حضرت
انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہمراہ
چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے
تھے۔ ایک دم ایک بدوی نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو پکڑ لیا اور اتنے زبردست
جھٹکے سے چادر مبارک کو اس نے کھینچا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نرم و
نازک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آ گئی پھراس بدوی نے یہ کہا کہ اﷲ کا جو مال آپ
کے پاس ہے آپ حکم دیجئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ حضور رحمتِ عالم صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم نے جب اس بدوی کی طرف تو جہ فرمائی تو کمال حلم و عفو سے اس کی
طرف دیکھ کر ہنس پڑے اور پھر اس کو کچھ مال عطا فرمانے کا حکم صادر فرمایا۔ (بخاری
ج۱ ص۴۴۶
باب ماکان یعطی النبی المولفۃ)
حضرتِ
سیدناانس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ''خاتِمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃُ
الِّلْعٰلمین، شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین، مَحبوبِ ربُّ
العلمین، جنابِ صادق و امين صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم حضرتِ سیدتنا ام
حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہما کے پاس تشریف لاتے تووہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ
وآلہ وسلم کی خدمت میں کھاناپیش کرتیں۔ آپ حضرت عُبَادہ بن صَامِتْ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی زوجہ تھیں۔ ایک مرتبہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا پھر آپ صلی اللہ
تعالی علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس دیکھنے لگیں تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ
وآلہ وسلم سو گئے پھر جب بیدارہوئے تو مسکرانے لگے۔ حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا نے
عرض کیا،'' یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کس بات پر ہنس رہے
ہیں؟''فرمایا،''میر ی امت کے کچھ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہوئے میرے سامنے پیش
کئے گئے جو تخت نشین با دشاہوں کی طر ح اس سمند ر کے بیچ میں سوار ہوں گے۔''توحضرت
ام حرام رضی اللہ عنہا نے عرض کیا،'' یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ عزوجل
سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شامل فرمادے ۔''
(صحیح
البخاری، 2/275،رقم:2877)
ایک
روز سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ ایک حجرہ میں تشریف
فرما تھے۔ کسی بات پر امہات المومنین زور زور سے گفتگو کر رہی تھیں اور ہنس رہی تھیں۔
خود پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اس محفل میں شریک تھے۔ اسی اثناء میں حضرت عمر
رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تمام ازواج رسول
یک دم خاموش ہوگئیں (جیسے کوئی ہیں ہی نہیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دم بدلی
ہوئی حالت دیکھی تو ہنس پڑے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مسکرانے کی وجہ پوچھی۔
تو فرمایا :عمر !یہ تم سے بہت ڈرتی ہیں۔
ابھی تمہاری آمد سے پہلے خوب ہنس کھیل رہی تھیں۔ اور اب دیکھو جیسے ان میں سے کسی
کے منہ میں زبان ہی نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا :بے وقوف مجھ
سے ڈرتی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی۔ جن سے میں تو کیا عام مسلمان ڈرتے ہیں۔(بخاری)