اللہ پاک کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے چند واقعات درج ذیل ہیں:
1۔حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ایک دن آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرے پر مسرّت و بشاشت ( خوشی) کے آثار تھے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! آج تو آپ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرے
پر چمک دمک اور خوشی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں؟ تو ارشاد فرمایا : ہاں! ( آج میں کیونکر خوش نہ ہوں گا کہ) میرے ربّ کریم کی طرف سے ایک آنے والا میرے پاس آیا ، اس
نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم! آپ کا
جو امتی آپ پر ایک بار درود بھیجے، اس کے
عوض اللہ پاک اس کے لئے دس نیکیاں لکھتا ہے، اس کے دس گناہ معاف فرماتا ہے، اس کے دس درجات
بلند فرماتا ہےاور اسی درود پاک کی مثل کو اس شخص پر لوٹاتا ہے (یعنی اللہ پاک خود بھی اس بندے پر درود بھیجتاہے)۔(مسند
امام احمد بن حنبل، مسند المدنیین، حدیث ابی طلحہ زید بن سھل... الخ 625/6، الحدیث
16895)
2:امیر
المومنین حضرت عثمان ِغنی رضی اللہ عنہ نے ایک
بار پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر آپ مسکرانے لگے اور ساتھیوں سے فرمایا:کیا تم
مجھ سے اس چیز کے بارے میں پوچھو گے نہیں کہ جس نے مجھے مسکرایا؟ انہوں نے عرض کی : اےامیر
المؤمنین! آپ کسی چیز کی وجہ سے مسکرائے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ایک بار حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس جگہ کے قریب ہی وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرائے تھے اور صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا :تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ کس چیز نے مجھے مسکرایا؟ صحابہ کرام
رضی اللہ عنہمنے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! کس چیز نے آپ کو مسکرایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: بندہ جب وضو کا پانی منگوائے، پھر اپنا
چہرہ دھوئے تو اللہ پاک اس کے چہرے کے گناہ کو مٹا دیتا ہے، پھر اپنی کہنیاں دھوئے تو کہنیوں کے،سرکامسح کرے
تو سر کے اور قدموں کو دھوئے تو قدموں کے گناہ مٹا دیتا ہے۔(تو میں نے بھی انہی
کی ادا کو ادا کیا ہے)
(مسند امام احمد ، مسند عثمان بن عفان، 13/1،الحدیث415)
3:حضرت سیدہ
عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا سے مروی ہے:فرماتی
ہیں: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم میرے پاس
تشریف لائے، میں اپنی گڑیاں گھر کے ایک دریچہ
میں رکھ کر اس پر پردہ ڈالے رکھتی تھی، سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی تھے، انھوں نے دریچے کے پردےکو
اٹھایا اور گڑیاں حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کو دکھائیں،حضرت
محمد صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ
سب کیا ہے؟ میں نے عرض کی :میری بیٹیاں (میری گڑیاں) ہیں،ان گڑیوں میں ایک گھوڑا ملا حظہ فرمایا، جس کے دو بازو تھے، فرمایا : کیا گھوڑوں کے بھی
بازو ہوتے ہیں؟ میں نے عرض کی: کیا آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلمان علیہ السلام کے گھوڑے تھے اور ان کے بازو تھے، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس پراتنا تبسم فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی داڑھیں ظاہر ہو گئیں۔(مدارج النبوت، قسم 5،باب2،درذکرازواج ِمطہرات ، ج 2،ص471)
4:حضرت
انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے
تھے، جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، ایک
دم ایک بدوی نے آپ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کو پکڑلیا
اور اتنے زبردست جھٹکے سے چادر مبارک کو
کھینچا کہ حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی نرم و
نازک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آگئی، پھر اس بدوی نے کہا :اللہ پاک کا جو مال آپ کے پاس ہے، آپ کے حکم دیجئے کہ اس میں سے کچھ
مل جائے۔حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب اس
بدوی کی طرف توجہ فرمائی تو کمال حلم و عفو سے اس کی طرف دیکھ کر ہنس پڑے اور پھر
اس کو کچھ مال عطا فرمانے کا حکم صادر فرمایا۔(صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب ما کان النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم..
الخ الحدیث :3149، ج 2،ص 359)
5: حضرت
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا چہرہ قرآن کے ورق کی طرح صاف تھا، ہم نے کوئی منظر ایسا
نہ دیکھا، جو ہمیں اس رخِ انور کے اس منظر
سے زیادہ خوشگوار ہو، جب چہرہ ٔمبارک ہم پر نمودار ہوا۔(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب اھل العلم والفضل الحق
بالامامۃ، الحدیث 681،ج1،ص 243)