حافظ عبد الصمد محمود(درجہ ثانیہ جامعۃُ
المدینہ فیضان اوکاڑوی کراچی پاکستان)
حضرت یحییٰ علیہ السّلام حضرت زکریا علیہ السّلام کے فرزند
تھے ۔ ولادت سے پہلے آپ کی بشارت دی گئی۔اور اللہ پاک نے خود آپ علیہ السّلام کا
نام رکھا۔ بچپن میں ہی آپ علیہ السّلام کو کامل عقل، شرفِ نبوت سے نوازا۔ آپ علیہ السّلام
دنیا سے بے رغبت اور خوفِ خدا سے بکثرت گریہ
و زاری کرنے والے تھے ۔ آپ علیہ السّلام حق بیان کرنے میں کسی ملامت کرنے
والے کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ آپ علیہ السّلام منصبِ شہادت پر فائز ہوئے ۔
حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے واقعات کے قراٰنی مقامات:۔قراٰنِ
مجید میں آپ علیہ السّلام کا مختصر تذکرہ سوره انعام آیت نمبر 85 میں کیا گیا جبکہ
تفصیلی ذکر درج ذیل تین سورتوں میں کیا گیا ہے۔(1) سوره آل عمران آیت نمبر 38 تا 41 ،(2) سوره مریم
آیت نمبر 7 تا 15، (3)سورہ انبیا آیت نمبر 89تا 90۔
حضرت یحییٰ علیہ
السّلام کا تعارف: قراٰنِ پاک میں آپ علیہ السّلام کا نام یحییٰ اور ایک قول کے مطابق آپ کا نسب نامہ یہ ہے یحیی
بن زکریا بن لدن بن مسلم بن صدوق سے ہوتا ہوا حضرت سلیمان علیہ السّلام بن حضرت
داؤد علیہ السّلام تک جا پہنچتا ہے ( سیرت الانبیاء ،ص 667)
(1)ولادت کی بشارت: آپ علیہ السّلام کے والد حضرت زکریا علیہ السّلام کو الله پاک نے شرف نبوت سے نوازا
تھا۔ لیکن ان کے کوئی اولاد نہ تھی بالکل ضعیف ہو چکے تھے برسوں سے ان کے دل میں
فرزند کی تمنا تھی۔ اور بارہاں انہوں نے خدا سے اولادِ نرینہ کےلیے دعا کی تھی ۔ مگر خدا کی شان بے نیازی کی
اس سب کے باوجود اب تک نہیں کو فرزند نہیں ملا۔ جب انہوں نے حضرت مریم رضی اللہُ عنہا کی محراب میں
اولاد کی دعا مانگی تو قبول ہوئی اور اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو ایک فرزند کی
بشارت عطا فرمائی ۔ جس کا نام خود رب یحییٰ رکھا اور ان کے اوصاف بھی بیان فرمادیئے ، چنانچہ الله پاک قراٰنِ مجید میں
فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالعرفان: جب کبھی زکریا اس کے پاس اس کی
نماز پڑھنے کی جگہ جاتے تو اس کے پاس پھل پاتے۔ (زکریا نے) سوال کیا، اے مریم! یہ
تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ اللہ کی طرف سے ہے، بیشک اللہ
جسے چاہتا ہے بے شمار رزق عطا فرماتا ہے۔ وہیں زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے
دعا مانگی ،عرض کی :اے میرے رب! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما،
بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے۔ تو فرشتوں نے اسے پکار کر کہاجبکہ وہ اپنی نماز
کی جگہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ بیشک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو
اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور وہ سردار ہوگا اور ہمیشہ عورتوں سے
بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی ہوگا۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :ترجمۂ کنزالایمان: اے زکریا
ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا
نام یحییٰ ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا۔ (پ16 ، مریم : 7)
(2)والدہ کے پیٹ میں عیسیٰ علیہ السّلام کی
تعظیم: مروی ہے کہ ایک دن حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ حضرت
مریم رضی اللہُ عنہا سے ملیں تو انہیں اپنے حاملہ ہونے پر مطلع کیا ،حضرت مریم رضی
اللہُ عنہا نے فرمایا: میں بھی حاملہ ہوں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ نے
کہا: اے مریم! رضی اللہُ عنہا مجھے یوں
لگتا ہے کہ میرے پیٹ کا بچہ تمہارے پیٹ کے بچے کو سجدہ کرتا ہے۔(خازن،1/247، اٰل
عمرٰن، تحت الآیۃ: 39)
(3)توریت کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم: حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی ولادت کے بعد جب آپ علیہ السّلام
کی عمر دو سال ہوئی تو اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا: اے یحییٰ کتاب کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو
یعنی اے یحییٰ کتاب توریت کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اس پر عمل کی بھر پور کوشش
کرو۔
(4)بچپن میں کامل عقل اور نبوت ملنا: الله پاک ارشاد فرماتا ہے : اور ہم نے اسے پچپن ہی میں حکمت
عطا فرما دی تھی۔ تفاسیر میں ہے کہ جب آپ
علیہ السّلام کی عمر مبارک تین سال ہوئی اس وقت میں اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام
کو کامل عقل عطا فرمائی اور آپ کی طرف وحی کی ۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہُ
عنہما کا یہی قول ہے اور اتنی سی عمر میں فہم و فراست اور عقل و دانش کا کمال، خَوارقِ
عادات (یعنی انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات) میں سے ہے اور جب اللہ پاک کے کرم سے یہ حاصل ہو تو اس حال میں نبوت ملنا کچھ بھی بعید نہیں ، لہٰذا اس آیت میں حکم سے نبوت مراد ہے اور یہی قول صحیح ہے۔ بعض
مفسرین نے اس سے حکمت یعنی توریت کا فہم اور دین میں سمجھ بھی مراد لی ہے۔
(5)مقام
شہادت: اس میں اختلاف ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی شہادت کا
واقعہ کس جگہ پیش آیا؟ یہاں اس سے متعلق دو قول ملاحظہ ہوں: (1) پہلا قول یہ ہے
کہ ''مسجد جبرون'' میں شہادت ہوئی۔ (2) حضرت سفیان ثوری نے شمر بن عطیہ سے یہ قول
نقل کیا ہے کہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی اور قربان گاہ کے درمیان آپ شہید کئے
گئے جس جگہ آپ سے پہلے ستر انبیاء علیہم السّلام کو یہودی قتل کر چکے تھے۔ (تاریخ ابن کثیر، 2/55)