حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی محفل
اگرچہ سنجیدگی سے بھرپور ہوتی تھی اور اپنے علم کا سمندر لئے ہوتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی خوشی طبعی کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مقبول تھے اور ایک بے تکلف دوست کی طرح ان کے ساتھ تعلقات رکھے ہوئے تھے،
اسی مناسبت سے آقا صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے
مسکرانے کے5 واقعات ملاحظہ کیجئے:
1۔ ترمذی کی روایت ہے:حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہوئی اور عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! میرے لئےدعاکیجئےکہ اللہ پاک مجھے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے! حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا: بوڑھی عورتیں جنت میں داخل
نہ ہوں گی! تو اس بوڑھی عورت نے حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بات سنی تو روتی ہوئی چل دی، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اس بوڑھی عورت کو خبر دو کہ جنت میں بوڑھی ہو کر نہیں جائے گی،بلکہ
اللہ پاک نے فرمایا ہے:اِنَّاۤ اَنۡشَاۡنٰہُنَّ
اِنۡشَآءً﴿ۙ۳۵﴾فَجَعَلْنٰہُنَّ
اَبْکَارًا﴿ۙ۳۶﴾۔ ترجمہ:ہم نے ان عورتوں کو خاص بنایا ہے،ہم نے ان کو ایسا
بنایا،جیسی کنواریاں۔(کتاب
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں،
ص80)
2۔9 ہجری
میں جب غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اپیل کی کہ وہ حسبِ توفیق جنگ میں شمولیت کے لئے مال ومتاع پیش کریں،حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ نے تیں سو اونٹ،سو گھوڑے اور سو اوقیہ چاندی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کئے،حضرت عمر رضی اللہ
عنہ اپنے گھر کا
آدھا سامان لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے،حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے چالیس ہزار درہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کئے اور جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی باری آئی تو آپ نے اپنے گھر کا تمام سامان پیش کر دیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکراتے ہوئے پوچھا : ابوبکر! گھر والوں کے لئے کیا
چھوڑ آئے ہو؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم گھر
والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول ہی کافی ہے۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص
68)
3: حضرت
علی رضی اللہ عنہ کو جب حضور کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یمن بھیجا تو آپ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نہایت مشکل مقدمہ آیا، جس
میں ایک ایسی عورت پیش ہوئی،جس نے ایک ماہ کے اندر تین مردوں کے ساتھ خلوت کی تھی
اور اب اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بچے کی دیت کے تین حصے کئے اور پھر قرعہ ڈالا، وہ قرعہ جس شخص کے نام نکلا، آپ رضی اللہ عنہ نے وہ
بچہ اس شخص کے حوالے کر دیا،جبکہ باقی دونوں اشخاص کو دیت کےتین حصّوں کے دو حصّے
کر کے دے دیئے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ
عنہ کے اس فیصلے کی
خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرادیئے۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں، ص
77)
4:حضرت
انس بن مالک رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے:حضور
نبی کریم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے پاس ایک
دیہاتی صحابی حضرت زاہر رضی اللہ
عنہ جب بھی آتے تو
ہدیہ لے کر آتے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی واپسی پر ان کو کچھ نہ کچھ عنایت ضرور کرتے تھے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرمایا کرتے تھے:زاہر رضی اللہ عنہ ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم انہیں بے حد عزیز رکھتے تھے۔حضرت زاہر رضی اللہ عنہ بظاہر خوبصورت نہ تھے۔ایک دن وہ
بازار میں اپنا کچھ سامان فروخت کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پیچھے سے جا کرانھیں گود میں اُٹھا لیا،وہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نہ دیکھ سکے اور کہنے لگے:کون ہے؟مجھے چھوڑو! پھر
جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سینۂ مبارک سے چمٹ گئے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اعلان کرنا شروع کیا کہ کون ہے جو اس غلام کوخریدے گا؟ حضرت زاہر رضی اللہ عنہ نے عرض کی :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !آپ کو میرے بدلے کچھ نہیں ملے گا! حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکرا کر فرمایا:اللہ
پاک کے نزدیک تیری بڑی قیمت ہے۔(کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں،
ص85)
5۔حضرت
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں، میں غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک چھوٹے سے قبے
میں موجود تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اندر آ جاؤ، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !سارا ہی اندر آ جاؤں؟آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا: تم سارے ہی اندر آ جاؤ، پس میں اندر چلا گیا۔
حضرت ولید
بن عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے اس لئے کہا تھا کہ میں سارا ہی اندر آ جاؤں، کیونکہ قبہ چھوٹا تھا۔(حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹیں،
ص 91)