رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے مرتبئہ لا متناھی(جس کی کوئی انتہا نہ ہو) پر فائز ہیں جس کی تصریح
رب تعالی خود قرآن پاک میں یوں بیان فرمائی کہ اِنّكَ
لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ اور بے شک تم
یقیناً عظیم اخلاق پر ہو، بلکہ اخلاق کو بھی بلندی اسی در سے ملی ہے اور اخلاق کو
بھی اس بات پر فخر و ناز ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق میرے ساتھ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق لا متناھیہ کو کما حقہ تو بیان کیا جا ہی
نہیں سکتا انہی اخلاق میں سے ایک بے مثال خُلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
حسین و جمیل مسکراہٹ بھی ہے، چنانچہ:
1۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جو سب سے آخر میں
دوزخ سے نکلے گا وہ ایسا آدمی ہو گا جو گھسٹتا ہوا ٓئے گا۔ اس سے کہا جائے گا :جا
جنت میں داخل ہوجا۔ وہ جنت میں جاکر دیکھے گا کہ لوگوں نے تمام منازل پر قبضہ کر
رکھا ہے۔ وہ واپس آکر عرض کرے گا کہ اے میرے رب لوگوں نے تمام مقام پر قبضہ کر لیا
ہے۔ اب تو کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔ ارشاد ہوگا کہ وہ دنیا تجھے یاد ہے جس میں تُو
رہتا تھا کہ وہ کتنی بڑی تھی؟ وہ عرض کرے گا یاد ہے! ارشاد ہو گا: کہ تمہیں تمہاری
تمنّائیں بھی دیں اور تمام دنیا سے دس گناہ زیادہ بھی دیا۔ حضور فرماتے ہیں، وہ
شخص اللہ عزوجل سے عرض کرے گا کہ اے اللہ تو عظیمُ الشان بادشاہ ہو کر تمسخُر(مزاق)
فرماتا ہے؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اُس شخص کے اِس جواب پر
اتنا مسکرائے کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔
(ذکر جمیل، صفحہ
130، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
2۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے
موٹے اور کُھردرے تھے۔ایک دم ایک بَدوی(دیہاتی) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو
پکڑلیا اور اتنے زبردست جھٹکے سے چادر مبارک کو اس نے کھینچا کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کی نرم و نازک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آگئ پھر اس بدوی نے یہ کہا
کہ اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم دیجئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائےحضور
رحمت عالَم صلی اللہ وسلم نے جب اُس بدوی کی طرف توجہ فرمائی تو کمال حلم و عفو سے
اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیے اور پھر اس کو کچھ مال عطا فرمانے کا حکم صادر فرمایا۔
(سیرت مصطفی، صفحہ
نمبر 604،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
3۔جنگ بدر کے موقع پر جب انصار میں سے قبیلئہ خزرج کے سردار
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ خدا کی قسم ہم وہ جاں نثار ہیں کہ
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہو تو ہم سمندر میں کود پڑیں، اسی طرح انصار کے
ایک معزز سردار حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے جوش میں آکر عرض کیا کہ یا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں
گے کہ آپ اور آپ کا خدا جاکر لڑیں، بلکہ ہم لوگ آپ کے دائیں سے، بائیں سے، آگے سے،
پیچھے سے لڑیں گے انصار کے اِن دونوں سرداروں کی تقریر سن کر حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے چمک اٹھا۔
(سیرت مصطفی، صفحہ
نمبر 212،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
4۔ایک شخص نے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی: یارسول
اللہ میں ہلاک ہو گیا، فرمایا: تمہارا کیا معاملہ ہے؟ عرض کی: میں نے رمضان میں
اپنی عورت سے صحبت کر لی، فرمایا: غلام آزاد کر سکتا ہے؟ عرض کی: نہیں، فرمایا:
لگاتار دو مہینے کے روزے رکھ سکتا ہے؟ عرض کی: نہیں، فرمایا: ساٹھ مسکینوں کو
کھانا کھلا سکتا ہے؟ عرض کی: میں نہیں پاتا، اتنے میں کھجور کا ٹوکرہ خدمت اقدس
میں لایا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں لو! اور خیرات کردو!، عرض
کی: اپنے سے زیادہ کس محتاج پر؟ مدینے بھر میں کوئی گھر ہمارے برابر محتاج نہیں،
رحمت عالَم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرائے یہاں تک کہ دندان مبارک ظاہر ہو گئے،
اور فرمایا: جا! اپنے گھر والوں کو کھلا دے۔ (صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 259،مطبوعہ
قدیمی کتب خانہ)
جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس
پڑیں
اُس تبسُّم کی عادت پہ لاکھوں
سلام