ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نہایت ہی عمدہ اوصاف کے مالک تھے، آپ کی عاداتِ کریمہ میں سے ایک بہت ہی پیاری
عادت مسکرانا بھی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خود بھی نہایت کثرت کے ساتھ مسکرایا کرتے اور صحابہ کرام علیہم رضوان کو بھی اس کی تعلیم دیتے تھے، اسی وجہ سے آپ کو متبسم بھی کہا جاتا ہے، یعنی مسکرانے والے۔
حضرت عبداللہ ابنِ حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم سے زیادہ
مسکرانے والا کوئی نہ دیکھا۔
حضور اکرم
صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم مسکرانے
کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:تمہارا اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرانا صدقہ
ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم جب
مسکراتے تو آپ کا چہرۂ مبارک اس قدر مہکا کرتا کہ صحابہ کرام علیہم رضوان کیسے ہی غمزدہ کیوں نہ ہوں، آپ کو دیکھ کر وہ بھی مسکراتے اور اپنا غم بھول
جاتے۔
جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس
تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام
اسی اثناء
میں چند واقعات ذکر کئے جاتے ہیں:
1۔امت کو
بشارت اور آپ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی
مسکراہٹ
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے
ہوئے خوشی خوشی باہر تشریف لائے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:حضور !آپ کی مسکراہٹ کی وجہ کیا ہے؟فرمایا: ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا:(حدیث شریف کا مفہوم ہے)آپ کا جو اُمّتی آپ پر دُرودپاک پڑھتا ہے، اللہ پاک اس پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے اور
اس کے گناہ معاف فرماتا ہے اسی وجہ سے آپ
مسکرا رہے تھے کہ آپ کی اُمّت کو بشارت ملی۔
2۔صحابی
کے ساتھ آپ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کا مزاح
حضور اکرم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے
صحابہ علیہم الرضوان کے ساتھ مزاح بھی فرمایا کرتے تھے، لیکن یاد رہے! مزاح وہ ہے جس سے آپ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئے اور دوسرے
کے چہرے پر بھی اور کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو، چنانچہ بیان کیا جاتا ہے: ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس ایک صحابی آئے اور انہوں نے عرض کی:حضور! مجھے اونٹ
چاہئے! آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہم
تو اونٹ کا بچہ دیں گے، کہا:حضور !میں اونٹ کے بچے پر کیسے سواری کروں
گا؟ مجھے اونٹ چاہئے! نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہم توتمہیں اونٹ کا بچہ ہی دیں گے،پھر جب انہوں
نے دوبارہ درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہر اونٹ کسی نہ کسی اونٹ کا بچہ ہی ہوتا ہے! یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی مسکرا دئیے اور وہ صحابی بھی مسکرانے لگے۔
3۔صحابیہ
کے ساتھ آپ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کا مزاح
ایک بار ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ان صحابیہ نے کچھ بات کی، پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان سے فرمایا:تمہارے شوہر وہی ہیں نہ، جن کی آنکھوں میں سفیدی ہے؟صحابیہ نے کہا:حضور !میرے
شوہر کی آنکھوں میں سفیدی نہیں ہے(سفیدی ایک بیماری بھی ہوتی ہے)، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے اور فرمایا:کون سی آنکھ ہے جس میں سفیدی نہیں؟ آنکھ میں ایک حصّہ تو سفید
ہوتا ہی ہے نا۔
4۔اُمّت
کو غازیانہ شان میں دیکھ کر مسکرائے
مراۃالمناجیح میں ہے:ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت اُمِّ حرام بنتِ ملحان رضی اللہ عنہا کے پاس
تشریف لے گئے، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کچھ کھلایا، پھربیٹھ
گئیں اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا سر ٹٹولے لگیں،
حضوراکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سو گئے، پھر ہنستے ہوئے جاگے، حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے عرض کی:حضور! کیا چیز آپ کو ہنساتی ہے؟تو
آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:
میری اُمّت کے کچھ لوگ مجھ پر پیش کئے گئے، اللہ پاک کی راہ میں غازی جو اس سمندر
کی فراخی میں سوار ہوں گے، جیسے تختوں پر
بادشاہ یا بادشاہ کی طرح تختوں پر ، میں
نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم !اللہ
پاک سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل فرما دے۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دعا کی برکت سے حضرت اُم حرام رضی اللہ عنہااللہ پاک کے پیارے
ان غازیوں کی فہرست میں آگئیں۔
5۔اُمّت
کے لئے روئے اور اُمّت کے لئے ہی مسکرائے
ایک بارحضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور اکرم، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسلم پہلے مسکرائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان!یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !آپ کس بات پر تبصرہ فرما رہے ہیں؟ تو
حضور اکرم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا:میرے دو امتی اللہ پاک کے حضور گر پڑے(قیامت کا منظر ارشاد فرما رہے تھے)یعنی گھٹنوں کے بل گر پڑے ، اللہ پاک کے سامنے، ان میں سے ایک نے دوسرے پر مطالبہ کیا :اے اللہ
پاک!اس نے مجھ پر دنیا میں ظلم کیا ہے، میرا
حساب اس سے دلوا، تو جو ظالم تھا، اس نے
کہا:میرے پاس تو کچھ نہیں! اتنا فرمانا ہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، پھر اُمّت کے غمخوار آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرمانے لگے:اللہ پاک اس مظلوم سے کہے
گا: اس کے پاس تو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں، تو اپنے سر کو اٹھا، وہ اٹھائے گا
اپنے سر کو تو سامنے جنت کو دیکھے گا، اللہ پاک اس سے فرمائے گا: توکیا دیکھ رہا ہے
جنت میں؟ تو وہ کہے گا:میں دیکھ رہا ہوں
کہ چاندی کے شہر ہیں اور اس میں سونے کا محلات ہیں تو اللہ پاک سے وہ عرض کرے گا: یہ کس کے لئے ہیں؟ تواللہ پاک فرمائے گا:اس کے لئے جو اس کی قیمت دے دے۔ تو
وہ شخص عرض کرے گا:اس کی قیمت کون دے سکتا ہے؟ تو اللہ پاک فرمائے گا: تو اس کی قیمت
دے سکتا ہے!تو وہ مظلوم کہے گا:میں کیسے دے سکتا ہوں؟ تو اللہ پاک فرمائے گا:تو اپنے
اس بھائی کو معاف کر دے، یہ اس کی قیمت ہو
جائے گی،تو وہ کہے گا:میں اسے معاف کرتا
ہوں، تو اللہ پاک فرمائے گا:اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر جنت کے اندر داخل ہو جا۔یہ فرما کرآپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرانے لگے۔
یعنی روئے تو وہ بھی اُمّت کے غم میں اور مسکرائے وہ بھی امت کے لئے،
ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہم سے کتنی محبت فرماتے تھے، اللہ پاک ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خاطر اپنی نفسانی خواہشات کو ترک کرنے کی توفیق مرحمت
فرمائے۔ اللہ پاک ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اس پیاری ادا(مسکرانے) کو ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے، دوسروں کے ساتھ مسکرا کر خندہ پیشانی کے
ساتھ ملنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین یا رب العالمین
یا الہٰی جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں ان
تبسم ریز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو