اللہ کریم نے اپنے معزز اور چُنے ہوئے برگزیدہ نبیوں اور رسولوں کو اپنی مخلوق کو راہِ راست پر لانے کے لیے مبعوث فرمایا، تاکہ وہ انبیا و رسل عظام اپنے کردار اور اعلی اخلاق اور حسنِ سلوک کے ذریعے اللہ کی بارگاہ سے  دور بھاگے ہوئے لوگوں کو بارگاہِ خدا کے قرب میں پہنچا دیں۔ اللہ پاک نے اپنے انبیائے کرام علیہم السّلام کے اوصاف کا ذکر قراٰن میں مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے تاکہ قیامت تک کے آنے والے مسلمان ان انبیا و رسل عظام کے اوصاف پڑھ کر سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش جاری رکھیں، ان انبیائے کرام علیہم السّلام میں سے اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت یحییٰ علیہ السّلام بھی ہیں۔ان کے اوصاف قراٰنِ پاک سے پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:اللہ پاک نے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کو انتہائی اعلی اوصاف کا مالک بنایا، آپ علیہ السّلام کے 13 اوصاف قراٰنِ پاک سے ملاحظہ ہوں:۔

(1تا 4)اللہ پاک نے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کو حضرت عیسٰی علیہ السّلام کی تصدیق کرنے والا، اہل ایمان کا سردار،طاقت و قوت ہونے کے باوجود عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی بنایا۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: ﴿فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)تفسیر صراط الجنان: یحییٰ علیہ السّلام کے چار اوصاف بیان فرمائے:(1)مصدق: تصدیق کرنے والا۔ اس کا بیان اوپر گزرا۔(2)سید یعنی سردار: سید اس رئیس کو کہتے ہیں جو مخدوم و مُطاع ہو یعنی لوگ اس کی خدمت و اطاعت کریں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام مؤمنین کے سردار اور علم و حلم اور دین میں ان کے رئیس تھے۔(3)حَصُوْرًا: عورتوں سے بچنے والا۔ حصور وہ شخص ہوتا ہے جو قوت کے باوجود عورت سے رغبت نہ کرے ۔(4) صالحین میں سے ایک نبی۔(صراط الجنان)

(5تا7)حضرت یحییٰ علیہ السّلام اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرنے والے، نرم دل طاعت و اخلاص اور عمل صالح کے جامع تھے: ﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنی طرف سے مہربانی اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا ۔ ( پ 16، مریم:13) تفسیر صراط الجنان: اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی 3 صفات بیان فرمائی ہیں :(1) اللہ پاک نے انہیں اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور ان کے دل میں رِقَّت و رحمت رکھی تا کہ آپ علیہ السّلام لوگوں پر مہربانی کریں اور انہیں اللہ پاک کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں ۔(2) اللہ پاک نے انہیں پاکیزگی دی ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ یہاں پاکیزگی سے طاعت و اخلاص مراد ہے۔ اور حضرت قتادہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ پاکیزگی سے مراد عملِ صالح ہے۔(3) وہ اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔ آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے خوف سے بہت گریہ و زاری کرتے تھے یہاں تک کہ آپ علیہ السّلام کے رخسار مبارکہ پر آنسوؤں سے نشان بن گئے تھے ۔( تفسیر صراط الجنان، جلد 6 پارہ 16 آیت 13)

(8تا 10) آپ علیہ السّلام اپنے والدین کے فرمانبردار ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے، تکبر اور اپنے رب کے نا فرمان نہ تھے۔ چنانچہ اس کا واضح بیان اللہ پاک نے سورہ مریم میں ارشاد فرمایا: ﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور زبردست و نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14)

(11تا 13)آپ علیہ السّلام نیکیوں میں جلدی کرنے والے، اللہ کو بڑی رغبت اور خوف سے پکارنے والے اور اللہ پاک کے حضور دل سے جھکنے والے تھے:﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: بیشک وہ بھلے کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں پکارتے تھے امید اور خوف سے اور ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں ۔ (پ17، الانبیآء:90)تفسیر صراط الجنان:یعنی جن انبیائے کرام علیہم السّلام کا ذکر ہوا ان کی دعائیں اس وجہ سے قبول ہوئیں کہ وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور اللہ پاک کو بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور اللہ پاک کے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: 90، ص725)

دعائیں قبول ہونے والا بننے کے لئے تین کام کئے جائیں : اس سے بخوبی معلوم ہوا کہ جو شخص ایسا ہونا چاہے کہ اس کی ہر دعا مقبول ہو ،اسے چاہئے کہ وہ یہ تین کام کرے (1) نیک کام کرنے میں دیر نہ لگائے۔ (2) امید اور خوف کے درمیان رہتے ہوئے ہر وقت اللہ پاک سے دعائیں مانگے۔ (3) اللہ پاک کی بارگاہ میں عاجزی اور اِنکساری کا اظہار کرے۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! انبیائے کرام علیہم السّلام اور اسلاف رحمہم اللہ السّلام کی سیرت پڑھ کر ان میں جو اوصاف پائے جاتے ہیں ہمیں بھی ان کو اپنانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں ان مذکورہ بالا اوصاف کو اپنانے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبيين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے لوگوں کی رہنمائی اور اسلام کی تبلیغ کیلیے انبیائے کرام مبعوث فرمائے ۔ ہر قوم میں نبی بھیجا۔ حضرت یحییٰ  علیہ السّلام کے قراٰنِ پاک میں کئی اوصاف بیان ہوئے اور اللہ پاک نے ان کو کئی اوصاف سے نوازا ۔ رب فرماتا ہے: ﴿ یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) ترجمۂ کنزالایمان: اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحییٰ ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا۔ (پ16 ، مریم : 7) تفسیر صراط الجنان: اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السّلام کی یہ دعا قبول فرمائی اور ارشاد فرمایا : اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جو آپ کی طلب کے مطابق (آپ کے علم اور آلِ یعقوب کی نبوت کا) وارث ہو گا، اس کا نام یحیٰ ہے اور اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا کہ ا س کا نام یحیٰ رکھا گیا ہو۔( جلالین، مریم، تحت الآیۃ: 7، ص254)

(1)صفات یحییٰ علیہ السّلام: اللہ پاک نے حضرت یحیٰ علیہ السّلام کو یہ فضیلت عطا فرمائی کہ ان کی ولادت سے پہلے ہی ان کا نام رکھ دیا: ﴿یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍؕ-وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے یحیٰ ! کتاب کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی۔(پ16،مریم:12) حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی ولادت کے بعد جب آپ علیہ السّلام کی عمر دو سال ہوئی تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ’’ اے یحیٰ ! کتاب توریت کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور اس پر عمل کی بھرپور کوشش کرو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی جب کہ آپ کی عمر شریف تین سال کی تھی ، اس وقت میں اللہ پاک نے آپ کو کا مل عقل عطا فرمائی اور آپ کی طرف وحی کی ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا یہی قول ہے اور اتنی سی عمر میں فہم و فراست اور عقل و دانش کا کمال، خَوارقِ عادات (یعنی انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات) میں سے ہے اور جب اللہ پاک کے کرم سے یہ حاصل ہو تو اس حال میں نبوت ملنا کچھ بھی بعید نہیں ، لہٰذا اس آیت میں حکم سے نبوت مراد ہے اور یہی قول صحیح ہے۔ بعض مفسرین نے اس سے حکمت یعنی توریت کا فہم اور دین میں سمجھ بھی مراد لی ہے۔( جلالین، مریم، تحت الآیۃ: 12، ص254، خازن،3/230، مریم، تحت الآیۃ: 12، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: 12، ص669، تفسیر کبیر، مریم، تحت الآیۃ: 12، 7 / 517-516، ملتقطاً)

(2) مقصد پیدائش : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک میرے بھائی حضرت یحیٰ علیہ السّلام پر رحم فرمائے، جب انہیں بچپن کی حالت میں بچوں نے کھیلنے کے لئے بلایا تو آپ علیہ السّلام نے (ان بچوں سے) کہا: کیا ہم کھیل کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ؟ (ایسا نہیں ہے، بلکہ ہمیں عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہی ہم سے مطلوب ہے۔ جب نابالغ بچہ اس طرح کہہ رہا ہے تو )اس بندے کا قول کیسا ہونا چاہئے جو بالغ ہو چکا ہے۔( ابن عساکر، حرف الیاء، ذکر من اسمہ یحییٰ، یحییٰ بن زکریا بن نشوی۔۔۔ الخ، 64 / 183)

(3) حضرت سیدنا یحیٰ علیہ السّلام کا نام : حضرت زکریا علیہ السّلام کے نورِ نظر حضرت یحییٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے نبی اور بڑی شان والے پیغمبر ہیں، آپ علیہ السّلام حضرت زکریا علیہ السّلام کے شہزادے اور وارث ہیں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کا نام خود اللہ پاک نے رکھا اور آپ علیہ السّلام سے پہلے کسی بھی شخص کا نام یحییٰ نہیں رکھا گیا۔ (مریم، آیت:7)

(4)والدین کی فرمانبرداری :حضرت سَیِّدُناابنِ عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: حضرت یحییٰ علیہ السّلام والِدَین کی بہت فرمانبرداری کرتے تھے۔ اللہ پاک کی اِطاعت و فرمانبرداری کرنے والے تھے۔ اللہ پاک نے انہیں بچپن ہی میں عقل و سمجھداری سے نواز دیا تھا۔ (تاریخ دمشق، 64/173)

(5)بچپن : آپ علیہ السّلام کو بچپن میں جب بچے کھیلنے کے لیے بلاتے تو آپ علیہ السّلام فرماتے: ہم کھیل کود کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔(تاریخ دمشق، 64/183)

(6) خوف خدا: حضرت سیدنا یحییٰ علیہ السّلام خوفِ خدا سے ہمیشہ بے قرار رہتے، آپ علیہ السّلام اتنا کثرت سے روتے کہ مسلسل آنسو بہنے کہ وجہ سے آپ علیہ السّلام کے گال مبارک پر نشان پڑ گئے تھے۔

(7) شجر و حجر بھی رونے لگتے: دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”خوفِ خدا“ کے صفحہ نمبر 45 پر لکھا ہے: حضرت سَیِّدُنا یحییٰ علیہ السّلام جب نَماز کے لئے کھڑے ہوتے تو(خوفِ خدا کے سبب)اِس قَدَر روتے کہ دَرَخت اور مِٹّی کے ڈَھیلے بھی ساتھ رونے لگتے، حتّٰی کہ آپ علیہ السّلام کے والِدِمُحترم حضرت زکریا علیہ السّلام بھی دیکھ کر رونے لگتے یہاں تک کہ بے ہوش ہو جاتے۔ مسلسل بہنے والے آنسوؤں کے سبب حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے بابَرَکت گالوں پر زَخم ہوگئے تھے۔

اللہ پاک کے تمام انبیائے کرام معصومین ہیں ۔ جن سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا ۔ اور اللہ پاک نے کئی اوصافِ جمیلہ و معجزاتِ عظیمہ عطا فرمائے ہیں ۔ اللہ ہمیں سیرت انبیائے کرام کے مطالعے اور سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے ۔ اور ان کے دیے ہوئے ہر حکم کی پیروی کرنے اور اسے مزید آگے پہچانے کی قوت عطا کرے۔ اٰمین۔


انبیائے کرام علیہم السّلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیرے موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں ، جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی ۔ حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں ، جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں ، ان کی ربانی سیرتوں ، راہِ خدا میں کاوشوں اور خدائی پیغام پہنچانے میں اٹھائی گئی مشقتوں میں تمام انسانیت کے لیے عظمت و شوکت کردار ، ہمت ، حوصلے اور استقامت کا عظیم درس موجود ہے۔  ان کی سیرت وصفات کا مطالعہ آنکھوں کو روشنی ، روح کو قوت ، دلوں کو ہمت ، عقل کو نور ، سوچ کو وسعت ، کردار کو حسن ، زندگی کو معنویت ، بندوں کو نیاز اور قوموں کو عروج بخشتا ہے۔سابقہ تحریری مقابلہ میں حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی صفات کے متعلق مضمون شائع ہوا اور اس ماہ میں حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی 13 صفات قراٰن کی روشنی میں بیان کی جا رہی ہیں۔ آپ بھی پڑھئے اور علم میں اضافہ کیجئے :

(1 تا 4) اللہ پاک نے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کو حضرت عیسٰی علیہ السّلام کی تصدیق کرنے والا ، اہل ایمان کا سر دار ، قوت کے باوجود عورت سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی بنایا۔ ارشاد باری ہے: ﴿فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)

(5تا7) آپ علیہ السّلام نرم دل، طاعت و اخلاص اور عمل صالح کے جامع اور اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنی طرف سے مہربانی اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا ۔ ( پ 16، مریم:13)

( 8 تا10) آپ علیہ السّلام ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے۔ تکبر کرنے والے اور اپنے رب کے نافرمان نہ تھے۔ فرمان باری ہے: ﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور زبردست و نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14)

(11 تا 13) آپ علیہ السّلام نیکیوں میں جلدی کرنے والے اللہ پاک کو بڑی رغبت اور بڑے ڈر سے پکارنے والے اور اللہ پاک کے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: بیشک وہ بھلے کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں پکارتے تھے امید اور خوف سے اور ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں ۔ (پ17، الانبیآء:90)

اس کے علاوہ بھی آپ علیہ السّلام کی بہت سی صفات ہیں جن کا تذکرہ اس مختصر میں نہیں ہو سکتا۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرت یحیٰ علیہ السّلام اپنے والد حضرت زکریا علیہ السّلام  کی طرح اللہ پاک کے برگزیدہ نبی تھے۔ اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرمایا تاکہ آپ بنی اسرائیل کو نیکی کی دعوت دیں۔ آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے بہت سے اوصافِ حمیدہ سے نوازا تھا جیسے کہ آپ بےحد حلیم ،رقیق القلب، پاک باز، عابد و متقی، شرم و حیا کے پیکر تھے، لیکن اللہ پاک نے جو صفات آپ کی قراٰنِ پاک میں ذکر فرمائی ہیں ان میں سے چند تحریر کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔

(1) بچپن سے نبوت کا ملنا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی۔(پ16،مریم:12) روایت ہے کہ آپ علیہ السّلام کو ولادت کے دو سال بعد نبوت عطا فرمائی گئی اور اللہ پاک نے آپ کو کامل عقل بھی دو سال کی عمر میں عطا کی اور آپ کی طرف وحی فرمائی۔ (صراط الجنان،6/72،73)

(2) والدین کے فرمانبردار: اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور زبردست و نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14) آپ ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے کیونکہ اللہ پاک کی عبادت کے بعد والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی اطاعت نہیں۔ (صراط الجنان،6/76)

(3) خود اللہ پاک نے نام رکھا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) ترجمۂ کنزالایمان: اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحییٰ ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا۔ (پ16 ، مریم : 7) اللہ پاک نے حضرت یحیی علیہ السّلام کو یہ فضیلت عطا فرمائی کہ ان کی ولادت سے پہلے ہی ان کا نام رکھ دیا۔ (صراط الجنان،6/68) اس آیت میں ان کا ایک خاص وصف یہ بیان ہوا کہ آپ کا نام "یحیی" سب سے پہلے رکھا گیا آپ سے پہلے پوری دنیا میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا جس کا نام یحیی ہو اور آپ کا نام اللہ پاک نے خود رکھا۔

(4) اللہ سے ڈرنے والے تھے: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کمال ڈر والا تھا ۔ ( پ 16، مریم:13) آپ اللہ پاک سے بہت ڈرنے والے تھے اللہ پاک کے خوف سے بہت گریہ و زاری کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے رخسار مبارک پر آنسوؤں سے نشان بن گئے تھے۔(صراط الجنان،6/74)

(6،5) نرم دلی و پاکیزگی:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنی طرف سے مہربانی اور ستھرائی ۔ ( پ 16، مریم:13) اللہ پاک نے انہیں اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور ان کے دل میں رقت و رحمت رکھی تاکہ آپ لوگوں پر رحم و مہربانی کریں اور انہیں اللہ پاک کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں۔(صراط الجنان،6/74)

اللہ پاک نے انہیں پاکیزگی دی: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہاں پاکیزگی سے مراد اطاعت و اخلاص ہے، حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پاکیزگی سے مراد عملِ صالح ہے۔ (بغوی،3/109،مریم،تحت الآیہ:13)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام کی سیرت پڑھنے کی سعادت عطا فرمائے اور ان کی زندگی کے خوبصورت پہلو کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

حضرت یحیی علیہ السّلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے لیے مکتبۃ المدینہ کی متبوعہ کتاب" سیرتُ الانبیاء "کا مطالعہ فرمائیں۔ اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام کی سیرت کا ذوق و شوق کے ساتھ مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


جب حضرت زکریا علیہ السّلام کی عمر شریف 75 یا 80 سال تک جا پہنچی اس حال میں کہ آپ علیہ السّلام کے پاس اولاد جیسی نعمت موجود نہ تھی۔ یہاں تک کہ آپ علیہ السّلام کو اپنے اہل خانہ میں سے بھی کوئی نیک اور صالح مرد نظر نہ آیا جو آپ علیہ السّلام کا جانشین بنے اور اللہ پاک کی طرف سے جو دین کی خدمت آپ علیہ السّلام کے سپرد کی تھی اس کو انجام دے سکے۔ تو آپ علیہ السّلام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کی، اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کی دعا پر نگاہِ رحمت فرمائی اور آپ علیہ السّلام کو نیک اور صالح ترین بیٹے(حضرت یحییٰ علیہ السّلام)جیسی نعمت سے نوازا۔ حضرت زکریا علیہ السّلام کے فرزند حضرت یحییٰ علیہ السّلام دنیا سے بے رغبت اور خوفِ خدا کے سبب کثرت کے ساتھ گریہ وزاری فرمایا کرتے تھے۔ آپ علیہ السّلام حق بات بیان کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ فرماتے تھے۔ آپ علیہ السّلام بچپن ہی سے نماز کے بے حد شوقین تھے۔ ایک مرتبہ بچوں نے آپ علیہ السّلام سے کہا: ہمارے ساتھ کھیلنے چلیں ارشاد فرمایا: کیا ہم کھیل کود کے لیے پیدا کیے گئے ہیں؟ تم چلو تاکہ ہم نماز ادا کریں۔ اللہ پاک نے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کو بہت سے اوصافِ حمیدہ اور عظیمُ الشان نعمتیں مثلاً فہم و فراست اور عقل و دانش کا کمال، خَوارقِ عادات (یعنی انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات) عطا فرمائے۔

حضرت یحییٰ علیہ السّلام کا تعارف: آپ علیہ السّلام کا نام ”یحییٰ“ جبکہ ایک قول کے مطابق آپ کا نسب نامہ یہ ہے۔ یحییٰ بن زکریا بن لدن بن مسلم بن صدوق سے ہوتا ہوا حضرت سلیمان علیہ السّلام بن داؤد علیہ السّلام تک جا پہنچتا ہے۔

حضرت عیسٰی اور یحییٰ علیہما السّلام کی ایک دوسرے کے بارے میں خوبصورت رائے:

حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت یحیٰ اور عیسٰی علیہما السّلام کی ملاقات ہوئی تو حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا: میرے لیے دعائے مغفرت فرمائے کیونکہ آپ مجھ سے افضل ہیں حضرت یحیٰ علیہ السّلام نے کہا: آپ میرے لیے دعا فرمائے کیونکہ آپ مجھ سے افضل ہیں۔ حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا: آپ مجھ سے افضل ہیں کیونکہ میں نے اپنے لیے خود سلامتی کی دعا کی جبکہ آپ کو اللہ پاک نے سلامتی کی خوشخبری سنائی۔

پیارے اسلامی بھائیو! آئیے اب ہم ان اوصاف کی طرف چلتے ہیں جنہیں اللہ پاک نے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے متعلق قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمائے ہیں۔

(1)اہلِ ایمان کا سردار: اللہ پاک قراٰنِ مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿ اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا ترجمۂ کنزالایمان: بیشک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)

(2)والدین کے فرمانبردار: اللہ پاک قراٰنِ مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور زبردست و نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14)

(3)اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کا نام ”یحییٰ“ خود رکھا: قراٰنِ مجید فرقان حمید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) ترجمۂ کنزالایمان: اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحییٰ ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا۔ (پ16 ، مریم : 7)

(4)نبوت و حکمت: اللہ پاک قراٰنِ مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے۔﴿ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲) ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت دی۔(پ16،مریم:12)

(5 تا 7)نرم دل طاعت و اخلاص اور عمل صالح کے جامع: اللہ پاک قراٰنِ مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنی طرف سے مہربانی اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا ۔ ( پ 16، مریم:13)

پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چاہئے کہ ہم انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت کا ذوق و شوق کے ساتھ مطالعہ کریں اور ان کی مبارک صفات اور عادات کو اپنائے تاکہ ہماری روح سے انبیائے کرام علیہم السّلام کی محبت جھلکتی نظر آئے۔ 


اللہ پاک نے لوگوں کی رشد و ہدایت کے لئے اور اپنی وحدانیت کو بیان کرنے کے لئے انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا ان انبیائے کرام علیہم السّلام کو معجزات، خصائص اور  اوصافِ جمیلہ سے نوازا ہے ۔ ان حضراتِ انبیا میں ایک اللہ کے نبی حضرت یحیی علیہ السّلام ہیں جن کے کچھ اوصاف کو قراٰن کے اندر بیان کیا گیا۔چنانچہ پارہ 16 سورہ مریم میں فرمان باری ہے: ﴿ یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ،اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ16 ، مریم : 7)

تفسیر ِصراط الجنان میں مفتى قاسم عطاری قادری مدظلہ العالی اس آيت کے تحت فرماتے ہیں: جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت زکریا علیہ السّلام کی دعا کو رب نے قبول فرمایا اور حضرت یحیی علیہ اسلام کی پیدائش کی خوشخبری دی اور انکا نام یحیی رکھا۔

اس آیت سے حضرت یحیی علیہ اسلام کی یہ صفتِ جمیلہ بیان ہوئی کہ ان کا نام جناب حق باری نے خود رکھا اور قراٰن کے اندر اس کا ذکر بھی فرمایا پھر حضرت یحیی علیہ السّلام کی ولادت باسعادت کے تقریباً دو سال بعد رب نے حکم ارشاد فرمایا: اے یحیی کتاب کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو ۔جس کو قراٰنِ مجید کے اندر ان الفاظ میں بیان کیا گیا:﴿یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍؕ-وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے یحیٰ ! کتاب کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی۔(پ16،مریم:12) پھر جب حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی عمر تین سال ہوئی تو آپ کو کامل عقل عطا فرمائی گئی اور وحی کی گئی تو کم عمری میں عقل و دانش، فہم و فراست و معجزات کا عطا ہونا یہ جب اللہ کے کرم و فضل کے ساتھ ہو تو اس حال میں نبوت کا ملنا کچھ بعید نہیں ۔اسی کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول بھی ہے اپ فرماتے ہیں: اور اتنی سی عمر میں فہم و فراست اور عقل و دانش کا کمال، خَوارقِ عادات(یعنی انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات) میں سے ہے اور جب اللہ پاک کے کرم سے یہ حاصل ہو تو اس حال میں نبوت ملنا کچھ بھی بعید نہیں۔

اگر حضرت یحیی علیہ السّلام کی ان قراٰنی اوصاف میں نظر ڈالی جائے تو یہ نکتہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ جناب حق جل جلالہ جن کو کم عمر میں اتنے کمال کے اوصاف عطا فرما دے کہ وہ دانش مند ہوں، فہم و فراست کا ملکہ رکھنے والے ہوں، ان کو معجزات عطا کیے گئے ہوں تو یہ جناب قدوس کے برگزیدہ بندے ہوتے ہیں جن کو رب کعبہ نبی و رسول بناتا ہے۔

مالک کائنات نے انہیں اس کے علاوہ بھی اوصاف سے نوازا تھا ۔وہ عاجزی کرنے والے ، گریہ وزاری کرنے والے ،عفو ودرگزر کرنے والے، حق کا پرچار کرنے والے ، عبادت گزار ،بردبار اور حلم رکھنے والے تھے۔

اللہ پاک کی بارگاہِ بے کس پناہ میں عرض ہے کہ وہ ہمیں تمام انبیائے کرام و صحابہ کرام و اہلِ بیت اطہار و اولیائے عظام و آئمہ مسلمین و علمائے اہلسنت سے محبت والا، ان کی سیرت اور ان کے فرامین پر عمل پہرہ ہونے والوں میں شامل فرمائے۔ اٰمین 


حضرت یحیی علیہ السّلام اپنے والد حضرت ذکر یا علیہ السّلام کی طرح اللہ پاک کے برگزیدہ  نبی تھے آپ علیہ السّلام کا نام خود اللہ پاک نے تجویز فرمایا تھا ارشاد باری ہے۔ ﴿ یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ،اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ16 ، مریم : 7)

گویا دنیا میں سب سے پہلے آپ ہی کا نام یحیی رکھا گیا اور آپ علیہ السّلام اپنی صفات میں منفرد تھے۔ حضرت یحیی علیہ السّلام اپنے والد حضرت زکریا علیہ السّلام کی دعا کا ثمرہ تھے جنہیں اللہ پاک نے بڑھاپے میں اولاد عطا فرمائی۔ حضرت یحیی علیہ السّلام کثرت سے گریہ و زاری کیا کرتے تھے، آپ علیہ السّلام نے نہ مکان بنایا اور نہ ہی شادی کی تھی ۔

ابن عساکر نے روایت نقل کی ہے ایک مرتبہ آپ علیہ السّلام کے والدین آپ کی تلاش میں نکلے تو کیا دیکھتے ہیں آپ علیہ السّلام جنگل میں ایک قبر کھود کر اس کے پاس کھڑے ہیں۔ زارو قطار رو رہے ہیں والدین نے فرمایا بیٹے ہم تین دن سے تمہاری تلاش میں ہیں اس پر آپ علیہ السّلام نے آخرت کے حوالے سے ایسی گفتگو کی کہ آپ کے والدین بھی رو پڑے ۔

حضرت یحیی علیہ السّلام بے حد حلیم ، رقیق القلب پاک باز، عابد و متقی ، استغناء و قناعت سے سرشار شرم و حیا کے پیکر اور شیریں کلام تھے ۔ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے ، غذا بقدرِ ضرورت استعمال کرتے اور لباس اتنا ہوتا جو ستر پوشی کے لئے کافی ہو ۔ آپ علیہ السّلام کو جنگل، بیابانوں سے محبت تھی اسی لیے زندگی کا زیادہ تر حصہ وہیں گزارا جہاں شہد اور درختوں کے پتوں کو بطورِ غذا استعمال فرماتے، پیاس لگتی تو نہر سے پانی پیتے تھے۔

حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آقا علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: ابنِ آدم میں سے کوئی بھی ایسا شخص نہیں جس سے گناہ سرزد نہ ہوا ہو سوائے حضرت یحیی علیہ السّلام کے۔ (مسند امام احمد)

قراٰنِ پاک میں آپ علیہ السّلام کا ذکر ان چار سورتوں میں آیا جن میں حضرت زکریا علیہ السّلام کا بھی ذکر آیا ہے۔ یعنی سورہ آل عمران ، سورۃُ الانعام ، سورہ مریم ، سورةُ الانبياء: ﴿یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍؕ-وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲) وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴) وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠(۱۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے یحیٰ ! کتاب کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔ اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور وہ متکبر ، نافرمان نہیں تھا۔ (پ16،مریم:12 تا 15)

یحیٰ علیہ السّلام کم عمر ہی تھے کہ پروردگار عالم نے فرشتوں کے ذریعہ تورات حفظ کروادی اور حکم دیا کہ آسمانی کتاب کا جو علم آپ کو دیا گیا ہے اس پر خود بھی عمل کریں اور اپنی قوم کو بھی اس کا درس دیں اس کے ساتھ ہی انہیں بچپن ہی میں علم و دانائی ، عقل و حکمت، طہارت و پاکیزگی اور پرہیز گاری عطا کی گئی اور ان میں یک بارگی وہ تمام خوبیاں ڈالی گئی جو ایک نیک پارسا اور صاحبِ ایمان بندے کی شان ہیں ۔

الله پاک نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر (39) میں حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی (5) صفات کو بیان کیا ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ترجمۂ کنزالعرفان: تو فرشتوں نے اسے پکار کر کہا جبکہ وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ بیشک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور وہ سردار ہو گا اور ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی ہوگا۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)

یحییٰ علیہ السّلام کے خوف اور رب سے ڈرنے کو بیان کیا اور نیکیوں میں سبقت والا بیان کیا سورہ انبیاء کی آیت نمبر 90میں ارشاد باری ہے: ﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ (۹۰)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:90)

اسی طرح سورہ انعام کی آیت نمبر 85میں یحییٰ علیہ السّلام کو اپنا خاص بندہ ارشاد فرمایا:﴿وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) ترجمۂ کنز العرفان: اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں ۔ (پ 7 ، الانعام : 85)


﴿هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یہاں پکارا زکریا اپنے رب کو بولا اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بیشک تو ہی ہے دعا سننے والا۔ (پ3،اٰلِ عمرٰن:38)

﴿فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)

تشريح: حضرت زکریا علیہ السّلام بڑے عالم تھے، بارگاہِ الٰہی میں قربانیاں آپ علیہ السّلام ہی پیش کیا کرتے تھے اور مسجد شریف میں آپ علیہ السّلام کی اجازت کے بغیر کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا، جس وقت محراب میں آپ علیہ السّلام نماز میں مشغول تھے اور باہر آدمی داخلے کی اجازت کا انتظار کر رہے تھے، دروازہ بند تھا، اچانک آپ علیہ السّلام نے ایک سفید پوش جوان کو دیکھا، وہ حضرتِ جبریل علیہ السّلام تھے انہوں نے آپ علیہ السّلام کو فرزند کی بشارت دی جو ’’ اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ‘‘ میں بیان فرمائی گئی۔ (خازن،1/246، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ:39)

ہماری پیدائش کا مقصد: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ پاک میرے بھائی حضرت یحیٰ علیہ السّلام پر رحم فرمائے، جب انہیں بچپن کی حالت میں بچوں نے کھیلنے کے لئے بلایا تو آپ علیہ السّلام نے (ان بچوں سے) کہا: کیا ہم کھیل کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ؟ (ایسا نہیں ہے، بلکہ ہمیں عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہی ہم سے مطلوب ہے۔ جب نابالغ بچہ اس طرح کہہ رہا ہے تو )اس بندے کا قول کیسا ہونا چاہئے جو بالغ ہو چکا ہے۔( ابن عساکر، حرف الیاء، ذکر من اسمہ یحییٰ، یحییٰ بن زکریا بن نشوی۔۔۔ الخ، 64 / 183)

یہ غیب کی خبر حضرت جبرئیل اور حضرت زکریا علیہما السّلام دونوں کو معلوم ہو گئی۔ آپ علیہ السّلام کو بشارت ملی کہ آپ علیہ السّلام کو ایسا بیٹا عطا کیا جائے گا جس کا نام’’ یحییٰ‘‘ ہوگا اور وہ اللہ پاک کے کلمہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی تصدیق کرے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو کَلِمَۃُ اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ پاک نے انہیں کلمۂ ’’کُن‘‘ فرما کر بغیر باپ کے پیدا کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر سب سے پہلے ایمان لانے اور ان کی تصدیق کرنے والے حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے عمر میں چھ ماہ بڑے تھے۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ حضرت مریم رضی اللہُ عنہا سے ملیں تو انہیں اپنے حاملہ ہونے پر مطلع کیا ،حضرت مریم رضی اللہُ عنہا نے فرمایا: میں بھی حاملہ ہوں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ نے کہا: اے مریم! رضی اللہُ عنہا مجھے یوں لگتا ہے کہ میرے پیٹ کا بچہ تمہارے پیٹ کے بچے کو سجدہ کرتا ہے۔(خازن،1/247، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ: 39)

﴿یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍؕ-وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے یحیٰ ! کتاب کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی۔(پ16،مریم:12) تفسیر صراط الجنان: حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی ولادت کے بعد جب آپ علیہ السّلام کی عمر دو سال ہوئی تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ’’ اے یحیٰ ! کتاب توریت کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور اس پر عمل کی بھرپور کوشش کرو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی جب کہ آپ کی عمر شریف تین سال کی تھی ، اس وقت میں اللہ پاک نے آپ کو کامل عقل عطا فرمائی اور آپ کی طرف وحی کی ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا یہی قول ہے اور اتنی سی عمر میں فہم و فراست اور عقل و دانش کا کمال، خَوارقِ عادات (یعنی انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات) میں سے ہے اور جب اللہ پاک کے کرم سے یہ حاصل ہو تو اس حال میں نبوت ملنا کچھ بھی بعید نہیں ، لہٰذا اس آیت میں حکم سے نبوت مراد ہے اور یہی قول صحیح ہے ۔ بعض مفسرین نے اس سے حکمت یعنی توریت کا فہم اور دین میں سمجھ بھی مراد لی ہے۔( تفسير صراط الجنان تحت الآيۃ، جلالین، مریم، تحت الآیۃ: 12، ص254)

﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنی طرف سے مہربانی اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا ۔ ( پ 16، مریم:13)

﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور زبردست و نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14)

﴿وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠(۱۵)﴾ ترجمۂ کنز الایمان: اور سلامتی ہے اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا۔ (پ16،مریم:15)


(1)  یحییٰ علیہ السّلام کی ولادت کی بشارت، نیز اللہ پاک نے یحیٰ نام رکھا: حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی ولادت با سعادت سے پہلے ہی آپ کے والد یعنی حضرت زکریا علیہ السّلام کو رب نے آپ کی بشارت (خوشخبری) دے دی تھی اور ان کا نام "یحییٰ" خود اللہ پاک نے رکھا ہے۔ جس کو قراٰنِ مجید میں بیان بھی فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ پارہ 16 سورہ مریم آیت نمبر 07 میں رب العزت نے ارشاد فرمایا: ﴿ یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ،اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ16 ، مریم : 7)

یحییٰ علیہ السّلام کا مختصر تعارف: حضرت یحییٰ علیہ السّلام بھی اپنے والد حضرت زکریا علیہ السّلام کی طرح رب کے برگزیدہ نبی تھے۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تھا تا کہ بنی اسرائیل کو راہِ راست پر لایا جائے۔ آپ علیہ السّلام کا نامِ پاک یحییٰ ہے۔ آپ علیہ السّلام کا شجرہ نسب کچھ یوں بیان کیا گیا ہے "یحییٰ بن زکریا بن لدن بن مسلم بن صدوق" اور اسی طرح مزید آگے جاتے ہوئے حضرت سلیمان علیہ السّلام بن حضرت داؤد علیہ السّلام تک جا پہنچتا ہے۔

(1) قراٰنِ کریم میں یحییٰ علیہ السّلام کی صفات: آپ علیہ السّلام انتہائی اعلیٰ صفات کے مالک تھے۔ جن کو قراٰنِ مجید میں بھی بیان کیا گیا ہے۔اللہ پاک نے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی تصدیق کرنے والا، اہل ایمان کا سردار، قوت کے باوجود عورت سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی بنایا۔ انہی صفات کو اللہ پاک نے قراٰنِ مجید کے پارہ نمبر 03 سورہ آل عمران آیت نمبر 39 میں بیان فرمایا ہے: ﴿فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ترجمۂ کنزالعرفان: تو فرشتوں نے اسے پکار کر کہا جبکہ وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ بیشک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور وہ سردار ہو گا اور ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی ہوگا۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)

(2، 3)نرم دلی اور خوفِ خدا: آپ علیہ السّلام نرم دل، طاعت و اخلاص اور عمل صالح کے جامع اور اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے۔ انہی صفات کو اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں پارہ نمبر 16 سورہ مریم کی آیت نمبر 13 میں بیان فرمایا ہے: ﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13)

(4) والدین کے فرمانبردار: آپ علیہ السّلام ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے۔ تکبر کرنے والے اور اپنے رب کے نافرمان نہ تھے۔انہی صفات کو اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں پارہ نمبر 16 سورہ مریم آیت نمبر 14 میں بیان فرمایا ہے:﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور وہ متکبر ، نافرمان نہیں تھا۔( پ 16، مریم:14)

(5)نیکیوں میں جلدی کرنے، رب کو پکارنے والے: آپ علیہ السّلام نیکیوں میں جلدی کرنے والے، اللہ پاک کو بڑی رغبت اور بڑے ڈر سے پکارنے والے اور اللہ پاک کے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔انہی صفات کو اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں پارہ نمبر 17 سورۃُ الانبیآء آیت نمبر 90 میں بیان فرمایا ہے: ﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:90)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے اور ان کی سیرت پڑھ کر اپنی زندگی کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین یارب العالمین ۔


نبی اور رسول کی تعریف : "نبی" اس بشر ( یعنی انسان ) جس کی طرف رب العالمین نے مخلوق کی ہدایت کے وحی بھیجی ہو۔  اور ان نبیوں میں سے جو نئی شریعت "اسلامی قانون اور رب العالمین کے احکام" لے کر آئے ؛ اسے "رسول" کہتے ہیں۔

رب العالمین نے مخلوق کی ہدایت کے لیے کم و بیش 1لاکھ 24ہزار انبیائے کرام علیہم السّلام بھیجے ، جن میں بعض بعض سے بلند درجے پر فائز تھے اور ان تمام انبیا کے سردار ہمارے پیارے آخری نبی حضرت سیدنا محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔

انہیں انبیا میں رب العالمین کے ایک نبی حضرت سیدنا یحییٰ علیہ السّلام بھی ہیں۔

آپ علیہ السّلام حضرت زکریا علیہ السّلام کے فرزند ہیں ، آپ کی ولادت سے پہلے ہی حضرت زکریا علیہ السّلام کو بشارت دے دی گئی تھی اور رب العالمین نے آپ کا نام رکھا۔ آپ علیہ السّلام کا سلسلہ حضرت داؤد علیہ السّلام تک جا پہنچتا ہے۔ آپ کا قراٰنِ مجید میں مختصر تذکرہ سورہ انعام آیت نمبر 85 میں کیا گیا ہے ۔ جبکہ تفصیلی ذکر درجہ ذیل 3 سورتوں میں ہوا۔(1) سورہ آل عمران ،آیت 38تا40 ،(2) سورہ مریم ، آیت 7تا15، (3) سورہ انبیآء ، آیت 89 ،90 چنانچہ قراٰنِ مجید سے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی چند صفات کا ذکرجاتا ہے :

(1) حضرت یحییٰ علیہ السّلام نرم دل ، طاعت و اخلاص اور عمل صالح کے جامع تھے اور رب العالمین سے بہت ڈرنے والے تھے۔ قراٰنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔ ﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13) اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی 3 صفات بیان فرمائی ہیں :(1) اللہ پاک نے انہیں اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور ان کے دل میں رِقَّت و رحمت رکھی تا کہ آپ علیہ السّلام لوگوں پر مہربانی کریں اور انہیں اللہ پاک کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں ۔(2) اللہ پاک نے انہیں پاکیزگی دی ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ یہاں پاکیزگی سے طاعت و اخلاص مراد ہے۔ اور حضرت قتادہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ پاکیزگی سے مراد عملِ صالح ہے۔(بغوی، 3/159،مریم، تحت الآیۃ: 13)(3) وہ اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔ آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے خوف سے بہت گریہ و زاری کرتے تھے یہاں تک کہ آپ علیہ السّلام کے رخسار مبارکہ پر آنسوؤں سے نشان بن گئے تھے ۔

(2) آپ علیہ السّلام والدین کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے ۔تکبر کرنے والے اور اپنے رب کے نافرمان نہ تھے۔ قراٰنِ مجید میں ارشادِ باری ہے:﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور وہ متکبر ، نافرمان نہیں تھا۔( پ 16، مریم:14)

(3) آپ علیہ السّلام نیکیوں میں جلدی کرنے والے تھے۔

(4) آپ علیہ السّلام رب العالمین کے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔

(5) آپ علیہ السّلام رب العالمین کو بڑی رغبت اور بڑے ڈر سے پکارنے والے تھے۔ قراٰنِ مجید میں ارشادِ باری ہے:﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:90)یہ چند صفات جو رب العالمین نے اپنی لاریب کتاب قراٰنِ مجید فرقان حمید میں ذکر فرمائیں۔ان صفات سے ہمارے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔

(1) ہمیں بھی مخلوقِ خدا کے لیے اپنے قلوب کو نرم رکھنا چاہیے اور رب العالمین کی اطاعت اخلاص کے ساتھ کرنی چاہیے اور نیک اعمال میں کثرت کرنی چاہیے۔(2)والدین کا فرمانبردار بننا چاہیے بیشک والدین کی خدمت انسان کو بہت بلند مرتبے پر پہنچا دیتی ہے۔ اور جب والدین کی رضا حاصل ہو جائے تو رب العالمین اپنے اس بندے سے راضی ہو کر اس کو اپنی رحمت میں ڈھانپ لیتا ہے۔(3) ہمیں تکبر اور نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ تکبر کرنے والا اپنے اعمال برباد کر دیتا ہے ۔ اور رب العالمین نافرمانی ہمیں کہیں آگ میں پہنچا دے۔ اس لیے ہمیں ہمیشہ ہر حال میں رب العالمین کا فرمانبردار رہ کر احکامات الٰہیہ پر عمل کرنا اور تکبر ، حسد ، جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، کینہ ، بدگمانی ، وغیرہ ان باطنی و ظاہری امراض سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ اگر اس میں کامیاب ہو گئے تو ہم رب العالمین کی رحمت کے سائے میں رہیں گے ہمیشہ ۔

(4) آپ علیہ السّلام نیکیوں میں جلدی کرنے والے تھے۔ بیشک جب بھی نیکی کا ارادہ ہو تو اس کو جلد کر لینا چاہیے کہیں شیطان آپ کو روک نہ دے۔ ہمیں اس صفت سے یہی سیکھنے کو ملا جب بھی نیک کام کا ارادہ بنے تو ہمیں اس میں جلدی کر کے اپنے اعمال نامۂ کو نیکیوں سے بھرنا چاہیے۔ اگر ہم سستی کریں گے یا نیکی کو۔ ترک کر دیں گے تو یہ ہمارے لیے نقصان کا سبب بن سکتی ہے ۔اس دن کے لیے جس دن ہر شخص چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا محتاج ہوگا۔اس لیے نیک عمل چھوٹا ہو یا بڑا ہمیں ہر حال میں نیک کام کرنے ہیں اور ان نیکیوں کی برکت سے رب العالمین ہمیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے گا

اللہ رب العالمین ہمیں حضرت سیدنا یحییٰ علیہ السّلام کی ان صفات پر عمل کرنے والا بنائے اور انبیائے کرام علیہم السّلام کی مبارک حالات زندگی کو پڑھتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین 


انبیائے کرام علیہم السّلام کائنات کی وہ عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں یہ وہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ پاک نے بہت سی صفات و کمالات سے نوازا انہیں میں سے ایک ہستی حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی ہستی ہے۔ آپ علیہ السّلام کی صفات کو اللہ پاک نے اپنی سب سے پیاری کتاب قراٰنِ کریم میں ذکر فرمایا آئیے ہم بھی قراٰنِ کریم میں ذکر کی گی صفات میں سے ان کی چند صفات پڑھتے ہیں:۔

تعارف :حضرت یحییٰ علیہ السّلام حضرت زکریا علیہ السّلام کے فرزند ہیں ولادت سے پہلے آپ کی بشارت دے دی گئی اور اللہ پاک نے آپ کا نام رکھا، بچپن ہی میں کامل عقل اور شرف نبوت سے نوازے گئے، آپ علیہ السّلام دنیا سے بے رغبت اور خوف خدا سے بکثرت گریہ و زاری کرنے والے تھے ۔

نام و نسب :آپ کا نام " یحییٰ " علیہ السّلام اور ایک قول کے مطابق آپ کا نسب نامہ یہ ہے یحیی بن زکریا بن لدن بن مسلم بن صدوق سے ہوتا ہوا حضرت سلیمان علیہ السّلام بن حضرت داؤد علیہ السّلام تک جا پہنچتا ہے ( سیرت الانبیاء ،ص 667)

" برہان " کے پانچ حروف کی نسبت سے قراٰنِ کریم میں حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی ذکر کردہ صفات میں سے پانچ صفات درج ذیل ہیں۔

نام خود رب تعالی نے یحییٰ علیہ السّلام رکھا :چنانچہ اللہ پاک نے قراٰنِ کریم سورہ مریم آیت نمبر(7) میں ارشاد فرمایا : ﴿ یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ،اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ16 ، مریم : 7)یعنی اس کا نام یحیٰ ہے اور اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا کہ ا س کا نام یحیٰ رکھا گیا ہو۔( جلالین، مریم، تحت الآیۃ: 7، ص254)

بچپن میں ہی تورات کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم :اللہ پاک پارہ : 16 سورہ مریم کی آیت نمبر (12) کے ابتدائی حصے میں ارشاد فرماتا ہے :﴿یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍؕ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے یحیٰ ! کتاب کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو ۔(پ16،مریم:12) حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی ولادت کے بعد جب آپ علیہ السّلام کی عمر دو سال ہوئی تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ’’ اے یحیٰ ! کتاب توریت کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور اس پر عمل کی بھرپور کوشش کرو ( صراط الجنان ٫مریم تحت الایہ:12)

بچپن میں ہی کامل عقل اور نبوت کا ملنا :اللہ پاک نے پارہ: 16 سورہ مریم کی آیت نمبر 12 کے اگلے حصے میں ارشاد فرمایا : ﴿ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی۔(پ16،مریم:12) جب آپ کی عمر شریف تین سال کی تھی ، اس وقت میں اللہ پاک نے آپ کو کامل عقل عطا فرمائی اور آپ کی طرف وحی کی ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا یہی قول ہے اور اتنی سی عمر میں فہم و فراست اور عقل و دانش کا کمال، خَوارقِ عادات (یعنی انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات) میں سے ہے اور جب اللہ پاک کے کرم سے یہ حاصل ہو تو اس حال میں نبوت ملنا کچھ بھی بعید نہیں ، لہٰذا اس آیت میں حکم سے نبوت مراد ہے اور یہی قول صحیح ہے ۔ بعض مفسرین نے اس سے حکمت یعنی توریت کا فہم اور دین میں سمجھ بھی مراد لی ہے۔( صراط الجنان ، مریم، تحت الآیۃ:12 ، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: 12، ص669)

آپ علیہ السّلام ماں باپ کے فرمانبردار اور اچھا سلوک کرنے والے ہیں : سورہ مریم کی آیت نمبر14 میں کچھ اس طرح الفاظ جگمگا رہے ہیں:﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور وہ متکبر ، نافرمان نہیں تھا۔( پ 16، مریم:14)آپ علیہ السّلام ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے کیونکہ اللہ پاک کی عبادت کے بعد والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی طاعت نہیں اور اس پر اللہ پاک کا یہ قول دلالت کرتا ہے: ﴿وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔(پ15،بنٓى اسرآءيل :23)

کلمہ ( حضرت عیسیٰ علیہ السّلام) کی تصدیق کرنے والا سردار اور عورتوں سے بچنے والا: سورہ آل عمران آیت نمبر (39) میں ارشادِ باری ہے : ﴿فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)نوٹ : ذکر کی گئی صفات کے علاوہ بھی قراٰنِ کریم و احادیث مبارکہ میں آپ علیہ السّلام کی صفات موجود ہیں اللہ پاک ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: ان کی روشن و جگمگاتی صفات سے دلوں کو منور کرنے کیلئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کتاب سیرت الانبیاء صفحہ 767 تا 778 کا مطالعہ مفید ہے۔


انبیائے کرام علیہم السّلام کائنات کی عظیم ترین شخصیات اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی ، حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں ۔ انبیا ومرسلین علیہم السّلام انتہائی اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے۔ ان پاک نفوس قدسیاں میں سے ایک ہستی حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی ہے جن کے اوصاف اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں بیان فرمائے۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں :۔

(1 تا 3) نرم دل، طاعت و اخلاص، عمل صالح کے جامع، اللہ پاک سے ڈرنے والے:پارہ 16 سورہ مریم آیت نمبر 13 میں اللہ پاک نے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی 3 صفات بیان فرمائیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ پاک نے انہیں اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور ان کے دل میں رِقَّت و رحمت رکھی تا کہ آپ علیہ السّلام لوگوں پر مہربانی کریں اور انہیں اللہ پاک کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں ۔ اور دوسری یہ کہ اللہ پاک نے انہیں پاکیزگی دی ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ یہاں پاکیزگی سے طاعت و اخلاص مراد ہے(بغوی،3/159، مریم، تحت الآیۃ: 13) اور تیسری یہ کہ وہ اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔

ان صفات کو الله پاک نے قراٰنِ پاک میں یوں بیان فرمائیں ہیں: ﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13)

(4 تا 6) والدین کے فرمانبردار ، عاجزی و انکساری کرنے والے اور رب کی اطاعت کرنے والے: مذکورہ بالا آیت سے اگلی ہی آیت میں اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کی مزید تین صفات بیان فرمائی ہیں جن میں سے پہلی یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے۔ اور دوسری ، تیسری یہ کہ آپ علیہ السّلام تکبر کرنے والے اور اپنے رب کے نافرمان نہیں بلکہ آپ علیہ السّلام عاجزی و انکساری کرنے والے اور اپنے رب کی اطاعت کرنے والے تھے۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے : ﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور وہ متکبر ، نافرمان نہیں تھا۔( پ 16، مریم:14)

(7 تا 10) تصدیق کرنے والا ، اہل ایمان کا سردار ، عورتوں سے بچنے والا ، صالح: قراٰنِ پاک میں اللہ پاک نے ایک مقام پر ایک ہی آیت میں آپ علیہ السّلام کی چار صفات کو بیان فرمایا ۔

ایک یہ کہ آپ علیہ السّلام تصدیق کرنے والے ہیں جس کے متعلق تفسیر خازن میں ہے کہ ایک مرتبہ جب حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ حضرت مریم رضی اللہُ عنہا سے ملیں تو انہیں اپنے حاملہ ہونے پر مطلع کیا ،حضرت مریم رضی اللہُ عنہا نے فرمایا: میں بھی حاملہ ہوں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ نے کہا: اے مریم! رضی اللہُ عنہا مجھے یوں لگتا ہے کہ میرے پیٹ کا بچہ تمہارے پیٹ کے بچے کو سجدہ کرتا ہے۔(خازن،1/247، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ: 39)

اور دوسرا یہ کہ آپ علیہ السّلام مؤمنین کے سردار اور علم و حلم اور دین میں ان کے رئیس تھے۔

اور تیسری یہ کہ آپ علیہ السّلام عورتوں سے بچنے والے۔ قوت کے باوجود بھی عورت سے رغبت نہ کرتے تھی ۔

اور چوتھی یہ کہ آپ علیہ السّلام صالحین میں سے ایک نبی ہیں ۔جس کو اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں یوں بیان فرمایا: ﴿فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ترجمۂ کنزالعرفان: تو فرشتوں نے اسے پکار کر کہا جبکہ وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ بیشک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور وہ سردار ہو گا اور ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی ہوگا۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)

اللہ پاک ہمیں بھی انبیائے کرام علیہم السّلام کی مبارک صفات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم