میرے پیارے پیارے آقا، سید الانبیاء، خاتم
المرسلین صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم اللہ پاک
کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہمارے لئے کامل نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ کے نبی بھی تھے اور بشریت کے تقاضوں کے باعث خوشی اور
غمی ہر طرح کے جذبات سے مزین بھی تھے۔ کیونکہ غم پر غمگین ہونا اور خوشی پر مسرور ہونا
، انسانی فطرت کا خاصہ ہے ، لہٰذا بار ہاایسے مواقع آئے جب میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے اور اسی بنا پر مسکرانا میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتِ مبارکہ قرار پائی۔توجہ رہے !مسکرانا سنت ہے ، قہقہہ
سنت نہیں ۔
حدیثِ مبارکہ ہے:اَلْقَہْقَہَۃُ مِنَ
الشَّیْطَانِ وَالتَّبَسُّمُ مِنَ اللہ یعنی قہقہہ شیطان کی طرف سے ہے اور مُسکرانا اللہ پاك کی
طرف سے ہے۔(جامع صغیر، حرف القاف ، ص386، حدیث: 6196 )صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے:میں نے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کبھی کھلکھلا کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ جس سے آپ کے حلق کا حصہ نظر آجائے
۔آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم مسکرایا کرتے
تھے۔
آج ہم آقا کریم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے متبسّم
ہونے سے متعلق واقعات سے مشرف ہوں گی۔قربان جائیں! اپنے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی مسکراہٹ اور ان کی غیرت پر یوں ہی ایک مرتبہ غزوۂ خندق
کے موقع پر اتنا مسکرائے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک داڑھیں دکھائی دینے لگیں۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک کافر کے پاس ڈھال تھی ۔جبکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بہت زبردست تیر انداز تھے۔کافر بار بار ڈھال سے اپنی پیشانی کو بچا لیتا تھا مگر جب حضرت
سعد رضی اللہ عنہ نے اپنا تیر اس کافر پر یوں داغا کہ جیسے ہی کافر نے ڈھال سے اپنا سر اوپر کیا ،ویسے ہی تیر اس کی پیشانی
پر لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔یہ منظر دیکھ کر کر نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اتنا مسکرائے کہ داڑھیں
مبارک دکھائی دینے لگیں۔( شمائل ترمذی)
غزوۂ بدر میں حضور علیہ الصلاۃ
و السلام اور حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک سائبان میں قیام فرمایا ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رات کو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اونگھ آگئی ۔جب آنکھ مبارک کھلی تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے:سَیُہۡزَمُ
الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ ﴿۴۵﴾ (سورة القمر،
تفسير ابن كثير)یہ تو کفار
کی شکست پر مسکرانا تھا۔ ایک بار پھر کچھ یوں ہوا کہ حضور علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمانِ عالیشان ہے:میں نماز پڑھ رہا تھا اور جبرائیل علیہ السلام میرے پاس سے گزرے، وہ میری طرف دیکھ کر ہنسے تو میں بھی ان کی طرف دیکھ کر مسکرا
دیا۔(راوی عبداللہ بن
ریاب،اسد الغابہ ابن اثیر)
سبحن اللہ!
میرے آقا کریم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذاتِ پاک
ایسی تھی کہ فرشتوں کے سردار بھی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی فرماتے تھے ۔یوں ہی ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور فرمایا: ہرگز ایک عسر (مشکل) دو یسروں ( آسانیوں) پر غالب نہیں آسکتی، کیونکہ ارشاد ِباری ہے:فَاِنَّ
مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۙ﴿۵﴾اِنَّ
مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ؕ﴿۶﴾ (سورهٔ انشرح
تفسیر ابن جریر طبری)