فقہاء کے ہاں صرف دانت کھل جانا، آواز پیدا نہ ہونا تبسم یعنی مسکرانا ہے، تھوڑی آواز بھی پیدا ہونا، جو خود سنی جائے، دوسرا نہ سُنے ضحک ہے، زیادہ
آواز پیدا ہو کہ دوسرا بھی سنے اور منہ کھل کھل جائے قہقہہ یعنی ٹھٹھا ہے۔(مراٰۃ، جلد6، باب الضحک، ص320، نعیمی کتب خانہ گجرات)
یاد رہے!حضور
صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم مسکراتے
تھے ، قہقہہ مار کر کبھی نہ ہنسے کہ ہنسنا قلب میں غفلت پیدا کرتا ہے، تبسّم خوش
اخلاقی ہے، اس سے سامنے والے کو خوشی ہوتی
ہے، جہاں کہیں روایت میں ہنسنا لکھا ہے، اس سے مراد قہقہہ نہیں ہے۔
(مراٰۃ، جلد6، باب الضحک، ص320، نعیمی کتب خانہ گجرات)
ایک مرتبہ جب لوگوں نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں بارش رُک جانے کی شکایت کی، تو میٹھے مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے منبر بچھانے کا حکم دیا، جو عید گاہ میں بچھا دیا گیا اور مقررہ دن وہاں
تشریف لے جاکر بارش کے لئے دعا فرمائی اور ہاتھوں ہاتھ اس
دعا کی قبولیت ظاہر ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسجد تک نہ آنے پائے تھے کہ سیلاب بہہ گئے۔
جب میٹھے مصطفے صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے لوگوں
کو پناہ کی طرف دوڑتے دیکھا تو ہنسے، حتی
کہ دندانِ مبارک ظاہر ہوگئے، یہ تبسّم خوشی
اور تعجب کے طور پر تھا کہ ابھی تو یہ لوگ بارش مانگ رہے تھے، جب آئی تو بھاگ رہے ہیں۔(مراٰۃ، جلد2، باب الاستسقاء، ص397۔398، نعیمی کتب خانہ
گجرات)
غیب کی خبریں دینے والے پیارے آخری نبی
صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے آخری
جنتی کے بارے میں خبر دی، جس پر قیامت کے دن اس کے چھوٹے گناہ پیش کرکے پوچھا جائے
گا:تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں گناہ کئے؟ وہ انکار کی طاقت نہ رکھے گا اور ڈر رہا
ہوگا کہ بڑے گناہ تو ابھی باقی ہیں، کہیں وہ بھی پیش نہ کر دئیے جائیں، کہا جائے گا:تیرے لئے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی
ہے، تو وہ کہے گا: میں نے اور بڑے کام کئے
تھے، جنہیں یہاں نہیں دیکھ رہا ہوں، حضرت
ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نےدیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنس پڑے، حتی کہ
داڑھیں چمک گئیں۔حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کی
حالت کی تبدیلی پر تبسم فرمایا کہ ابھی تو گناہِ کبیرہ سے ڈر رہا تھا، اب خود مانگ رہا ہے۔(مراٰۃ، جلد7، باب الحوض والشفاعۃ، ص331۔332، ایضاً)
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سواری پر سوار ہونے کے بعد اللہ پاک کی حمد و ثنا بیان کی اور اللہ پاک کی
بارگاہ میں کچھ یوں عرض کی: میں نے یقیناً
اپنی جان پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے اور تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا، پھر آپ ہنسے، وجہ پوچھنے پر فرمایا: تمہارا ربّ اپنے بندے سے
خوش ہوتا ہے، جب وہ کہتا ہے: خدایا! میرے گناہ بخش دے، ربّ کریم فرماتا ہے: میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے
سوا کوئی گناہ نہیں بخشتا۔مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:گناہ تو خدا ہی بخشتا ہے،اس کے محبوب بندے شفاعت
کرتے ہیں، مگر براہِ راست گناہ نہیں بخشتے۔(مراٰۃ، جلد4، باب خاص وقتوں کی دعا، ص41)
رسول اللہ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے عرفہ
کی شام اپنی اُمّت کے لئے دعائے مغفرت کی، پھر مزدلفہ میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صبح دعا کی، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسے/ مسکرائے، خدمتِ عالی میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے عرض کی:ہمارے
ماں باپ فدا! اس گھڑی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسانہ کرتے تھے، اللہ پاک حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خوش و خرم رکھے۔ کیا چیز آپ کو ہنسا رہی ہے؟فرمایا:جب اللہ پاک
کے دشمن ابلیس نے دیکھا کہ اللہ پاک نے میری دعا قبول کرلی اور میری اُمّت کو بخش
دیا تو مٹی اٹھا کر اپنے سر پر ڈالنے لگا اور ہائے وائے پکارنے لگا، ہم نے جو اس کی گھبراہٹ دیکھی تو ہمیں ہنسی آگئی۔(مراٰۃ، جلد 4، صفحہ 321)
غزوۂ تبوک یا حنین سے واپسی پر جب حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے، ہوا چلی، جس سے طاق میں رکھی ہوئیں کھیل کی گڑیوں سے پردہ
ہٹ گیا، ان گڑیوں کے درمیان ایک گھوڑا تھا،
جن کے کپڑے کے دو پر تھے، سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے گھوڑے کے پروں کے متعلق پوچھا:یہ کیا ہے؟ تو بولیں:کیا
آپ نے نہ سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے
کے پر تھے؟ فرماتی ہیں:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسے، حتٰی کہ میں نے آپ کی داڑھیں دیکھ لیں۔(مراٰۃ، جلد5، ص113، نعیمی کتب خانہ گجرات)
جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس
تبسم کی عادت پر لاکھوں سلام