حضور صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم مسکراتے بہت تھے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے زیادہ تبسم فرماتے رہتے، جب تک
قرآن نازل نہ ہو رہا ہوتا یا قیامت کا تذکرہ نہ ہوتا یا خطبہ وعظ نہ ہوتا۔
جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس
تبسم کی عادت پر لاکھوں سلام
آئیے! اب پیارے آقا صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے
مسکرانے کے پانچ واقعات ملاحظہ فرمائیے:
1۔حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب سے میں مسلمان ہوا، مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا، مجھے نہ دیکھا مگر تبسم فرمایا۔(مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 281، حدیث 4536)
2۔حضرت
جابر بن سمرہ رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں: رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نہ اُٹھتے تھے اپنے مصلے سے، جس میں نماز فجر پڑھتے،حتی کہ سورج طلوع ہو جاتا،پھر جب سورج طلوع ہو جاتا تو اُٹھتے اور
لوگ باتیں کرتے تھے تو جاہلیت کے زمانہ کے کاموں کے ذکر میں مشغول ہو جاتے تو
ہنستے تھے اور نبی کریم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے
تھے۔(مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 282، حدیث 4537)
3۔حضرت
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک روز میں رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سخت حاشیہ والی نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے، ایک بدّو آپ کے پاس آیا، اس نے آپ کی چادر کے
ساتھ آپ کو ایسا سخت کھینچا کہ چادر پھٹ گئی، آپ کی گردن مبارک کو جو میں نے دیکھا کہ اس میں
چادر کے حاشیہ نے اثر کیا ہوا تھا، پھر اس
بدّو نے کہا: اے محمد!آپ کے پاس جو خدا کا مال ہے، اس میں میرے واسطے حکم کیجئے۔
رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے اس کی طرف دیکھا،
پھر ہنس کے اس کے لئے بخشش کا حکم دیا۔(سیرت رسول عربی، صفحہ 236)
4۔ ایک
دفعہ ایک سائل آپ کی خدمت شریف میں آیا، آپ نے فرمایا:میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے، مگر یہ
کہ تو مجھ پر قرض لے، جب ہمارے پاس کچھ آ
جائے گا، ہم اسے ادا کردیں گے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! خدا نے آپ کو اس چیز کی تکلیف نہیں دی، جو آپ کی قدرت میں نہیں، آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات نا پسند آئی، انصار میں سے ایک شخص بولا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!عطا کیجئے اور عرش کے مالک سے ثقلیل کا خوف نہ کیجئے،یہ سن
کر آپ نے تبسم فرمایا۔
(سیرت رسول عربی، صفحہ 263)
5۔ایک دن ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرۂ انور کا رنگ متغیر تھا، صحابہ کرام علیہم الرضوان اسے خلافِ عادت سمجھتے تھے، پس اعرابی
نے کچھ پوچھنا چاہا تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اسے
منع کردیا اور فرمایا:ہم آپ کا رنگ بدلا ہوا دیکھتے ہیں، اعرابی نے کہا: مجھے پوچھنے دو، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا
ہے، میں آپ کو ہنسائے بغیر نہ چھوڑوں گا، چنانچہ اس نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمیں خبر ملی ہے کہ مسیح دجّال لوگوں کے لئے ثرید یعنی
شوربے میں ملی ہوئی روٹی لائے گا اور لوگ اس وقت وقت بھوک سے مر رہے ہوں گے! میرے
ماں باپ آپ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم پر قربان
ہوں، آپ مجھے کیا فرماتے ہیں کہ میں اس ثرید
کے کھانے سے رُکا رہوں اور اس سے بچتے
ہوئے کمزور ہو کر مر جاؤں یا میں اس ثرید سے کھاؤں، یہاں تک کہ خوب سیر ہو جاؤں تو اللہ پاک پر ایمان لاؤں اور دجال
کا انکار کر دوں، صحابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے ہیں:یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی داڑھیں مبارک ظاہر ہو گئیں، پھر
آپ نے فرمایا:نہیں، بلکہ اللہ پاک جس کے
ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بے نیاز کرے گا، تجھے بھی مستغنی کردے گا۔(صحیح بخاری، باب
ذکر الدجال، حدیث 7122، صفحہ 594)