صاحب خلق عظیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عظیم الشان صفات میں سے ایک جلیل قدر صفت تبسم فرمانا ہے ،نبی متبسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بکثرت تبسم ریزی کی وجہ سے علمائے امت نے ان کا ایک نام المتبسم بھی شمار کیا۔

یاد رہے اس طرح ہنسنا کہ صرف دانت ظاہر ہوں آواز پیدا نہ ہو یہ”تبَسُّم“ کہلاتا ہے۔

(مرآۃ المناجیح ج6، ص281)

تبسم سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے لبریز چند واقعات:۔

1:ایک شخص بغیر بسم اﷲ پڑھے کھانا کھا رہا تھا، جب ایک لقمہ باقی رہ گیا، تو بِسْمِ اللہِ اَوَّلہٗ وَاٰخِرَہٗ کہکر کھا لیا رسولاﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تبسم کیا اور فرمایا کہ ’’شیطان اس کے ساتھ کھا رہا تھا، جب اس نے اﷲ عزوجل کا نام لیا تو جو کچھ اس کے پیٹ میں تھا اُگل دیا۔

(سنن ابی داؤد 3/ 388،ا لحدیث: 3768)

2: ایک مرتبہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک کھال پر آرام فرما تھے تو آپ کو پسینہ آگیا، ام سلیم رضی اللہ عنہا پسینہ کو شیشی میں بھرنے لگیں، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ام سلیم ! یہ کیا کر رہی ہو ؟ بولیں :آپ کے پسینے کو عطر میں ملاؤں گی، یہ سن کر نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرانے لگے۔(سنن نسائی ص1001، حدیث: 5373 )

واہ اے عطرِ خدا ساز مہکنا تیرا

خوبرو ملتے ہیں کپڑوں میں پسینہ تیرا

(ذوق نعت ص26)

3: حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ بروز قیامت ایک آدمی دربار الٰہی میں لایا جائے گا، حکم ہوگا کہ اس کے صغیرہ گناہ اس پر پیش کئے جائیں کہ تو نے فلاں دن فلاں گناہ کئے ہیں تو وہ اقرار کرے گا ، وہ کبیرہ گناہوں کی باری کا سوچ کر خوفزدہ ہوگا ،اسی اثناء میں حکم ہوگا کہ اس کے ہر گناہ کے بدلے ایک ایک نیکی دی جائے وہ شخص یہ سنتے ہی بول اٹھے گا کہ میرے تو ابھی بہت سے گناہ باقی ہیں جو یہاں نظر نہیں آتے۔ یہ بیان کرتے ہی حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرا دئیے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہوئے۔

(شمائل ترمذی ،باب ماجاء فی ضحك رسول الله)

4:حضرت عبدﷲ ابن مغفل فرماتے ہیں کہ خیبر کے دن میں نے ایک چربی کا تھیلا پایا تو میں اس سے لپٹ گیا میں نے کہا کہ آج میں اس میں سے کسی کو کچھ نہ دوں گا پھر میں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرا رہے تھے۔( مرآۃ المناجیح ج5،ص 578)

5:ابو رمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا، آپ نے میرے والد سے پوچھا : یہ تمہارا بیٹا ہے ؟ میرے والد نے کہا : جی رب کعبہ کی قسم ! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : واقعی ؟ انہوں نے کہا : میں اس کی گواہی دیتا ہوں ،تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرائے۔

(سنن ابو داؤد ص1139، حدیث: 4495 دار ابن کثیر)

معزز قارئین کرام! ہمیں بھی موقع محل کی مناسبت سے حضور سرور کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ادا کو ادا کرتے ہوئے مسکراتے رہنا چاہیے، اللہ پاک ان تبسم ریز ہونٹوں کے صدقے مسلمانوں کو ہمیشہ ہنستا مسکراتا رکھے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین۔