حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں :میں نےنبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پورا ہنستے نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کے انتہائی تالو کو دیکھ لیتی، آپ مسکرایا کرتے تھے۔(بخاری شریف، مراۃ المناجیح)

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنستے کبھی نہ تھے، مسکراتے بہت تھے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سے مسلمان ہوا، مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا اور مجھے نہ دیکھا، مگر تبسم فرمایا یعنی جس موقع پر اجازت لے کر حاضر ہونا ہوتا، مجھے بغیر اجازت حاصل کئے حاضری کی اجازت تھی اور آپ مجھے دیکھا کرتے تو تبسم فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ دیکھنااظہارِ خوشی یا اظہارِ کرم کے لئے ہوتا تھا۔

حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔(شمائل ترمذی:218)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں،جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا اور اس شخص کو بھی جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک شخص کو دربارِ الٰہی میں پیش کیا جائے گا کہ اس کے چھوٹے گناہ اس کے سامنے رکھ دو اور اس کے بڑے گناہ اس سے مخفی رکھو۔ پھر کہا جائے گا: فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟ وہ اقرار کرے گا،انکار نہ کر سکے گا اور اپنے بڑے گناہوں پر خوفزدہ ہو گا! پس کہا جائے گا :اسے ہر گناہ کے بدلے میں ایک نیکی دی جائے تو وہ بول اٹھے گا: میرے تو اور بھی بہت گناہ ہیں، جو میں نے یہاں نہیں دیکھے، جناب ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پس قسم ہے میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنسے، یہاں تک کہ اگلے دانت نظر آئے۔(شمائل ترمذی، حدیث 221)یعنی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا، آپ کا مسکرانا تعجب کی وجہ سے تھا، جب اس شخص نے صغائر کو نیکیوں میں تبدیل ہوتے دیکھا تو اس کے اندر نیکیوں کی حرص و طمع پیدا ہوئی تو بول اٹھا: میرے بڑے گناہوں کی وجہ سے بھی مجھے نیکیاں دی جائیں۔

تبسم میں ہزار حکمتیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہر ادا میں ربّ کریم کی حکمتیں ہوتی ہیں۔


میرے پیارے پیارے  آقا، سید الانبیاء، خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہمارے لئے کامل نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ کے نبی بھی تھے اور بشریت کے تقاضوں کے باعث خوشی اور غمی ہر طرح کے جذبات سے مزین بھی تھے۔ کیونکہ غم پر غمگین ہونا اور خوشی پر مسرور ہونا ، انسانی فطرت کا خاصہ ہے ، لہٰذا بار ہاایسے مواقع آئے جب میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے اور اسی بنا پر مسکرانا میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتِ مبارکہ قرار پائی۔توجہ رہے !مسکرانا سنت ہے ، قہقہہ سنت نہیں ۔

حدیثِ مبارکہ ہے:اَلْقَہْقَہَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ وَالتَّبَسُّمُ مِنَ اللہ یعنی قہقہہ شیطان کی طرف سے ہے اور مُسکرانا اللہ پاك کی طرف سے ہے۔(جامع صغیر، حرف القاف ، ص386، حدیث: 6196 )صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے:میں نے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کبھی کھلکھلا کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ جس سے آپ کے حلق کا حصہ نظر آجائے ۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرایا کرتے تھے۔

آج ہم آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے متبسّم ہونے سے متعلق واقعات سے مشرف ہوں گی۔قربان جائیں! اپنے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی مسکراہٹ اور ان کی غیرت پر یوں ہی ایک مرتبہ غزوۂ خندق کے موقع پر اتنا مسکرائے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک داڑھیں دکھائی دینے لگیں۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک کافر کے پاس ڈھال تھی ۔جبکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بہت زبردست تیر انداز تھے۔کافر بار بار ڈھال سے اپنی پیشانی کو بچا لیتا تھا مگر جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنا تیر اس کافر پر یوں داغا کہ جیسے ہی کافر نے ڈھال سے اپنا سر اوپر کیا ،ویسے ہی تیر اس کی پیشانی پر لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔یہ منظر دیکھ کر کر نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اتنا مسکرائے کہ داڑھیں مبارک دکھائی دینے لگیں۔( شمائل ترمذی)

غزوۂ بدر میں حضور علیہ الصلاۃ و السلام اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک سائبان میں قیام فرمایا ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رات کو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اونگھ آگئی ۔جب آنکھ مبارک کھلی تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے:سَیُہۡزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ ﴿۴۵ (سورة القمر، تفسير ابن كثير)یہ تو کفار کی شکست پر مسکرانا تھا۔ ایک بار پھر کچھ یوں ہوا کہ حضور علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمانِ عالیشان ہے:میں نماز پڑھ رہا تھا اور جبرائیل علیہ السلام میرے پاس سے گزرے، وہ میری طرف دیکھ کر ہنسے تو میں بھی ان کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔(راوی عبداللہ بن ریاب،اسد الغابہ ابن اثیر)

سبحن اللہ! میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذاتِ پاک ایسی تھی کہ فرشتوں کے سردار بھی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی فرماتے تھے ۔یوں ہی ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور فرمایا: ہرگز ایک عسر (مشکل) دو یسروں ( آسانیوں) پر غالب نہیں آسکتی، کیونکہ ارشاد ِباری ہے:فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۙ﴿۵﴾اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ؕ﴿۶ (سورهٔ انشرح تفسیر ابن جریر طبری)


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں :میں نےنبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پورا ہنستے نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کے انتہائی تالو کو دیکھ لیتی، آپ مسکرایا کرتے تھے۔(بخاری شریف، مراۃ المناجیح)

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے بہت تھے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سے مسلمان ہوا، مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا اور مجھے نہ دیکھا، مگر تبسم فرمایا یعنی جس موقع پر اجازت لے کر حاضر ہونا ہوتا، مجھے بغیر اجازت حاصل کئے حاضری کی اجازت تھی اور آپ مجھے دیکھا کرتے تو تبسم فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ دیکھنااظہارِ خوشی یا اظہارِ کرم کے لئے ہوتا تھا۔

حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔(شمائل ترمذی:218)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں،جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا اور اس شخص کو بھی جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک شخص کو دربارِ الٰہی میں پیش کیا جائے گا کہ اس کے چھوٹے گناہ اس کے سامنے رکھ دو اور اس کے بڑے گناہ اس سے مخفی رکھو۔ پھر کہا جائے گا: فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟ وہ اقرار کرے گا،انکار نہ کر سکے گا اور اپنے بڑے گناہوں پر خوفزدہ ہو گا! پس کہا جائے گا :اسے ہر گناہ کے بدلے میں ایک نیکی دی جائے تو وہ بول اٹھے گا: میرے تو اور بھی بہت گناہ ہیں، جو میں نے یہاں نہیں دیکھے، جناب ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پس قسم ہے میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنسے، یہاں تک کہ اگلے دانت نظر آئے۔(شمائل ترمذی، حدیث 221)یعنی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا، آپ کا مسکرانا تعجب کی وجہ سے تھا، جب اس شخص نے صغائر کو نیکیوں میں تبدیل ہوتے دیکھا تو اس کے اندر نیکیوں کی حرص و طمع پیدا ہوئی تو بول اٹھا: میرے بڑے گناہوں کی وجہ سے بھی مجھے نیکیاں دی جائیں۔تبسم میں ہزار حکمتیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہر ادا میں ربّ کریم کی حکمتیں ہوتی ہیں۔


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محفل اگرچہ سنجیدگی سے بھرپور ہوتی تھی اور اپنے علم کا سمندر لئے ہوتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی خوشی طبعی کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مقبول تھے اور ایک بے تکلف دوست کی طرح ان کے ساتھ تعلقات رکھے ہوئے تھے، اسی مناسبت سے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے5 واقعات ملاحظہ کیجئے:

1۔ ترمذی کی روایت ہے:حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہوئی اور عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! میرے لئےدعاکیجئےکہ اللہ پاک مجھے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے! حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا: بوڑھی عورتیں جنت میں داخل نہ ہوں گی! تو اس بوڑھی عورت نے حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بات سنی تو روتی ہوئی چل دی، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اس بوڑھی عورت کو خبر دو کہ جنت میں بوڑھی ہو کر نہیں جائے گی،بلکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے:اِنَّاۤ اَنۡشَاۡنٰہُنَّ اِنۡشَآءً﴿ۙ۳۵﴾فَجَعَلْنٰہُنَّ اَبْکَارًا﴿ۙ۳۶۔ ترجمہ:ہم نے ان عورتوں کو خاص بنایا ہے،ہم نے ان کو ایسا بنایا،جیسی کنواریاں۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص80)

2۔9 ہجری میں جب غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اپیل کی کہ وہ حسبِ توفیق جنگ میں شمولیت کے لئے مال ومتاع پیش کریں،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تیں سو اونٹ،سو گھوڑے اور سو اوقیہ چاندی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کئے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا آدھا سامان لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے،حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے چالیس ہزار درہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کئے اور جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی باری آئی تو آپ نے اپنے گھر کا تمام سامان پیش کر دیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکراتے ہوئے پوچھا : ابوبکر! گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول ہی کافی ہے۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص 68)

3: حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یمن بھیجا تو آپ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نہایت مشکل مقدمہ آیا، جس میں ایک ایسی عورت پیش ہوئی،جس نے ایک ماہ کے اندر تین مردوں کے ساتھ خلوت کی تھی اور اب اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بچے کی دیت کے تین حصے کئے اور پھر قرعہ ڈالا، وہ قرعہ جس شخص کے نام نکلا، آپ رضی اللہ عنہ نے وہ بچہ اس شخص کے حوالے کر دیا،جبکہ باقی دونوں اشخاص کو دیت کےتین حصّوں کے دو حصّے کر کے دے دیئے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرادیئے۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص 77)

4:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس ایک دیہاتی صحابی حضرت زاہر رضی اللہ عنہ جب بھی آتے تو ہدیہ لے کر آتے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی واپسی پر ان کو کچھ نہ کچھ عنایت ضرور کرتے تھے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرمایا کرتے تھے:زاہر رضی اللہ عنہ ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم انہیں بے حد عزیز رکھتے تھے۔حضرت زاہر رضی اللہ عنہ بظاہر خوبصورت نہ تھے۔ایک دن وہ بازار میں اپنا کچھ سامان فروخت کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پیچھے سے جا کرانھیں گود میں اُٹھا لیا،وہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نہ دیکھ سکے اور کہنے لگے:کون ہے؟مجھے چھوڑو! پھر جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سینۂ مبارک سے چمٹ گئے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اعلان کرنا شروع کیا کہ کون ہے جو اس غلام کوخریدے گا؟ حضرت زاہر رضی اللہ عنہ نے عرض کی :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !آپ کو میرے بدلے کچھ نہیں ملے گا! حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکرا کر فرمایا:اللہ پاک کے نزدیک تیری بڑی قیمت ہے۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص85)

5۔حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک چھوٹے سے قبے میں موجود تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اندر آ جاؤ، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !سارا ہی اندر آ جاؤں؟آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا: تم سارے ہی اندر آ جاؤ، پس میں اندر چلا گیا۔

حضرت ولید بن عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے اس لئے کہا تھا کہ میں سارا ہی اندر آ جاؤں، کیونکہ قبہ چھوٹا تھا۔(حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص 91)


رسالہ  عشقِ رسول مع اُمّتی پر حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، ، مصنف مفتی محمد قاسم،ص29 پر ہے:حضور علیہ السلام تبسم کے وقت اولوں کی طرح دکھائی دیتے اور ان سے نکلنے والے نور سے دیواریں روشن ہوجاتیں اور تبسم فرماتے تو دل کی کلیاں کھل اُٹھتیں، روتے ہوئے ہنس پڑتے اور تسکینِ قلب کا سامان کرتے۔

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام(حدائق بخشش)

کتاب شمائلِ ترمذی، ،باب ما جاء فی ضحک رسول اللہ،ص نمبر 241۔240 پر حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میرے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوۂ خندق کے دن ہنسے، حتی کہ آپ کے دندانِ مبارک ظاہر ہو گئے، عمر کہتے ہیں:میں نے پوچھا:کس بات پر ہنسے تھے؟انہوں نے کہا : ایک کافر ڈھال لئے ہوئے تھا اور سعد بڑے تیر انداز تھے،لیکن وہ اپنی ڈھال کو اِدھر اُدھر کر لیتا تھا، جس کی وجہ سے اپنی پیشانی کا بچاؤ کر رہا تھا(گویا مقابلہ میں سعد کاتیر لگنے نہ دیتا تھا، حالانکہ یہ مشہور تیر انداز تھے)، سعد نے ایک مرتبہ تیر نکالا (اور اس کو کمان میں کھینچ کر انتظار میں رہے)جس وقت اس نے ڈھال سے سر اُٹھایا، فوراً ایسا لگایا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور فوراً گرگیا، ٹانگ بھی اُوپر کو اُٹھ گئی، پس حضور اقدس علیہ السلام اس قصے پرہنسے، میں نے پوچھا: کون سی بات پر؟انہوں نے فرمایا: سعد کے اس فعل پر۔

اے کاش!ہم عاشقوں کے خواب میں آ کر ہی پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرا کر اِک نظرِ کرم فرما دیں تو ہماری عید ہو جائے گی۔نبی کریم علیہ السلام کی سنتوں میں سے ایک بہت ہی پیاری سنت مسکرا کر دیکھنا بھی ہے۔

شرح مشکوۃ، ترجمہ اشعۃ اللمعات، جلد 7، ناشر فرید بک سٹال، صفحہ نمبر 185 پر ہے :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: میں نے نبی کریم علیہ السلام کو کبھی کھل کر پورا ہنستے ہوئے نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کی داڑھیں دیکھ لیتی،آپ تبسم ہی فرمایا کرتے تھے۔(البخاری)


تبسم،  ضحک اور قہقہہ میں فرق

اہلِ لغت کہتے ہیں:تبسم ضحک کی مبادیات میں سے ہے، چہرے کی خوشی سے اگر دانت نظر آئیں اور دُور تک آواز جائے تو قہقہہ ہے، ورنہ ہنسی ہے اور اگر آواز نہ آئے تو پھر یہ تبسم(مسکراہٹ) ہے۔

آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب مسکراتے، خوش ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا چہرۂ انور روشن نظر آنے لگتا۔

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہوئے تو آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوے سے واپس تشریف لائے، منافقوں نے عدمِ شرکت کے بہانے بنائے، لیکن تین صحابہ کرام علیہم الرضوان نے جن میں حضرت کعب بھی شامل تھے، اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا، پچاس راتوں کے مسلسل کرب کے بعد ان کی توبہ کی مقبولیت پر مشتمل آیات نازل ہوئیں، حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو خوشخبری ملی، فوراً حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر خوشی سے مسکرائے، حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور روشن ہو جاتا، گویا کہ آپ کا چہرہ چاند کا ٹکڑا ہے۔

دینِ اسلام ہر معاملے میں اعتدال کی تعلیم دیتا ہے، ہنسی مزاح میں بھی اعتدال ضروری ہے، ہر وقت ہنستے رہنا دل کو مردہ کر دیتا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اِیَّاکَ وَالضَّحَکَ فَاِنَّ کَثْرَۃَ الضَّحَکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ ہنسی سے بچو، کیونکہ ہنسی کی کثرت دل کو مردہ کر دیتی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:میں نے کبھی بھی رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اس قدر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا کوّا نظر آتا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم صرف مسکرایا کرتے تھے۔

حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ کھانے کی دعوت پر روانہ ہوا، رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں سے آگے تھے، آپ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو لڑکوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا، رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان کو پکڑنے کا ارادہ فرمایا۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ادھر سے ادھر چلے گئے، حضرت یعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس سے ہنسی مزاح فرمانے لگے، یہاں تک کہ انہیں پکڑ لیا، پھر اپنا ایک ہاتھ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی گُدی کے نیچے اور دوسرا ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھ کر ان کا منہ چوم لیا اور فرمایا:حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ پاک حسین سے محبت کرنے والے سے محبت کرے، حسین نواسوں میں عظیم نواسہ ہے۔

حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔

آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایااَلْقَہْقِہَۃُ مِنَ الشَّیْطٰنْ، وَالتَبَسَّمُ مِنَ اللہِ قہقہہ شیطان کی طرف سے ہے اور تبسم اللہ پاک کی طرف سے ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا، آپ موٹے کنارے والی عبرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے، اچانک ایک بدّو آیا اور اس نے آپ کی چادر زور سے کھینچی، میں نے دیکھا: اس کی وجہ سے آپ کی گردن پر نشان پڑ گیا، پھر کہنے لگا:اے محمد!آپ کے پاس جو اللہ پاک کا عطا کردہ مال ہے اس میں مجھے کچھ دینے کا حکم دیں! حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے،آپ ہنسے اور آپ نے اس کو دینے کا حکم فرمایا۔حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم قہقہہ لگا کر نہیں ہنستے تھے، صرف مسکراتے تھے۔

بعض احادیث میں آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا بھی مروی ہے اور ہنستے وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی داڑھیں ظاہر ہونے کا ذکر ہے۔

باغِ جنت میں محمد مسکراتے جائیں گے پھول رحمت کے جھڑیں گے ہم اٹھاتے جائیں گے


اللہ پاک کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے چند واقعات درج ذیل ہیں:

1۔حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ایک دن آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرے پر مسرّت و بشاشت ( خوشی) کے آثار تھے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! آج تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرے پر چمک دمک اور خوشی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں؟ تو ارشاد فرمایا : ہاں! ( آج میں کیونکر خوش نہ ہوں گا کہ) میرے ربّ کریم کی طرف سے ایک آنے والا میرے پاس آیا ، اس نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! آپ کا جو امتی آپ پر ایک بار درود بھیجے، اس کے عوض اللہ پاک اس کے لئے دس نیکیاں لکھتا ہے، اس کے دس گناہ معاف فرماتا ہے، اس کے دس درجات بلند فرماتا ہےاور اسی درود پاک کی مثل کو اس شخص پر لوٹاتا ہے (یعنی اللہ پاک خود بھی اس بندے پر درود بھیجتاہے)۔(مسند امام احمد بن حنبل، مسند المدنیین، حدیث ابی طلحہ زید بن سھل... الخ 625/6، الحدیث 16895)

2:امیر المومنین حضرت عثمان ِغنی رضی اللہ عنہ نے ایک بار پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر آپ مسکرانے لگے اور ساتھیوں سے فرمایا:کیا تم مجھ سے اس چیز کے بارے میں پوچھو گے نہیں کہ جس نے مجھے مسکرایا؟ انہوں نے عرض کی : اےامیر المؤمنین! آپ کسی چیز کی وجہ سے مسکرائے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ایک بار حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس جگہ کے قریب ہی وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرائے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا :تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ کس چیز نے مجھے مسکرایا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہمنے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! کس چیز نے آپ کو مسکرایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: بندہ جب وضو کا پانی منگوائے، پھر اپنا چہرہ دھوئے تو اللہ پاک اس کے چہرے کے گناہ کو مٹا دیتا ہے، پھر اپنی کہنیاں دھوئے تو کہنیوں کے،سرکامسح کرے تو سر کے اور قدموں کو دھوئے تو قدموں کے گناہ مٹا دیتا ہے۔(تو میں نے بھی انہی کی ادا کو ادا کیا ہے)

(مسند امام احمد ، مسند عثمان بن عفان، 13/1،الحدیث415)

3:حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:فرماتی ہیں: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میں اپنی گڑیاں گھر کے ایک دریچہ میں رکھ کر اس پر پردہ ڈالے رکھتی تھی، سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی تھے، انھوں نے دریچے کے پردےکو اٹھایا اور گڑیاں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دکھائیں،حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ سب کیا ہے؟ میں نے عرض کی :میری بیٹیاں (میری گڑیاں) ہیں،ان گڑیوں میں ایک گھوڑا ملا حظہ فرمایا، جس کے دو بازو تھے، فرمایا : کیا گھوڑوں کے بھی بازو ہوتے ہیں؟ میں نے عرض کی: کیا آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلمان علیہ السلام کے گھوڑے تھے اور ان کے بازو تھے، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس پراتنا تبسم فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی داڑھیں ظاہر ہو گئیں۔(مدارج النبوت، قسم 5،باب2،درذکرازواج ِمطہرات ، ج 2،ص471)

4:حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے، جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، ایک دم ایک بدوی نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پکڑلیا اور اتنے زبردست جھٹکے سے چادر مبارک کو کھینچا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نرم و نازک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آگئی، پھر اس بدوی نے کہا :اللہ پاک کا جو مال آپ کے پاس ہے، آپ کے حکم دیجئے کہ اس میں سے کچھ مل جائے۔حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب اس بدوی کی طرف توجہ فرمائی تو کمال حلم و عفو سے اس کی طرف دیکھ کر ہنس پڑے اور پھر اس کو کچھ مال عطا فرمانے کا حکم صادر فرمایا۔(صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب ما کان النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم.. الخ الحدیث :3149، ج 2،ص 359)

5: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا چہرہ قرآن کے ورق کی طرح صاف تھا، ہم نے کوئی منظر ایسا نہ دیکھا، جو ہمیں اس رخِ انور کے اس منظر سے زیادہ خوشگوار ہو، جب چہرہ ٔمبارک ہم پر نمودار ہوا۔(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب اھل العلم والفضل الحق بالامامۃ، الحدیث 681،ج1،ص 243)


حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے بہت تھے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے زیادہ تبسم فرماتے رہتے، جب تک قرآن نازل نہ ہو رہا ہوتا یا قیامت کا تذکرہ نہ ہوتا یا خطبہ وعظ نہ ہوتا۔

جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پر لاکھوں سلام

آئیے! اب پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے پانچ واقعات ملاحظہ فرمائیے:

1۔حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب سے میں مسلمان ہوا، مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا، مجھے نہ دیکھا مگر تبسم فرمایا۔(مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 281، حدیث 4536)

2۔حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نہ اُٹھتے تھے اپنے مصلے سے، جس میں نماز فجر پڑھتے،حتی کہ سورج طلوع ہو جاتا،پھر جب سورج طلوع ہو جاتا تو اُٹھتے اور لوگ باتیں کرتے تھے تو جاہلیت کے زمانہ کے کاموں کے ذکر میں مشغول ہو جاتے تو ہنستے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تھے۔(مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 282، حدیث 4537)

3۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک روز میں رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سخت حاشیہ والی نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے، ایک بدّو آپ کے پاس آیا، اس نے آپ کی چادر کے ساتھ آپ کو ایسا سخت کھینچا کہ چادر پھٹ گئی، آپ کی گردن مبارک کو جو میں نے دیکھا کہ اس میں چادر کے حاشیہ نے اثر کیا ہوا تھا، پھر اس بدّو نے کہا: اے محمد!آپ کے پاس جو خدا کا مال ہے، اس میں میرے واسطے حکم کیجئے۔ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کی طرف دیکھا، پھر ہنس کے اس کے لئے بخشش کا حکم دیا۔(سیرت رسول عربی، صفحہ 236)

4۔ ایک دفعہ ایک سائل آپ کی خدمت شریف میں آیا، آپ نے فرمایا:میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے، مگر یہ کہ تو مجھ پر قرض لے، جب ہمارے پاس کچھ آ جائے گا، ہم اسے ادا کردیں گے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! خدا نے آپ کو اس چیز کی تکلیف نہیں دی، جو آپ کی قدرت میں نہیں، آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات نا پسند آئی، انصار میں سے ایک شخص بولا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!عطا کیجئے اور عرش کے مالک سے ثقلیل کا خوف نہ کیجئے،یہ سن کر آپ نے تبسم فرمایا۔

(سیرت رسول عربی، صفحہ 263)

5۔ایک دن ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرۂ انور کا رنگ متغیر تھا، صحابہ کرام علیہم الرضوان اسے خلافِ عادت سمجھتے تھے، پس اعرابی نے کچھ پوچھنا چاہا تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اسے منع کردیا اور فرمایا:ہم آپ کا رنگ بدلا ہوا دیکھتے ہیں، اعرابی نے کہا: مجھے پوچھنے دو، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے، میں آپ کو ہنسائے بغیر نہ چھوڑوں گا، چنانچہ اس نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمیں خبر ملی ہے کہ مسیح دجّال لوگوں کے لئے ثرید یعنی شوربے میں ملی ہوئی روٹی لائے گا اور لوگ اس وقت وقت بھوک سے مر رہے ہوں گے! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر قربان ہوں، آپ مجھے کیا فرماتے ہیں کہ میں اس ثرید کے کھانے سے رُکا رہوں اور اس سے بچتے ہوئے کمزور ہو کر مر جاؤں یا میں اس ثرید سے کھاؤں، یہاں تک کہ خوب سیر ہو جاؤں تو اللہ پاک پر ایمان لاؤں اور دجال کا انکار کر دوں، صحابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے ہیں:یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی داڑھیں مبارک ظاہر ہو گئیں، پھر آپ نے فرمایا:نہیں، بلکہ اللہ پاک جس کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بے نیاز کرے گا، تجھے بھی مستغنی کردے گا۔(صحیح بخاری، باب ذکر الدجال، حدیث 7122، صفحہ 594)


یوں تو ہر بندہ مسکراتے ہوئے اچھا لگتا ہے، مگر جہاں ذکر آجائے اپنے متبسم(مسکرانے والے) آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا تو مسکرانے کو بھی وجد آ جاتا ہے، ہاں یہ تو عشق والوں کی باتیں ہیں کہ جب وہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تصور میں ڈوبتے ہیں تو وہاں انہیں جانِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مسکرانا ضرور یاد آتا ہے، اللہ اکبر! اس کی منظر کشی تو ممکن ہی نہیں، مگر ذرا سوچیں کہ اللہ پاک نے جب اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نہایت حسین و جمیل بنایا تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹ کو کتنا خوبصورت بنایا ہوگا! یہ تو کوئی حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھے کہ جب جانِ جاناں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تھے، تو کیسے لگتے تھے؟

حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عادتِ کریمہ تھی کہ آپ مسکرایا کرتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے تمام واقعات کا احاطہ(گھیرنا) تو ناممکن ہے، ہاں ! قلوبِ عشاق(عاشقوں کے دلوں) کی راحت کے لئے چند واقعات ذکر کئے جاتے ہیں:

1۔حضور جانِ جاناں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب مکے سے مدینے ہجرت فرمائی تو مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا محبت بھرا استقبال کیا گیا، اس استقبال میں بنو نجار کی بچیاں بھی تھیں، کہتی تھیں: واہ !کیا ہی خوب ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمارے پڑوسی ہوگئے، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان سے پوچھا: اے بچیو! کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟ تو بچیوں نے ایک زبان ہو کر کہا:جی ہاں! جی ہاں! یہ سن کر حضور جانِ جاناں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خوش ہو کر مسکراتے ہوئے فرمایا:میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں۔(سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، صفحہ 177)

ماشاء اللہ!قربان جاواں اپنے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس مسکرانے پر! کاش! ہم بھی وہاں ہوتیں اور دیکھ لیتیں یا کاش! میری روح نے ہی یہ منظر دیکھا ہوتا۔

2۔جنگِ اُحد کے دوران حضرت بی بی عمارہ رضی اللہ عنہا نے کافر کی ٹانگ پر تلوار کا بھرپور ہاتھ مارا، جس سے وہ گر پڑا اور پھر چل نہ سکا، بلکہ سُرین کے بَل گھسٹتا ہوا بھاگا، یہ منظر دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا: اے اُمّ عمارہ!تو خدا کا شکر ادا کرکہ اس نے تجھ کو اتنی طاقت اور ہمت عطا فرمائی کہ تو نے خدا کی راہ میں جہاد کیا۔(سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، صفحہ 280)

3۔ حضرت امیہ بن مخشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں:ایک شخص کھاتا تھا، تو اُس نے بسم اللہ نہ پڑھی، یہاں تک کہ نہ باقی رہا اس کے کھانے سے، مگر ایک لقمہ، پھر جب اسے اپنے منہ کی طرف اٹھایا تو اس کے شروع وآخر بسم اللہ کہا،حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنس پڑے،پھر فرمایا:شیطان اس کے ساتھ کھاتا رہا،پھر جب اس نے اللہ پاک کا نام لیا تو جو کچھ اس کے پیٹ میں تھا،سب قے کردیا۔ (مراۃالمناجیح، جلد 6، صفحہ 34)

صحابہ کرام علیہم الرضوان کتنے چُنے ہوئے لوگ تھے، جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیاری پیاری اداؤں کو دیکھا، اس وقت پر فدا! جس میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے، اس جگہ پر قربان! جہاں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے 5 واقعات

مسکرانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بہت ہی پیاری سنتِ مبارکہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے متعدد واقعات مروی ہیں۔ ان میں سے پانچ ملاحظہ فرمائیں۔

١۔ اسلام کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے ایک بار ایک مقام پر پہنچ کر پانی منگوایا اور وضو کیا پھر یکایک مسکرانے اور رفقاء سے فرمانے لگے:جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟پھر اس سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا:ایک بار سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اسی جگہ پر وضو فرمایا تھا اور بعد فراغت مسکرائے تھے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے فرمایا تھا:جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:واللہ و رسولہ اعلم یعنی اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ارشاد فرمایا:جب آدمی وضو کرتا ہے تو ہاتھ دھونے سے ہاتھوں کے اور چہرہ دھونے سے چہرے کے اور سر کا مسح کرنے سے سر کے اور پاؤں دھونے سے پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔( ملخصا مسند امام احمد، ج ١، ص ١٣٠، رقم الحدیث ۴١۵، دار الفکر بیروت نماز کے احکام ص ١)

وضو کرکے خنداں ہوئے شاہِ عثماں کہا، کیوں تبسم بھلا کر رہا ہوں؟

جوابِ سوالِ مخالف دیا پھر کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں

٢۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں اپنی گڑیاں گھر کے ایک دریچے میں رکھ کر اس پر پردہ ڈالے رکھتی تھی۔ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ انہوں نے دریچہ کے پردے کو اٹھایا اور گڑیاں حضورصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دکھائیں۔ حضورصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:یہ سب کیا ہیں؟میں نے عرض کی: میری بیٹیاں ( یعنی گڑیاں) ہیں۔ان گڑیوں میں ایک گھوڑا ملاحظہ فرمایا جس کے دو بازو تھے۔ استفسار فرمایا: کیا گھوڑوں کے بھی بازو ہوتے ہیں؟میں نے عرض کی:کیا آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے تھے اور ان کے بازو تھے۔حضور اکرمصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس پر اتنا تبسم فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک داڑھیں ظاہر ہوگئیں۔( فیضان عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، ص ٢٦١_٢٦٢)

جس تبسم نے گلستاں پہ گرائی بجلی پھر دکھادے وہ ادائے گل خنداں ہم کو

٣۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم موٹے اور کھردرے کناروں والی نجرانی چادر اوڑھے کہیں تشریف لے جارہے تھے۔ میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ اچانک ایک اعرابی (دیہاتی) نے چادر مبارک کو پکڑ کر جھٹکے سے کھینچا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک گردن پر خراش آگئی اور کہنے لگا:اللہ پاک کا جو مال آپ کے پاس ہے اس میں سے مجھے بھی کچھ دینے کا حکم دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوکر مسکرادئیے اور اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔( صحیح بخاری، ج ٢، ص ٣۵٩، حدیث ٣١۴٩)

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

۴۔ حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ کی آنکھ دکھ رہی تھی اور وہ کھجور کھارہے تھے۔ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری آنکھ دکھ رہی ہے اور تم کھجور کھارہے ہو؟عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! میں دوسری طرف سے کھارہا ہوں۔یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ان کے جواب پر مسکرادئیے۔( سنن ابن ماجہ، کتاب الطب، باب الحمیة، ٩١/۴، حدیث ٣۴۴٣احیاء العلوم ج ٣ ص ۴٨٢)

لو وہ آئے مسکراتے ہم اسیروں کی طرف خرمنِ عصیاں پہ اب بجلی گراتے جائیں گے

۵۔ جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا شاندار استقبال کیا۔ مدینہ کی ننھی ننھی بچیاں جوشِ مسرت میں جھوم جھوم کر اور دف بجا بجا کر یہ گیت گاتی تھیں:

نحن جوار من بنی النجار یا حبذا محمد من جار

ہم خاندانِ بنو النجار کی بچیاں ہیں۔واہ کیا ہی خوب ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمارے پڑوسی ہوگئے۔

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان بچیوں کے جوشِ مسرت اور ان کی والہانہ محبت سے متاثر ہوکر پوچھا:اے بچیو! کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟بچیوں نے یک زبان ہوکر کہا:جی ہاں! جی ہاں!یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خوش ہوکر مسکراتے ہوئے فرمایا:میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں۔ (زرقانی علی المواہب، ج ١، ص ٣۵٩_٣٦٠)( سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، ص ١٧٦_١٧٧)

اب مسکراتے آئیے سوئے گناہگار آقا اندھیری قبر میں عطار آگیا

اللہ کریم پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹ کے صدقے ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائیاں نصیب فرمائے۔ (آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )

باغ ِجنت میں محمد مسکراتے جائیں گے پھول رحمت کے جھڑیں گے ہم اٹھاتے جائیں گے

ان شاء اللہ الکریم


رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانےکے 5 واقعات

حضورنبیّ اکرم،شفیع اُمَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے زیادہ تَبَسُّم فرمانے والے،صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے سامنے بہت مسکرانے والے، ان کی باتوں پر خوش ہونے والے اور ان کے ساتھ مل جل کر رہنے والے تھے۔ بسا اوقات اس قدر ہنستے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک داڑھیں ظاہر ہو جاتیں جبکہ آپ کے اصحاب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم اور پیروی کی خاطرآپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے صرف مسکرایا کرتے تھے۔ جب پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تبسم فرماتے تو آپ کے سامنے کے مبارک دانتوں سے نور نکلتا دکھائی دیتا تھا ۔حضرتِ ابوہرىرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرماتے ہىں : جب نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلممسکراتے تو دَرودىوار روشن ہو جاىا کرتے ۔

(انداز گفتگو کیسا ہو ؟ ص14)

جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے بہت سارے واقعات ہیں۔ آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت و عشق میں مزید اضافے کے لیے آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے چند واقعات ملاحظہ ہوں :

1. اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ارشادفرمایا:’’اے حسان! کیا تم نے بھی میرے صدیق کے بارے میں کچھ مدح سرائی کی ہے؟‘‘عرض کی:’’جی ہاں۔یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!‘‘فرمایا:’’مجھے سناؤ۔‘‘حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے شانِ صدیقِ اکبر میں ایک رباعی عرض کی:خَاتَمُ الْمُرْسَلیْنصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اتنا مسکرائے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکی مبارک داڑھیں نظرآنے لگیں، پھر ارشاد فرمایا: ’’اے حسان! تونے سچ کہا۔ابوبکر(رضی اللہ عنہ ) ایسے ہی ہیں۔‘‘ (فیضان صدیق اکبر، ص 667)

2. حضرت صُہَیْب رضی اللہ عنہ آنکھ میں تکلیف کےباوجود کھجور کھارہے تھے، انہیں دیکھ کر ارشاد فرمایا:تم کھجورکھارہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ میں تکلیف ہے۔ عرض کی:(جس آنکھ میں تکلیف ہےاس جانب سےنہیں) دوسری جانب سے کھا رہا ہوں۔ یہ سن کر سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنے تبسم فرمایا۔ (احیا العلوم مترجم جلد ۴ ص ۸۴۶)

3. حضرتِ اُمیہ بن مَخْشِی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک شخص بِغیر بِسْمِ اللہ پڑھے کھانا کھارہا تھا، جب کھا چُکا، صِرف ایک ہی لُقمہ باقی رہ گیا ، وہ لُقمہ اُٹھایا اور اُس نے یہ کہا: بِسْمِ اللہِ اَوَّلَہٗ وَاٰخِرَہٗ۔ تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرانے لگے اور ارشاد فرمایا: شیطان اِس کے ساتھ کھانا کھا رہا تھاجب اِس نے اللہ پاک کا نام ذِکْر کیا تَو جو کچھ اُس کے پیٹ میں تھا اُگَل دیا۔ ( فیضان سنت باب آداب طعام ص 212 )

4. اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا سَحَرکے وقت گھر میں کچھ سی رہی تھیں کہ اچانک سوئی ہاتھ سے گر گئی اور ساتھ ہی چراغ بھی بجھ گیا ، اتنے میں حضورنورِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر میں داخل ہوئے اور آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے ۔آپ کے دندانِ اقدس کے نور کی(فتاوی رضویہ جلد ۱۴ کتاب السیر ص ۱۳۵ ) روشنی سے سارا گھرروشن و منوّر ہوگیا اور گُمشدہ سوئی مل گئی ۔ اُمُّ المؤمنین نے عرض کی : آپ کا چہرہ کس قدر نورانی ہے ۔ ارشاد فرمایا : اُس کے لئے ہلاکت ہے جو روزِ قیامت مجھے نہ دیکھ سکے ۔عرض کی : آپ کو کون نہیں دیکھ سکے گا؟ فرمایا:بخیل۔عرض کی: بخیل کون ہے؟ارشاد فرمایا:وہ شخص جو میرا نام سن کرمجھ پر دُرود نہ پڑھے۔

(دلچسپ معلومات ( حصہ 2 ) ص 256 )

5. حضرتِ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم بارگاہِ رسالت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلممسکرا دیئے،ہم نے عرض کی:یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! مسکرانے کا کیا سبب ہے؟ ارشاد فرمایا:مجھے مومن پر تعجب ہے کہ وہ بیمار ہونے پر غمگین ہوتا ہے! اگر وہ جان لے کہ بیماری میں کیا ہےتو اللہ پاک سےملاقات کرنے تک بیمار رہنا پسند کرے۔ (اللہ والوں کی باتیں جلد ۰۴ ص ۳۳۴ )

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تسلِّی سے غمزدہ روتے ہوئے ہنسنے لگتے اور اپنے غموں کو بھول جاتے تھے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اس پیاری سی عادت کو اپنائیے اور اپنے اندر مسکرانے کی عادت پیدا کیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمہ وقت مسکرانے کی عادت وخصلت پر لاکھوں سلام نازل ہوں ۔

یاالٰہی جب بَہیں آنکھیں حساب جُرم میں ان تبسم رَیز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو


رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے پانچ واقعات

مسکرانا یہ ایک بہت اچھی عادت ہے اور دوسروں کو اپنی طرف جلد راغب کرنے اور اپنی طرف مائل کرنے کا بہت اہم ذریعہ ہے چونکہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک نے تمام روئے زمین کے مسلمانوں کی راہ نمائی اور ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا تھا اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذاتِ کریمہ میں دیگر اچھی عادتوں کے ساتھ ساتھ ایک عادت مسکرانے کی بھی موجود تھی۔ حضرت عبد الحارث بن جزء فرماتے ہیں: میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے بڑھ کر تبسم فرمانے والا کوئی نہیں دیکھا۔

(شمائل ترمذی باب ماجاء فی ضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‏صفحہ 16 مکتبہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز )

آئیے! ذیل میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے واقعات میں سے چند واقعات ملاحظہ کیجئے:

1)حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھر درے تھے۔ایک دم ایک بدوی نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پکڑ لیا اور اتنے زبردست جھٹکے سے چادر مبارک کو کھینچا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نرم و نازک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آگئی ۔پھر اس بدوی نے کہا :اللہ پاک کا جو مال آپ کے پاس ہیں آپ حکم دیجئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب اس بدوی کی طرف توجہ فرمائی تو کمالِ حلم و عفو سے اس کی طرف دیکھ کر ہنس پڑے اور پھر اس کو کچھ مال عطا فرمانے کا حکم صادر فرمایا۔

(سیرت مصطفی ص 603 بخاری جلد 01 ، ص 446 باب ما کان یعطی النبی المولفتہ)

دوسری داڈھ سے کھا رہا ہوں

2)ایک مرتبہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کی آنکھ دکھ رہی تھی اور وہ کھجور کھا رہے تھے۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :تمہاری آنکھ دکھ رہی ہے اور تم کھجور کھا رہے ہو ؟ عرض کی: میں دوسری طرف سے کھا رہا ہوں! یہ سن کر جان ِعالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرادیئے۔(ماہنامہ فیضان مدینہ جلد 3 جون 2019 ص 44 / ابن ماجہ 91/4 ، حدیث 3443 )

3)حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے آدمی کو بھی جانتا ہوں اور اسے بھی جو جہنم سے سب سے آخر میں نکلے گا! قیامت کے دن ایک آدمی (اللہ پاک کے دربار میں) لایا جائے گا، حکم ہوگا: اس کے سامنے اس کے صغیرہ گناہ پیش کرو اور کبیرہ گناہ چھپائے جائیں۔ پھر اس سے کہا جائے گا:کیا تو نے فلاں دن ایسا ایسا عمل کیا تھا ؟ وہ بغیر کسی انکار کے اقرار کرے گا اور کبیرہ گناہوں (پر مواخذے) سے ڈر رہا ہوگا۔ پھر حکم ہوگا: اسے ہر بُرائی کے بدلے ایک نیکی دو ! وہ کہے گا: میرے کچھ اور گناہ بھی ہیں جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس بات سے ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت مبارک ظاہر ہوگئے ۔

(شمائل ترمذی باب : ما جاء فی ضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 16 مکتبہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز(

4)اُمُّ المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:میں ایک دفعہ مدینے کے تاجدار، دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لیے خزیرہ پکا کر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس لائی (وہاں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں) میں نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اسے کھاؤ!انہوں نے انکار کیا تو میں نے دوبارہ کہا: اسے کھاؤ ورنہ میں اسے تمہارے چہرے پر مل دوں گی !انہوں نے پھر انکار کیا تو میں نے اپنا ہاتھ خزیرہ میں ڈالا اور اسے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے چہرے پر مل دیا۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرانے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے لیے خزیرہ ڈال کر ان سے فرمایا: تم بھی اسے عائشہ(رضی اللہ عنہا) کے منہ پر مل دو اور پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرانے لگے۔(فیضان امہات المومنین ص 62 مسند ابی یعلی الموصلی تتمتہ مسند عائشہ4/4 الحدیث 4476 ملتقطا(

5)حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خندق کی جنگ کے دن دیکھا کہ آپ اتنے (ہنسے) کہ آپ کے سامنے کے دانت مبارک ظاہر ہو گئے۔ حضرت عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا:اس ہنسی کی کیا وجہ تھی؟انہوں نے فرمایا:ایک آدمی(کافر) کے پاس ڈھال تھی اور وہ ڈھال کو ادھر ادھر کر کے اپنا چہرہ چھپاتا تھا (چونکہ) حضرت سعد رضی اللہ عنہ تیر انداز تھے (اس لئے) آپ نےایک تیر نکالا اور جو نہی اس نے سر اٹھایا اسے دے مارا (تیر) اس کی پیشانی پر لگا ، وہ الٹا گیا اور اس کی ٹانگ اٹھ گئی (اس واقعہ پر) حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے سامنے والے دانت مبارک نظر آنے لگے، میں نے (عامر بن سعد) نے پوچھا: کس بات سے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسے؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس آدمی کے فعل سے۔)شمائل ترمذی باب ما جاء فی ضحک الرسول اللہ علیہ وسلم صفحہ 16 مکتبہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز (