ہم اگر سیرتِ مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مطالعہ کریں تو ہزارہا مسائل اور مشکلات کے باوجود ہمیں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہرہ انور پر مسکراہٹ اور تبسّم کا دیدار ہوتا ہے۔

چنانچہ حضرت عبدُاللہ بن حارِث رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نےرَسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سےزیادہ مسکرانے والاکوئی نہیں دیکھا۔(شمائل ترمذی، ص136)

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں

اُس تبسّم کی عادت پہ لاکھوں سلام

(حدائق بخشش)

لہٰذا جب بھی کسی سے ملیں ، گفتگو کریں اُس وَقت حتَّی الامکان مُسکراتے رہئے۔ اگر خُشک مزاجی یا بے توجُّہی سے ملنے کی خصلت ہے تو مِلنساری اورمُسکرا کر ملنے کی عادت بنانے کیلئے خوب کوشِش کیجئے بلکہ مُسکرانے کی عادت پکّی کرنے کیلئے تاریخ اسلامی سے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مسکرانے کے پانچ واقعات ملاحظہ کیجیے۔

(1) اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے خَزِیْرہ (ایک عربی کھانا جس میں گوشت کے ٹکڑے پانی میں پکاتے ہیں جب پانی تھوڑا رہ جاتا ہے تو آٹا ملا کر اتار لیتے ہیں) پکا کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس لائی (وہاں حضرتِ سودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھَا بھی موجود تھیں) ۔میں نے حضرت سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھَا سے کہا : اسے کھاؤ ! انہوں نے انکار کیا۔ میں نے دوبارہ کہا: اسے کھاؤ ورنہ میں اسے تمہارے چہرے پر مَل دُوں گی۔ انہوں نے پھر انکار کیا تو میں نے اپنا ہاتھ خَزِیْرہ میں ڈالا اور اسے حضرت سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھا کے چہرے پر مَل دیا۔ حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسکرانے لگے پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے دستِ اقدس سے حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھَا کے لئے خَزِیْرہ ڈال کر ان سے فرمایا: تم بھی اسے عائشہ کے منہ پر مَل دو اور پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسکرانے لگے۔

(مسند ابی یعلی ، ج4 ، حدیث : 4476)

(2)ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دربارِ گوہر بار میں حاضر ہونے کی اِجازت مانگی،اس وقت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس(اَزواجِ مُطَہّرات میں سے)قریشی عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں جوآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے محوِگفتگو تھیں،زیادہ بخشش کا مطالبہ کر رہی تھیں اوران کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ جب حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اجازت مانگی تو وہ جلدی سے اٹھ کر پردے میں چلی گئیں۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی،(جب یہ اندر داخل ہوئے تو) آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تَبسُّم فرما رہے تھے۔یہ عرض گزار ہوئے:اَضْحَکَ اللّٰہُ سِنَّکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یَارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اللہ تعالیٰ آپ کو مسکراتا رکھے (کیا بات ہے؟)۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:مجھے اِن عورتوں پر تعجب ہے جو میرے پاس حاضر تھیں کہ انہوں نے جب تمہاری آواز سنی تو جلدی سے اٹھ کر پردے میں چلی گئیں۔حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ عرض گزار ہوئے کہ یَارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ وہ آپ سے ڈرتیں۔ پھر(حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نےان کی جانب مُتَوجّہ ہو کر)کہا: اے اپنی جانوں سے دُشمنی کرنے والیو ! تم مجھ سے ڈرتی ہو لیکن رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نہیں ڈرتیں؟انہوں نے کہا:ہاں کیونکہ آپ(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرح نہیں بلکہ غُصّے والے اور سخت گیر ہیں۔حُضُورِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےفرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے،شیطان تمہیں کسی راستے پرچلتا ہوا دیکھتا ہے تو وہ تمہارے راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے ۔

(صحیح بخاری ، باب صفۃ ابلیس و جنودہ ،حدیث:3294)

(3)حضرت عبدﷲ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ مکی مدنی آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :میں اس شخص کو اچھی طرح جانتا ہوں کہ جو سب سے آخر میں جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہو گا،وہ شخص اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا جہنم سے باہر نکلے گا تو اللہ تعالٰی اُس سے فرمائے گا : جا ! جنت میں داخل ہو جا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا تو اُسے گمان گزرے گا کہ شاید جنت بھری ہوئی ہے۔وہ واپس لوٹ کر عرض گزار ہو گا : اے ربّ ! جنت تو بھری ہوئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا : جا ! جنت میں چلا جا۔وہ جنت میں داخل ہو گا تو اُسے دوسری مرتبہ گمان گزرے گا کہ شاید جنت بھری ہوئی ہے، وہ واپس لوٹ کر پھر عرض کرے گا: اے ربّ ! جنت بھری ہوئی ہے۔ چنانچہ ا ﷲ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا اور جنت میں داخل ہو جا کیونکہ تیرے لیے جنت میں دنیا کے برابر بلکہ اُس کا دس گنا ہے۔وہ عرض کرے گا: اے اﷲ ! کیا تو مجھ سے تمسخر کرتا ہے یا مجھ سے ہنسی فرماتا ہے حالانکہ تو بادشاہ ہے۔حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے دیکھا کہ اِس پر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہنسے حتی کہ آپ کی ڈاڑھیں مبارک چمک گئیں۔(صحیح بخاری ، باب صفۃ الجنۃ والنار ،حدیث: 6202)

(4)حضرت سَیِّدُنا ابو ہُرَیْرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ اَقْدَس میں حاضر ہوکر عَرْض کی: یارسولَ الله صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! میں ہلاک ہوگیا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرمایا : کس چیز نے تمہیں ہلاکت میں ڈال دِیا؟اس نے عر ض کی:میں رَمَضان میں اپنی عورت سے صُحبت کر بیٹھا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرمایا: کیا غلام آزاد کرسکتے ہو؟عَرْض کی:نہیں۔فرمایا : کیا لگاتار دو(2)مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو ؟عَرْض کی: نہیں۔فرمایا : کیا ساٹھ(60)مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟عَرْض کی:نہیں۔اتنے میں خدمتِ اَقْدَس میں کھجور لائے گئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے(اُس شخص سے)فرمایا: اِنہیں خَیْرات کردو۔عَرْض کی:کیا اپنے سے زیادہ کسی محتاج پرخَیْرات کروں ؟حالانکہ مدینے بھر میں کوئی گھر ہمارے برابر محتاج نہیں۔یہ بات سُن کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہنسےیہاں تک کہ دندانِ مُبارک ظاہر ہوئے اورفرمایا :جاؤ یہ کھجوریں اپنے گھروالوں کو کھلادو (سمجھو کہ تمہارا کَفّارہ ادا ہوگیا) (صحیح بخاری ، باب اذا جامع فی رمضان ولم یکن لہ شیء ،حدیث : 1936 )

(5) حضرتِ سیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک نَجرانی چادر اَوڑھے ہوئے تھے جس کے کَنارے موٹے اور کُھردرے تھے۔ اچانک ایک بَدوی (یعنی عَرَب شریف کے دیہاتی) نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چادر مبارک کو پکڑ کراتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک گردن پر چادر کی کَنار سے خَراش آ گئی ، وہ کہنے لگا : اللہ عَزَّوَجَلَّ کا جو مال آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس ہے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حکم دیجئے کہ اُس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُس کی طرف متوجّہ ہوئے اور مسکرا دیے پھر اُسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔

(صَحیح بُخاری ، حدیث: 5738)