محمد مدثر عطاری ( درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور،
پاکستان)
اللہ پاک نے حضرتِ انسان کی تخلیق فرمائی پھر ان کی رشد و ہدایت کے لئے انبیائے کرام علیہم السّلام
کو مبعوث فرمایا۔ ان حضرات کو اعلیٰ کردار،
عمدہ اخلاق اور بہترین اوصاف سے موصوف فرمایا۔
انہی مقدس ہستیوں میں سے ایک حضرت یحییٰ
علیہ السّلام بھی ہیں۔ اللہ پاک نے ان کو بھی کئی عمدہ اوصاف سے موصوف فرمایا۔ آئیے
قراٰنِ پاک سے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی 5 صفات پڑھئے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے۔
(1) ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا: الله پاک قراٰنِ
پاک فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک
اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا
۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)
(2) وہ سردار ہونگے : الله پاک قراٰنِ پاک فرماتا ہے: ﴿وَ سَیِّدًا﴾ ترجمۂ کنزالعرفان:
اور وہ سردار ہوگا۔ (پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39) سیدیعنی سردار: سید اس رئیس کو کہتے ہیں
جو مخدوم و مُطاع ہو یعنی لوگ اس کی خدمت و اطاعت کریں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام
مؤمنین کے سردار اور علم و حلم اور دین میں ان کے رئیس تھے۔
(3) ﴿وَّ حَصُوْرًا ﴾ ترجمہ کنز
العرفان : اور ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا۔
(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39) حصور وہ شخص ہوتا ہے جو قوت کے باوجود عورت سے رغبت نہ
کرے ۔
(4)صالحین میں سے: الله پاک قراٰنِ پاک میں فرماتا ہے:﴿وَّ نَبِیًّا مِّنَ
الصّٰلِحِیْنَ(۳۹)﴾ ترجمہ کنز
العرفان : اور صالحین میں سے ایک نبی ہو گا۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39) وضاحت:
یعنی نیک صالح بزرگ اللہ پاک کے بندے اور نبی تھے۔
(5) نیکیوں میں جلدی کرتے: اللہ پاک قراٰنِ پاک میں فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالایمان:
بیشک وہ بھلے کاموں میں جلدی کرتے تھے ۔ (پ17، الانبیآء:90)وضاحت:
یعنی نیکیوں میں جلدی کرتے ، جو بھی نیک
کام ہوتا اس میں تاخیر نہ کرتے تھے۔
ترغیب : حضرت یحییٰ علیہ السّلام عورتوں سے دور رہتے تھے۔ باوجود طاقت کے یعنی طاقت بھی
تھی لیکن پھر بھی عورتوں سے بچتے تھے۔ یہ آپ علیہ السّلام کا تقویٰ اور عاجزی تھی
اور نیکیوں میں جلدی کرتے۔ اس کے تحت دعا
مقبول کروانے کے تین کام: (1) نیک کام کرنے میں دیر نہ لگائے (2) امید اور خوف کے
درمیان رہتے ہوئے ہر وقت اللہ پاک سے دعائیں کرے (3)اور اللہ پاک کی بارگاہ میں
عاجزی اور انکساری کا اظہار کرے۔
اللہ پاک سے دعا ہیں
کہ ہمیں حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی سیرت پاک پر عمل کرنے اور عورتوں سے بچنے اور
نیک کام میں جلدی کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اٰمین
محمد عبد المبین عطّاری( درجہ ثانیہ جامعۃُ المدينہ فیضان امام غزالی گلستان
کالونی فیصل آباد پاکستان)
اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم السّلام کی اس دنیا میں اپنی
وحدانیت بیان کرنے اور لوگوں کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے بھی قراٰنِ پاک میں اللہ
پاک نے انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات ، واقعات اور صفات کو بیان فرمایا
ہے۔ انہی میں سے ایک حضرت یحییٰ علیہ السّلام بھی ہیں ۔ الله پاک کے برگزیدہ اور
چنے ہوئے بندوں کی عظمت و شان کو بیان
کرنا اللہ پاک کا طریقہ ہے۔ اسی پر عمل کی نیت سے حضرت یحییٰ علیہ السّلام
کے ذکر سے اپنے دلوں کو منور کیجئے۔
نام و نسب :آپ کا نام " یحییٰ " علیہ السّلام اور ایک قول کے مطابق آپ کا نسب
نامہ یہ ہے یحیی بن زکریا بن لدن بن مسلم بن صدوق سے ہوتا ہوا حضرت سلیمان علیہ
السّلام بن حضرت داؤد علیہ السّلام تک جا پہنچتا ہے ( سیرت الانبیاء ،ص 667ملخصاً)
ولادت کی بشارت: آپ علیہ السّلام کے والد حضرت زکریا
علیہ السّلام کو الله شرف نبوت سے نواز تھا، لیکن ان کی کوئی اولاد نہ تھی، برسوں
سے ان کے دل میں فرزند کی تمنا تھی۔ چنانچہ آپ علیہ السّلام نے محرابِ مریم (وہ
جگہ جہاں حضرت مریم عبادت کیا کرتی تھی) میں دعا مانگی اور آپ کی دعا مقبول ہو گئی۔
اور اللہ پاک نے بڑھاپے میں آپ کو ایک فرزند عطا فرمایا جن کا نام خود خداوند عالم
نے”یحییٰ “رکھا اور اللہ پاک نے ان کو نبوت کا شرف بھی عطا فرمایا۔ اور ان کے اوصاف بھی بیان فرمائے۔ آئیے حضرت یحیٰ علیہ السّلام کے قراٰنی صفات ذکر
کرتے ہیں۔
(1) آپ علیہ
السّلام کا نام ''یحییٰ'' خود اللہ پاک نے رکھا اور آپ سے پہلے یہ نام کسی اور کا
نہ رکھا گیا۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ
یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ،اس سے پہلے ہم نے اس نام کا
کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ16 ، مریم : 7)
(2) اللہ پاک
نے آپ علیہ السّلام کو بچپن میں ہی نبوت عطا فرمائی۔ نیز آپ علیہ السّلام کو حضرت زکریا
علیہ السّلام کا جانشین کیا اور آلِ یعقوب
کی نبوت کا وارث بنایا ۔ چنانچہ پارہ 16، سورہ مریم آیت نمبر 12 میں ارشاد ہوتا
ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت دی۔(پ16،مریم:12) نیز پارہ 16، سورہ مریم
آیت نمبر 6 میں ہے: ترجمۂ
کنزالایمان: وہ میرا جانشین ہو اور اولادِ یعقوب کا وارث ہو ۔(پ16،مریم:6) تفسیر صراط
الجنان میں ہے کہ آپ علیہ السّلام کو دو سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی اور تین سال
کی عمر میں آپ کی طرف وحی نازل کی گئی۔
(3) الله پاک
پارہ 16 سورہ مریم آیت نمبر 15 میں ارشاد فرماتا ہے : ترجمہ کنز العرفان : اور اس
پر سلامتی ہے جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ فوت ہو گا اور جس دن وہ اٹھایا جائے
گا ۔ یعنی جس دن حضرت یحییٰ علیہ السّلام پیدا ہوئے اس دن ان کے لئے شیطان سے امان
ہے کہ وہ عام بچوں کی طرح آپ علیہ
السّلام کونہ چھوئے گا اور جس دن آپ علیہ السّلام وفات پائیں گے اس دن ان کے لئے
عذابِ قبر سے امان ہے اور جس دن آپ علیہ السّلام کو زندہ اٹھایا جائے گا اس دن ان
کے لئے قیامت کی سختی سے امان ہے۔(صراط الجنان،6/78)
(4) فرمانِ باری ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ
سے اچھا سلوک کرنے والا تھا۔( پ 16، مریم:14) اس آیت میں آپ علیہ السّلام کا یہ
وصف بیان کیا گیا ہے کہ آپ علیہ السّلام اپنے ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے
اچھا سلوک کرنے والے تھے ۔
( 5) آپ علیہ
السّلام نرم دل ، طاعت و خلاص اور عملِ صالح کے جامع اور اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے
والے تھے۔ چنانچہ آپ علیہ السّلام کے ان اوصاف کا ذکر اللہ پاک نے پارہ 16 ، سورہ
مریم آیت نمبر 13 میں فرمایا ہے: ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی
اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13)
(6) فرمانِ
باری ہے: ترجمۂ کنزالعرفان: تو فرشتوں نے
اسے پکار کر کہا جبکہ وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ بیشک اللہ آپ
کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور وہ
سردار ہو گا اور ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی ہوگا۔(پ 3 ،
اٰلِ عمرٰن : 39) اس آیت میں آپ علیہ السّلام کی چار صفات بیان ہوئی ہیں۔ اللہ پاک
نے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی تصدیق کرنے والا، اہل ایمان
کا سردار ، قوت کے باوجود عورت سے بچنے
والا اور صالحین میں سے ایک نبی بنایا۔
محترم قارئین ہمیں بھی چاہیے کہ انبیائے کرام علیہم السّلام
کی سیرت کا ذوق و شوق کے ساتھ مطالعہ کریں۔ اور ان کی مبارک صفات و عادات کو اپنائیں
تاکہ ہماری روح سے انبیائے کرام علیہم السّلام کی محبت جھلکتی نظر آئے۔ اٰمین
عبد الغفور رضا علوی(درجہ خامسہ مرکزی
جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ کراچی، پاکستان)
اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم السّلام کو مختلف قوموں کی
طرف بھیجا کہ وہ ان لوگوں کی اصلاح کریں ان تک اللہ پاک کے احکام پہنچائیں ، اور
ان کو وعظ و نصیحت فرمائیں۔ ان انبیا کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے ۔جیسا کہ احادیثِ پاک سے
ثابت ہے ۔(صحیح ابن حبان، 1361)قراٰنِ پاک میں اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم
السّلام کے فضائل و کمالات اور صفات بیان کی ہیں ۔ ان انبیائے کرام علیہم السّلام
میں سے ایک عظیم ہستی حضرت یحییٰ علیہ السّلام بھی ہیں۔ آئیے ! جو صفات قراٰنِ پاک
میں حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی ہیں وہ ذکر کرتے ہیں:
(1) اللہ پاک سے ڈرنے والے : آپ علیہ السّلام اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرتے تھے ۔ قراٰنِ
پاک میں ہے: ﴿وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کمال ڈر والا تھا۔(پ 16، مریم:13)تفسیر خزائن العرفان میں
ہے کہ آپ خوفِ الٰہی سے بہت گریہ و زاری کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے رخسار مبارکہ
پر آنسوؤں سے نشان بن گئے تھے ۔(خزائن العرفان،ص571)
(2)عاجزی اور فرمانبرداری کرنے والے : آپ کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی کہ آپ تکبر کرنے والے
اور نہ ہی اپنے رب کے نافرمان تھے بلکہ عاجزی اور انکساری کرنے والے اور اپنے رب کی
اطاعت کرنے والے تھے قراٰنِ پاک میں صفت یوں بیان کی گی : ﴿ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور زبردست و نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14)
(3) حکمت والے : حکمت سے مراد نبوت ہے کہ ﴿ وَ
اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت دی۔(پ16،مریم:12)خزائن العرفان میں ہے کہ
جب آپ کی عمر شریف تین سال کی تھی اس وقت میں اللہ پاک نے آپ کو کامل عطا فر مائی
اور آپ کی طرف وحی کی۔ (خزائن العرفان ص 571)
(4)پاکیزگی والے : ﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ
زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور اپنی طرف سے مہربانی اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا ۔ ( پ 16،
مریم:13) تفسیر بغوی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ
یہاں پاکیزگی سے مراد اطاعت و اخلاص ہے، حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
پاکیزگی سے مراد عملِ صالح ہے۔ (بغوی،3/109،مریم،تحت الآیہ:13)
(5) انوکھے نام والے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا۔ (پ 16، مریم:7) اللہ پاک نے حضرت یحیٰ علیہ
السّلام کو یہ فضیلت عطا فرمائی کہ ان کی ولادت سے پہلے ہی ان کا نام رکھ دیا۔
اللہ پاک ان انبیائے کرام کے صدقے ہماری مغفرت اور ایمان و
سلامتی والی موت نصیب فرمائے۔ اٰمین
حافظ عبد الصمد محمود(درجہ ثانیہ جامعۃُ
المدینہ فیضان اوکاڑوی کراچی پاکستان)
حضرت یحییٰ علیہ السّلام حضرت زکریا علیہ السّلام کے فرزند
تھے ۔ ولادت سے پہلے آپ کی بشارت دی گئی۔اور اللہ پاک نے خود آپ علیہ السّلام کا
نام رکھا۔ بچپن میں ہی آپ علیہ السّلام کو کامل عقل، شرفِ نبوت سے نوازا۔ آپ علیہ السّلام
دنیا سے بے رغبت اور خوفِ خدا سے بکثرت گریہ
و زاری کرنے والے تھے ۔ آپ علیہ السّلام حق بیان کرنے میں کسی ملامت کرنے
والے کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ آپ علیہ السّلام منصبِ شہادت پر فائز ہوئے ۔
حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے واقعات کے قراٰنی مقامات:۔قراٰنِ
مجید میں آپ علیہ السّلام کا مختصر تذکرہ سوره انعام آیت نمبر 85 میں کیا گیا جبکہ
تفصیلی ذکر درج ذیل تین سورتوں میں کیا گیا ہے۔(1) سوره آل عمران آیت نمبر 38 تا 41 ،(2) سوره مریم
آیت نمبر 7 تا 15، (3)سورہ انبیا آیت نمبر 89تا 90۔
حضرت یحییٰ علیہ
السّلام کا تعارف: قراٰنِ پاک میں آپ علیہ السّلام کا نام یحییٰ اور ایک قول کے مطابق آپ کا نسب نامہ یہ ہے یحیی
بن زکریا بن لدن بن مسلم بن صدوق سے ہوتا ہوا حضرت سلیمان علیہ السّلام بن حضرت
داؤد علیہ السّلام تک جا پہنچتا ہے ( سیرت الانبیاء ،ص 667)
(1)ولادت کی بشارت: آپ علیہ السّلام کے والد حضرت زکریا علیہ السّلام کو الله پاک نے شرف نبوت سے نوازا
تھا۔ لیکن ان کے کوئی اولاد نہ تھی بالکل ضعیف ہو چکے تھے برسوں سے ان کے دل میں
فرزند کی تمنا تھی۔ اور بارہاں انہوں نے خدا سے اولادِ نرینہ کےلیے دعا کی تھی ۔ مگر خدا کی شان بے نیازی کی
اس سب کے باوجود اب تک نہیں کو فرزند نہیں ملا۔ جب انہوں نے حضرت مریم رضی اللہُ عنہا کی محراب میں
اولاد کی دعا مانگی تو قبول ہوئی اور اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو ایک فرزند کی
بشارت عطا فرمائی ۔ جس کا نام خود رب یحییٰ رکھا اور ان کے اوصاف بھی بیان فرمادیئے ، چنانچہ الله پاک قراٰنِ مجید میں
فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالعرفان: جب کبھی زکریا اس کے پاس اس کی
نماز پڑھنے کی جگہ جاتے تو اس کے پاس پھل پاتے۔ (زکریا نے) سوال کیا، اے مریم! یہ
تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ اللہ کی طرف سے ہے، بیشک اللہ
جسے چاہتا ہے بے شمار رزق عطا فرماتا ہے۔ وہیں زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے
دعا مانگی ،عرض کی :اے میرے رب! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما،
بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے۔ تو فرشتوں نے اسے پکار کر کہاجبکہ وہ اپنی نماز
کی جگہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ بیشک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو
اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور وہ سردار ہوگا اور ہمیشہ عورتوں سے
بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی ہوگا۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :ترجمۂ کنزالایمان: اے زکریا
ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا
نام یحییٰ ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا۔ (پ16 ، مریم : 7)
(2)والدہ کے پیٹ میں عیسیٰ علیہ السّلام کی
تعظیم: مروی ہے کہ ایک دن حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ حضرت
مریم رضی اللہُ عنہا سے ملیں تو انہیں اپنے حاملہ ہونے پر مطلع کیا ،حضرت مریم رضی
اللہُ عنہا نے فرمایا: میں بھی حاملہ ہوں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ نے
کہا: اے مریم! رضی اللہُ عنہا مجھے یوں
لگتا ہے کہ میرے پیٹ کا بچہ تمہارے پیٹ کے بچے کو سجدہ کرتا ہے۔(خازن،1/247، اٰل
عمرٰن، تحت الآیۃ: 39)
(3)توریت کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم: حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی ولادت کے بعد جب آپ علیہ السّلام
کی عمر دو سال ہوئی تو اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا: اے یحییٰ کتاب کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو
یعنی اے یحییٰ کتاب توریت کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اس پر عمل کی بھر پور کوشش
کرو۔
(4)بچپن میں کامل عقل اور نبوت ملنا: الله پاک ارشاد فرماتا ہے : اور ہم نے اسے پچپن ہی میں حکمت
عطا فرما دی تھی۔ تفاسیر میں ہے کہ جب آپ
علیہ السّلام کی عمر مبارک تین سال ہوئی اس وقت میں اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام
کو کامل عقل عطا فرمائی اور آپ کی طرف وحی کی ۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہُ
عنہما کا یہی قول ہے اور اتنی سی عمر میں فہم و فراست اور عقل و دانش کا کمال، خَوارقِ
عادات (یعنی انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات) میں سے ہے اور جب اللہ پاک کے کرم سے یہ حاصل ہو تو اس حال میں نبوت ملنا کچھ بھی بعید نہیں ، لہٰذا اس آیت میں حکم سے نبوت مراد ہے اور یہی قول صحیح ہے۔ بعض
مفسرین نے اس سے حکمت یعنی توریت کا فہم اور دین میں سمجھ بھی مراد لی ہے۔
(5)مقام
شہادت: اس میں اختلاف ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی شہادت کا
واقعہ کس جگہ پیش آیا؟ یہاں اس سے متعلق دو قول ملاحظہ ہوں: (1) پہلا قول یہ ہے
کہ ''مسجد جبرون'' میں شہادت ہوئی۔ (2) حضرت سفیان ثوری نے شمر بن عطیہ سے یہ قول
نقل کیا ہے کہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی اور قربان گاہ کے درمیان آپ شہید کئے
گئے جس جگہ آپ سے پہلے ستر انبیاء علیہم السّلام کو یہودی قتل کر چکے تھے۔ (تاریخ ابن کثیر، 2/55)
انبیائے کرام علیہم السّلام اللہ پاک کے پسندیدہ بندے ہیں۔
اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیائے کرام کو اس دنیا میں بھیجا۔ انبیائے
کرام خدا کے خاص اور معصوم بندے ہوتے ہیں جو صغیرہ کبیرہ گنا ہوں سے بالکل پاک ہوتے ہیں۔
اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں بہت سے انبیا کی صفات بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک
حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہیں۔ آپ حضرت زکریا علیہ السّلام کے فرزند ہیں ۔ اور اللہ
پاک نے خود آپ کا نام دکھا۔ آپ علیہ السّلام کی صفات درجہ ذیل ہیں۔
(1)پیدائش کی خوشخبری : حضرت زکریا علیہ السّلام نے جب اولاد کی دعا مانگی تو اللہ پاک
نے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی خوشخبری دی ۔ ارشاد باری ہے: ﴿ اَنَّ اللّٰهَ
یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ
حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان:
بیشک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق
کرے گا اور وہ سردار ہو گا اور ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک
نبی ہوگا۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)
(2) بچپن میں حکمت: قراٰنِ پاک میں ارشاد ہے : ﴿ وَ
اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی۔(پ16،مریم:12) جب آپ کی
عمر شریف تین سال تھی اس وقت میں اللہ پاک نے آپ کو کامل عقل عطا فرمائی۔ اور آپ کی
طرف وحی کی۔( تفسیر صراط الجنان، 6/72)
(3)نرم دل اور پاکیزہ : اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے ۔﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ- ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی
اور پاکیزگی دی۔(پ 16، مریم:13) حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں
کہ یہاں پاکیزگی سے طاعت و اخلاص مراد ہے۔ تفسیر صراط الجنان،6/74)
(4)اللہ سے ڈرنے والا : اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ
كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے
والا تھا۔(پ 16، مریم:13)
(5)ماں باپ کا فرمانبردار : قراٰنِ پاک میں ارشاد ہے: ﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا
عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور وہ متکبر ،
نافرمان نہیں تھا۔( پ 16، مریم:14)
اللہ پاک ہمیں بھی انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت کا
مطالعہ کرنے اور ان کی پاکیزہ صفات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین
محمد شاکر رضا (جامعۃُ المدینہ فیضان غوث اعظم ولیکا سائٹ ایریا کراچی پاکستان)
تمام تعریفیں اس ذات مقدسہ کے لیے جس نے آسمان و زمین، عرش
و کرسی اور بے شمار مخلوقات پیدا فرمائی انہیں مخلوقات
میں سے ایک مخلوق ”اشرف المخلوقات“ انسان کو پیدا فرمایا اور اس مخلوق کو مختلف
قبائل و قوموں کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں میں تقسیم کیا۔
انہیں قبیلوں میں سے ایک قبیلہ بنی اسرائیل ہے۔ کئی انبیا و رسل اس قوم کی طرف مبعوث ہوئے ۔ انہیں
میں سے ایک حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہیں۔ آئیے انہیں کے بارے میں کچھ صفات پڑھتے ہیں:۔
(1)بچپن میں شوقِ نماز و لہو و لعب سے دوری: ایک بار کچھ بچوں
نے آپ کو کہا آئیے کھیلتے ہیں آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: ہم کھیل کود کے لیے پیدا
نہیں کیے گئے پھر ان کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : تم چلو ہمارے ساتھ
نماز ادا کرنے۔(سیرت الانبیاء ،ص 770)
(2) ﴿وَّ
حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی
اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13) اللہ
پاک نے انہیں اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور ان کے دل میں رقت و رحمت رکھی تاکہ
آپ لوگوں پر رحم و مہربانی کریں اور انہیں اللہ پاک کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے
ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں۔(صراط الجنان،6/74)
(3) پاکیزگی عطا کی : اللہ رب العزت نے انہیں پاکیزگی دی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
فرماتے ہیں کہ یہاں پاکیزگی سے مراد اخلاص و اطاعت ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس سے
عملِ صالح مراد ہے۔
(4) خوفِ خدا: آپ علیہ السّلام رب الانام کے خوف سے بہت گریہ وزاری کرتے تھے یہاں تک آپ علیہ
السّلام کے رخسارِ مبارکہ پر آنسوؤں کے
نشان بن گئے تھے۔
(5) ﴿وَّ
بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور زبردست و
نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14) آپ ماں باپ
کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے کیونکہ اللہ پاک کی عبادت کے بعد
والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی اطاعت نہیں۔ (صراط الجنان،6/76)
حافظ محمد حنین قادری (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان اوکاڑوی کراچی پاکستان )
حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے قراٰنِ کریم میں کئی صفات بیان
کیے گئے۔ چنانچہ اللہ پاک پارہ 3 سورۂ آلِ عمران آیت 39 میں ارشاد فرماتا
ہے: ﴿فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ
اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا
وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: تو
فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ
آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار
اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)
مذکورہ آیت مبارکہ میں یحیٰ علیہ السّلام کے چار اوصاف بیان
فرمائے۔
(1) مصدق: تصدیق کرنے والا۔ حضرت زکریا علیہ السّلام
کو یہ غیب کی خبر دی گئی کہ آپ کو ایسا بیٹا عطا کیا جائے گا جس کا نام "یحیٰ"
ہوگا اور وہ اللہ پاک کے کلمہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السّلام کی تصدیق کرے
گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اور ان کی تصدیق کرنے
والے حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان )
(2) سید یعنی سردار: سید اس رئیس کو کہتے ہیں جو مخدوم و مُطاع ہو یعنی لوگ اس کی خدمت و اطاعت کریں۔
حضرت یحییٰ علیہ السّلام مؤمنین کے سردار اور علم و حلم اور دین میں ان کے رئیس
تھے۔تفسیر نعیمی میں ہے سید وہ ہے جو سواد یعنی بڑی جماعت کا متولی و سردار ہو یا
تو اس سے مراد کریم ہے یا حلیم یا متقی یا شریف یا فقیہ عالم یا رب کے فرمان پر
راضی یا سردار بعض اہل لغت نے اس کے معنی ہمت والا اور مالک بھی کئے ہیں۔ سفیان
ثوری فرماتے ہیں کہ سید وہ جو کسی پر حسد نہ کرے اور ابو اسحاق نے فرمایا کہ سید
وہ جو علم اور تقویٰ میں اپنی قوم سے افضل ہو۔ اب اصطلاح میں ہر دینی یا دنیوی فوقیت
رکھنے والے کو سید کہتے ہیں۔ (روح المعانی) چونکہ یحییٰ علیہ السّلام میں یہ ساری
صفتیں تھیں اس لئے انہیں سید فرمایا گیا۔ بعض لوگوں نے فرمایا کہ آپ نے کبھی کوئی
خطا نہ کی (روح البیان) تفسیر کبیر نے فرمایا کہ آپ نے کبھی کسی پر غصہ نہ کیا۔ اس
لئے رب نے آپ کو سید فرمایا ۔ (تفسیر نعیمی ،3/389)
(3)حصور : عورتوں سے بچنے والا۔ حصور وہ شخص ہوتا ہے جو قوت کے باوجود عورت سے رغبت نہ کرے۔
(تفسیر صراط الجنان) تفسیر نعیمی میں ہے حصور حصر سے بنا معنی روکنا یہ مبالغہ کا
صیغہ ہے اصطلاح میں حصور وہ ہے جو قدرت کے باوجود محض زہد و تقویٰ سے عورتوں کے
پاس نہ جائے۔ نامرد حصور نہیں۔ جن لوگوں نے ان کے معنی نامرد کئے سخت غلطی کی۔ کیونکہ
انبیائے کرام اس مرض سے پاک ہوتے ہیں۔
(4) صالحین میں سے ایک نبی: تفسیر نعیمی میں ہے
یہاں ایک اعتراض ملاحظہ ہو۔ رب تعالٰی نے حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی آخری صفت بیان
فرمائی مِنَ الصّٰلِحِیْنَ کہ وہ نیک لوگوں میں سے ہونگے۔ یہ صفت تو عام مسلمانوں
میں موجود ہی ہے۔ اسے اتنی اہمیت سے بیان کیوں فرمایا ؟ جواب: یہاں صالحین سے مراد
عمومی صالحیت نہیں جو ہر مومن متقی کو حاصل ہوتی ہے۔ بلکہ جیسا صالح ویسی ہی صالحیت
۔ یہاں صالحین کے یہ معنی ہیں کہ وہ ہمیشہ نیکیاں ہی کرینگے ان سے کوئی گناہ یا
خطا عمر بھر سرزد نہ ہوگا ۔ ان کی ہر ادا اصلاح ہے۔ یا وہ کوئی خطا نہ کر سکیں گے۔
یعنی خطاؤں سے محفوظ یا معصوم یا وہ ان تمام مذکورہ صفات کے لائق ہیں۔ رب نے جوا
نہیں دیا ہے۔ ان کی لیاقت و قابلیت کی بناپر دیا یا وہ خود بھی نبی ہیں۔ اور ان کا
خاندان بھی صالحین کا ہے ۔
سوره مریم آیت 13 پارہ 16 میں ارشاد ربانی ہے۔ ﴿وَ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ
زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ
ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13) اللہ پاک نے انہیں اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور
ان کے دل میں رقت و رحمت رکھی تاکہ آپ لوگوں پر رحم و مہربانی کریں اور انہیں اللہ
پاک کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں۔(صراط الجنان،6/74)
محمد ثقلین عطاری(درجہ خامسہ جامعۃُ المدينہ فیضان امام غزالی گلستان کالونی فیصل
آباد پاکستان)
رب کائنات نے انسانوں کی راہ نمائی کے لئے انبیائے کرام کو
بھیجا جو لوگوں کو حق کی ہدایت دیتے رہے اور برے افعال سے منع فرماتے رہے اور
لوگوں کو اللہ کی وحدانیت کا درس دیتے رہے۔ جتنے بھی انبیائے کرام اس دنیا میں
جلوہ گر ہوئے ان سب کے واقعات اور صفات کو
اللہ نے قراٰنِ پاک میں بیان فرمایا۔ انہی انبیائے کرام میں سے ایک حضرت یحیٰ علیہ
السّلام بھی ہے۔ انبیائے کرام کی محبت دل میں اور زیادہ بڑھانے کیلئے آئیے ثواب کی
نیت سے حضرت یحیٰ علیہ السّلام کا ذکر کرتے ہیں۔
نام و نسب : آپ علیہ السّلام کا نام مبارک یحیٰ ہے
اور ایک قول کے مطابق آپ کا نسب نامہ یہ ہے یحیی بن زکریا بن لدن بن مسلم بن صدوق
سے ہوتا ہوا حضرت سلیمان علیہ السّلام بن حضرت داؤد علیہ السّلام تک جا پہنچتا ہے
( سیرت الانبیاء ،ص 667)
ولادت کی بشارت: آپ علیہ السّلام کے والد حضرت زکریا علیہ السّلام
کو الله شرف نبوت سے نواز تھا، لیکن ان کی کوئی اولاد نہ تھی، برسوں سے ان کے دل میں
فرزند کی تمنا تھی۔ چنانچہ آپ علیہ السّلام نے محرابِ مریم (وہ جگہ جہاں حضرت مریم
عبادت کیا کرتی تھی) میں دعا مانگی اور آپ کی دعا مقبول ہو گئی۔ اور اللہ پاک نے
بڑھاپے میں آپ کو ایک فرزند عطا فرمایا جن کا نام خود خداوند عالم نے ''یحییٰ''
رکھا اور اللہ پاک نے ان کو نبوت کا شرف بھی عطا فرمایا۔ اور ان کے اوصاف بھی بیان فرمائے۔ آئیے حضرت یحیٰ علیہ السّلام کے قراٰنی صفات ذکر
کرتے ہیں۔
(1) آپ علیہ
السّلام کا نام ''یحییٰ'' خود اللہ پاک نے رکھا اور آپ سے پہلے یہ نام کسی اور کا
نہ رکھا گیا۔ فرمانِ باری ہے:﴿ یٰزَكَرِیَّاۤ
اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ
سَمِیًّا(۷)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحییٰ ہے اس کے پہلے ہم
نے اس نام کا کوئی نہ کیا۔ (پ16 ، مریم : 7)
(2)حضرت یحیٰ
علیہ السّلام کی صفات کا ذکر جو اس آیت میں ہوا۔ اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو
بچپن میں ہی نبوت عطا فرمائی۔ اور آپ علیہ السّلام کو حضرت زکریا علیہ السّلام کا جانشین کیا اور آل یعقوب کی
نبوت کا وارث بنایا ۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت دی۔(پ16،مریم:12) ﴿یَّرِثُنِیْ وَ یَرِثُ
مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ ﳓ وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا(۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: وہ میرا جانشین ہو اور اولادِ یعقوب کا وارث ہو اور اے میرے
رب اسے پسندیدہ کر۔(پ16،مریم:6) تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ آپ علیہ السّلام کو
دو سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی اور تین سال کی عمر میں آپ کی طرف وحی نازل کی گئی۔
(3) فرمانِ باری ہے : ﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا
عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ
سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور زبردست و نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14)اس آیت میں
حضرت سے یحیٰ علیہ السّلام کی ایک صفت یہ بھی بیان ہوئی کہ آپ ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے
والے تھے کیونکہ اللہ پاک کی عبادت کے بعد والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی طاعت نہیں
اور اس پر اللہ کا یہ قول دلالت کرتا ہے۔؟
(4) اللہ پاک
پارہ 16 سورہ مریم آیت نمبر 15 میں ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمۂ کنز الایمان: اور سلامتی
ہے اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا
اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا۔ (پ16،مریم:15) یعنی جس دن حضرت یحیٰ علیہ
السّلام پیدا ہوئے اس دن ان کے لئے شیطان سے امان ہے کہ وہ عام بچوں کی طرح آپ علیہ السّلام کونہ چھوئے گا اور جس
دن آپ علیہ السّلام وفات پائیں گے اس دن ان کے لئے عذابِ قبر سے امان ہے اور جس
دن آپ علیہ السّلام کو زندہ اٹھایا جائے گا اس دن ان کے لئے قیامت کی سختی سے
امان ہے۔(صراط الجنان،6/78)
(5) فرمان باری ہے: ترجمۂ کنزالایمان: تو
فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ
آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار
اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)اس آیت
میں حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی چار صفات بیان ہوئی ہیں: اللہ نے آپ کو حضرت
عیسیٰ علیہ السّلام کی تصدیق کرنے والا۔ اہلِ ایمان کا سردار، قوت کے باوجود عورت
سے بچنے والا ۔صالحین میں سے ایک نبی بنایا۔
قارئین حضرات! ہمیں
بھی چاہیے کہ انبیائے کرام کی سیرت کا ذوق ، شوق کے ساتھ مطالعہ کریں تاکہ ہمارے
دلوں میں انبیائے کرام کی محبت میں اور زیادہ اضافہ ہو۔ الله کریم ہم سب کو نیک سیرت والا کردار اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
انبیائے کرام اللہ کے پسندیدہ بندے ہیں۔ اللہ پاک نے
انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیائے کرام کو اس دنیا میں بھیجا۔ انبیائے کرام خدا کے
خاص اور معصوم بندے ہیں ۔ جو کبیرہ صغیرہ گنا ہوں سے بالکل پاک ہے۔ اللہ نے قراٰن
میں بہت سے انبیائے کرام کی صفات بیان کی ہیں ۔ ان میں سے ایک حضرت یحیٰ علیہ
السّلام بھی ہیں آپ حضرت زکریا علیہ السّلام کے فرزند ہیں اور اللہ نے خود آپ کا
نام رکھا۔ آپ کی صفات درجہ ذیل ہیں۔
(1) پیدائش کی خوشخبری: حضرت زکریا علیہ السّلام نے جب اولاد کی دعا مانگی تو اللہ پاک
نے آپ کو حضر ت یحیٰ علیہ السّلام کی
خوشخبری دی۔ ارشاد باری ہے: ﴿ اَنَّ اللّٰهَ
یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ
حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان:
بیشک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق
کرے گا اور وہ سردار ہو گا اور ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک
نبی ہوگا۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)
(2)اللہ سے ڈرنے والا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿
وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ
ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13)
(3) ماں باپ کا فرمانبردار : قراٰنِ پاک میں ہے:﴿وَّ
بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور وہ متکبر ، نافرمان نہیں تھا۔( پ 16، مریم:14)
(4) بچپن میں حکمت: قراٰنِ پاک میں ارشاد ہے: ﴿ وَ
اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی۔(پ16،مریم:12) جب آپ کی
عمر شریف تین سال تھی اس وقت میں اللہ پاک نے آپ کو کامل عقل عطا فرمائی۔ اور آپ کی
طرف وحی کی۔( تفسیر صراط الجنان، جلد6)
(5)نرم دل اور پاکیزہ: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَّ
حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی۔(پ 16، مریم:13)حضرت عبد
الله بن عباس فرماتے ہیں کہ یہاں پاکیزگی سے مراد اطاعت و اخلاص ہے۔حضرت زکریا علیہ السلام کی
دعاؤں کا ثمرہ تھا کہ اللہ نے آپ کو بڑھاپے میں حضرت یحیٰ علیہ السّلام جیسی اولاد
عطا فرمائی۔ آپ خود بھی نبی تھے اور آپ کے فرزند حضرت یحیٰ علیہ السّلام بھی نبی
ہوئے۔اللہ ہمیں انبیائے کرام کی سیرت کا مطالعہ کرنے اور ان کی راہ پر چلنے اور ان
کی صفات اپنانے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
تنویر احمد عطاری (درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور
پاکستان)
﴿اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ
مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان:
بیشک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار
اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)
یہ غیب کی خبر : حضرت جبرئیل اور حضرت زکریا علیہ
الصلوة والسلام دونوں کو معلوم ہوئی کہ حضرت زکریا علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسا بیٹا
عطا کیا جائے گا جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر سب سے پہلے ایمان
لانے والے اور تصدیق کرنے والے حضرت یحییٰ علیہ الصلوۃ والسّلام ہیں۔ جو حضرت عیسیٰ
علیہ السّلام سے چھ ماہ بڑے ہیں۔
حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ حضرت مریم رضی اللہُ عنہا
سے ملیں تو انہیں اپنے حاملہ ہونے پر مطلع کیا ،حضرت مریم رضی اللہُ عنہا نے فرمایا:
میں بھی حاملہ ہوں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ نے کہا: اے مریم! رضی اللہُ عنہا مجھے یوں لگتا ہے کہ میرے پیٹ
کا بچہ تمہارے پیٹ کے بچے کو سجدہ کرتا ہے۔(خازن،1/247، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ: 39)
مذکورہ آیتِ مبارکہ میں حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے کچھ اوصاف
بیان ہوئے ہیں :
(1)مصدق: تصدیق
کرنے والا۔
(2)سید یعنی
سردار: سید اس رئیس کو کہتے ہیں جو مخدوم و مُطاع ہو یعنی لوگ اس کی خدمت و اطاعت
کریں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام مؤمنین کے سردار اور علم و حلم اور دین میں ان کے
رئیس تھے۔
(3)حَصُوْرًا: عورتوں سے بچنے والا۔ حصور وہ شخص ہوتا ہے جو قوت کے
باوجود عورت سے رغبت نہ کرے ۔
(4) صالحین میں
سے ایک نبی۔
(5) حضرت یحیٰ
علیہ الصلوة السّلام نیکیوں میں جلدی کرنے والےتھے۔
(6) اور حضرت یحیٰ علیہ الصلوۃ والسّلام الله پاک کو
بڑی رغبت اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے۔
(7) دل سے جھکنے والے تھے۔
(8) حضرت یحیٰ علیہ الصلوۃ والسّلام عاجزی اور
انکساری کرنے والے تھے۔
محمد اویس منظور عطاری(درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان عبد اللہ شاہ غازی
کلفٹن کراچی پاکستان)
الله پاک نے اپنے احکام اپنی مخلوق تک پہنچانے اور انہیں
سکھانے کے لیے اور ان پر اپنی حجت تمام کرنے کے لئے بے شمار انبیائے کرام کو مبعوث
فرمایا اور انہیں ان نفوسِ قدسیہ کے وسیلے سے ہدایت کے راستے پر گامزن فرمایا۔ انہیں
نفوسِ قدسیہ میں سے چمنِ نبوت کے مہکتے چراغ حضرت یحیٰ علیہ الصلوۃ والسّلام بھی ہیں۔
اللہ پاک نے انبیائے کرام کا قراٰنِ پاک میں جگہ جگہ ذکر فرمایا ہے۔ قراٰنِ پاک میں
حضرت یحیٰ علیہ السّلام کا تذکرہ ملنا بھی ان کی صفات کے ساتھ ملتا ہے۔ چنانچہ:
(1) اللہ کی طرف سے خوشخبری دی گئی: جب حضرت زکریا علیہ
السّلام نے اللہ پاک سے اولاد کی دعا کی تو الله پاک نے حضرت زکریا کو حضرت یحیٰ
علیہ السّلام کی خوشخبری سناتے ہوئے فرمایا : ترجمۂ کنزالایمان: اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے
ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحییٰ ہے ۔
(پ16 ، مریم : 7)
(2) سب سے پہلے یحییٰ نام سے موسوم ہونے والے: یہ بات بھی آپ علیہ
السّلام کی صفات میں سے ہے کہ آپ سے پہلے یحییٰ کسی کا نام نہ تھا۔ اس صفت کا ذکر
کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ترجمۂ کنزالایمان: اس سے پہلے ہم نے اس نام
کا کوئی نہ کیا۔(پ16 ، مریم : 7)
(3) بچپن ہی میں نبوت سے سرفراز ہونے والے: یہ صفت بھی حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہی کی ہے کہ اللہ پاک
نے آپ کو بچپن ہی میں نبوت سے سرفراز فرمایا تھا آپ کی یہ صفت بھی قراٰن میں مذکور
ہے ۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے اسے بچپن ہی
میں نبوت دی۔(پ16،مریم:12)
(4) مہربان : حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی کئی صفات میں اللہ پاک ایک اور صفت کا تذکرہ کرتے
ہوئے فرماتا ہے : ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
اپنی طرف سے مہربانی اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا ۔ ( پ 16، مریم:13) آیت کے
اس حصے (مہربانی) کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں کہ اور ہم نے اسے اپنی
طرف سے مہربانی عطا کی اور ان کے دل میں رقت اور رحمت رکھی کہ لوگوں پر مہربانی کریں۔
( تفسیر خزائن العرفان )
(5)مطیع و مخلص: قراٰن میں مذکور حضرت یحییٰ کی صفت
مطیع و مخلص کی منظر کشی کرتے ہوئے قراٰن کہتا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنی
طرف سے مہربانی اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا ۔ ( پ 16، مریم:13) اس آیت کے
حصے زکوة ( ستھرائی) کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں لکھا ہے کہ " حضرت ابن
عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا کہ
زکوة ( ستھرائی) سے یہاں طاعت و اخلاص مراد ہے ۔
(6) متقی: حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی صفات عالیہ میں
سے صفت متقی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ پاک قراٰن میں ارشاد فرماتا ہے : ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنی طرف سے مہربانی
اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا ۔ ( پ 16، مریم:13) آپ علیہ السّلام خوفِ خدا سے
بہت گریہ و زاری کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کے چہرے پر آنسوؤں سے نشان پڑ گئے
تھے۔ (خزائن العرفان )
(7) والدین سے نیک سلوک کرنے والے : آپ اپنے والدین سے
اچھا سلوک کرنے والے تھے۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ
سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور زبردست و نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14) یعنی آپ
نہایت متواضع اور خلیق (تواضع کرنے والے اور خوب خوش اخلاق تھے) اور اللہ پاک کے
حکم کے مطیع ۔
الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی سیرت
پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ان کے فیوض و برکات سے مالا مال فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
محمد آریان رضا خان (درجہ اولی عصری جامعۃُ
المدینہ فیضان خزائن العرفان پاک کالونی کراچی پاکستان)
(1)حضرت یحیٰ
علیہ السّلام کی ولادت کے بعد جب آپ علیہ السّلام کی عمر دو سال ہوئی تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ’’ اے یحیٰ ! کتاب
توریت کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور اس پر عمل کی بھرپور کوشش کرو اور ہم نے
اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی ۔
(صراط الجنان ،6/ 72)
(2) جب کہ آپ
کی عمر شریف تین سال کی تھی اس وقت میں اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو کامل عقل
عطا فرمائی اور آپ کی طرف وحی کی۔ (صراط الجنان ،6/ 72)
(3)الله پاک
نے انہیں اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور ان کے دل میں رقت و رحمت رکھی تاکہ آپ علیہ
السّلام لوگوں پر مہر بانی کریں اور انہیں اللہ پاک کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے
ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں۔ (صراط الجنان ،6/ 74)
(4) اللہ پاک
نے انہیں پاکیزگی دی، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہاں
پاکیزگی سے اطاعت و اخلاص مراد ہے اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پاکیزگی
سے مراد عمل صالح ہے۔ (صراط الجنان ،6/ 74)
(5)وہ اللہ
پاک سے بہت زیادہ ڈرنے والا والے تھے، آپ علیہ الصلوۃ والسّلام اللہ پاک کے خوف سے
بہت گریہ وزاری کرتے تھے یہاں تک کہ آپ علیہ الصلوۃ والسّلام کے رخسار مبارک پر
آنسوؤں سے نشان بن گئے تھے۔ ۔ (صراط الجنان ،6/ 74)
(6)حضرت یحیٰ
علیہ السّلام تکبر کرنے والے نہیں تھے ۔ ۔ (صراط الجنان ،6/ 77)
(7) آپ ماں
باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے کیونکہ اللہ پاک کی عبادت کے
بعد والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی اطاعت نہیں۔ (صراط الجنان،6/76)
(8) اللہ پاک
نے حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی ولادت کے دن ان پر سلام بھیجا۔(صراط الجنان،6/79)
(9)جس دن
حضرت یحیٰ علیہ السّلام پیدا ہوئے اس دن ان کے لئے شیطان سے امان ہے کہ وہ عام
بچوں کی طرح آپ علیہ السّلام کونہ چھوئے
گا اور جس دن آپ علیہ السّلام وفات پائیں گے اس دن ان کے لئے عذابِ قبر سے امان
ہے اور جس دن آپ علیہ السّلام کو زندہ اٹھایا جائے گا اس دن ان کے لئے قیامت کی
سختی سے امان ہے۔(صراط الجنان،6/78)
(10)حضرت یحیٰ
علیہ السّلام اللہ پاک کے نافرمان نہیں تھے۔ ( صراط الجنان، 6/ 77)
(11)مصدق: تصدیق
کرنے والا۔ اس کا بیان اوپر گزرا۔
(12)سید یعنی
سردار: سید اس رئیس کو کہتے ہیں جو مخدوم و مُطاع ہو یعنی لوگ اس کی خدمت و اطاعت
کریں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام مؤمنین کے سردار اور علم و حلم اور دین میں ان کے
رئیس تھے۔
(13)حَصُوْرًا: عورتوں سے بچنے والا۔ حصور وہ شخص ہوتا ہے جو قوت کے
باوجود عورت سے رغبت نہ کرے ۔
(14) صالحین میں
سے ایک نبی۔(صراط الجنان)