حافظ محمد حنین قادری (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان اوکاڑوی کراچی پاکستان )
حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے قراٰنِ کریم میں کئی صفات بیان
کیے گئے۔ چنانچہ اللہ پاک پارہ 3 سورۂ آلِ عمران آیت 39 میں ارشاد فرماتا
ہے: ﴿فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ
اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا
وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: تو
فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ
آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار
اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)
مذکورہ آیت مبارکہ میں یحیٰ علیہ السّلام کے چار اوصاف بیان
فرمائے۔
(1) مصدق: تصدیق کرنے والا۔ حضرت زکریا علیہ السّلام
کو یہ غیب کی خبر دی گئی کہ آپ کو ایسا بیٹا عطا کیا جائے گا جس کا نام "یحیٰ"
ہوگا اور وہ اللہ پاک کے کلمہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السّلام کی تصدیق کرے
گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اور ان کی تصدیق کرنے
والے حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان )
(2) سید یعنی سردار: سید اس رئیس کو کہتے ہیں جو مخدوم و مُطاع ہو یعنی لوگ اس کی خدمت و اطاعت کریں۔
حضرت یحییٰ علیہ السّلام مؤمنین کے سردار اور علم و حلم اور دین میں ان کے رئیس
تھے۔تفسیر نعیمی میں ہے سید وہ ہے جو سواد یعنی بڑی جماعت کا متولی و سردار ہو یا
تو اس سے مراد کریم ہے یا حلیم یا متقی یا شریف یا فقیہ عالم یا رب کے فرمان پر
راضی یا سردار بعض اہل لغت نے اس کے معنی ہمت والا اور مالک بھی کئے ہیں۔ سفیان
ثوری فرماتے ہیں کہ سید وہ جو کسی پر حسد نہ کرے اور ابو اسحاق نے فرمایا کہ سید
وہ جو علم اور تقویٰ میں اپنی قوم سے افضل ہو۔ اب اصطلاح میں ہر دینی یا دنیوی فوقیت
رکھنے والے کو سید کہتے ہیں۔ (روح المعانی) چونکہ یحییٰ علیہ السّلام میں یہ ساری
صفتیں تھیں اس لئے انہیں سید فرمایا گیا۔ بعض لوگوں نے فرمایا کہ آپ نے کبھی کوئی
خطا نہ کی (روح البیان) تفسیر کبیر نے فرمایا کہ آپ نے کبھی کسی پر غصہ نہ کیا۔ اس
لئے رب نے آپ کو سید فرمایا ۔ (تفسیر نعیمی ،3/389)
(3)حصور : عورتوں سے بچنے والا۔ حصور وہ شخص ہوتا ہے جو قوت کے باوجود عورت سے رغبت نہ کرے۔
(تفسیر صراط الجنان) تفسیر نعیمی میں ہے حصور حصر سے بنا معنی روکنا یہ مبالغہ کا
صیغہ ہے اصطلاح میں حصور وہ ہے جو قدرت کے باوجود محض زہد و تقویٰ سے عورتوں کے
پاس نہ جائے۔ نامرد حصور نہیں۔ جن لوگوں نے ان کے معنی نامرد کئے سخت غلطی کی۔ کیونکہ
انبیائے کرام اس مرض سے پاک ہوتے ہیں۔
(4) صالحین میں سے ایک نبی: تفسیر نعیمی میں ہے
یہاں ایک اعتراض ملاحظہ ہو۔ رب تعالٰی نے حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی آخری صفت بیان
فرمائی مِنَ الصّٰلِحِیْنَ کہ وہ نیک لوگوں میں سے ہونگے۔ یہ صفت تو عام مسلمانوں
میں موجود ہی ہے۔ اسے اتنی اہمیت سے بیان کیوں فرمایا ؟ جواب: یہاں صالحین سے مراد
عمومی صالحیت نہیں جو ہر مومن متقی کو حاصل ہوتی ہے۔ بلکہ جیسا صالح ویسی ہی صالحیت
۔ یہاں صالحین کے یہ معنی ہیں کہ وہ ہمیشہ نیکیاں ہی کرینگے ان سے کوئی گناہ یا
خطا عمر بھر سرزد نہ ہوگا ۔ ان کی ہر ادا اصلاح ہے۔ یا وہ کوئی خطا نہ کر سکیں گے۔
یعنی خطاؤں سے محفوظ یا معصوم یا وہ ان تمام مذکورہ صفات کے لائق ہیں۔ رب نے جوا
نہیں دیا ہے۔ ان کی لیاقت و قابلیت کی بناپر دیا یا وہ خود بھی نبی ہیں۔ اور ان کا
خاندان بھی صالحین کا ہے ۔
سوره مریم آیت 13 پارہ 16 میں ارشاد ربانی ہے۔ ﴿وَ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ
زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ
ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13) اللہ پاک نے انہیں اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور
ان کے دل میں رقت و رحمت رکھی تاکہ آپ لوگوں پر رحم و مہربانی کریں اور انہیں اللہ
پاک کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں۔(صراط الجنان،6/74)