(بہار شریعت، ح 16، ص 364)

3۔ اتنا مسکرائے کے مبارک داڑھوں کو دیکھ لیا

حضرت مہیب بن سنان رضی اللہ عنہ کی آنکھ دکھ رہی تھی اور وہ کھجور کھا رہے تھے تو حسن اخلاق کے پیکر صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : تمہاری آنکھ دُکھ رہی ہے اور تم کھجور کھا رہے ہو؟ عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! میں دوسری طرف سے کھا رہا ہوں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ان کے جواب پر مسکرادیئے، راوی بیان کرتے ہیں:اتنا مسکرائے کہ میں نے آپ کی مبارک داڑھوں کو دیکھ لیا۔(احیاء العلوم، ج 3)

4۔ نماز میں مسکراتے چہرے مبارک کا دیدار

حضرت انس رضی اللہ عنہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بیماری کے دنوں کا واقعہ بیان کرتے ہوئے) فرماتے ہیں:پیر کے روز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرۂ مبارکہ کا پردہ اٹھایا اور صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کو صفوں کےاندر نماز میں دیکھ کر مسکرادیئے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ گمان کرتے ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نماز کے لئے تشریف لانا چاہتے ہیں، صف میں پیچھے کی طرف آنے لگے اور خوشی کے مارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہمکی نظریں نماز ہی میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرۂ مبارک کی طرف لگ گئیں اور قریب تھا کہ سب حضرات نماز توڑ دیتے، مگر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : نماز مکمل کرو، پھر مکانِ عالی شان میں تشریف لے گئے اور پردہ ڈال دیا۔(فیضان نماز، ص336 بخاری، ج1، ص404، ح 1205)

5۔اللہ پاک کی بندہ نوازی اور شانِ کریمی پر مسکراہٹ

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں یقیناً جانتا ہوں، سب کے بعد جنت میں کون داخل ہو گا اور سب سے آخر میں جہنم سے کون نکلے گا! ایک شخص ایسا ہو گا جسے قیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا، اللہ پاک فرشتوں سے فرمائے گا:اس شخص کے صغیرہ گناہ اس پر پیش کئے جائیں اور اس سے کہا جائے گا: تو نے فلاں دن فلاں فلاں کام کیا تھا؟ وہ شخص اقرار کرے گا اور کہے گا: میں اپنے اندر ان کاموں سے انکار کی سکت نہیں پاتا اور وہ ابھی اپنے کبیرہ گناہوں سے ڈر رہا ہو گا کہ ان کا حساب نہ شروع ہو جائے، اس شخص سے کہا جائے گا :جا تجھے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی دی جا تی ہے، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:یہ بیان فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خوشی ہوئی اور چہرۂ اقدس پر سُرور سے تبسم کے آثار نمایاں ہوئے۔(مسلم کتاب الایمان، باب ادنی اہل الجنۃ منزلہ فیھا، ص 119، ح 190)آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کبھی قہقہہ نہیں لگایا، لہٰذا ہمیں بھی کوشش کرنی چاہئے کہ یہ سنت بھی زندہ ہو اور ہم زور زور سے نہ ہنسیں۔فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:قہقہہ شیطان کی طرف سے اور مسکرانا اللہ پاک کی طرف سے ہے۔(المعجم الصغیر، للطبرانی، ج 2، ص104)