رمضان شریف ہو یا کوئی بھی اسلامی تہوار یہ کبھی سردیوں اور کبھی گرمیوں میں آئے گا کیونکہ موسم کا تعلق سورج سے اور اسلامی تہواروں کا تعلق چاند سے ہے۔

شمسی سال اور عیسوی سال میں فرق: شمسی (یعنی عیسوی / انگریزی) سال قمری (یعنی ہجری / اسلامی) سال سے 10 دن 21 گھنٹے بڑا ہوتا ہے۔ یوں اسلامی تہوار ہر سال 10 یا 11 دن جلد آتا ہے۔

اگر اس بار 23 مارچ 2023 ءکو رمضان شریف کا آغاز ہوا تو آئندہ سال 10 یا 11 دن قبل یعنی 12 یا 13 مارچ کو رمضان شروع ہوگا۔ تقریباً 33 سالوں پر اس کا دور مکمل ہو گا یعنی رمضان شریف 33 سال بعد 2056 ءمیں دوبارہ 13 مارچ کے لگ بھگ آئے گا۔(رپورٹ: شعبہ اوقات الصلاۃ (دعوت اسلامی)،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


5اپریل2023ء کورکن شوریٰ حاجی محمد امین عطاری نے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ  کراچی میں جامعۃ المدینہ بوائز کے ناظمین کا مدنی مشورہ فرمایا۔

مدنی مشورے میں رکنِ شوریٰ نے شرکا کو دعوتِ اسلامی کے 12دینی کاموں کو طلبہ ٔ کرام میں نافذ کرنے کے سلسلے میں تنظیمی اسٹریکچر بتایا نیز ناظمین کو جامعۃُ المدینہ کے انتظانی اُمور کو مزید اچھے انداز میں چلانے کے حوالے سے ٹپس بتائیں اور ڈونیشن جمع کرنے کا ذہن دیتے ہوئے اسلامی بھائیوں کو اہداف دیئے جس پر انھوں نے اچھے خیالات کااظہار کیا۔(کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


ٹرانسلیشن ڈیپارٹمنٹ (دعوت اسلامی)کے زیر اہتمام16 تا 18 مارچ 2023ء تک عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں ٹریننگ سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں ٹرانسلیشن ڈیپارٹ کے تمام اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

تین دن تک ہونےوالے سیشن میں 16 مارچ کو محمد وسیم عطاری نے ”English+OL“ جبکہ محمد رفیق عطاری اور عبد الماجد عطاری نے ”Regional Languages“ کے متعلق گفتگو کیں۔ سیشن کے دوسرے دن سید حمزہ نے ”Formation پر کلام کیا۔

اسی طرح18 مارچ کو شیخ الحدیث والتفسیرمفتی محمد قاسم عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے ”Soft skill“ کے حوالے سے اسلامی بھائیوں کی تربیت کی اور اہم نکات بیان کئے۔ اس سے قبل مولانا سید ریحان علی عطاری نے ”شرعی تفتیش“ کے موضوع پر بات چیت کی اور اہم مسائل سے آگاہ کیا۔


اللہ پاک نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام بھیجے ہیں۔سب انبیائے کرام علیہم السلام بہت عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اللہ پاک کے بہت پیارے اور مقرب نبی ہیں۔اللہ پاک نے انہیں بہت سے اوصاف کے ساتھ موصوف فرمایا ہے،جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16، مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور نبی رسول تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ خاص صفت ہے کہ آپ کو اللہ پاک سے بغیر کسی واسطے کے کلام کرنے کا شرف حاصل ہوا اور آپ اللہ پاک کے قرب کے مقام پر فائز ہوئے،جیسا کہ پارہ 16 سورۂ مریم آیت نمبر 52 اور 53 میں اللہ پاک فرماتا ہے:وَنَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا،ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی بھی دیا جو نبی تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک کی بارگاہ میں بہت وجاہت حاصل تھی اور آپ مستجابُ الدعوات تھے۔اس کا قرآن شاہد ہے۔پارہ 22 سورۂ احزاب آیت نمبر 69میں ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ (۶۹)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی شانِ نبوت اور ایمانِ کامل کا تو کیا کہنا! پارہ 23 سورۂ صٰفّٰت آیت نمبر 122 میں ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ (۱۲۲)ترجمہ:بےشک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

اسی طرح اللہ پاک کی بارگاہ سے ان کے لئے انعام و اکرام کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے۔جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ(۳۵) (پ19،الفرقان:35) ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر بنایا۔

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ(پ15،بنیٓ اسرآءیل:101) ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَاٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) (پ6،النسآء:153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں فیضانِ حضرت موسیٰ عطا فرمائے۔ آمین


اللہ پاک نے تمام انبیائے کرام علیہم السلام کو بہترین اوصاف سے نوازا ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی عظیم مرتبے سے نوازا اور ان کو کلیمُ اللہ کا لقب عطا فرمایا،جس کا مطلب ہے:اللہ سے کلام فرمانے والا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر اللہ پاک سے ہم کلام ہوتے جہاں آپ کو اپنی قوم کو اللہ پاک سے ڈرانے کا حکم ہوتا تھا۔

وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک خاص صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک سے بغیر کسی واسطے کے کلام کا شرف حاصل ہوا اور اللہ پاک کے قُرب کے مقام پر فائز ہوئے۔جیسا کہ پارہ 16سورۂ مریم آیت نمبر 52 اور 53میں اللہ پاک فرماتا ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جونبی تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک کی بارگاہ میں بہت وجاہت حاصل تھی،آپ مستجابُ الدعوات تھے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں فیضانِ حضرت موسیٰ عطا فرمائے۔اٰمین

صفاتِ موسیٰ از بنتِ اصغر مغل،فیضان ام عطار شفیع کابھٹہ سیالکوٹ

مقدس جماعت میں سے پانچ رسول علیہم الصلوۃ والسلام ایسے ہیں جن کا راہِ حق میں صبر دیگر نبیوں اور رسولوں سے زیادہ ہے،اسی لیے انہیں بطورِ خاص ”اولو العزم رسول“ کہا جاتا ہے۔جن سے پانچ رسول علیہم الصلوۃ والسلام مراد ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں:(1)حضورِ اقدس ﷺ(2)حضرت ابراہیم علیہ السلام(3)حضرت موسیٰ علیہ السلام(4) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور(5) حضرت نوح علیہ السلام۔

قرآنِ کریم میں ان مبارک ہستیوں کا ذکرِ خیر کیا گیا ہے۔چنانچہ پارہ 21 سورۃُ الاحزاب آیت نمبر7 میں ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ۪-وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًاۙ(۷) ترجمہ کنز الایمان:اے محبوب! یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے ان کا عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے اور ہم نے ان سے بڑا مضبوط عہد لیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مختصر تعارف:حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران ہے۔آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔آپ نے 120 سال عمر پائی۔ (البدایۃ والنہایہ،1/326، 329) (تفسیرِ صاوی،2/696 ملتقطاً)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان وعظمت کی چند جھلکیاں:اللہ پاک کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام انتہائی شان و شوکت والے نبی ہیں۔قرآنِ کریم کے کئی پاروں اور آیاتِ مقدسہ میں بڑے شاندار انداز کے ساتھ آپ کا ذکرِ خیر بیان ہوا ہے۔آپ کا مبارک نام قرآنِ کریم میں 136 بار ذکر کیا گیا ہے۔آپ کو اللہ پاک کی طرف سے ایک آسمانی کتاب تورات عطا کی گئی۔آپ نے اللہ پاک سے کئی مرتبہ کلام کرنے کا شرف پایا۔ربِّ کریم نے آپ کو طُور پہاڑ پر بلا کر پہاڑ کی طرف رُخ کروایا اور وہاں تجلی فرمائی۔آپ کو ربِّ کریم نے کئی معجزات عطا کئے۔آپ نے حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات بھی فرمائی۔آپ ہی کی بدولت بنی اسرائیل پر آسمان سے من وسلویٰ اتارا گیا۔ان پر نازل ہونے والا عذاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دُعا سے دور ہوا۔

صفاتِ موسیٰ قرآنِ کریم میں:کتاب”عجائب القرآن“ میں لکھا ہے:ایک ہاتھ لمبا، ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا،اس مبارک پتھر کے ذریعے آپ کے دو معجزات کا ظہور ہوا۔

اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو در حقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا وہ اس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔اللہ پاک نے اس واقعہ کو قرآنِ کریم میں اس طرح بیان فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کا اس شے سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں نے کہا تھا۔اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

دوسرا معجزہ میدانِ تیہ میں اس پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مار دیا تو اس میں سے 12 چشمے جاری ہو گئے تھے جس کے پانی کو چالیس(40)سال تک بنی اسرائیل میدانِ تیہ میں استعمال کرتے رہے۔فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-(پ1،البقرۃ:60)ترجمہ کنز العرفان:ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالتے تھے تو ایک دم آپ کا ہاتھ روشن ہو کر چمکنے لگتا تھا، پھر جب آپ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال دیتے تو وہ اپنی اصلی حالت پر ہو جایا کرتا۔(عجائب القرآن، ص23)وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲) (پ16، طٰہٰ:22)ترجمہ کنزالعرفان:اور اپنے ہاتھ کو اپنے بازو سے ملاؤ بغیر کسی مرض کے خوبصورت ہو کر، ایک معجزہ بن کر نکلے گا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ مبارک سے رات میں چاند اور دن میں سورج کی روشنی کی طرح نور ظاہر ہوتا تھا۔(تفسیرِ مدارک)جب حضرت موسیٰ علیہ السلام دوبارہ اپنا ہاتھ بغل کے نیچے رکھ کر بازو سے ملاتے تو وہ اپنی پچھلی حالت پر آ جاتا۔(تفسیر صراط الجنان،6/ 181)

مذکورہ واقعات سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم پر بہت مہربان تھے۔انہیں راہِ خدا میں بہت ستایا گیا۔اچھوں کی صحبت کی برکات حاصل ہوتی ہیں۔جو اللہ پاک کے نیک بندوں سے دشمنیاں مول لیتا ہے تو ذلت و رسوائی اسے ہر طرف سے گھیر لیتی ہے اور وہ اللہ پاک کے قہر و غضب کی آگ میں گرفتار ہو جاتا ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنے نیک،متقی اور عاجز بندوں کے صدقے نیک بندوں کا دل و جان سے ادب و احترام کرنے اور ان کے دامنِ کرم سے مضبوطی کے ساتھ وابستہ رہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین


کفر و شرک، گمراہی اور بد عملی کے ماحول میں لوگوں کو اللہ پاک کی وحدانیت پر ایمان لانے،شرک سے روکنے،ایمان لانے پر جنت کی بشارت دینے اور کفر و انکار پر عذاب کی وعید سنانے کے لیے اللہ پاک نے اپنے مقرب بندوں کو نبوت و رسالت کا منصب عطا فرما کر بھیجا۔انبیا علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیرو ں،موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں،جنہیں اللہ پاک نے وحی کے نور سے روشنی بخشی،حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ اور اولو العزم رسولوں میں سے ایک رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔

نام و لقب:آپ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ، لقب کلیمُ اللہ اور صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام ”صفیُّ اللہ“ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔

نسب نامہ:حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں اور آپ کا نسب نامہ یہ ہے:موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عازر بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔

ولادت:آپ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات سے چار سو برس اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سات سو برس بعد پیدا ہوئے اور ایک سو بیس برس عمر پائی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اوصاف مبارک:

1) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے۔ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا (۵۱) (پ16،مریم:51) ترجمہ کنز العرفان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

2) آپ علیہ السلام رب کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے۔ارشادِ باری ہے: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ (۶۹) (پ22،الاحزاب:69) ترجمہ کنز العرفان: اور موسیٰ اللہ کےہاں بڑی وجاہت والاہے۔

3) آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے۔ارشادِ باری ہے: اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ (۱۲۲) (پ23،الصّٰفّٰت:122) ترجمہ کنزالعرفان: بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

4)آپ علیہ السلام کو کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔آپ بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہوئے کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔قرآن میں ارشاد ہوتاہے:وَنَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ14،مریم:52،53)ترجمہ کنزالعرفان:ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

اس سے اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت کا پتا لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں سے نہ مل سکے۔تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل!البتہ اب نبوت کا باب چونکہ بند ہو چکا ہے اس لیے اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی بے ادبی کرنے سے محفوظ فرمائے،ان کے مقام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے،تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی سچی اور حقیقی محبت عطا فرمائے اور ان کے فیض سے مالا مال فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ


اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے بے شمار انبیائے کرام مبعوث فرمائے۔انبیائے کرام علیہم السلام کائنات کی وہ عظیم ترین ہستیاں ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی۔مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سیرتِ الانبیاء“صفحہ نمبر 29 پر ہے:نبی اُس بشر (یعنی انسان) کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے وحی بھیجی ہو اور اُن میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون اور خدائی احکام لے کر آئے اُسے رسول کہتے ہیں۔

انبیائے کرام میں سے ایک برگزیدہ نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔آپ علیہ السلام کا مبارک نام:موسیٰ،لقب:کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بن عمران صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں۔(سیرت الانبیاء، ص527)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اوصاف:

قرآنِ مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کئی اوصاف بیان کیے گئے ہیں،ان میں سے چند اوصاف یہ ہیں:

1)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے۔ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

2) آپ علیہ السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے۔ ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنز الایمان:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

3) آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53)ترجمہ کنزالایمان:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

اس سے اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت کا پتا لگا کہ ان کی دعاسے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں سے نہ مل سکے۔تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے! البتہ نبوت کا باب چونکہ بند ہو چکا اس لیے اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔

4)آپ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے۔فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی درست تعریف بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ہمیں ان کی ادنیٰ سی بھی بےادبی و گستاخی سے محفوظ فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ


نبی اس بشر کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے وحی بھیجی ہو اور ان میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون اور خدائی احکام لے کر آئے اسے رسول کہتے ہیں۔(سیرتُ الانبیاء، ص29)

اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لیے،کفر و شرک،گمراہی اور بد عملی کے ماحول میں لوگوں کو اللہ پاک کی وحدانیت پر ایمان لانے، شرک سے روکنے،ایمان لانے پر جنت کی بشارت اور کفر و انکار پر عذاب کی وعید سنانے کے لیے اپنے انبیا کو مبعوث فرمایا۔اللہ پاک نے تمام ہی انبیا کو بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے۔انبیا و مرسلین انتہائی اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک ہوتے ہیں۔کسی کو بھی عبادت و ریاضت کے ذریعے نبوت نہیں مل سکتی۔قرآن و احادیث میں انفرادی و مجموعی طور پر انبیا و مرسلین کے بےشمار فضائل بیان ہوئے ہیں۔انہی میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام انتہائی شان و شوکت والے اور اللہ پاک کے مقرب نبی ہیں۔قرآنِ پاک کے کئی پاروں اور آیات میں بڑے شاندار انداز کے ساتھ آپ علیہ السلام کا ذکرِ خیر ہوا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے۔ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16، مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ خاص صفت ہے کہ اللہ پاک سے بغیر کسی واسطے کے کلام کرنے کا شرف حاصل ہوا اور اللہ کے قرب کے مقام پر فائز ہوئے جیسا کہ ارشادِ باری ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52، 53) ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

اس سے اللہ کے پیاروں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں سے نہیں ملتی۔البتہ اب نبوت ختم ہو چکی تو اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ مقام حاصل تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے صدقے ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا فرما دی گئی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے۔ارشادِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ23،الصّٰفّٰت:122) ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت حاصل تھی اور آپ مستجابُ الدعوات بھی تھے۔قرآنِ پاک بھی اس کا شاہد ہے۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ (۶۹)(پ22، الاحزاب:69) ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت سے معجزات عطا کیے گئے، جن میں سے عصا،یدِ بیضاء وغیرہ بھی شامل ہیں۔میدانِ تیہ میں جب پتھر پر حضرت موسیٰ نے اپنا عصا مارا تو اس میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے تھے جس کے پانی کو چالیس سال تک بنی اسرائیل میدانِ تیہ میں استعمال کرتے رہے،اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے:فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-(پ1،البقرۃ:60) ترجمہ:ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو۔

اللہ کریم ہمیں انبیا علیہم السلام کا فیضان نصیب فرمائے۔ہمیں ان کی بے ادبی سے محفوظ فرمائے اور ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فیض سے مالامال فرمائے۔اٰمین


اللہ پاک نے انسانوں کی رہنمائی کے لیےمختلف انبیا و رسل علیہم السلام کو روشن نشانیوں اور معجزات کے ساتھ بھیجا۔سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔نبی اس بشر کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے وحی بھیجی اور ان میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون اور خدائی احکام لے کر آئے اسے رسول کہتے ہیں۔(سیرتُ الانبیاء،ص29)

انبیا و مرسلین کی تعداد کے متعلق مختلف روایات ہیں،اس لیے ان کی صحیح تعداد اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے۔ (سیرتُ الانبیاء،ص 30)ان میں سے پانچ اولوا العزم ہیں۔ان میں سے ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔آپ علیہ السلام پر تورات نازل ہوئی۔یہ سب سے پہلی آسمانی کتاب ہے۔آپ سے پہلے انبیا علیہم السلام کو صحیفے بھی ملتے تھے۔اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کئی اوصاف سے مزین فرمایا۔ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

(1)برگزیدہ بندے:حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے تھے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا(پ16،مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بےشک وہ چُنا ہوا بندہ تھا۔

(2)رسول ہونا:آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے رسالت کے منصب سے بھی نوازا۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ کنز العرفان:اور وہ نبی رسول تھا۔

(3)کلیمُ اللہ ہونا:آپ علیہ السلام کلیمُ اللہ ہیں یعنی آپ علیہ السلام نے اللہ پاک سے بلا واسطہ کلام فرمایا۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النسآء:164)ترجمہ کنز العرفان:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقۃً کلام فرمایا۔

(4)تورات شریف عطا ہونا:آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے تورات شریف عطا فرمائی۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ(پ19،الفرقان:35)ترجمہ کنز العرفان:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔

(5)اللہ پاک کی بارگاہ میں خاص قرب والے:آپ علیہ السلام بارگاہِ الٰہی میں بڑے قرب والے ہیں۔اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)16،مریم:52)ترجمہ کنز العرفان:اورہم نے اسے اپنا راز لینے کے لیے مقرّب بنایا۔

(6)روشن نشانیوں کا عطا ہونا:اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو نبوت پر دلالت کرنے والی 9 نشانیاں عطا فرمائیں:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15، بنی اسرائیل:101)ترجمہ کنز العرفان:اوربے شک ہم نےموسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

(7) بنی اسرائیل کا فضیلت والا ہونا:اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطافرمائی:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)25، الدخان:32)ترجمہ کنز العرفان:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔

(8)مستجابُ الدعوات ہونا:آپ علیہ السلام مستجابُ الدعوات تھے۔اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کی دعا سے آپ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت سے نوازا:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:53)ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے اپنی رحمت سے اس کے بھائی ہارون کو بھی دیا جو نبی تھا۔

(9) روشن غلبے والا ہونا:اللہ پاک نے آپ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی قوم کو فرعونیوں سے نجات عطا فرما کر روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6،النسآء:153)ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

(10)شرم و حیا والا ہونا:ویسے تو حیا تمام ہی انبیائے کرام علیہم السلام کا وصف رہا ہے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شرم و حیا کے متعلق نبیِ پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔(سیرت الانبیاء،ص528)(بخاری،2/442،حدیث:3404)


صفات”صفت“کی جمع ہےاورصفت کے معنیٰ خوبی یا وصف۔اللہ پاک نے اپنے رسولوں، نبیوں اور پیغمبروں کو بے شمار صفات سے نوازا ہے۔اللہ پاک کے رسولوں میں ایک رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔اللہ پاک نے انہیں بے شمار صفات و معجزات عطا فرمائے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دس اوصاف قرآن و تفسیر کی روشنی میں ملاحظہ کیجئے:

(1)حق و باطل میں فرق:پارہ1 سورۃُ البقرۃ کی آیت نمبر 53 میں ارشاد ہوتا ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) ترجمہ کنز العرفان: اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تا کہ تم ہدایت پاؤ۔

(2)کلیمُ اللہ:حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کوہِ طور پر بلا واسطہ کلام فرمایا۔ (تفسیر صراط الجنان، 1/380)

(3)قربِ الٰہی:حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش پر آپ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی۔(تفسیر صراط الجنان، 6/118)

(4)چُنا ہوا بندہ:پارہ 16سورۂ مریم کی آیت نمبر 51 میں ارشاد فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)ترجمہ کنز العرفان:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

(5)معجزہ:حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک عظیم معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنا عصا پتھر پر مارا تو پانی کے بارہ چشمے جاری ہو گئے۔(تفسیر صراط الجنان، 1/132)

(6)عصائے موسیٰ:بنی اسرائیل کے جادوگروں نے جب رسیاں ڈالیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کے حکم سے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا تووہ اسی وقت بہت بڑا سانپ بن کر ان رسیوں اور لاٹھیوں کو نگلنے لگا جو جادو کی وجہ سے اژدھے بن کر دوڑتے نظر آرہے تھے،جب وہ ان سب کو نگل گیا اور اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے دستِ مبارک میں لیا تو وہ پہلے کی طرح عصا تھا۔(تفسیر صراط الجنان، 7/94)

(7)دریا کا شق ہونا:پارہ 19سورۃ الشعراء کی آیت نمبر 63، 64 میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ کنز العرفان: فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَؕ-فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِۚ(۶۳) وَ اَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیْنَۚ(۶۴)ترجمہ:توہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر عصا مارو تو اچانک وہ دریا پھٹ گیا تو ہر ہر راستہ بڑے پہاڑ جیسا ہو گیااور وہاں ہم دوسروں کو قریب لے آئے۔

(8)یدِ بیضاء:حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ کے دستِ مبارک سے رات میں چاند اور دن میں سورج کی روشنی کی طرح نور ظاہر ہوتا تھا۔(تفسیر صراط الجنان، 6/189)

(9)پرورش موسیٰ:اللہ پاک سورۃ القصص کی آیت نمبر 7 میں ارشاد فرماتا ہے:وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِیْهِۚ-فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْۚ-اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۷)ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو الہام فرمایا کہ اسے دودھ پلا پھر جب تجھے اس پر خوف ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور خوف نہ کر اور غم نہ کر بے شک ہم اسے تیری طرف پھیر لائیں گے اور اسے رسولوں میں سے بنائیں گے۔

(10)حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان:اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھ والوں کو دریا سے سلامت نکال کر بچا لیا اور فرعون اور اس کی قوم کو اس طرح غرق کر دیا کہ جب بنی اسرائیل سارے کے سارے دریا سے باہر ہو گئے اور تمام فرعونی دریا کے اندر آ گئے تو اللہ پاک کے حکم سے دریا مل گیا اور پہلے کی طرح ہو گیا۔(تفسیر صراط الجنان، 7/100)


حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے پیارے نبی ہیں۔آپ کے والد کا نام عمران اور والدہ کا نام یوحانذہے۔آپ علیہ السلام کے بے شمار اوصاف قرآنِ کریم میں اللہ ربُّ العزت نے بیان فرمائے ہیں، ان میں سے پانچ اوصاف کو قرآن و کتب تفسیر کی روشنی میں مختصر طور پر پیش کرتی ہوں:

(1)پہلا وصف:حضرت موسیٰ کلیمُ اللہ علیہ السلام سے اللہ پاک نے بلا واسطہ کلام فرمایا۔یہ کلیمُ اللہ کی صفت آپ کے سوا کسی کو اس دنیا میں عطا نہ کی گئی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کا کلام حقیقۃً سنا،جو اس بات کا انکار کرے وہ گمراہ ہے کہ آیت کا منکر ہے۔(تفسیر نعیمی،6/ 101)چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)6،النسآء:164)ترجمہ کنز العرفان: اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ ربُّ العزت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کلام فرمایا۔کتابوں میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کلام سننے کے لیے با طہارت، پاکیزہ لباس پہن کر اور روزہ رکھ کر طورِ سینا میں حاضر ہوئے۔اللہ پاک نے ایک بادل نازل فرمایاجس نے بارہ میل کی مقدار پہاڑ کو ڈھک لیا۔آپ کے لیے آسمان کھولا گیا۔آپ نے عرشِ الٰہی کو صاف دیکھا۔اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے کلام فرمایا اور آپ کو کلامِ الٰہی کی لذت نے اس کے دیدار کا مشتاق بنا دیا۔(تفسیر صراط الجنان،جلد 7)

(2)دوسرا وصف:اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو محبوبیتِ عامہ بخشی تھی۔چنانچہ جب آپ کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فرعون کی دائی آپ کے گھر رہنے لگی۔جب آپ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو فرعون کی دائی آپ کو دیکھ کر بے اختیار آپ پر عاشق ہو گئی۔اسی طرح جب سانوم نامی شخص کو آپ کی زیارت کروائی گئی تو وہ آپ علیہ السلام کے قدموں پر آنکھیں ملنے لگا اور آپ پر ایمان لے آیا۔سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا یہی شخص ہے۔اسی طرح فرعون اور اس کی بیوی نے جب آپ علیہ السلام کو دیکھا تو آپ کا حسن و جمال دیکھ کر آپ پر فدا ہو گئے۔(تفسیر نعیمی، 1/320،321)

(3)تیسرا وصف:حضرت موسیٰ علیہ السلام مستجابُ الدعوات ہیں۔اللہ پاک نے آپ کی دعا سے بنی اسرائیل کو مقامِ تیہ میں وہ لباس عطا فرمایا جو نہ خراب ہوا نہ میلا۔بارہ چشمے پانی کے عطا فرمائے اور منّ و سلویٰ عطا فرمایا۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى(پ1،البقرۃ:57)ترجمہ کنز الایمان:اور تم پر منّ و سلویٰ اتارا۔نیز آپ علیہ السلام کی دعا سے ہی بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی اور بنی اسرائیل کو طرح طرح کی بے شمار نعمتیں عطا کیں۔نیزآپ علیہ السلام کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا فرمائی۔(تفسیر صراط الجنان، جلد6)

(4)چوتھا وصف:حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اللہ پاک نے تورات نازل فرمائی اور یہ عبرانی زبان میں نازل ہوئی۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَان(پ1،البقرۃ:53)ترجمہ کنز الایمان:اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور فرقان دی۔

تفسیر:کتاب کے نزول کا پسِ منظر یوں ہے کہ بنی اسرائیل نے نذر مانی تھی کہ اگر ہم کو فرعون سے نجات مل گئی تو ہم اللہ پاک کی اطاعت کریں گے۔چنانچہ جب بنی اسرائیل کو نجات مل گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کی نذر انہیں یاد دلائی تو بنی اسرائیل نے کہا کہ ہمیں جان و دل سے قبول ہے مگر ہمیں رب کے احکام کی خبر نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی تو جواب ملا کہ کوہِ طور پر آنا، تمہیں تورات عطا کی جائے گی۔تو آپ کوہِ طور پر تشریف لے گئے اور آپ پر یکبارگی دس صحیفے نازل ہوئے۔ (تفسیر نعیمی، 1/331)

(5)پانچواں وصف:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک نے یدِ بیضاء یعنی روشن ہاتھ عطا فرمایا تھا۔چنانچہ جب آپ علیہ السلام اپنا مبارک ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالتے تو آپ کا ہاتھ روشن ہو کر چمکنے لگتا۔پھر جب اپنے گریبان میں ہاتھ ڈالتے تو وہ اپنی اصل حالت پرآ جاتا۔اس معجزے کو اللہ پاک نے سورۂ طٰہٰ میں بیان فرمایا ہے۔ارشادِ ربُّ العزت ہے:وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍاٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲)16،طٰہٰ:22) ترجمہ کنز الایمان:اپنا ہاتھ اپنے بازو سے ملا خوب سپید نکلے گا بے کسی مرض کے ایک اور نشانی۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دستِ مبارک سے رات میں چاند اور دن میں سورج کی روشنی کی طرح نور ظاہر ہوتا تھا۔(تفسیر صراط الجنان، 6/89)


اللہ کریم اپنے پاکیزہ کلام میں ارشاد فرماتا ہے:تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ(پ3،البقرۃ:253)ترجمہ:یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا۔

انبیائے کرام علیہم السلام نبوت میں تو برابر ہیں مگر مقام و مرتبہ میں بعض بعض سے افضل ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے برگزیدہ بندے نبی و رسول ہیں۔قرآنِ کریم میں ان کی صفات بیان فرمائی گئی ہیں،جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

(1)چُنے ہوئے نبی:آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے اور برگزیدہ بندے ہیں۔قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)

(2)اللہ کے رسول:رسول انہیں کہتے ہیں جو نئی شریعت یا نئی کتاب لے کرآئیں یا انہیں کافروں کی طرف مبعوث فرمایا گیا ہو۔رسول دیگر انبیا سے افضل ہوتے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے رسول ہیں۔فرمایا:وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)

(3)وجاہت والے:ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(4)مستجابُ الدعوات:پارہ 22 سورۃُ الاحزاب آیت نمبر 69 وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ کے تحت تفسیرِ خازن میں ہے: آپ علیہ السلام اللہ کی بارگاہ میں بڑی وجاہت والے تھے یعنی بڑے مقام والے تھے“اور اس مقام میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آپ علیہ السلام مستجابُ الدعوات تھے۔یعنی آپ علیہ السلام کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔(تفسیرصراط الجنان)

(5، 6)رازدار و مقرب:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)(پ16،مریم:52)ترجمہ:اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا۔“معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام اللہ پاک کا قرب پانے والے اور رازدار ہیں۔

(7)کامل ایمان والے:قرآنِ کریم میں فرمایا گیا:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ23، الصّٰفّٰت: 122) ترجمہ:بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے ہیں۔

(8)کلیمُ اللہ:اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا۔ارشاد فرمایا:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6،النسآء:164)ترجمہ: اوراللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(9)اولواالعزم نبی:اولواالعزم وہ پانچ انبیائے کرام علیہم السلام ہیں جو تمام نبیوں سے افضل ہیں۔ان اولواالعزم انبیا میں ایک حضرت موسیٰ کلیمُ اللہ علیہ السلام بھی ہیں۔تفسیر جلالین مع صاوی میں اس آیت”شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰۤى اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِؕ- (پ25،الشّوریٰ:13)ترجمہ:تمہارے لیے دین کی وہ راہ ڈالی جس کا حکم اس نے نوح کو دیا اور جو ہم نے تمہاری طرف وحی کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ دین ٹھیک رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو “کے تحت لکھا ہے:یہاں صرف ان پانچ انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر اس لیے فرمایا کہ ان کا رتبہ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام سے بڑا ہے۔یہ اولواالعزم ہیں اور ان کی مستقل شریعت ہے۔(تفسیرصراط الجنان)

(10)روشن غلبہ و تسلّط:اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6،النسآء:153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کوروشن غلبہ دیا۔

جب کلیمُ اللہ کے اتنے اوصاف و فضائل ہیں تو حبیبُ اللہ ﷺ کے کتنے فضائل و کمالات ہوں گے!اللہ کریم ہمیں اپنے آخری نبی ﷺ کی سیرتِ مطہرہ پر عمل پیرا ہونے کی تو فیق عطا فرمائے۔اٰمین یا ربَّ العٰلمین