رسالہ عشقِ رسول مع اُمّتی پر حقوقِ مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، ، مصنف مفتی محمد قاسم،ص29 پر ہے:حضور علیہ السلام تبسم کے وقت اولوں کی طرح دکھائی دیتے
اور ان سے نکلنے والے نور سے دیواریں روشن
ہوجاتیں اور تبسم فرماتے تو دل کی کلیاں کھل اُٹھتیں، روتے ہوئے ہنس پڑتے اور تسکینِ قلب کا
سامان کرتے۔
جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس
تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام(حدائق بخشش)
کتاب شمائلِ ترمذی، ،باب ما جاء فی ضحک
رسول اللہ،ص نمبر 241۔240 پر حضرت عامر بن
سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میرے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوۂ خندق کے دن ہنسے، حتی کہ آپ کے دندانِ مبارک ظاہر ہو
گئے، عمر کہتے ہیں:میں نے پوچھا:کس بات پر
ہنسے تھے؟انہوں نے کہا : ایک کافر ڈھال لئے ہوئے تھا اور سعد بڑے تیر انداز تھے،لیکن
وہ اپنی ڈھال کو اِدھر اُدھر کر لیتا تھا، جس کی وجہ سے اپنی پیشانی کا بچاؤ کر رہا تھا(گویا مقابلہ میں سعد کاتیر لگنے نہ دیتا تھا، حالانکہ یہ
مشہور تیر انداز تھے)، سعد نے
ایک مرتبہ تیر نکالا (اور اس
کو کمان میں کھینچ کر انتظار میں رہے)جس وقت اس نے ڈھال سے سر اُٹھایا، فوراً ایسا لگایا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور فوراً گرگیا، ٹانگ بھی اُوپر کو اُٹھ گئی، پس حضور اقدس علیہ السلام اس قصے پرہنسے، میں نے پوچھا: کون سی بات پر؟انہوں نے فرمایا: سعد کے اس فعل پر۔
اے کاش!ہم عاشقوں کے خواب میں آ کر ہی پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرا کر اِک نظرِ کرم فرما دیں تو ہماری عید ہو جائے گی۔نبی
کریم علیہ السلام کی سنتوں میں سے ایک بہت ہی پیاری سنت مسکرا کر دیکھنا بھی
ہے۔
شرح مشکوۃ، ترجمہ اشعۃ اللمعات، جلد 7، ناشر فرید بک سٹال، صفحہ نمبر 185 پر ہے :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: میں نے نبی کریم علیہ السلام کو کبھی
کھل کر پورا ہنستے ہوئے نہ دیکھا، حتی کہ
میں آپ کی داڑھیں دیکھ لیتی،آپ تبسم ہی
فرمایا کرتے تھے۔(البخاری)