محمد ذیشان علی عطاری(درجہ ثالثہ جامعۃُ المدينہ فيضان مدينہ اڈیالہ روڈ راولپنڈی پاکستان)
﴿هُنَالِكَ
دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً
طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یہاں پکارا زکریا
اپنے رب کو بولا اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بیشک تو ہی ہے دعا سننے
والا۔ (پ3،اٰلِ عمرٰن:38)
﴿فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی
الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ
اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: تو
فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ
آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار
اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)
تشريح: حضرت زکریا علیہ السّلام بڑے عالم تھے، بارگاہِ الٰہی میں قربانیاں آپ علیہ السّلام ہی پیش کیا کرتے
تھے اور مسجد شریف میں آپ علیہ السّلام کی اجازت کے بغیر کوئی داخل نہیں ہو سکتا
تھا، جس وقت محراب میں آپ علیہ السّلام نماز میں مشغول تھے اور باہر آدمی داخلے کی اجازت کا انتظار کر رہے تھے، دروازہ
بند تھا، اچانک آپ علیہ السّلام نے ایک سفید پوش جوان کو دیکھا، وہ حضرتِ جبریل
علیہ السّلام تھے انہوں نے آپ علیہ
السّلام کو فرزند کی بشارت دی جو ’’ اَنَّ اللّٰهَ
یُبَشِّرُكَ‘‘ میں بیان فرمائی گئی۔ (خازن،1/246، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ:39)
ہماری پیدائش کا مقصد: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ پاک میرے
بھائی حضرت یحیٰ علیہ السّلام پر رحم فرمائے، جب انہیں بچپن کی حالت میں بچوں نے کھیلنے کے لئے بلایا تو آپ علیہ السّلام نے (ان بچوں سے) کہا: کیا ہم کھیل کے لئے پیدا کئے گئے ہیں
؟ (ایسا نہیں ہے، بلکہ ہمیں عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہی ہم سے
مطلوب ہے۔ جب نابالغ بچہ اس طرح کہہ رہا ہے تو )اس بندے کا قول کیسا ہونا چاہئے جو
بالغ ہو چکا ہے۔( ابن عساکر، حرف الیاء، ذکر من اسمہ یحییٰ، یحییٰ بن زکریا بن نشوی۔۔۔
الخ، 64 / 183)
یہ غیب
کی خبر حضرت جبرئیل اور حضرت زکریا علیہما السّلام دونوں کو معلوم ہو گئی۔ آپ
علیہ السّلام کو بشارت ملی کہ آپ علیہ السّلام کو ایسا بیٹا عطا کیا جائے گا جس
کا نام’’ یحییٰ‘‘ ہوگا اور وہ اللہ پاک کے کلمہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی
تصدیق کرے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو کَلِمَۃُ اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ پاک نے انہیں کلمۂ ’’کُن‘‘ فرما
کر بغیر باپ کے پیدا کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر سب سے پہلے ایمان لانے اور
ان کی تصدیق کرنے والے حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے
عمر میں چھ ماہ بڑے تھے۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ حضرت مریم رضی اللہُ
عنہا سے ملیں تو انہیں اپنے حاملہ ہونے پر مطلع کیا ،حضرت مریم رضی اللہُ عنہا نے
فرمایا: میں بھی حاملہ ہوں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ نے کہا: اے مریم! رضی اللہُ عنہا مجھے یوں لگتا ہے کہ میرے پیٹ
کا بچہ تمہارے پیٹ کے بچے کو سجدہ کرتا ہے۔(خازن،1/247، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ: 39)
﴿یٰیَحْیٰى خُذِ
الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍؕ-وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے یحیٰ ! کتاب کو مضبوطی کے ساتھ
تھامے رکھو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی۔(پ16،مریم:12) تفسیر صراط الجنان: حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی
ولادت کے بعد جب آپ علیہ السّلام کی عمر دو سال ہوئی تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ’’ اے یحیٰ ! کتاب
توریت کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور اس پر عمل کی بھرپور کوشش کرو اور ہم نے
اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی جب
کہ آپ کی عمر شریف تین سال کی تھی ، اس وقت میں اللہ پاک نے آپ کو کامل عقل عطا فرمائی اور آپ کی طرف وحی کی ۔ حضرت عبد
اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا یہی قول
ہے اور اتنی سی عمر میں فہم و فراست اور
عقل و دانش کا کمال، خَوارقِ عادات (یعنی انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات) میں سے ہے اور جب اللہ پاک کے کرم سے یہ حاصل ہو تو اس حال میں نبوت ملنا کچھ بھی بعید نہیں ، لہٰذا اس آیت میں حکم سے نبوت مراد ہے اور یہی قول صحیح ہے ۔ بعض
مفسرین نے اس سے حکمت یعنی توریت کا فہم اور دین میں سمجھ بھی مراد لی ہے۔( تفسير صراط الجنان تحت
الآيۃ، جلالین، مریم، تحت الآیۃ: 12، ص254)
﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ
زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ﴾ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور اپنی طرف سے مہربانی اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا ۔ ( پ 16،
مریم:13)
﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ
جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ
سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور زبردست و نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14)
﴿وَ سَلٰمٌ
عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠(۱۵)﴾ ترجمۂ کنز الایمان: اور سلامتی ہے اس پر جس دن پیدا
ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ
اٹھایا جائے گا۔ (پ16،مریم:15)