نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتوں میں ایک بہت پیاری سنت مسکرا کر دیکھنا ہے، حدیثِ پاک میں ہے:اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ ہے۔(ترمذی شریف، حدیث نمبر 1956)

1۔ جب کسی کو مسکراتا دیکھیں تو یہ دعا پڑھئے: اضحک اللہ سنک(اللہ پاک تجھے مسکراتا رکھے)

جیسا کہ روایت میں ہے:ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دربارِ گوہر بارمیں حاضر ہونے کی اجازت مانگی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس (ازواجِ مطہرات میں سے) قریشی عورتیں بیٹھیں ہوئی تھیں، جو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محوِ گفتگو تھیں، زیادہ بخشش کا مطالبہ کررہی تھیں اور ان کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں، جب حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو وہ جلدی سے اُٹھ کر پردے میں چلی گئیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی( جب یہ اندر داخل ہوئے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تبسم فرما رہے تھے، یہ عرض گزار ہوئے:اضحک اللہ سنک یارسول اللہ ( کیا بات ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر تعجب ہے، جو میرے پاس حاضر تھیں کہ انہوں نے جب تمہاری آواز سنی تو وہ جلدی سے اُٹھ کر پردے میں چلی گئیں۔

2۔حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں، جس کو سب سے آخر میں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، وہ شخص بروزِ قیامت حاضر لایا جائےگا، ارشاد ہو گا: اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ اس پر پیش کرو اور بڑے بڑے گناہ ظاہر نہ کرو، اس سے کہا جائے گا : تو نے فلاں فلاں دن یہ کام کئے، وہ مقر ہوگا اور اپنے بڑے بڑے گناہوں سے ڈرتا ہو گا کہ ارشاد ہو گا:اسے ہر گناہ کی جگہ ایک نیکی دو، اب کہہ اٹھے گا :الٰہی! میرے اور بہت سے گناہ ہیں وہ تو سننے میں آئے ہی نہیں!یہ فرما کر حضورِ انور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اتنا ہنسے کہ آس پاس کے دندانِ مبارک ظاہر ہوئے۔(جامع حدیث ، جلد 4 ، فتاویٰ افریقہ، ص 143)

3۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کبھی قہقہہ نہیں لگایا، بلکہ مسکرایا کرتے تھے، چنانچہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :ایک بار رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف فرما تھے، دو بکریاں ایک دوسرے کو سینگیں مار رہی تھیں، ایک نے دوسری کو ٹکر مار کر گرا دیا، یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرادئیے، پوچھا گیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! آپ کس وجہ سے مسکرائے؟ فرمایا: مجھے اس بکری پر تعجب ہوا، اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! قیامت کے دن اس کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔(مسند امام احمد، جلد8، ص 120، ح 21567)

4۔حضرت امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا تم نے حضرت ابو بکر(رضی اللہ عنہ ) کی مدح میں کچھ کہا ہے؟ انہوں نے عرض کی، جی ہاں! ارشاد فرمایا:کہو میں سن رہا ہوں۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار پڑھے:

وہ بلند غار میں دو میں سے دوسرے تھے حالانکہ دشمن ان کے ارد گرد پھرتے تھے

جب وہ پہاڑ پر چڑھے تھے وہ رسول اللہ کے محبوب ہیں

لوگ جانتے ہیں کہ کوئی شخص ان کے برابر نہیں

راوی کہتے ہیں: اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس قدر ہنسے کہ آپ کی مبارک داڑھیں ظاہرہوگئیں اور ارشاد فرمایا: حسان! تم نے سچ کہا! وہ ایسے ہی ہیں، جیسے تم نے کہا۔(طبقات ابن سعد، ج 3، ص 129)

5۔حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں ( ہجرت کے موقع پر قبا میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پہنچا، آپ کے سامنے روٹی اور کھجوریں تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھ سے فرمایا :قریب آؤ! کھاؤ، میں کھجوریں کھانے لگا تو آپ نے ارشاد فرمایا: تم کھجوریں کھا رہے ہو،حالانکہ تمہاری آنکھ دُکھ رہی ہے؟ میں نے عرض کی:میں دوسری طرف سے کھا رہا ہوں،یہ سن کر پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرا دیئے۔(ابن ماجہ، ج 4،ص 91 ، حدیث 3443)

جس کی تسکین سےروتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام