رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانےکے 5 واقعات

حضورنبیّ اکرم،شفیع اُمَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے زیادہ تَبَسُّم فرمانے والے،صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے سامنے بہت مسکرانے والے، ان کی باتوں پر خوش ہونے والے اور ان کے ساتھ مل جل کر رہنے والے تھے۔ بسا اوقات اس قدر ہنستے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک داڑھیں ظاہر ہو جاتیں جبکہ آپ کے اصحاب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم اور پیروی کی خاطرآپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے صرف مسکرایا کرتے تھے۔ جب پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تبسم فرماتے تو آپ کے سامنے کے مبارک دانتوں سے نور نکلتا دکھائی دیتا تھا ۔حضرتِ ابوہرىرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرماتے ہىں : جب نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلممسکراتے تو دَرودىوار روشن ہو جاىا کرتے ۔

(انداز گفتگو کیسا ہو ؟ ص14)

جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے بہت سارے واقعات ہیں۔ آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت و عشق میں مزید اضافے کے لیے آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے چند واقعات ملاحظہ ہوں :

1. اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ارشادفرمایا:’’اے حسان! کیا تم نے بھی میرے صدیق کے بارے میں کچھ مدح سرائی کی ہے؟‘‘عرض کی:’’جی ہاں۔یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!‘‘فرمایا:’’مجھے سناؤ۔‘‘حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے شانِ صدیقِ اکبر میں ایک رباعی عرض کی:خَاتَمُ الْمُرْسَلیْنصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اتنا مسکرائے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکی مبارک داڑھیں نظرآنے لگیں، پھر ارشاد فرمایا: ’’اے حسان! تونے سچ کہا۔ابوبکر(رضی اللہ عنہ ) ایسے ہی ہیں۔‘‘ (فیضان صدیق اکبر، ص 667)

2. حضرت صُہَیْب رضی اللہ عنہ آنکھ میں تکلیف کےباوجود کھجور کھارہے تھے، انہیں دیکھ کر ارشاد فرمایا:تم کھجورکھارہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ میں تکلیف ہے۔ عرض کی:(جس آنکھ میں تکلیف ہےاس جانب سےنہیں) دوسری جانب سے کھا رہا ہوں۔ یہ سن کر سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنے تبسم فرمایا۔ (احیا العلوم مترجم جلد ۴ ص ۸۴۶)

3. حضرتِ اُمیہ بن مَخْشِی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک شخص بِغیر بِسْمِ اللہ پڑھے کھانا کھارہا تھا، جب کھا چُکا، صِرف ایک ہی لُقمہ باقی رہ گیا ، وہ لُقمہ اُٹھایا اور اُس نے یہ کہا: بِسْمِ اللہِ اَوَّلَہٗ وَاٰخِرَہٗ۔ تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرانے لگے اور ارشاد فرمایا: شیطان اِس کے ساتھ کھانا کھا رہا تھاجب اِس نے اللہ پاک کا نام ذِکْر کیا تَو جو کچھ اُس کے پیٹ میں تھا اُگَل دیا۔ ( فیضان سنت باب آداب طعام ص 212 )

4. اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا سَحَرکے وقت گھر میں کچھ سی رہی تھیں کہ اچانک سوئی ہاتھ سے گر گئی اور ساتھ ہی چراغ بھی بجھ گیا ، اتنے میں حضورنورِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر میں داخل ہوئے اور آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے ۔آپ کے دندانِ اقدس کے نور کی(فتاوی رضویہ جلد ۱۴ کتاب السیر ص ۱۳۵ ) روشنی سے سارا گھرروشن و منوّر ہوگیا اور گُمشدہ سوئی مل گئی ۔ اُمُّ المؤمنین نے عرض کی : آپ کا چہرہ کس قدر نورانی ہے ۔ ارشاد فرمایا : اُس کے لئے ہلاکت ہے جو روزِ قیامت مجھے نہ دیکھ سکے ۔عرض کی : آپ کو کون نہیں دیکھ سکے گا؟ فرمایا:بخیل۔عرض کی: بخیل کون ہے؟ارشاد فرمایا:وہ شخص جو میرا نام سن کرمجھ پر دُرود نہ پڑھے۔

(دلچسپ معلومات ( حصہ 2 ) ص 256 )

5. حضرتِ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم بارگاہِ رسالت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلممسکرا دیئے،ہم نے عرض کی:یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! مسکرانے کا کیا سبب ہے؟ ارشاد فرمایا:مجھے مومن پر تعجب ہے کہ وہ بیمار ہونے پر غمگین ہوتا ہے! اگر وہ جان لے کہ بیماری میں کیا ہےتو اللہ پاک سےملاقات کرنے تک بیمار رہنا پسند کرے۔ (اللہ والوں کی باتیں جلد ۰۴ ص ۳۳۴ )

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تسلِّی سے غمزدہ روتے ہوئے ہنسنے لگتے اور اپنے غموں کو بھول جاتے تھے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اس پیاری سی عادت کو اپنائیے اور اپنے اندر مسکرانے کی عادت پیدا کیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمہ وقت مسکرانے کی عادت وخصلت پر لاکھوں سلام نازل ہوں ۔

یاالٰہی جب بَہیں آنکھیں حساب جُرم میں ان تبسم رَیز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو