تبسم،  ضحک اور قہقہہ میں فرق

اہلِ لغت کہتے ہیں:تبسم ضحک کی مبادیات میں سے ہے، چہرے کی خوشی سے اگر دانت نظر آئیں اور دُور تک آواز جائے تو قہقہہ ہے، ورنہ ہنسی ہے اور اگر آواز نہ آئے تو پھر یہ تبسم(مسکراہٹ) ہے۔

آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب مسکراتے، خوش ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا چہرۂ انور روشن نظر آنے لگتا۔

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہوئے تو آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوے سے واپس تشریف لائے، منافقوں نے عدمِ شرکت کے بہانے بنائے، لیکن تین صحابہ کرام علیہم الرضوان نے جن میں حضرت کعب بھی شامل تھے، اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا، پچاس راتوں کے مسلسل کرب کے بعد ان کی توبہ کی مقبولیت پر مشتمل آیات نازل ہوئیں، حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو خوشخبری ملی، فوراً حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر خوشی سے مسکرائے، حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور روشن ہو جاتا، گویا کہ آپ کا چہرہ چاند کا ٹکڑا ہے۔

دینِ اسلام ہر معاملے میں اعتدال کی تعلیم دیتا ہے، ہنسی مزاح میں بھی اعتدال ضروری ہے، ہر وقت ہنستے رہنا دل کو مردہ کر دیتا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اِیَّاکَ وَالضَّحَکَ فَاِنَّ کَثْرَۃَ الضَّحَکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ ہنسی سے بچو، کیونکہ ہنسی کی کثرت دل کو مردہ کر دیتی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:میں نے کبھی بھی رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اس قدر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا کوّا نظر آتا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم صرف مسکرایا کرتے تھے۔

حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ کھانے کی دعوت پر روانہ ہوا، رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں سے آگے تھے، آپ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو لڑکوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا، رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان کو پکڑنے کا ارادہ فرمایا۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ادھر سے ادھر چلے گئے، حضرت یعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس سے ہنسی مزاح فرمانے لگے، یہاں تک کہ انہیں پکڑ لیا، پھر اپنا ایک ہاتھ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی گُدی کے نیچے اور دوسرا ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھ کر ان کا منہ چوم لیا اور فرمایا:حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ پاک حسین سے محبت کرنے والے سے محبت کرے، حسین نواسوں میں عظیم نواسہ ہے۔

حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔

آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایااَلْقَہْقِہَۃُ مِنَ الشَّیْطٰنْ، وَالتَبَسَّمُ مِنَ اللہِ قہقہہ شیطان کی طرف سے ہے اور تبسم اللہ پاک کی طرف سے ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا، آپ موٹے کنارے والی عبرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے، اچانک ایک بدّو آیا اور اس نے آپ کی چادر زور سے کھینچی، میں نے دیکھا: اس کی وجہ سے آپ کی گردن پر نشان پڑ گیا، پھر کہنے لگا:اے محمد!آپ کے پاس جو اللہ پاک کا عطا کردہ مال ہے اس میں مجھے کچھ دینے کا حکم دیں! حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے،آپ ہنسے اور آپ نے اس کو دینے کا حکم فرمایا۔حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم قہقہہ لگا کر نہیں ہنستے تھے، صرف مسکراتے تھے۔

بعض احادیث میں آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا بھی مروی ہے اور ہنستے وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی داڑھیں ظاہر ہونے کا ذکر ہے۔

باغِ جنت میں محمد مسکراتے جائیں گے پھول رحمت کے جھڑیں گے ہم اٹھاتے جائیں گے