جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس
تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام
اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نور بلکہ قاسمِ نور(یعنی نور بانٹنے والے) ہیں۔شفا شریف میں ہے:جب نور والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تھے تو در و دیوار روشن ہو جاتے۔(شمائل ترمذی، شفاء
الباب الثانی)
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ کا بیان
ہے:آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم گفتگو
فرماتے تھے تو آپ کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک نور نکلتا تھا اور جب کبھی
اندھیرے میں مسکرا دیتے تو دندانِ مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی تھی۔(سیرت مصطفی، صفحہ575، شمائل ترمذی)
ام المؤمنین صحابیہ بنتِ صحابی حضرت بی
بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا روایت فرماتی ہیں:
میں سحری کے وقت گھر میں کپڑے سی رہی تھی
کہ اچانک سوئی ہاتھ سے گر گئی اور ساتھ ہی چراغ بھی بجھ گیا، اتنے میں نور والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر میں داخل ہوئے اور سارا گھر نور والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرہ ٔانور کے
نور سے روشن ہو گیا اور گمی ہوئی سوئی مل گئی۔
سوزنِ گمشدہ ملتی ہے تبسم سے تیرے شام کو صبح بناتا ہے اُجالا تیرا(ذوقِ نعت)
(شان ِمصطفے پر 12بیانات، ص97)
صحابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم (موقع کی
مناسبت سے) سب سے زیادہ
مسکرانے والے تھے۔
حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔
عَنْ عَبْدَاللہ
بِنْ الْحَارِثْ قَالَ مَا کَانَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اِلَّا تَبَسُّمَاحضرت عبداللہ بن
حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا صرف تبسم ہوتا تھا یعنی آپ غالب اوقات تبسم فرماتے اور مسکراتے۔
تبسم کے معنی ہیں:مُنہ کھل جاتا ہے، مگر آواز نہیں آتی۔(شانِ مصطفے پر 12بیانات، شمائل ترمذی)
حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں :میں نے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کبھی پورا کھل کر ہنستا ہوا نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کے کوّے دیکھ لیتی۔وَاِنَّمَا کَانَ
یَتَبَسَّمُ آپ تبسم بھی کرتے تھے۔
وضاحت:حضور اکرم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم سے قہقہہ
لگانا، ٹھٹھا مارنا کبھی ثابت نہیں، بہت ہنسنا دل کو غا فل کر دیتا ہے جب کہ مسکرانے سے اپنا دل تازہ اور مخاطب کا دل خوش ہوتا ہے اور موہ لیتا ہے۔(مراۃالمناجیح، جلد
نمبر 8، صفحہ نمبر 74، 81)
حضرت ابو ذر رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں :حضور
اقدس صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا:میں اُس شخص کو خوب جانتا ہوں، جو
سب سے اوّل جنت میں داخل ہو گا اور اس سے بھی واقف ہوں، جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا، قیامت کے دن ایک آدمی دربارِ الہٰی میں حاضر کیا
جائے گا، اس کے لئے یہ حکم ہوگا کہ اس کے
چھوٹے چھوٹے گناہ اس پر پیش کئے جائیں اور بڑے بڑے گناہ مخفی رکھے جائیں، جب اس پر چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے کہ تو نے فلاں دن، فلاں گناہ کئے ہیں، تو وہ اقرار کرے گا، اس لئے کہ انکار کی کوئی گنجائش نہ ہوگی اور اپنے
دل میں نہایت خوفزدہ ہو گا( کہ ابھی تو صغائر ہی کا نمبر ہے، کبائر کا دیکھیں کہ کیا گزرے) کہ اس دوران میں یہ حکم ہو گا کہ اس شخص کو ہر ہر گناہ کے
بدلے ایک نیکی دی جائے تو وہ شخص یہ حکم سنتے ہی بول اٹھے گا: میرے تو ابھی بہت سے گناہ باقی ہیں، جو یہاں نظر نہیں
آتے! حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کا مقولہ فرماکر ہنسے، یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک ظاہر ہو گئے۔ہنسی اس بات پر تھی کہ جن
گناہوں کے اظہار سے وہ ڈر رہا تھا، ان کے
اظہار کا خود طالب ہو گیا۔
منزل کڑی ہے شانِ تبسّم کرم کرے تاروں
کی چھاؤں نور کے تڑکے سفر کریں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:حضور
اقدس صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا:میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے
آخر میں آگ سے نکلے گا، وہ ایک ایسا آدمی
ہو گا، جو زمین پر گھسٹتا ہوا دوزخ سے
نکلے گا، اس کو حکم ہوگا : جا! جنت میں داخل ہو جا! وہ جا کر دیکھے گا کہ لوگوں نے تمام جگہوں پر قبضہ کر رکھا ہے، سب جگہیں پُر ہو چکی ہیں، لوٹ کر بارگاہِ الہٰی میں اس کی اطلاع کرے گا، وہاں ارشاد ہوگا: کیا
دنیاوی منازل کی حالت بھی یاد ہے؟ وہ عرض کرے گا :ربّ العزت خوب یاد ہے! اس پر
ارشاد ہو گا: کچھ تمنائیں کرو، وہ اپنی تمنائیں بیان کرے گا۔ وہاں سے ارشاد ہوگا: تم کو تمہاری تمنائیں اور خواہشات بھی دیں
اورتمام دنیا سے دس گنا زائد عطا کیا، وہ عرض کرے گا:اےاللہ پاک! تو بادشاہوں کا بادشاہ ہو کر مجھ سے تمسخر کرتا ہے(کہ وہاں ذرا سی بھی جگہ نہیں ہو تو تمام دنیا سے دس گنا زیادہ
مجھے عطا کر رہا ہے)۔حضرت ابنِ
مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :میں نےنبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ اس شخص کا یہ مقولہ نقل فرما رہے تھے تو
آپ کو ہنسی آگئی، یہاں تک کہ آپ کے دندانِ مبارک بھی ظاہر ہو گئے۔
واقعہ:حضرت ابنِ ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:حضرت
علی رضی اللہ عنہ کے پاس(ان کے
زمانہ خلافت میں)ایک مرتبہ(گھوڑا وغیرہ) کوئی سواری لائی گئی، آپ نے رکاب میں
پاؤں رکھتے ہوئے بسم اللہ کہا اور سوار ہوئے تو الحمدللّٰہ کہا، پھر یہ دعا پڑھی:سُبْحٰنَ
الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾ وَ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا
لَمُنۡقَلِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾۔ پھر حضرت
علی رضی اللہ عنہ نے الحمدللہ تین مرتبہ کہا، پھر اللّٰہُ اکبر تین مرتبہ کہا، پھر سبحنک انی ظلمت نفسی فاغفر لی فانہ لا یغفرالذنوب
الا انت کہا، اس دعا کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت
ابنِ ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی
تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی اسی طرح دعائیں پڑھی تھیں اور اس کے بعد نبی رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی تبسم فرمایا
تھا، میں نے بھی حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم سے تبسم
کی وجہ پوچھی تھی، جیساکہ تم نے مجھ سے پوچھی تو حضور انور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:اللہ پاک بندے کے اس کے کہنے پر کہ میرے گناہ تیرے سوا
کوئی معاف کر نہیں کر سکتا، خوش ہو کر
فرماتا ہے:میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی شخص گناہ معاف نہیں کر سکتا۔
جس تبسّم نے گلستاں پہ گرائی بجلی پھر
دکھادے وہ ادائے گلِ خنداں ہم کو
حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے
والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوۂ خندق کے دن ہنسے،حتی کہ آپ کے دندانِ مبارک ظاہر ہوگئے،حضرت
عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے پوچھا:کس بات پر ہنسے تھے؟ انہوں نے کہا:ایک
کافر ڈھال لئے ہوئے تھا اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ گو بڑے تیر انداز
تھے،لیکن وہ اپنی ڈھال کو ادھر اُدھر کر لیتا
تھا،جس کی وجہ سے اپنی پیشانی کا بچاؤ کر رہا تھا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ تیر
نکالا، جس وقت اس نے ڈھال سے سر اٹھایا،
فوراً ایسا تیر مارا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور فوراً گر گیا، ٹانگ بھی اوپر کو اُٹھ
گئی، پس حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس قصّہ پر ہنسے، میں نے پوچھا: اس میں کونسی بات پر؟ انہوں نے
فرمایا:حضرت سعد کے اس فعل پر۔
نبی کریم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت سعد
رضی اللہ عنہکی تیراندازی اور کافر کے ماہرانہ کرتب کے باوجود ہدف کا
نشانہ بننے پر فرحت و سرور سے ہنسے کہ اللہ پاک کا دشمن ڈھیر ہو گیا۔(باب ماجاء فی ضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ،
شمائل ترمذی)
حضرت انس رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے:رسول
اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے مجھے ایک دن
کسی کام کے لئے بھیجا، میں نے کہا:اللہ
پاک کی قسم! میں نہ جاؤں گا اور میرے دل میں یہ تھا کہ اس کام کے لئے جاؤں گا، جس کا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حکم دیا، چنانچہ میں روانہ ہو گیا، حتی کہ میں کچھ بچوں کے پاس سے گزرا، جو بازار
میں کھیل رہے تھے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے میرے پیچھے سے میری گردن پکڑی، فرماتے ہیں :میں نے حضور
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف دیکھا، آپ ہنس رہے تھے، فرمایا: اے انس! کیا
تم وہاں جا رہے ہو،جہاں جانے کا میں نے تم
کو حکم دیا تھا،میں نے عرض کی: ہاں! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میں جا رہا ہوں۔(مراۃ المنا جیح،
ج8، ص67)
لو وہ آئے مسکراتے ہم اسیروں کی طرف خرمنِ
عصیاں پر اب بجلی گراتے جائیں گے
معلوم ہوا!نبی
پاک صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا
تبسم کی صورت میں ہوتا تھا اور آپ کی یہ عادت و خصلتِ مبارکہ اس بات کی مقتضی ہے
کہ ہم سے جتنا ہو سکے، اس عادت میں آپ کی متابعت کی کوشش کریں ۔