محمد اسماعیل عطاری ( درجہ رابعہ، جامعہ المدینہ فیضان بخاری کراچی،پاکستان)
ہر مسلمان عاقل بالغ مرد و عورت پر روزانہ پانچ وقت کی نماز
فرض ہے اس کی فرضیت (یعنی فرض ہونے) کا انکار کفر ہے۔ جو جان بوجھ کر ایک نماز ترک
کرے وہ فاسق سخت گناہ گار و عذاب نار کا حقدار ہے۔
پیارے آقا صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری امت
پر (دن رات میں) پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور میں نے یہ عہد کیا ہے کہ جو اِن
نمازوں کے اُن کے وقت کے ساتھ پابندی کرے گا میں اس کو جنت میں داخل فرماؤں گا اور
جو پابندی نہیں کرے گا تو اس کے لئے میرے پاس کوئی عہد نہیں۔ (ابو داؤد ،1 /188 ،حديث:430)
علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں پانچوں
نمازوں میں سب سے افضل نماز عصر ہے پھر نمازِ فجر پھر عشا پھر مغرب پھر ظہر ۔(فیض القدیر ،2 /53)موضوع سے
متعلق نماز عصر کے فضائل ملاحظہ کیجئے:
(1) حضرت سیدنا ابو بصرہ غِفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں
پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہذا جو پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا
(یعنی Double) اجر ملے گا ۔(مسلم، ص322،حدیث:1927)حضرت مفتی احمد یار
خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :یعنی پچھلی
اُمتوں پر بھی نمازِ عصر فرض تھی مگر وہ اِسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے
،تم ان سے عبرت پکڑنا۔ (مراٰۃالمناجیح ،2/166)
(2) صحابی ابن صحابی حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ
عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس
کی نماز عصر نکل گئی (یعنی جان بوجھ کر نماز عصر چھوڑے) گویا اس کے اہل و عیال و
مال وتر ہو( یعنی چھین لیے) گئے ۔(بخاری ،1 /202 ،حدیث:
552)
(3) حضرت سیدنا
عُمارَہ بن رُوَیبَہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے)
سے پہلے نماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نماز پڑھی) وہ ہرگز جہنم میں داخل
نہ ہوگا۔(مسلم، ص250 ،حدیث: 1436)
(4) حضرت سیدنا ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :تم میں
رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجر اور عصر کی نمازوں میں جمع ہو جاتے
ہیں پھر وہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں اللہ پاک باخبر ہونے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے تم
نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ عرض کرتے ہیں ہم نے انہیں نماز پڑھتے
چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔(بخاری ،1 /203 ،حدیث:
555)
(5) تابعی بزرگ
حضرت سیدنا اَبُو المَلِیْح رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں ایک ایسے روز کے بادل
چھائے ہوئے تھے ہم صحابی رسول حضرت سیدنا بُرَیْدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں
تھے آپ نے فرمایا نماز عصر میں جلدی کرو کیونکہ سرکار صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم
نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے نماز عصر چھوڑ دی اس کا عمل ظبط ہوگیا۔( بخاری ،1 /203
،حدیث: 556)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پانچوں نمازیں کماحقہٗ پڑھنے کی
توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
نمازوں
کے اندر نمازِ عصر کو ایک خاص اہمیت حاصل ہےکہ اللہ ربُّ العزت
نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا: حٰفِظُوْا عَلَى
الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ(۲۳۸)ترجَمۂ کنزُ الایمان: نگہبانی
کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی۔ (پ2، البقرۃ: 238) نمازِ عصر کا الگ سے ذکر
فرما کر اس کی اہمیت کو واضح کیا۔ بخاری شریف میں ہے کہ اَلصَّلوٰۃُ الوُسطیٰ سے
مراد نمازِ عصر ہے۔ (مسلم،ص248،حدیث:1422)
نمازِ
عصر فرض ہونے کی وجہ: نمازِ عصر سب سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السّلام نے ادا
فرمائی اللہ پاک نے اپنے محبوب کی اس ادا کو اُمّتِ مسلمہ پر فرض کر دیا۔
(فیضانِ نماز،ص29)
نمازِ عصر کے فضائل: آئیے
اب ہم نمازِ عصر کے چند فضائل سنتے ہیں:
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں :جب مردہ قبر
میں داخل ہوتا ہے، تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے، وہ آنکھیں ملتا ہوا اُٹھ
بیٹھتا ہے اور کہتا ہے: ذرا ٹھہرو! مجھے نماز تو پڑھنے دو۔ ( ابنِ ماجہ 4/503،
حدیث: 4272)مراٰۃ المناجیح میں حدیثِ پاک کے اس حصے (ذرا ٹھہرو! مجھے نماز تو
پڑھنے دو۔) کے تحت ہے:یعنی اے فرشتو! سوالات بعد میں کرنا ، عصر کا وقت جارہا ہے
مجھے نماز پڑھ لینے دو۔ (مراٰۃ المناجیح
،1/142تا 143)
(2) حضورِ اکرمصلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش
کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو پابندی سے اسے ادا کرے گا اسے دگنا
(یعنی Double) اجر ملے گا۔ (مسلم، ص322،حدیث:1927)
(3) حضرتِ
سیِّدُنا عبدُ اللہ بن
عمر رضی اللہُ
عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے رسول صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کی نمازِ عصر نکل گئی (یعنی جو جان بوجھ
کر نمازِ عصر چھوڑے) گویا اُس کے اَہل وعیال و مال ’’وَتر‘‘ ہو (یعنی چھین لئے)
گئے۔ (بخاری ،1 /202 ،حدیث: 552، شرح
مسلم للنووی،5/126)
(4)ایک اور جگہ
ارشادِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ جس نے نمازِعصر چھوڑدی اُس کا عمل ضَبط ہوگیا۔(بخاری
،1/203،حدیث: 553)
(5)حضرت
سیِّدُنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصطَفٰے
جانِ رحمت صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا :جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے
اور ڈوبنے) سے پہلے نماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نما ز پڑھی) وہ ہر گز جہنم
میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم ،ص250،حدیث: 1436)
اللہ پاک سے ہم دعا کرتے ہیں کہ ہمیں نماز عصر کے
ساتھ ساتھ تمام نمازیں باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ صفِ اول میں ادا کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
انبیاعلیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں
میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات
ہیں۔ جنہیں اللہ پاک نے وحی کے نور سے
روشنی بخشی، حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ
بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ یقیناً
اللہ پاک نے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث کرنے کے مقاصد رکھے، جو قرآن پاک میں
بھی بیان فرمائے۔ جیسے کہ
(1) اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔ اللہ پاک کا ارشاد
ہے:وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ
بِاِذْنِ اللّٰهِؕ ترجمۂ کنزالعرفان :اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا
مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(پ 5،نساء:64)
(3،2) یہ ایمان و اطاعت پر لوگوں کو جنت کی بشارت اور کفر و
نافرمانی پر جہنم کی وعید سنا دیں۔وَ
مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-فَمَنْ اٰمَنَ وَ
اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۴۸)ترجمۂ کنزالعرفان: اور ہم رسولوں کواسی حال میں بھیجتے
ہیں کہ وہ خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے ہوتے ہیں تو جو ایمان لائیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان پرنہ کچھ خوف
ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (پ7،انعام:48)
(7،6،5،4) لوگوں کو
گمراہی سے نکالیں۔هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا
مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ
الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ
مُّبِیْنٍۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں
انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں
اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں اور بےشک وہ اس سے پہلے ضرور کُھلی
گمراہی میں تھے۔(پ 28،جمعہ:2)
(8) دین اسلام کو دلائل اور قوت دونوں اعتبار سے دیگر ادیان
پر غالب کر دیا جائے۔ هُوَ الَّذِیْۤ
اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ
كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(۳۳)ترجَمۂ کنزُالعرفان: وہی ہے جس نے اپنا رسول
ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک
ناپسند کریں ۔(پ 10،توبہ:33)
(9) بارگاہ الٰہی میں لوگوں کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا
یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ
عَزِیْزًا حَكِیْمًا(۱۶۵)ترجمۂ کنزالعرفان: (ہم نے ) رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے (بھیجے) تاکہ رسولوں
(کو بھیجنے) کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کے لئے کوئی عذر (باقی )نہ رہے اور اللہ
زبردست ہے، حکمت والا ہے۔(پ6،النساء:165)
(10) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو قرآن اور
شرعی احکام پہنچا دیں۔كَذٰلِكَ
اَرْسَلْنٰكَ فِیْۤ اُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَاۤ اُمَمٌ لِّتَتْلُوَاۡ
عَلَیْهِمُ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ هُمْ یَكْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان:اسی طرح ہم نے تم کو اس امت میں بھیجا جس سے پہلے امتیں ہو
گزریں کہ تم انہیں پڑھ کر سناؤ جو ہم نے تمہاری طرف وحی کی اور وہ رحمٰن کے منکر
ہورہے ہیں۔(پ 13،رعد:30)
مذکورہ آیات میں
انبیاء علیہم السلام کے تقریبا دس مقاصدِ بعثت بیان کیے گئے ہیں یعنی جن لوگوں نے
نیک اعمال کیے انہیں جنت کی بشارت دی اور جنہوں نے برے اعمال اور کفر و شرک کیا
انہیں جہنم کی وعید سنائیں۔ ان پر اللہ کی آیتیں پڑھ کر انہیں گمراہی سے نکالیں
اور دین اسلام کو دلائل سے دوسرے ادیان پر
غالب کر دیں۔ ان کو قرآن کریم میں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس سے نصیحت
حاصل کریں اور اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا کریں۔اللہ پاک ہمیں ان سے نصیحت حاصل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان سے محبت کرنے کی اور اللہ ہمیں حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کا سچا پکا غلام بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی لامین صلی اللہ علیہ وسلم
تُو ہے خورشیدِ رسالت پیارے، چھپ گئے تیری ضیا میں تارے
انبیا اور ہیں سب مہ پارے ،تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں
اللہ پاک نے کئی مقاصد کے لیے انبیاء اکرام علیہم الصلاۃ
والسلام کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اللہ کے
آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام
نے ان مقاصد کی ادائیگی کے لئے کما حقّہ کردار ادا کیا۔ ان مقاصد میں سے کچھ یہ
ہیں:
(1) پیغام توحید: دعوت و توحید نبوت کے مقاصد میں سے ایک اہم ترین مقصد ہے۔
تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے اس دعوت کو اپنی اپنی امتوں کی طرف
پہنچایا۔ اللہ پاک فرماتا ہے: قُلْ
اِنَّمَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ
مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۸)ترجَمۂ کنزُالایمان: تم فرماؤ مجھے تو یہی وحی
ہوتی ہے کہ تمہارا خدا نہیں مگر ایک اللہ تو کیا تم مسلمان ہوتے ہو۔(پ 17،انبیا:108)
(2) جو لوگ غیر
اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کو دلائل و براہین سے غیر اللہ کے معبود باطل ہونے کے
بارے میں بتانے کے لئے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: قَالَ
اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكُمْ شَیْــٴًـا وَّ لَا
یَضُرُّكُمْؕ(۶۶) اُفٍّ لَّكُمْ وَ
لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۶۷) ترجَمۂ
کنزُالایمان:کہا تو کیا اللہ کے سوا ایسے کو
پوجتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے اور نہ نقصان پہنچائے تُف ہے تم پر اور اُن بتوں پر جن
کو اللہ کے سوا پوجتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں ۔(پ 17 ، انبیا :67،66)
(3) مخلوق کو بتانا
کہ عالَم میں موجود ہر چیز اللہ کی بنائی ہوئی ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے:الَّذِیْ جَعَلَ
لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً۪-وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ
مَآءً فَاَخْرَ جَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: اورجس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا
اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔(پ 1،بقرہ:22)
(4) مؤمنین کو
خوشخبری دینے کے لئے۔ یعنی مؤمنین کے راہِ ہدایت پر ہونے اور ان کو آخرت میں رب
العزت کی جانب سے نعمتیں ملنے کی خوشخبری دینے کے لیے۔ اللہ پاک فرماتا ہے:وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا
الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ-كُلَّمَا
رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًاۙ-قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا
مِنْ قَبْلُۙ-وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًاؕ-وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ
مُّطَهَّرَةٌۗۙ-وَّ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور خوشخبری دے انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ان
کے لیے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا
جائے گا صورت دیکھ کر کہیں گے یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں پہلے ملا تھا اور وہ صورت
میں ملتا جلتا انہیں دیا گیا اور ان کے لیے ان باغوں میں ستھری بیبیاں ہیں اور وہ
ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔(پ 1،بقرہ:25)
(5) کافروں کو اللہ
کے عذاب سے ڈرانے کے لیے۔ اللہ پاک فرماتا ہے:اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ
كُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِهِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَهَبًا وَّ لَوِ
افْتَدٰى بِهٖؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَّ مَا لَهُمْ مِّنْ
نّٰصِرِیْنَ۠(۹۱) ترجَمۂ کنزُالایمان:وہ جو کافر ہوئے اور کافر ہی مرے ان میں کسی سے زمین بھر
سونا ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اگرچہ اپنی خلاصی کو دے ان کے لیے دردناک عذاب ہے
اور ان کا کوئی یار نہیں۔(پ 3،آل عمران:91)
(6) اللہ کے احکام بتانے کے لیے۔اللہ پاک فرماتا ہے :یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو
سود دونا دون نہ کھاؤ۔(پ 4،آل عمران:130)
(7) مؤمنوں کو
تقوے کا حکم دینے کے لیے۔ اللہ پاک فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا
اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا
تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲) ترجَمۂ کنزُالایمان:اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اُس سے ڈرنے کا حق ہے اور
ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان۔(پ 4،آل
عمران:102)
(8) کافروں کے ذہن میں موجود باطل شبہات کے رد کے لیے۔ اللہ
پاک فرماتا ہے :وَ قَالَتِ
الْیَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗؕ-قُلْ
فَلِمَ یُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور یہودی اور
نصرانی بولے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں (ف۶۲) تم فرمادو پھر تمہیں کیوں تمہارے گناہوں پر عذاب فرماتا ہے۔(پ
6،مائدہ:18)
(9)شعائر اللہ بتانے کے لیے۔ اللہ پاک فرماتا ہے:اِنَّ الصَّفَا وَ
الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِۚ ترجمۂ کنزالایمان: بےشک صفا اور
مروہ اللہ کے نشانوں سے ہیں۔(پ 2،بقرہ:158)
(10) انبیاء کی بعثت
(بھیجنے) کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ ان کو دیکھ کر ان کو اپنے لیے نمونہ سمجھیں
تاکہ وہ راہِ خداوندی کو پا سکیں۔ اللہ پاک فرماتا ہے:لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ
رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک تمہیں رسول
اللہ کی پیروی بہتر ہے۔(پ21،احزاب :21)
محمد عثمان (درجہ سابعہ،جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ
گوجرانوالہ،پاکستان)
انبیائے کرام کو دنیا میں بھیجنے کے بہت سے مقاصد بیان ہوئے
ہیں جن میں سے دس مقاصد درجہ ذیل ہیں:۔ قرآن پاک میں اللہ کا ارشاد ہے: كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً- فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ
مُنْذِرِیْنَ۪-وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: لوگ ایک دین پر
تھے پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے اور ان کے ساتھ سچی کتاب
اتاری کہ وہ لوگوں میں ان کے اختلافوں کا فیصلہ کردے۔(پ 2،بقرہ:213)
(1) سب لوگ مؤمن تھے مگر پھر اختلاف کر بیٹھے لہذا رب نے
خوشخبریاں دینے کے لئے پیغمبر بھیجے یا ایک زمانہ میں سب لوگ کافر ہو چکے تھے رب
نے پیغمبر بھیجے۔( تفسیر نعیمی ،2/352)
(2) پیغمبروں کو
کتاب دے کر اس لئے بھیجا گیا تاکہ اللہ پاک یا وہ کتاب یا پیغمبر لوگوں میں فیصلہ کر دیں۔( تفسیر نعیمی ،2/353)
(3) حضرت آدم علیہ السلام سےحضرت ادریس علیہ السلام تک
تقریباً سارے لوگ مؤمن تھے۔ پھر زمانہ ادریس علیہ
السّلام سے ان میں اختلاف پیدا ہوا تو اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو ڈرانے اور
خوشخبری سنانے کے لئے کتابیں اور صحیفے دے کر بھیجا۔( تفسیر نعیمی ،2/354)
(4) ہر پیغمبر کے
ساتھ کتاب یا صحیفہ ضروری ہے خواہ نیا ہو یا پرانا۔ کتاب اور پیغمبر لوگوں کے
فیصلہ کے لیے ہی تشریف لاتے ہیں۔ ان کے فیصلوں پر راضی نہ ہونا بے دینی ہے۔( تفسیر
نعیمی ،2/355)
(5) رب نے پیغمبروں
کو اسی لئے بھیجا کہ انہیں اختلاف سے اتحاد کی طرف اور کثرت سے وحدت کی طرف، عداوت
سے محبت کی جانب دعوت دیں۔( تفسیر نعیمی ،2/357)
(6) انبیاء کو بنایا واسطہ اپنے اپنے بندوں کے درمیان تاکہ پہنچا
دے اس کے بارے میں جو ان کے لیے مشروع کی گئیں۔ پس اگر اللہ انبیاء کو پیدا نہ
فرما تا تو مخلوق ضرور گمراہ ہو جاتی ۔(النور
المبین،ص64)
(7) وَ مَا نُرْسِلُ
الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ- ترجمۂ کنزالعرفان: اور ہم رسولوں کواسی حال میں بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے
والے ہوتے ہیں۔ (پ7،انعام:48)
(8) وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا
مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ ترجمۂ کنزالعرفان :اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا
مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(پ 5،نساء:64)
(9) بے شک اللہ پاک
نے انبیاء کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ حجت کو مخلوق پر قائم کرے اور ان کے اعذار کو کاٹ دیں۔(النور
المبین،ص64)
(10) وَ مَا كُنَّا
مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا(۱۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم عذاب کرنے
والے نہیں جب تک رسول نہ بھیج لیں۔(پ15،بنی اسرائیل:15)
انبیائے کرام اللہ پاک کے بعد افضل ہیں۔ تمام انبیاء پر
ایمان لانا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ انبیاء کرام کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے
شروع ہوا اور ہمارے پیارے آخری نبی صلی
اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر ختم ہوا۔ اللہ پاک نے کسی چیز کو بیکار پیدا نہیں فرمایا
بلکہ زمین، آسمان، سورج، چاند، انسان، چرند، پرند اور حیوان سب کو کسی نہ کسی مقصد
کے تحت پیدا فرمایا: وَ مَا
خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًاؕ ترجَمۂ
کنزُالایمان:اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بیکار نہ بنائے
(پ 23،صٓ:27)
انبیاء کرام علیہ
السلام کو بھی کئی مقاصد کے لئے اللہ پاک نے اپنے بندوں کے پاس بھیجا جن کا اللہ
پاک نے اپنے پیارے کلام پاک میں کئی مقامات میں ذکر کیا ہے۔ انشاءاللہ میں انہی
مقاصد میں سے کچھ مقاصد بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔پہلا مقصد: اللہ کی عبادت کی دعوت کے لئے:وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ
رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَۚ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور بےشک ہر امّت میں سے ہم نے ایک رسول بھیجا کہ اللہ کو
پوجو اور شیطان سے بچو۔(پ 14،نحل:36)دوسرا اور تیسرا مقصد:
خوشخبری سنانے اور ڈر سنانے کے لئے:وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ
وَ مُنْذِرِیْنَۚ ترجمۂ
کنزالعرفان :اور ہم رسولوں کوخوشخبری دینے والے اور ڈر کی خبریں سنانے والے بنا کر
ہی بھیجتے ہیں ۔(پ 15،کہف:56)چوتھا مقصد: لوگوں پر
حجت قائم کرنے کے لئے:لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ
بَعْدَ الرُّسُلِؕ- ترجمۂ کنزالعرفان: تاکہ رسولوں (کو بھیجنے) کے بعد اللہ کے
یہاں لوگوں کے لئے کوئی عذر (باقی )نہ رہے۔(پ6،النساء:165)پانچواں اور چھٹا مقصد :لوگوں کو
زندگی کے بنیادی اختلاف سے نکالنے اور رضائے الہی کے مطابق زندگی گزارنے کی
رہنمائی کے لئے:وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا
لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْهِۙ-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ
یُّؤْمِنُوْنَ(۶۴) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور ہم نے تم پر یہ
کتاب نہ اتاری مگر اس لیے کہ تم لوگوں پر روشن کردو جس بات میں اختلاف کریں اور
ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لیے۔(پ 14،نحل:64)ساتواں مقصد: دین کو
قائم کرنے کے لئے:شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ
الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ مَا
وَصَّیْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰۤى اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ
وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِؕ ترجمۂ کنزالعرفان: اس نے
تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا ہے جس کی اس نے نوح کو تاکید فرمائی اور
جس کی ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی اور جس کی ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو
تاکید فرمائی کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو۔(پ25،شوریٰ :13)آٹھواں مقصد: انبیاء کی
سیرت کو نمونہ سمجھنے کے لئے :لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ
حَسَنَةٌ ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک تمہارے لئےاللہ کے رسول میں بہترین
نمونہ موجود ہے ۔(پ21،احزاب :21)نواں
اور دسواں مقصد: لوگوں کو تعلیم دینے اور پاک کرنے کے لئے:
لَقَدْ
مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ
بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ
یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ
وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-ترجَمۂ
کنزُالایمان: بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک
رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انھیں پاک کرتااور انھیں کتاب و حکمت
سکھاتاہے۔(پ 4،آل عمران:164)
محمد شاف عطاری (درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان
عثمان غنی کراچی،پاکستان)
حکیم کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا اور اللہ پاک کی ذات مقدسہ تو اَحْكَمُ
الْحَاكِمِيْن(تمام حکیموں سے بڑھ کر حکیم) ہے۔ جب اللہ پاک نے فرشتوں سے
فرمایا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے عرض کی کہ مولا کیا
تو ایسے بندے کو خلیفہ بنائے گا جو زمین میں فساد
پھیلائے گا اور خون بہائے گا، پھر جب اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کو تخلیق(پیدا)
فرمایا اور تمام چیزوں اور ان کے ناموں کا علم عطا فرما دیا اور فرشتوں کو ان
چیزوں کے نام بتانے کا حکم ارشاد فرمایا اور وہ اس سے عاجز آگئے تو بولے ہمیں کچھ
علم نہیں اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔ اسی حکمت کے تحت اللہ پاک
نے انبیاء کرام علیہم السلام کو اس دنیا میں کئی مقاصد کے ساتھ مبعوث فرمایا جن
میں سے چند کا ذکر مُلَاحَظَہ کیجئے۔
(1) جنت کی بشارت دینے کے لئے : فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ ترجمہ کنز العرفان: اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے ہوئے
(پ 2،بقرہ:213)اس آیت کے تفسیر میں امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو اللہ پاک نے ان لوگوں کو جنت کی بشارت دینے کے
لیے بھیجا جو ایمان لائے۔ (تفسیر جلالین، البقرہ تحت الآیۃ 213)
(2)عذاب سے ڈرانے کے لئے : وَ مُنْذِرِیْنَ۪-ترجمہ کنزالعرفان: اور ڈر سناتے ہوئے(پ 2،بقرہ:213) یعنی اللہ پاک نے انبیاء
کرام علیہم السلام کو اس دنیا میں بھیجا تاکہ وہ کافروں اور نافرمانوں کو عذاب کا
ڈر سنائیں۔ (خزائن العرفان: البقرہ تحت الآیت 213)
(3) فیصلہ کرنے کے لئے : لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا
فِیْهِؕ ترجمہ کنزالعرفان:
تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافات کا فیصلہ کردے۔(پ
2،بقرہ:213)یعنی ہر نبی اپنی امت کے مابین دین کے معاملات میں فیصلہ فرمائے۔
(الصاوی علی الجلالین، 1/ 177، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
(4) قرآن کے ذریعے حق سنائے : یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ ترجمہ کنزالعرفان: جواِن پر تیری آیتوں کی تلاوت فرمائے ۔( پ 1،بقرہ:129)
(5) کتاب و حکمت سکھانے کے لئے : وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ترجمہ کنزالعرفان: اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے۔
(پ 1،بقرہ:129)اس سے معلوم ہوا کہ پورا قرآن آسان نہیں ورنہ اس کی تعلیم کے لئے
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھیجے جاتے۔ (صراط الجنان، 1/ 210)
(6) لوگوں کو گناہوں کی گندگیوں سے پاک کرنے کے لئے : وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-ترجمہ کنزالعرفان: اور انہیں خوب پاکیزہ فرمادے۔ (پ 1،بقرہ:129)یعنی نفس کو گناہوں کی آلودگیوں سے پاک و
صاف کریں۔(صراط الجنان، 1/ 210)
(7) لوگوں کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے : لِئَلَّا یَكُوْنَ
لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-ترجمہ کنزالعرفان: تاکہ رسولوں(کو بھیجنے) کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کے لیے
کوئی عذر (باقی) نہ رہے۔ (پ6،النساء:165)
(8) اللہ کی عبادت کا حکم دینے کے لئے : وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ
رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ ترجمہ
کنزالعرفان: اور بے شک ہر اُمَّت میں ہم نے ایک رسول بھیجا کہ (اے لوگو!) اللہ کی
عبادت کرو۔(پ 14،نحل:36)
(9) رسولوں کی اطاعت کی جائے :وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ
بِاِذْنِ اللّٰهِؕ ترجمۂ کنزالعرفان :اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا
مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(پ 5،نساء:64)
(10) دین اسلام کو غلبہ عطا کرنے کے لئے: هُوَ الَّذِیْۤ
اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ
عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(۳۳)ترجَمۂ کنزُالعرفان: وہی ہے جس نے
اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے
اگرچہ مشرک ناپسند کریں ۔(پ 10،توبہ:33)
محمد طلحٰہ خان عطاری (درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان خلفائے راشدین
راولپنڈی،پاکستان)
بعثت کے لغوی معنی بھیجنا اور آمادہ کرنا کے ہیں۔ اور
اصطلاح میں بعثت انبیاء سے مراد ”اللہ پاک کا انبیاء کرام علیہم السلام کو دنیا
میں لوگوں کے درمیان بھیجنا ہے“۔اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمد
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک بہت سے مقاصد کے پیش نظر کئی انبیائے کرام مبعوث
فرمائے۔ان میں سے قرآن مجید کی روشنی میں دس مقاصد مندرجہ ذیل ہیں:
اللہ پاک فرماتا ہے:وَ جَعَلْنٰهُمْ
اَىٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ
وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءَ الزَّكٰوةِۚ-وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَۚۙ(۷۳) ترجمۂ کنزالعرفان:
اور ہم نے انہیں امام بنایا کہ ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے ہیں اور ہم نے ان کی طرف
اچھے کام کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی وحی بھیجی اور وہ ہماری
عبادت کرنے والے تھے۔(پ 17 ، انبیا :73)
اس آیت میں پانچ مقاصد بیان کئے گئے ہیں: (1) لوگ ہر کام
اللہ پاک کے حکم کے مطابق بجا لائیں(2) اچھے کام کریں(3) نماز قائم کریں)(4) زکوۃ
ادا کریں(5) اور اللہ پاک کی عبادت کریں۔
(6)پھر فرماتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ
بِاِذْنِ اللّٰهِؕ ترجمۂ کنزالعرفان :اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا
مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(پ 5،نساء:64)چونکہ اللہ پاک کی
اطاعت انبیاء اور رسول کی اطاعت میں ہے۔اسی لیے ہر امت اپنےاپنےنبی و رسول کی
اطاعت کریں۔
(7)اور فرماتا ہے کہ :لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-ترجمہ کنزالعرفان :تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے(پ
10،توبہ:33)یعنی دین حق باقی باطل ادیان پر غالب آجائے۔
(8)پھر فرمایا: وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ
اِلَّا خَلَا فِیْهَا نَذِیْرٌ(۲۴)ترجمہ کنزلعرفان: اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی ڈرانے
والا نہ گزرا ہو(پ 22 ، فاطر : 24)یعنی اللہ
پاک کے غضب و عذاب سے ڈرانا۔
(9)اور فرمایا: لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِۚ ترجمہ کنزالعرفان : تاکہ لوگ انصاف
پر قائم ہوں(پ 27،حدید:25)لوگ ظلم و ستم چھوڑ کر انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں۔
(10)اور فرمایاکہ: وَ جَعَلْنَا
بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةًؕ ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنایا(پ 18 ، فرقان : 20)یعنی امیر کفار کے لیے امتحان تھا کہ جب غریب مسلمانوں کو
دیکھتے تو کہتے اگر ہم ان کے ساتھ اسلام قبول کرلیں اور اس نبی پر جو ہماری طرح
بازاروں میں چلتے اور کھاتے پیتے ہیں تو ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہ ہوگا ،
لیکن بعض خوش نصیب ایمان لے آتے تھے تو گویا انبیا اور رسول کا نزول ایک مقصد
لوگوں کا امتحان بھی ہے۔
اسی طرح قرآن و حدیث میں اور کئی مقاصد ذکر ہیں۔ ہر مسلمان
کو چاہیے کہ جو احکامات ہم تک انبیا ء و رسل نے پہنچائے انہیں علما کی مدد سے سمجھیں اور عمل کریں۔ اللہ پاک علمِ
دین سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرما ئے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حافظ ضمیر علی (درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ آفندی ٹاؤن
حیدر آباد،پاکستان)
(1) كَذٰلِكَ
اَرْسَلْنٰكَ فِیْۤ اُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَاۤ اُمَمٌ لِّتَتْلُوَاۡ
عَلَیْهِمُ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ترجَمۂ کنز العرفان:اسی طرح ہم نے تمہیں اس امت میں بھیجا جس سے پہلے کئی
امتیں گزر گئیں تاکہ تم انہیں پڑھ کر سناؤ جو ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے ۔(پ
13،رعد:30)
(2)كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً- فَبَعَثَ
اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ۪-وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ
الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِؕ ترجَمۂ کنز
العرفان: تمام لوگ ایک دین پر تھے تو اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے ہوئے اور
ڈر سناتے ہوئے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان کے
اختلافات میں فیصلہ کردے ۔(پ 2،بقرہ:213)
(3) : وَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ
لَكُمُ الْاٰیٰتِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۱۸)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور اللہ تمہارے لیے آیتیں صاف بیان فرماتا ہے اور اللہ علم
و حکمت والا ہے۔(پ 18،نور:18)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ :جسے اللہ پاک نے اپنی رسالت کے لئے منتخب فرمایا
اور اسے ساری مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا تاکہ وہ حق کی طرف ان کی رہنمائی
کریں اور انہیں (گناہ کی آلود گی سے) خوب پاکیزہ فرمادیں اور انہیں پاک کرکے خوب صاف ستھرا کردیں ۔
(4):وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا
مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ
رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۴۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی
طرف بھیجا تو اس نے فرمایا بےشک میں اس کا رسول ہوں جو سارے جہاں کا مالک ہے ۔(پ 25،زخرف:46)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ: اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السّلام کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تاکہ آپ انہیں اللہ پاک کی وحدانیّت کا اقرار کرنے اور صرف
اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دیں ۔
(5):اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ
شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) ترجمۂ کنز العرفان:بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے
والااور ڈر سنانے والا بنا کربھیجا۔(پ 26،فتح :8)اس آیت مبارکہ کی
تفسیر میں ہے کہ: اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ، بیشک ہم نے آپ کو اپنی امت کے اَعمال اور اَحوال کا
مشاہدہ فرمانے والا بنا کر بھیجا تاکہ آپ قیامت کے دن ان کی گواہی دیں اور دنیا میں ایمان والوں اور اطاعت گزاروں کو جنت کی خوشخبری دینے والااور کافروں ،
نافرمانوں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے
والا بنا کربھیجا ہے۔
(6)هُوَ الَّذِیْۤ
اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ
كُلِّهٖؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ(۲۸)ترجمۂ کنزالعرفان: وہی (اللہ ) ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور
سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے اور اللہ کافی گواہ ہے۔( پ
26، فتح: 28)اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ : وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو
ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کردے خواہ وہ مشرکین کے دین ہوں یا اہل ِکتاب کے۔
(7)اِنِّیْ لَكُمْ
رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۴۳)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۴۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک میں تمہارے
لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔(پ 19،شعراء:144،143)اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ:حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے قومِ ثمود سے
فرمایا: مجھے اللہ پاک نے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں اس کے حکم کی خلاف ورزی کرنے پر اس کے
عذاب سے ڈراؤں اور جس رسالت کے ساتھ اس
نے مجھے تمہاری طرف بھیجا میں اس پر امین
ہوں۔
(10،9،8) لِّتُؤْمِنُوْا
بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ
بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس کے رسول
پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔(پ
26،فتح:9،8)اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ: اس آیت میں اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
شاہد،مُبَشِّر اور نذیر بنا کر بھیجنے کے گویا یہ مَقاصِد بیان فرمائے ہیں :
(8): لوگ اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لائیں ۔
(9): لوگ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم اور توقیر کریں ۔ اس کے بارے میں بعض مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہاں آیت میں تعظیم و توقیر کرنے کا جو
حکم دیا گیا ہے وہ اللہ پاک کے لئے ہے یعنی تم اللہ پاک کی تعظیم اور توقیر کرو،
البتہ اس سے مراد اللہ پاک کے دین اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم اور توقیر کرنا ہے۔
(10): لوگ صبح و شام اللہ پاک کی پاکی بیان کریں ۔اس مقصد
کے بارے میں مفسرین فرماتے ہیں کہ صبح و شام اللہ پاک کی پاکی بیان کرنے سے
مراد اِن اوقات میں ہر نقص و عیب سے اس کی
پاکی بیان کرنا ہے، یا صبح کی تسبیح سے مراد نمازِ فجر اور شام کی تسبیح سے باقی
چاروں نمازیں مراد ہیں ۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ
وسلم تک جتنے انبیا آئے ان سب کےکوئی نہ
کوئی مقاصد تھے، لوگوں کو اللہ پاک کی توحید کی دعوت دینا، لوگوں کو اللہ کےقریب
کرناوغیرہ۔
انبیاء کی بعثت کے
چند مقاصد قرآن مجید کی روشنی میں:
(1)اللہ پاک کی عبادت کی طرف دعوت:اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ
فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(۵۱)ترجَمۂ کنزالعرفان: بیشک اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہے تو اسی کی
عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔(پ 3،آل عمران:51) تفسیر:حضرت عیسیٰ
علیہ والصلوۃ والسلام کایہ فرمانا اپنا بندہ ہونے کا اقرار اور رب ہونے کا انکار
ہے اور لوگوں کو اللہ پاک کی عبادت کرنے کافرمایا۔
(2) خوشخبری
دینا اورڈرسنانا:وَ
مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ ترجمۂ
کنزالعرفان :اور ہم رسولوں کوخوشخبری دینے والے اور ڈر کی خبریں سنانے والے بنا کر
ہی بھیجتے ہیں ۔(پ 15،کہف:56)تفسیر صراطِ الجنان میں ارشاد فرمایا کہ ہم رسولوں کو ان کی امتوں کی طرف بھیجتے ہیں تاکہ وہ ایمان والوں اور اطاعت گزاروں کو ثواب اور جنت کے دَرجات کی خوشخبری دیں جبکہ کافروں اور گناہگاروں کو عذاب اور جہنم
کےدرکات سے ڈرانےوالی خبریں سنائی۔
(3) لوگوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنا
تاکہ لوگوں پر ظلم نہ ہو:وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌۚ-فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ
قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(۴۷)ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہر امت کے لئے ایک رسول ہوا ہے توجب ان کا رسول ان کے
پاس تشریف لاتا تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا اور ان پر کوئی
ظلم نہیں کیا جاتاہے۔(پ 11،یونس:47) تفسیر
صراطِ الجنان: ان کے درمیان انصاف کےساتھ فیصلہ کرنا اس میں دو قول ہے، ایک
قول یہ ہے کہ اس میں دنیا کا بیان ہے اور معنی یہ ہے کہ ہر اُمت کے لئے دنیا میں
ایک رسول ہوا ہے جو انہیں دینِ حق کی دعوت دیتا اور طاعت و ایمان کا حکم کرتا، جب
ان کا رسول ان کے پاس تشریف لاتا اور احکامِ الٰہی کی تبلیغ کرتا تو کچھ لوگ ایمان
لاتے اور کچھ تکذیب کرتے اور مُنکر ہو جاتے ، تب ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ
کر دیا جاتا کہ رسول کو اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات دی جاتی اور تکذیب
کرنے والوں کو عذاب سے ہلاک کر دیا جاتا۔
(4)کتاب و حکمت کا علم سکھانا:رَبَّنَا
وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ
یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ
الْحَكِیْمُ۠(۱۲۹) ترجمۂ کنز العرفان : اے ہمارے رب! اور ان کے
درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیج جواِن پر تیری آیتوں کی تلاوت فرمائے اور انہیں
تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب پاکیزہ فرمادے۔ بیشک تو ہی غالب حکمت
والاہے۔(پ 1،بقرہ:129) تفسیر صراطِ الجنان: حضرت ابراہیم
اور حضرت اسمٰعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام کی یہ دُعا سیدِ انبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم َکے لئے تھی۔کتاب
و حکمت سے مراد قرآن پاک اور اس کے احکام سکھانا ہے۔
(6،5) خوشخبری دینا:اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ
نَذِیْرًاۙ- ترجمۂ کنز العرفان :اےحبیب!بےشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ
خوشخبری دینے والا اور ڈر کی خبریں دینے والابناکرربھیجا۔(پ 1،بقرہ:119) اس آیت
میں ایک مقصد خوشخبری دینااوردوسراڈر کی
خبریں دینا بیان کیاگیاہے۔
(7)لوگ انبیا کی
اطاعت کرے:وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا
مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان :اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ
اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(پ 5،نساء:64)تفسیر صراطِ الجنان: یہاں
رسولوں کی تشریف آوری کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ پاک رسولوں کو بھیجتا ہی اس لئے ہے کہ اللہ پاک
کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔ اسی لئے اللہ پاک اَنبیاء و رُسُل علیہم الصلوٰۃ
والسلام کو معصوم بناتا ہے کیونکہ اگر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام خود گناہوں کے
مُرتَکِب ہوں گے تو دوسرے ان کی اطاعت و اِتّباع کیا کریں گے۔ رسول کی اطاعت اس
لئے ضروری ہے کہ اللہ پاک کی اطاعت کا
طریقہ ہی رسول کی اطاعت کرنا ہے۔ اس سے ہٹ کر اطاعت ِ الہٰی کا کوئی دوسرا طریقہ
نہیں لہٰذا جو رسول کی اطاعت کا انکار کرے گا وہ کافر ہوگا اگرچہ ساری زندگی سر پر
قرآن اٹھا کر پھرتا رہے۔
(8)قوم کواندھیروں سے
اجالے کی طرف لانا:وَ
لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اَنْ اَخْرِ جْ قَوْمَكَ مِنَ
الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ترجَمۂ
کنزُالعرفان: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی
قوم کو اندھیروں سے اجالے میں لاؤ ۔(پ 13،ابراہیم:5)تفسیرصراط الجنان:اس سے یہ
بتانا مقصود ہے کہ تمام انبیاءِ کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ایک ہی ہے کہ وہ اللہ پاک کی
مخلوق کو کفر کے اندھیروں سے ہدایت اور
ایمان کی روشنی کی طرف لانے کی کوشش کریں ۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: 5، 7 / 64)
(9) لوگوں کو اللہ پاک کے ایام یاد کروانا:وَ ذَكِّرْهُمْ
بِاَیّٰىمِ اللّٰهِؕ ترجمہ کنزالعرفان۔:اور انہیں اللہ کے دن یا د
دلاؤ۔ (پ 13،ابراھیم:5) اس میں نعمتوں کو یاد دلانے کا مقصدبیان ہے۔تفسیرصراط الجنان: قاموس
میں ہے کہ اللہ پاک کے دنوں سے اللہ پاک کی نعمتیں مراد ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت اُبی بن
کعب ،امام مجاہد اور حضرت قتادہ رضی اللہُ
عنہم نے بھی اَیَّامُ اللّٰہ کی تفسیر ’’اللہ کی نعمتیں ‘‘ فرمائی ہے۔
(10)قوم کو آنے والے
عذاب سے ڈرانا تاکہ ان کا عذر باقی نہ رہے:اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا
نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ
عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱)ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک ہم نے نوح کو اس کی
قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈرا کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔(پ
29،نوح:1)
تفسیرصراط
الجنان:حضرت نوح علیہ الصلوٰۃُ والسلام کی قوم بتوں کی پُجاری تھی ، اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ
الصلوٰۃُ والسلام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجااور انہیں یہ حکم دیاکہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و اخرت
کا دردناک عذاب آئے گا تاکہ ان کے لئے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے۔ یاد رہے کہ
حضرت نوح علیہ الصلوٰۃُ والسلام وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ علیہ الصلوٰۃُ والسلام کی قوم پر
ہی دُنْیَوی عذاب آیا۔( سمرقندی، نوح، تحت الآیۃ: 1، 3 / 406، جلالین، نوح، تحت الآیۃ: 1، ص473، روح البیان، نوح، تحت الآیۃ: 1، 10 / 171، ملتقطاً)
امجد احسان (درجہ دوراۃ الحدیث شریف مرکزی جامعۃ المدینہ
گجرات ،پاکستان )
(1) توحید کی
دعوت:وَ وَصّٰى بِهَاۤ اِبْرٰهٖمُ بَنِیْهِ وَ
یَعْقُوْبُؕ-یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ
اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَؕ(۱۳۲)ترجمۂ کنزالایمان:اور اسی دین کی وصیت کی ابراہیم نے اپنے
بیٹوں کو اور یعقوب نے کہ اے میرے بیٹو بیشک اللہ نے یہ دین تمہارے لئے چن لیا تو
نہ مرنا مگر مسلمان۔(پ 1،بقرہ:132)
نوٹ: اس سے معلوم ہوا کہ والدین کو صرف
مال کے متعلق ہی وصیت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اولاد کو عقائد ِ صحیحہ، دین پر
استقامت، نیکیوں پر مداومت اور گناہوں سے دور رہنے کی وصیت بھی کرنی چاہیے۔ اولاد
کو دین سکھانا اور ان کی صحیح تربیت کرتے رہنا والدین کی ذمہ داری ہے۔(تفسیر صراط
الجنان ، 1 / 215)
(2) غلبہ دین کے لئے:هُوَ الَّذِیْۤ
اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ
كُلِّهٖؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ(۲۸)ترجَمۂ کنزُالایمان: وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا
کہ اُسے سب دینوں پر غالب کرے اور اللہ کافی ہے گواہ ۔( پ 26، فتح: 28) اللہ پاک نے اپنے رسولوں کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ
بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کردے خواہ وہ مشرکین کے دین ہو یا اہلِ کتاب کے۔(تفسیر صراط الجنان ،9 / 383)
(3) ڈر سنانے کے لیے:اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ
بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ-وَّ لَا تُسْــٴَـلُ عَنْ اَصْحٰبِ
الْجَحِیْمِ(۱۱۹)ترجمۂ کنز
الایمان: بےشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر
سناتا اور تم سے دوزخ والوں کا سوال نہ ہوگا۔(پ 1،بقرہ:119) تفسیر : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تبلیغ کے
باوجود اگر کوئی جہنم کی راہ جاتا ہے تو اس کے متعلق آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال نہ ہوگا کہ وہ کیوں ایمان نہ
لایا ، اس لیے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے اپنا فرضِ تبلیغ پورے طور پر ادا فرمادیا۔( تفسیر صراۃ الجنان
،1 /203)
(4) خوشخبری سنانے کے
لیے:وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ-كُلَّمَا رُزِقُوْا
مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًاۙ-قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ
قَبْلُۙ-وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًاؕ-وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ
مُّطَهَّرَةٌۗۙ-وَّ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور خوشخبری دے
انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ان کے لیے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں
جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا صورت دیکھ کر کہیں گے یہ تو
وہی رزق ہے جو ہمیں پہلے ملا تھا اور وہ صورت میں ملتا جلتا انہیں دیا گیا اور ان
کے لیے ان باغوں میں ستھری بیبیاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔(پ 1،بقرہ:25)
(5)فیصلہ کرنے کے
لیے:﴿ كَانَ
النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً- فَبَعَثَ
اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ۪-وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ
الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِؕ ﴾ترجَمۂ
کنزُالایمان: لوگ ایک دین پر تھے پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے
اور ڈر سناتے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری کہ وہ لوگوں میں ان کے اختلافوں کا فیصلہ
کردے۔(پ 2،بقرہ:213)تفسیر:
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح
علیہ السلام کے درمیان دس صدیاں تھیں سب کے سب سچے دین پر تھے ۔ پھر انہوں نے آپس
میں اختلاف کیا تو اللہ نے دوسرے نبیوں کو بھیجا تاکہ ان میں فیصلہ کریں۔(تفسیر در
منثور ،جلد 1)
(6)اللہ کا پیغام پہچانے کے لئے :اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَكُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ
مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۶۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا
اور تمہارا بھلا چاہتا اور میں اللہ کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تم نہیں رکھتے۔(پ 8،اعراف:62)
(7) عبادت کی دعوت کے لیے:اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ
وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ (۵۱)ترجَمۂ کنزالعرفان: بیشک اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہے تو اسی
کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔(پ 3،آل عمران:51) تفسیر :گویا حضرت ِ عیسی ٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اتنی قدرتوں اور علم کے باوجودبھی خدا نہیں
بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیا و اولیا کے معجزات یا کرامات
ماننا شرک نہیں اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم نے انہیں رب مان لیا۔ اس سے
مسلمانوں کو مشرک کہنے والوں کو عبرت پکڑنی چاہیے۔( تفسیر صراط الجنان ، 1/ 482)
(8)اللہ کی مغفرت اور رحمت کے اظہار
کے لئے:نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ
الرَّحِیْمُۙ(۴۹) وَ اَنَّ عَذَابِیْ
هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(۵۰)ترجمۂ کنزالایمان: خبردو میرے بندوں کو کہ بیشک میں ہی ہوں
بخشنے والا مہربان۔اور میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔(پ 14،حجر:50،49) ان دونوں آیتوں کا
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : تفسیر:اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، آپ میرے
بندوں کو بتا دیں کہ جب وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر لیں تو میں ہی ان کے گناہوں پر
پردہ ڈال کر ان گناہوں کے سبب ہونے والی رسوائی اور عذاب سے انہیں بچاتا ہوں۔ (تفسیر
طبری، الحجر، آیت 49،50 ،7 /521)
(9) اللہ پاک کے احکامات کے بیان کے لئے:سُوْرَةٌ
اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَ اَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ
لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(۱)ترجمۂ کنزالایمان: یہ ایک سورت ہے کہ ہم نے اتاری اور ہم
نے اُس کے احکام فرض کیے اور ہم نے اس میں روشن آیتیں نازل فرمائیں کہ تم دھیان
کرو۔(پ 18،نور:1)
(10) خیر خواہی کے لئے:فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ
یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْۚ-فَكَیْفَ
اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۠(۹۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو شعیب نے ان سے منہ پھیرا (ف۱۷۴) اور کہا اے میری
قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچاچکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیوں کر غم
کروں کافروں کا۔(پ 9،اعراف:93)تفسیر: مردے سنتے ہیں
:جب حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پر
عذاب آیا تو آپ نے ان سے منہ پھیر لیا اور قوم کی ہلاکت کے بعد جب آپ ان کی بے
جان نعشوں پر گزرے تو ان سے فرمایا ۔اس سے
معلوم ہوا مر دے بھی سنتے ہیں۔
مُردوں کے سننے کی قوت سے متعلق بخاری شریف میں ہے:جب
ابوجہل وغیرہ کفار کو بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا تو اس وقت رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے
خطاب فرمایا "فَہَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَد َرَبَّکُم ْحَقَّا"توکیا تم نے اس وعدے کو سچا پایا جو تم سے تمہارے رب
نے کیا تھا؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ا ٓپ ایسے
جسموں سے کلام فرما رہے ہیں کہ جن کے اندر روحیں نہیں۔ ارشاد فرمایا :اس ذات کی
قسم ! جس کے قبضے میں محمد صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی جان ہے جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے تم ان سے زیادہ نہیں
سنتے۔ (بخاری شریف ،حدیث:3979)
انبیائے کرام
اللہ پاک کے بعد افضل ہیں۔ تمام انبیا پر ایمان لانا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔
انبیائے کرام کی دنیا میں آمد کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السّلام سے شروع ہوا اور ہمارے پیارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ختم ہوا۔
اللہ پاک نے کسی چیز کو بیکار پیدا نہیں فرمایا بلکہ زمین، آسمان، سورج، چاند، انسان،
چرند، پرند اور حیوان سب کو کسی نہ کسی مقصد کے تحت پیدا فرمایا جیسا کہ قراٰنِ
پاک میں ہے:وَ مَا خَلَقْنَا
السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًاؕ-ترجَمۂ
کنزُالایمان:اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بیکار نہ بنائے۔
(پ 23،صٓ:27) انبیائے
کرام علیہمُ السّلام کو بھی کئی مقاصد
کے لئے اللہ پاک نے اپنے بندوں کے پاس بھیجا جن کا اللہ پاک نے اپنے پیارے کلام
پاک میں کئی مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اِنْ شآءَ اللہ میں انہی مقاصد میں سے کچھ
مقاصد بیان کرنے کی کوشش کروں گا:
(1)اللہ کی عبادت
کی دعوت کیلئے: وَ لَقَدْ بَعَثْنَا
فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا
الطَّاغُوْتَۚ-ترجَمۂ کنزُ الایمان: اور بےشک ہر اُمّت میں سے ہم نے ایک رسول بھیجا
کہ اللہ کو پوجو اور شیطان سے بچو۔ (پ 14،نحل:36)
(3،2)خوشخبری دینے اور
ڈر سنانے کے لئے: وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ
اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ- ترجمۂ
کنزالعرفان: اور ہم رسولوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈر کی خبریں سنانے والے بنا
کر ہی بھیجتے ہیں۔ (پ 15،کہف:56)
(4)لوگوں پر حجت
قائم کرنے کیلئے: لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى
اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(۱۶۵)ترجمۂ
کنزالعرفان:تاکہ رسولوں (کو بھیجنے) کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کے لئےکوئی عذر
(باقی) نہ رہے۔(پ6،نساء:165)
(6،5)لوگوں
کو زندگی کے بنیادی اختلاف سے نکالنے اور رضائے الہٰی کے مطابق زندگی گزارنے کی راہنمائی
کے لئے: وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا
عَلَیْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْهِۙ-وَ
هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۶۴)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور ہم نے تم پر یہ کتاب نہ اتاری مگر اس لئے کہ تم لوگوں
پر روشن کردو جس بات میں اختلاف کریں اور ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لئے۔(پ
14،نحل:64)
(7)دین کو قائم
کرنے کے لئے: شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ
الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ مَا وَصَّیْنَا
بِهٖۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰۤى اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَ لَا
تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِؕ-ترجمۂ
کنزالعرفان: اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا ہے جس کی اس نے نوح کو
تاکید فرمائی اور جس کی ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی اور جس کی ہم نے ابراہیم اور
موسیٰ اور عیسیٰ کو تاکید فرمائی کہ دین کو قائم رکھواور اس میں پھوٹ نہ ڈالو۔(پ25،شوریٰ
:13)
(8)انبیا کی سیرت
کو نمونۂ عمل سمجھنے کے لئے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ
اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌترجمۂ کنزالعرفان: بیشک تمہارے لئے اللہ
کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے۔(پ21،احزاب :21)
(10،9)لوگوں کو تعلیم دینے اور پاک کرنے کیلئے:لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى
الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا
عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ
الْحِكْمَةَۚ-ترجَمۂ
کنزُالایمان: بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک
رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انھیں پاک کرتااور انھیں کتاب و حکمت
سکھاتا ہے۔ (پ 4،آل عمران:164)