مسکرانا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت ہے۔

نکھری نکھری پیاری پیاری مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو:۔

محسن کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ فصیح و بلیغ تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو زیادہ میٹھی ہوتی تھی۔(ا حیا العلوم 2/1248)

چنانچہ رحمت عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے :انا افصح العرب و انّ اہل الجنۃ یتکلمون فیھا بلغۃ محمد صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم یعنی میں عرب والوں سے زیادہ فصیح ہوں اور بے شک جنتی جنت میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں گفتگو کریں گے۔( الشفا بتعریف حقوق المصطفی 1/80، المعجم الاوسط 6/385،حدیث:9147)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مسکرانے والے تھے :حضور نبی اکرم شفیع امم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ تبسم فرمانے والے ،صحابہ کرام علیہم الرضوان کے سامنے بہت مسکرانے والے ،ان کی باتوں پر خوش ہونے والے ،ان کے ساتھ مل جل کر رہنے والے تھے۔

( سنن ترمذی،5/366،حدیث:2661)

بسا اوقات اس قدر ہنستے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں ظاہر ہو جاتیں۔

( صحیح مسلم ،حدیث:186،ص:116)

مذکورہ حدیث کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:" حسنے سے مراد تبسم( یعنی مسکرانا) ہے نہ کہ ٹھٹھا مارنا اور قہقہ ،کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قہقہ مار کر کبھی نہ ہنسے۔(مرآۃ المناجیح 2/396)

مسکرانا صدقہ ہے :حضرت سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ہادی راہ نجات سرور کائنات شاہ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان رحمت نشان ہے:" اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا تمہارے لیے صدقہ ہے، اور نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا صدقہ ہے۔

(سنن ترمذی 3/384،حدیث :1963)

مغفرت کر دی جاتی ہے: حضرت سیدنا نفیع اعمٰی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے مصافحہ فرمایا( یعنی ہاتھ ملائے )اور مسکرانے لگے ۔پھر پوچھا جانتے ہو میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے عرض کی نہیں۔ فرمانے لگے نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شرف ملاقات بخشا تو میرے ساتھ ایسے ہی کیا پھر مجھ سے پوچھا جانتے ہو میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے عرض کی نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان ملاقات کرتے وقت مصافحہ کرتے (یعنی ہاتھ ملاتے ہیں) اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے اللہ تعالی کے لیے مسکراتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ہی ان کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔( المعجم الاوسط 5/366،حدیث:7635)

دلچسپ بات پر مسکراہٹ :صحابہ کرام علیہم رضوان بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ایک اعرابی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔ اس وقت مکی مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ نور بار کا رنگ شریف بدلہ ہوا تھا۔ جبکہ صحابہ کرام اس سبب سے نا واقف تھے۔ چنانچہ اس اعرابی نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ پوچھنا چاہا تو صحابہ کرام علیہم رضوان نے ان سے کہا :"اے اعرابی ایسا نہ کرو کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے انور کا رنگ بدلا ہوا دیکھتے ہیں، اور ہمیں اس کا سبب بھی معلوم نہیں"۔ اعرابی نے کہا:" مجھے چھوڑ دو اس ذات کی قسم جس کے جس نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسا کر ہی رہوں گا۔ چنانچہ اس نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے خبر پہنچی ہے کہ دجال لوگوں کے پاس ثرید ( ایک عمدہ کھانا) لائے گا جبکہ وہ بھوک سے مر رہے ہوں گے۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ کہ میں اس کا ثرید نہ کھاؤں اور کمزوری کی وجہ سے ہلاک ہو جاؤں یا پھر اس کا ثرید کھالوں یہاں تک کہ جب پیٹ بھر جائے پھر اللہ عزوجل پر ہی ایمان کا اقرار کروں اور اسے جھٹلاؤں صحابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے ہیں کہ رسول اکرم شاہ بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر اتنا مسکرائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک داڑھیں ظاہر ہوگئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا نہیں بلکہ اللہ جس شے کے سبب دوسرے مسلمانوں کو بےنیاز کر دے گا تجھے بھی اس کے سبب بےنیاز کر دے گا۔

(نثر الدرر لابی سعد ،2/97)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا پڑے :حضرت امیہ بن مخشی صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک مرد کھا رہا تھا تو اس نے اللہ کا نام لیا یہاں تک کہ کھانے کا ایک لقمہ رہ گیا تو جب اس نے اپنی طرف اٹھایا پھر پڑھا بسم اللہ اولہ آخرہ تو نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے۔ پھر فرمایا شیطان نے اس کے ساتھ کھانا زائل نہیں کیا۔ تو جب اس نے اللہ تعالی کے نام کا ذکر کیا شیطان نے قئے( الٹی )کر دی جو اس کے پیٹ میں تھا ۔( ریاض الصالحین ص 29 ، مکتبۃ المدینہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرا دیتے تھے: سماک بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شرکت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا :ہاں بہت مرتبہ آپ جس جگہ صبح کی نماز پڑھتے تھے۔ جب آفتاب طلوع ہوتا تو وہاں سے اٹھتے۔ صحابہ کرام باتوں میں مشغول ہوتے اور زمانہ جاہلیت کے کاموں کا تذکرہ کرتے اور مسکراتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرا دیتے تھے۔

( شرح صحیح مسلم،6/771)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوران گفتگو مسکراتے تھے :حضرت سیدنا ام دردا ء رضی اللہ عنہا حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کے متعلق فرماتی ہیں کہ وہ ہر بات مسکرا کر کیا کرتے۔ جب میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا میں نے حسن اخلاق کے پیکر، ملنساروں کے رہبر، غمزدوں کے یاور ،محبوب رب اکبر صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوران گفتگو مسکراتے رہتے تھے۔