سيدنا ابن سابط رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: بارگاہِ رسالت میں ایک شخص کا
ذکر ہوا تو اس کی تعریف کی گئی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وہ موت کو کیسے یاد کرتا ہے؟ عرض کی گئی اس سے کبھی مو ت کا تذکرہ سنا نہیں گیا، ارشاد
فرمایا ،پھر تو وہ ایسا نہیں جیسا تم کہہ
رہے ہو۔(مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب الزھد، حدیث ۲) یعنی قابل تعریف وہی ہے جو موت کو یاد کر ے۔
زیادہ عقلمند مومن کون ؟:
بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی کون ساے مؤمن زیادہ عقل مند ہیں؟ ارشاد فرمایا موت کو
کثرت سے یاد کرنے اور موت کے بعد کے لیے اچھی تیاری کرنے والے یہی لوگ زیادہ سمجھ دار
ہیں۔( ابن ماجہ ، کتاب الزھد باب ذکر الموت ، حدیث ۴۲۵۹)
پیارے اسلامی بھائیو! موت کو یاد کرنے کے بہت
سی دینی اور دنیاوی فوائد ہیں چند ذکر کیے جاتےہیں۔
موت کو یاد کرنے کے دنیاوی فوائد:
۱۔ فراخی کو زندگی: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت
کرتے ہیں نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے بھی موت کو تنگی
میں یاد کیا اس نے اس پر زندگی فراخ کردی۔( مسند بزاز ، مسند ابی حمزہ ، حدیث ۶۹۸۷)
(۲) لذت اور
خواہشات کا خاتمہ :
انسان اپنی زندگی میں بہت سے کام محض اپنی لذت یا خواہش کو پورا کرنے کے لیے کرتا ہے،
جس کی وجہ سے یا تو اس کا پیسہ برباد ہوتا
ہے یا صحت برباد ہوتی ہے، موت کو یاد رکھنے والے کی خواہشات کم ہوتیں ہیں اسی کے بارے میں نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم نے فرمایا: لذتوں کو ختم کرنے
والی موت کو کثرت سے یاد کرو۔(ترمذی کتاب الزھد، حدیث ۲۳۱۴۵)
اور حضرت سیدنا
عبدالاعلی یتیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں دو چیزوں
نے میرے لیے دنیا کی لذت ختم کردی ہے۔(۱) موت کی یاد ۔(۲) اللہ عزوجل کے حضور کھڑا ہونے
نے۔(حلیۃ
الاولیا ، عبدالاعلی نعیمی، حدیث :۶۵۸۵)
(۳) دنیا سے بے رغبتی :
نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ عیہ وسلم نے فرمایا:موت کو کثرت سے یاد کیا کرو کیونکہ وہ گناہوں کو زائل کرتی اور
دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے۔(ذکر الموت لابن ابی الدنیا ، ص ۸۱،حدیث
۱۴۸)
ایک اور حدیث پاک میں
فرمایا ۔ دنیا سے بے رغبتی کا افضل طریقہ موت کی یاد ہے۔( فردوس الاخبار ،
حدیث ۱۴۴۵)
(۴) دل کی قناعت اور تونگری :
نبی کریم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اگر تنگدستی میں موت کو یاد کرو گے تو یہ تمہیں تمہاری زندگی پر راضی رکھے گی۔
بعض بزرگوں نے فرمایا جو موت کو کثرت سے
یاد کرتا ہے وہ تین باتوں کے ذریعے عزت پاتا ہے۔
ان میں سے ایک دل کی قناعت ہے۔( التذکرہ
اللقرطبی ص ۱۴) سیدنا مجمع تیمی رحمۃ اللہ علیہ نے
فرمایا موت کی یاد دل کی تونگری ہے۔( حلیۃ الاولیا ، مجمع بن صمغان ، رقم ۶۴۹۱)
(۵) دنیا کے
غموں کو برداشت کرنے میں آسانی :
سیدنا کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، جو
موت کو پہچان لیتا ہے اس پر دنیا کے غم و مصائب آسان ہوجاتے ہیں۔( ایضا، تکملہ کعب
الاحبار، حدیث ۷۷۲۷)
اور سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس نے
موت کی یاد دل میں بسالی تو دنیا کی سار ی مصیبتیں اس پر آسان ہوجائیں
گی۔( موسوعہ ابن ابی الدنیا ، کتاب ذکر الموت حدیث ۱۲۹)
موت کویاد کرنے کے دینی
فوائد :
۱۔ دل کی سختی
دور :
ایک خاتون نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ
تعالیٰ عنہا
کی بارگاہ میں دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا موت کو کثرت سے یاد کرو
تمہارا دل نرم ہوجائے گا۔(ایضا، حدیث ۱۵۶)
(۲ ، ۳)توبہ
کی توفیق اور عبادت میں چستی :
بعض بزرگوں ے فرمایا : جو موت کو کثرت سے یاد کرتا ہے وہ تین باتوں
کے ذریعے عزت پاتا ہے۔ ۱۔ توبہ کی جلد توفیق(۲) دل کی قناعت (۳) عبادت میں چشتی (التذکرللقرطبی ۔ باب ذکر
الموت رفضلہ ، ص ۱۴)
(۴) شہدا کے
ساتھ حشر:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے
پوچھا :یارسول اللہ ! کسی کا حشر
شہیدوں کے ساتھ بھی ہوگا؟آپ نے فرمایا ، ہاں ، جو شخص دن رات میں بیس (۲۰) مرتبہ
موت کو یاد کرتا ہے وہ شہید کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔( جمع الجوامع ج۲، ص ۱۴، حدیث ۳۵۶)
(۵) قبر جنت کا
باغ :
فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ، جسے
موت کی یاد خوف زدہ کرتی ہے قبر اس کے لیے جنت کا باغ بن جائے گی۔
(۶) جنت میں جانے کا سبب :
حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
فرماتے ہیں: نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلم
نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے پوچھا کیا تم
سب جنت میں داخل ہونا چاہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی جی ہاں تو ارشاد فرمایا : اپنی امیدوں کو کوتاہ ( یعنی
مختصر) کرو ، موت کو آنکھوں کے سامنے رکھو اور اللہ پاک سے حیا کا حق
ادا کرو۔( احیا العلوم اردو ج ، ۵، ص ۴۴۷)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں موت کو یاد رکھنے اور اس کی تیاری کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
موت کيا ہے اور اس کے احوال :
موت کی تعریف یہ ہے : روح کا جسم سے جدا ہونا، اور ایک گھر (دنیا) سے
دوسرے گھر ( برزخ) میں منتقل ہونے کا نام ہے۔ (شرح الصدور ص ۵۲)
مومن کی روح جسم سے
اس طرح نکلتی ہے جس طرح پانی کی مشک سے کوئی قطر ہ ٹپک کر نکلتا ہے، پھر اس کو جنتی کفن پہنا دیا جاتا ہے اور کافر
کی روح کو جسم سے اس طرح کھینچا جاتا ہے جس طرح گرم سیخ بھیگی اون سے کھینچی جاتی
ہے۔( مسند احمد ج ۶، ص ۴۱۳)
موت اور قرآن پاک:
اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ ترجمہ
: ہر جان موت کا مزا چکھنے والی ہے۔(آل عمران ،185)
یعنی انسان ہوں یا جن یا پھر فرشتہ ، غرض یہ کہ
اللہ عزوجل کے سوا ہر زندہ کو موت آنی ہے، اور ہر چیز فانی ( ختم ہونے
والی) ہے، کسی کو موت سے چھٹکارا نہیں مل سکتا اور نہ کوئی اس سے بھاگ کر کہیں
جاسکتا ہے، موت کی تکلیف دنیا میں بندے کو
پہنچنے والی تمام تکلیفوں سے سخت تر ہے۔ (صراط
الجنان ج ۲، ص ۱۵۰، سورة ال عمران آیت ۱۸۵)
موت اور حدیث پاک :
سرکارِ مدینہ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لذتوں کو ختم
کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کرو۔(ترمذی کتاب الزھد ج ۴، ص ۱۳۸)
ایک انصاری صحابی نے
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کیا، سب سے زیادہ عقلمند کون
ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: جو موت کو زیادہ
یاد کرتا ہو اور اس کی اچھی طرح تیاری کرتا ہو۔(ا بن ماجہ کتاب الزھد ج ۴، ص ۴۹۶)
بارگاہِ رسالت میں
عرض کی گئی کیا کسی کو شہدا کے ساتھ بھی اٹھایا جائے گا؟ ارشاد فرمایا۔ ہاں اس کو
جو دن رات میں 20 مرتبہ موت کو یاد کرتا ہو۔(التذکرة القرطبی ص ۱۲)
موت اور بزرگانِ دین :
ہمارے بزرگانِ دین جب
موت ، قبر و حشر کا تذکرہ سنتے تو ان کی کیفیت بدل جاتی، خوب آہ و زاری فرماتے بعض اوقات تو بے ہوش ہوجاتے تھے، ذرا
سوچئے وہ اللہ کے نیک بندے ہونے کے
باوجود کتنا خوف رکھتے تھے اور ایک ہم ہیں جو بالکل بے خوف ہیں اور غفلت کی نیند
سورہے ہیں اب بہت ہوگیا ذرا جاگئے اورہوش کے ناخن لیجئے اور قبرو حشر کی تیاری
کیجئے۔
نصیحت کے لیے ایک حکایت:
حضرت عثمانِ غنی جب
کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوجاتی، آپ سے
پوچھا گیا آپ اس قدر کیوں روتے ہیں، فرماتے ہیں کہ سرکار نامدار صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشآد فرمایا بے شک آخرت کی
سب سے پہلی منزل قبر ہے اگر اس سے نجات مل
گئی تو بعد کا معاملہ آسان ہوگا اور اگر اس سے نجات نہ ملی تو بعد کا معاملہ اس سے
سخت تر ہوگا۔ (ترمذی کتاب الزھد ج ۴، ص
۱۳۸)
موت کو یاد کرنے کے فوائد:
موت کو یاد کرنے کے
بہت سے فوائد ہیں ان میں سے چند ذکر کیے جاتے ہیں۔
۱۔ توبہ کی جلد توفیق ملتی ،۲۔ دل کی قناعت ،۳۔ عبادت میں چشتی، ۴۔ دل کی تونگری ،۵۔مصیبتیں آسان، ۶۔دل کی نرمی ،۷۔ قبر جنت کے با غوں میں سے ایک
باغ بنتی ۔(۸) لمبی امیدوں سے حفاظت۔(۱۱)
تواضع و نکساری کا پیدا ہونا (۱۲) دنیا سے بے رغبتی (۱۳) موت کا آسان
ہونا۔(۱۴) قبر و حشر کی تیاری کی فکر
۔(۱۵) فسانی واہشات کا خاتمہ ۔(۱۶) دنیاو
آخرت میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ (کتب حدیث
باب ذکر الموت)
گزارش:
آپ سے گزارش ہے کہ
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم تو سرتاپا گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ہمارے اور موت
کی سختیوں کے علاوہ نہ جانے کتنی مصیبتیں آئیں گی، اس لیے عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کیا جائے اور
دنیا میں رہ کر موت اور اس کے بعد کی تیاری کی جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے طفیل ہم سب کا خاتمہ اچھا فرمائے اور ہم پر موت کی
سختیاں آسان فرمائے۔ امین
موت
کو یاد کرنا انتہائی نفع بخش عمل ہے کہ جب آدمی ہر وقت موت کو یاد رکھے گا کہ مجھے
ایک دن مرنا ہے اور سارا مال و سامان چھوڑ کر خالی ہاتھ اس فانی دنیا سے چلے جانا
ہے تو اس کے دل میں دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوگی اور آخرت کی فکر ہو جائے گی اور
ظاہر ہے کہ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی
فکر یہ دونوں چیزیں ہر قسم کی نیکیوں کا سر چشمہ ہیں. موت کو یاد کرنے کے فوائد تو
بہت ہیں جن میں سے چند ایک ملاحظہ ہوں.
(1) جنت
میں لے جانے والا عمل:
موت
کو بکثرت یاد کرنا جنت دلانے والے اعمال میں سے ایک عمل ہے اور جنت میں لے جانے
والی ایک بڑی شاہراہ (راستہ) ہے۔ ( بہشت کی کنجیاں، صفحہ: ١٧٦، مطبوعہ: مکتبۃ
المدینہ)
(2) شہداء
کے ساتھ اٹھایا جائے گا:
دن
رات میں 20 مرتبہ موت کو یاد کرنے والا شہداء کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ چنانچہ حضرت سیدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے عرض کی: یا رسوُل اللّٰه
صلی اللّٰه تعالٰی علیہ والہ وسلم! کیا شہیدوں کے ساتھ کسی اور کو بھی
اٹھایا جائے گا؟ اِرشاد فرمایا: " ہاں اِسے جو دن رات میں 20 مرتبہ موت
کو یاد کرے. ( فیضان نماز، صفحہ: ٣٠٩، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ. شرح الصُدُور مترجم،
صفحہ: ٦٦، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
(3)
قبر جنت کا باغ بن جائے گی: فرمان مصطفیٰ صلی
اللّٰه تعالٰی علیہ وسلم:" جسے موت کی یاد خوف زدہ کرتی ہے قبر اِس کے لیے جنت کا
باغ بن جاۓ گی. ( فیضان
نماز ، صفحہ: ٣٢٠، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
(4)
دنیا سے بے رغبتی کا افضل طریقہ: حضرت سیدنا انس بن مالک رضی
اللّٰه تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور
سرورِ انبیاء صلی اللّٰه تعالٰی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دنیا سے بے رغبتی کا افضل طریقہ
موت کی یاد ہے. ( شرح الصُدُور مترجم، صفحہ: ٧١، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
(5)
حضرت سیدنا سہل بن سعد رضی اللّٰه تعالٰی عنہ سے منقول ہے اور بعض بزرگوں نے فرمایا : جو موت
کو کثرت سے یاد کرتا ہے وہ تین باتوں کے ذریعے عزت پاتا ہے: (1) توبہ کی جلد توفیق
(2) دل کی قناعت (3) عبادت میں چُستی. ( شرح الصُدُور مترجم، صفحہ: ٦٧، مطبوعہ:
مکتبۃ المدینہ)
(3) موت کو یاد کرنے کا آسان طریقہ:
فرمان
امیر اہلسنت دامت برکاتھم العالیہ:
"موت کو یاد کرنے کے لیے کسی ایسی جگہ الموت لکھیں جس پر آپ کی نظر پڑتی رہے.
( مدنی مذاکرہ، ٧ محرم الحرام ١٤٣٤ھ ماخوذ از ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الاول
١٤٣٩ھ بمطابق دسمبر ٢٠١٧)
اللّٰه عزوجل ہمیں موت کو بکثرت یاد
کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الآمین
صلی اللّٰه تعالٰی علیہ والہ وسلم
پىارے آقا صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم نے فرماىا :عقل مند وہ ہے
جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے معاملات کے لىے تىارى کرے۔ (ترمذى ج ۴، ص ۲۰۸، حدىث ۲۴۶۸)
عقل مند کو چاہىے کہ وہ اپنى گزشتہ زندگى کا جائزہ لے اپنے
گناہوں سے سچى توبہ کرے اور قبر و آخرت کى تىارى کے لىے فورا ً نىک اعمال مىں لگ جائے ، اىسى فکر ِ آخرت اس وقت حاصل ہوسکتى ہے جب کہ ہم موت کو
ہر وقت اپنى آنکھوں کے سامنے رکھىں اور جب بھى اس فانى دنىا کو دىکھ کر خوشى حاصل
ہو تو فوراً ىہ بات ىاد کرىں کہ ىہ عنقرىب مجھے چھوڑ دے گى، مجھے خود اسے چھوڑ کر
جانا پڑے گا۔
مىٹھے مىٹھے اسلامى بھائىو! عقل مند وہى ہے جو دوسروں کو
مرتا دىکھ کر اپنى موت ىاد کرے، حضرت سىدنا ابن مسعود رضى اللہ
تعالىٰ عنہ فرماتے ہىں۔ ’’السعید من وعظ بغیرہ ‘‘ سعادت مند وہ ہے جو دوسروں سے نصىحت حاصل کرے۔(اتحاف السادة لترمذى ج ۱، ص ۳۲)
اللہ پاک کى طرف متوجہ
ہونے کا ذرىعہ :
فرماىا حضور صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم لذتوں کو ختم کرنے
والى کو زىادہ ىاد کرو۔(سنن ابن ماجہ ۴۹۵۔۴ ، حدىث :۴۲۔۵۸)
ىعنى موت کو ىاد کرکے لذتوں کو بدمزہ کردو تاکہ ان کى طرف
طبىعت مائل نہ ہو اور تم اللہ عزوجل کى طرف ىکسوئى کے ساتھ متوجہ ہوجاؤ ( احىا العلوم ۵/۴۷۷)
شہىدوں کى معىت :
حضرت سىدتنا عائشہ رضى اللہ عنہا نے عرض کى : ىارسول
اللہ صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم کىا شہىدوں کے ساتھ
کسى اور کو بھى اٹھاىا جائے گا؟ ارشاد
فرماىا: ہاں اسے جو دن مىں بىس مرتبہ موت
کو ىاد کرے۔(المعجم الاوسط ۵/۳۸۱، حدىث ۷۶۷۶۔ احىا العلوم ۵/۹۷۹)
گناہوں کو مٹاتى ہے :
نبى اکرم صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم نے فرماىا: موت کو
زىادہ ىاد کرو ىہ گناہوں کو مٹاتى اور دنىا سے بے رغبت کرتى ہے،(موسوعۃ الامام ۵/۴۳۸،
حدىث ۱۴۸، احىا العلوم ۵/۴۷۸)
غموں سے آزادى :
حضور علیہ الصلوة والسلام نے اىک شخض کو وصىت کى کہ تم موت کو کثرت سے ىاد کىا کرو
وہ تمہىں دوسرے غموں سے آزاد کردے گى۔ (ّالمطلب العالىہ ۷/۶۷۵، حدىث ۳۱۴۷،شرح
الصدور مترجم، ص ۶۵)
دل کى سختى کا علاج :
اىک عورت نے حضرت عائشہ صدىقہ رضى اللہ
عنہا سے اپنے دل کى سختى کى شکاىت کى تو انہوں نے فرماىا موت کو
زىادہ ىاد کرو اس سے تمہارا دل نرم ہوجائے
گا۔ اس عورت نے اىسا ہى کىا تو دل کى سختى جاتى رہى، پھر اس نے حضرت سىدتنا عائشہ رضى
اللہ عنہا کا شکرىہ ادا کىا۔(احىا العلوم جلد ۵، ص ۴۸۰)
اپنے مال کو کثىر سمجھنے کا ذر ىعہ:
حضرت سىدنا عمر بن عبدالعزىز علیہ الرحمۃ
نے فرماىا جو موت کو اپنے دل کے قرىب کرلىتا ہے وہ اپنے پاس موجود مال کو کثىر سمجھتا ہے۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمىں
موت کو ىاد کرنے اور قبر و آخرت کى تىارى کرتے رہنے کى توفىق عطا فرمائے۔آمىن
موت
نے دوست کو دوستوں کی محفل سے اُچک لیا اور کوئی دربان، چوکیدار اُسے نہ بچا
سکا۔انسان کو چاہئے کہ وہ موت کو ہر حال میں یاد
رکھے کیونکہ موت کو یاد رکھنے کے بہت فوائد ہیں آئیے ان میں سے چند ملاحظہ
کرتے ہیں ۔
(01)
حضرتِ عائشہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا نے پوچھا: یا رسول اللہ! کس کا حشر شہیدوں کے ساتھ بھی ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں ! جو
شخص دن رات میں بیس مرتبہ موت کو یاد کرتا ہے وہ شہید کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔( بریقۃ
محمودیۃ فی شرح طریقۃ محمدیۃ ، ۲/۱۱۶و
المغنی عن حمل الأسفار، ۲/۱۲۰۰و
قوت القلوب، ۲/۴۳ با حوالہ
مکاشفۃ القلوب مطبوعہ مکتبۃ المدینہ صفحہ نمبر184)
اسی
حدیث کےتحت مکاشفۃ القلوب صفحہ نمبر 184 پر ہے: اِس فضیلت کا
سبب یہ ہے کہ موت کی یاد دنیا سے دل اُچاٹ کردیتی ہے اور آخرت کی تیاری پر اُکساتی
ہے لیکن موت کو بھول جانا انسان کو دنیاوی خواہشات میں منہمک کردیتا ہے۔
(02)حضرتِ
عطاء خراسانی رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ سے
مروی ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ایک
ایسی مجلس سے گزرے جس میں لوگ زور زور سے ہنس رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: اپنی مجلس میں
لذتوں کو فنا کردینے والی چیز کا ذکر کرو! پوچھا گیا: حضور وہ کیا ہے؟ آپ نے اِرشاد
فرمایا: ’’وہ موت ہے۔ (کتاب ذکر الموت لابن أبی الدنیا ،۵/۴۲۳، الحدیث۹۵و
المغنی عن حمل الاسفار للعراقی،۱/۱۶۷،
الحدیث۶۷۴ باحوالہ
مکاشفۃ القلوب مطبوعہ مکتبۃ المدینہ صفحہ نمبر 185)
(03)حضرتِ
اَنَس رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے
مروی ہے؛ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے
فرمایا: ’’موت کو کثرت سے یاد کرو، اس سے گناہ ختم ہوجاتے ہیں اور دنیا سے بے رغبتی
بڑھتی ہے۔( کنزالعمال،کتاب الموت، الباب الاول فی ذکر الموت وفضائلہ ، ۸/۲۳۱، الجزء الخامس عشر، الحدیث ۴۲۰۹۱ حوالہ مکاشفۃ القلوب مطبوعہ مکتبۃ
المدینہ صفحہ نمبر185)
(04)حضرتِ
کعب رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا
قول ہے کہ جس نے موت کو پہچان لیا اس سے تمام دنیا کے دُکھ، درد ختم ہوگئے۔( مکاشفۃ
القلوب صفحہ نمبر مطبوعہ مکتبۃ المدینہ 186)
(05)
اُمّ المؤمنین حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ
عَنْہَا سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ رَضِیَ
اللہُ عَنْہَا سے اپنی سنگدلی کی شکایت کی تو اُنہوں نے کہا: موت کو یاد کیا
کرو، تمہارا دل نرم ہوجائے گا، اس نے ایسا ہی کیا اور اس کا دل نرم ہوگیا، وہ
حضرتِ عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کاشکریہ ادا کیا۔(
مکاشفۃ القلوب صفحہ نمبر 187 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
(06)حضرتِ
عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے
عَنْبَسَہ سے کہا:’’ موت کو اکثر یاد کیا کرو! اگر تم فراخ دست ہو تو یہ تم کو
تنگدست کردے گی اور اگر تم تنگدست ہو تو یہ تم کو ہمیشہ کی فراخ دستی عطا کردے گی۔(
مکاشفۃ القلوب صفحہ نمبر 187 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
پیارےاسلامی
بھائیو! ہمیں ہر حال میں موت کو یاد رکھنا چاہئے تاکہ ہم اپنی دنیا اور آخرت بہتر
بنا سکیں۔
حضرت ربىع بن خیثم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ( مبارک) گھر کے اندر اىک کونے مىں قبر کھود رکھى
تھى اور دن مىں کرئى مرتبہ اس مىں جا کر سوتے اور ہمىشہ موت کا ذکر کرتے
تھے۔(مکاشفۃ القلوب ص 197)
محترم قارئىن موت کو ىاد رکھنا ہمىشہ سے بندہ خاصان خدا کا
طرىقہ کار ہے اور اىسے لوگوں (ىعنى موت کو ىاد رکھنے والوں) کو حدىث مبارکہ مىں
عقل مند فرماىا، چنانچہ رحمت والے نبى صلى اللہ تعالىٰ علىہ وسلم نے فرماىا، سب سے زىادہ وہ عقل ودانا وہ مومن جو ’’موت‘‘ کو کثرت سے ىاد کرلے اور اس کے لىے احسن طرىقے پر
تىارى کرے ، ىعنى (حقىقى) دانا لوگ ہىں۔(شعب
الایمان )
وَ جَآءَتْ سَكْرَةُ
الْمَوْتِ بِالْحَقِّؕ-ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِیْدُ(۱۹) ترجمہ
کنزالاىمان : اور آئى موت کى سختى حق کے ساتھ
ىہ ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔
حکىم الامت مفتى
احمد ىار خان علیہ رحمۃ الحنان اس آىت مبارکہ کے تحت فرماتے ہىں : ىہ کلام کافر ىا غافل (ىعنى دنىوى محبت مىں موت کو بھول جانے والے) سے
ہوگا، فرشتے فرمائىں گےَ(نور الالعرفان)
لہذا پىارے اسلامى بھائىو ! ہمىں چاہىے کہ ہر وقت موت کو
اپنے سامنے تصور کرىں کہ اب آئى کہ جب آئى، کىونکہ جس چىز کا آنا ىقىنى ہو وہ چىز
بہت قرىب ہوتى ہے، جہاں موت کو بھولا دىنے کے کئى نقصانات ہىں وہىں اسے ىاد رکھنا
بھى کسى فائدے سے خالى نہىں۔
۱۔مثلا موت کو ىاد رکھنا رضائے الہى عزوجل و رضائے مصطفى صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم کا ذرىعہ ہے۔
۲۔موت کو ىاد رکھنا شہادت کے مرتبہ پر فائز کردىتا ہے جىسا
کہ حدىث طىبہ مىں آىا کہ جو دن رات مىں بىس مرتبہ موت کو ىاد کرے تو وہ شہىدوں کے
ساتھ اٹھاىا جائے گا۔ (فىضانِ نماز ص 309)
۳۔ ’’موت‘‘ کو ىاد رکھنا دل کى پاکىزگى کا ذرىعہ ہے، امام المتقىن صلى اللہ
تعالىٰ علیہ وسلم نے فرماىا: دلوں
کو بھى زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے عرض کى گئى ۔’’ىارسول اللہ
صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم اس کى صفائى کس چىز
سے ہوگى ؟ ارشاد فرماىا: موت کو ىاد رکھنے
سے ۔
۵۔ ’’موت‘‘ کو ىاد رکھنا طول امل (ىعنى لمبى امىدوں) کا
خاتمہ کردىتا ہے جو کہ دىنى و دنىوى ترقى کى راہ مىں رکاوٹ ہے۔
۶۔ ’’موت‘‘ کو ىاد رکھنا حبِ مال، حبِ جاہ، حبِ دنىا حتى کہ
ہر قسم کى باطنى بىمارىوں کا علاج ہے۔
۷۔’’موت‘‘ کو ىاد رکھنا نىکىوں پرابھارتا ہے گناہوں سے نفرت
دلاتا ہے اور آخرت مىں خوشى و فرحت کا باعث ہے، حتى کہ ىہ عادت بندے کو ولاىت کے
اعلىٰ ترىن مقام تک لے جاتى ہے، موت کو
ىاد رکھنے کے دو طرىقے ۔ ’’ الموت‘‘ کو اىسى جگہ لکھا جائے جہاں دن مىں کئى مرتبہ
آپ کى نگاہ پڑھے۔
رات کو سونے سے پہلے ىہ تصور جماىا جائے کہ اىک دن وہ بھى
آئے گا جب مجھے تنِ تنہا اندھىرى قبر مىں سونا پڑے گا۔
ىارب المصطفى صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم، ہمىں موت کو کثرت سے ىاد رکھنے او را سکى تىارى کرنے کى سعادت نصىب فرما۔ اٰمین بجاہ
النبى الامین صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) ترجمہ کنزالایمان، بے شک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا۔(پ30،س الشمس،آیۃ9)
تفسیر جلالین و صاوی میں اس آیۃ کے تحت بیان کیا
گیا ہے کہ نفس کو پاک کرنے سے مراد نفس کو برائیوں سے بچانا ہے اور نفس کو اسی وقت
برائیوں سے بچایا جا سکتا ہے جب بندہِ مؤمن دنیا کی پرواہ کیے بغیر آخرت کی تیاری
میں لگا رہے اور اپنی موت کو یاد کرتا رہے۔
پیارے اور میٹھے اسلامی بھائیو! موت ایک ایسی حقیقت
ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا اس دنیا میں بہت سے فتنے اُٹھے، لوگوں نے انبیاء
کا انکار کیا ،بلکہ اللہ تعالی کا انکار
کردیا(العیاذ
باللہ) لیکن جب سے یہ دنیا آباد ہے
آج تک کسی نے موت کا انکار نہیں کیا ۔ لہذا موت کو یاد کرتے رہنا چاہیے۔
موت کی یاد : دل میں محبتِ الہی کا فائدہ دیتی
ہے۔ چنانچہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ
سے مروی ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ ایک شخص بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے ایسا عمل بتائیے جس کے کرنے پر اللہ عزّوجل مجھ سے محبت کرے اور لوگ بھی؟ فرمایا دنیا سے بے رغبت ہو جا ؤاللہ تعالی تم سے محبت کرے گا اور جو لوگوں کے پاس ہے(یعنی
مال)اس سے بے رغبت ہو جا ؤ لوگ بھی تم سے محبت کریں گے۔(مشکؤۃ ج2کتاب الرقاق ح
4957)
مذکورہ حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ دنیا سے بے
رغبت ہو جانے، آخرت کی تیاری کرنے اور موت کو یاد کرنے سے بندہ اللہ عزّوجل کا محبوب بن جاتا ہے ۔
موت کی یاد : خوف خدا کا فائدہ بھی دیتی ہے، چنانچہ حضرت یزید
رقاشی علیہ رحمۃاللہ
الشافی فرمایا کرتے تھے : موت جس
کا مَوعِد(یعنی وعدے کا وقت)ہو، قبر جس کا گھر ہو، زمین کے نیچے جس کا ٹھکانا ہو،
کیڑے جس کے ساتھی ہوں اوراس کے ساتھ ساتھ بڑی گھبراہٹ(یعنی قیامت)کا بھی انتظار ہو
اس کا کیا حال ہوگا اسی دوران آپ پر رقت طاری ہو جاتی (المستطرف،الباب الحادی و
الثمانون فی ذکر الموت)
موت کو مت بھولنا
پچھتاؤ گے
قبر میں اے عاصیو
جب جاؤ گے
سانپ بچھو دیکھ
کر گھبراؤ گے
بھاگ نہ ہرگز
وہاں سے پاؤ گے
ان کے علاوہ موت کو یاد کرنے سے مندرجہ ذیل
فوائد حاصل ہوتے ہیں:
موت کا
احساس پیدا ہوتا ہے، نیکیاں کرنے کا ذہن
بنتا ہے،گناہوں سے بچنے کا ذہن بنتا ہے، توبہ
کرنے کی توفیق ملتی ہے،، دل نرم ہو جاتا ہے، عبادت میں لذّت محسوس ہوتی ہے، دنیا کی مشکلات کا خوف نہیں رہتا بلکہ آخرت کی
فکر رہتی ہے، اللہ کی خوشنودی مقصود ہوتی ہے، بندہ فضول کاموں سے باز رہتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت میں لگا رہتا ہے۔ ہر وقت
بندے کے ذہن میں رہتا ہے کہ یہ دنیا کی بظاہر رونقیں اور لذتیں ختم ہونے والی ہیں
اور مجھے اپنے
اللہ کی طرف کوچ کرنی ہے۔
سدا نہ باغیں
بلبل بولے، سدا نہ باغ بہاراں
سدا نہ ماپے حسن
جوانی، سدا نہ صحبت یاراں
یاد رکھیں ! موت کے بعد ہر ایک کو اپنی کرنی کا پھل ضرور بھگتنا ہے۔
اللہ تعالی مجھے اور سب مسلمانوں کو موت کی تیاری کرنے اور
موت کو یاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
موت ایسی اٹل حقیقت ہے جس کا انکار کرنے
والا کوئی نہیں،اور اس سے راہ فرار اختیار کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں، چاہے وہ
پہاڑوں کے سینوں کو چیر کر اس کے اندر مضبوط غار میں پناہ ہی کیوں نہ اختیار کرلے
موت آکر ہی رہے گی۔کیونکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: اَیْنَ مَا
تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ
مُّشَیَّدَةٍؕ- ترجمہ : تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں ضرور
پکڑ لے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہو ۔ (سورة النساء،78\5)
موت آکر ہی رہے گی یاد رکھ
جان جاکر ہی رہے گی یاد رکھ
موت کو یاد کرنے کے فوائد:
موت کو یاد کرنے میں دل دنیا سے بے زار
ہوجاتا ہے،آخرت کی طرف راغب ہو کر گناہوں سے متنفر اور نیکیوں کی طرف مائل ہوجاتا
ہے حدیث پاک میں ہے جوشخص روزانہ20 بار موت کو یاد کرلیا کرے اس کو درجۂ شہادت ملے گا۔(التذکرة للقرطبی،باب ذکر
الموت و فضلہ،ص١٢)
بکثرت احادیث و روایات میں موت کو یاد کرنے
کے فوائد مروی ہیں،ان میں سے چند یہ ہیں۔
1- اکثروا ذکر ھاذم الذات الموت یعنی لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد
کرو(ترمذی،کتاب الزھد،4/138،حدیث 2314)
2- موت کو کثرت سے
یاد کرو کیونکہ یہ گناہوں کو زائل کرتی ہے۔ (ذکر الموت لابن ابی الدنیا، باب ذکر
الموت و استعداد لہ،ص81،حدیث148)
3۔ حضرت عائشہرضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں : کہ موت کو کثرت سے یاد کرو تمہارا دل نرم ہوجائے
گا۔(موسوعة ابن ابی الدنیا،کتاب ذکر الموت،5/432،حدیث 146)
4۔ جن لوگوں کا دل دنیا کی طرف راغب ہوتا ہے
اسی کو سنوارنے،سجانے میں لگے رہتے ہیں، عموما ً وہ لوگ گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔دنیا
سے بے رغبتی کیسے حاصل کی جائے؟ حدیث پاک میں ہے کہ دنیا سے بے رغبتی کا افضل
طریقہ"موت کو یاد کرنا" ہے.(فردوس الاخبار،1\208،حدیث 1445)
5۔ حضرت حسن بصریعلیہ الرحمة نے فرمایا: جس نے موت کی یاد دل
میں بسا لی دنیا کی ساری مصیبتیں اس پر آسان ہوجائیں گی۔(موسوعة ابن ابی الدنیا،باب ذکر الموت و الاستعدادلہ،5/432،حدیث129)
موت کو یاد نہ کرنے کے
نقصانات:
جو موت کوبھول بیٹھتا ہے وہ توبہ سے دور،عبادت
میں سستی اور قساوت قلبی(دل کی سختی) کا شکار ہوجاتا ہے۔جو موت کو یاد نہیں کرتا وہ
قابل تعریف نہیں کہ حدیث پاک میں ہے:
بارگاہ رسالت صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم میں ایک شخص کا ذکر ہوا تو اس کی تعریف کی گئی، آپ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
وہ "موت کو کیسے یاد کرتا
ہے"۔عرض کی گئی:اس سے کبھی موت کا تذکرہ سنا نہیں گیا۔ارشاد فرمایا: پھر وہ
ایسا نہیں جیسا کہ تم کہہ رہے ہو۔(،کتاب الزھد،8/129،حدیث 1485)
موت کو یاد کرنے کے طریقے:
موت کی
یاد دہانی کے لیے مددگار چیزوں کا ہونا بہت اہم ہے جو ہمیں موت کی یاد دلاتی رہے۔جیسے
١_قبروں
کی زیارت کرنا۔حدیث پاک میں ہے کہ قبروں کی زیارت کرو کہ یہ موت کی یاد دلاتی ہے۔(مسلم،کتاب
الجنائز،حدیث۔956)
٢۔_۔جنازوں میں شرکت کرنا۔
٣۔مردے کو غسل دینا۔وغیرہ
الله تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں موت کو یاد رکھنے
کی توفیق عطا فرماے۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ : ترجمہ: ہرجان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔(آل عمران ، 185)
حضرت
انس رضی اللہ تعالی عنہ سے
مروی ہے کہ اللہ کے رسو ل صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :لذتوں کو ختم کرنے والی(یعنی موت)
کو کثرت سے یاد کیا کرو کیونکہ جس نے بھی اسے تنگدستی میں یاد کیا اِس نے اٌس پر
زندگی فراخ کر دی اور فراخی میں یاد کیا تو اس پر زندگی تنگ کر دی(مسند بزار،مسند
ابی حمزہ ١٣/٣٥٤ حدیث ٦٩٨٧)
جب
ہمہ وقت موت انسان کا تعاقب کررہی ہے پھر انسان اس سے کیوں غافل ہے! اس کی وجہ یہ
ہے کہ انسان دنیاکی لذات وخوہشات میں ایسے مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ موت سے مکمل غافل ہو جاتا ہے.
جیسے بعض بزرگان دین نے ایک مثال سے واضح کیا کہ انسان کیسے غافل رہتا ہے ایک
انسان نے دیکھا کہ شیر منہ کھولے دھاڑتا ہوا میرا تعاقب کر رہا ہے,وہ خوف کے مارے
اپنے آپ کوشیرسے بچانے کے لئے درخت پر چڑھ گیاجس شاخ پر بیٹھا اسے دو چوہےایک سیاہ اور ایک سفید کاٹ رہے ہیں
اس شاخ کے نیچے ایک گڑھا موجود ہے اگر وہ شاخ کٹتی ہے تو وہ شیر کی گرفت میں بھی آتا
ہے اور گڑھے میں بھی گرتا ہے لیکن اس کو شیر اور گڑھے کے خوف سے اس طرح غافل کردیا
گیا کہ اس شاخ پر جس پر بیٹھا ہے ایک شہد کا چھتا لگا ہوا ہے اس نے شہد کھانا شروع
کر دیا شہد کی شرینی نے اس کو ایسے مست کردیا کہ ایسے نہ یہ خوف رہاکہ جس شاخ پر بیٹھا
ہوا ہوں وہ تو سفید اور سیاہ چوہے کاٹ رہے ہیں ، نہ اسے یہ یاد رہا کہ میں شیر سے ڈر کر
بھاگاتھا ،اور نہ اسے نیچے گڑھےکا کوئی خوف ہے ۔
اسی
طرح انسان کا شیر کی طرح موت تعاقب کر رہی ہے قبر ایک گڑھے کی طرح منتظر ہےاور
انسان کی زندگی کی شاخ کو دن سفید چوہے کی طرح اور رات سیاہ چوہےکی طرح کاٹ رہے ہیں
،لیکن انسان ان تمام خطرات سے بے نیاز ہو کر دنیا کی لذات خواہشات میں شہد کی شیرینی
کی طرح مست ہے ،اسے موت کا کوئی غم نہیں قبرکا کوئی ڈر نہیں زندگی کے اختتام کی
کوئی فکر نہیں کیونکہ وہ اپنی زندگی کا ہر دن گزرنے پر خوش ہوتا ہے کہ وہ بڑا ہو رہا
ہے ہے لیکن یہ نہیں سوچتا کہ حقیقت میں چھوٹا ہو رہا ہے ہے ۔
کیونکہ
اس کی زندگی کا ہر دن گزرنے پر کم ہو رہا ہے انسان کو چاہیےوہ دنیاوی لذات کی طرف
توجہ کم کر دے اور مالک الملک کے دربار کی طرف متوجہ ہو !بس یہی ایک ذریعہ ہے کہ
انسان کو موت بھی یاد ہوگی خوف خدا بھی حاصل ہوگا اور گناہوں سے دوری بھی اور نیکیوں
کی رغبت بھی حاصل ہوگی۔
بعض
بزرگان دین نے کہا جس نے موت کو بکثرت یاد کیا اسے تین انعامات ملیں گے
1)توبہ
کی جلدی تو فیق ہو گی ۔2)دل میں قناعت نصیب ہو گی۔ 3)عبادت میں خوشی ہوگی۔
خوف خدا پیدا
کرنے، سچی توبہ کرنے، رب سے ملاقات کرنے، قرب الہٰی کے مراتب پانے، اپنے محبوب آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کی زیارت
حاصل کرنے کے لیے موت کو یاد کرنا تذکرہ موت کہلاتا ہے۔
موت کو یاد کرنے کی ترغیب ہمارے پیارے
آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے
دلائی چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ
تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ
صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لذتوں
کو ختم کرنے والی (موت) کو زیادہ یاد کیا
کرو“۔
کسی
بھی اچھے کام کی عادت ڈالنے اور اس پر استقامت حاصل کرنے کے طریقوں میں سے ایک اہم
طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کام کی فضیلت کا مطالعہ کیا جائے اور اس کام کے فوائد کو
ذہن میں رکھا جائے۔ لہذا مندرجہ ذیل فوائد کا مطالعہ اور ان کو ذہن میں رکھنے سے
موت کو یاد کرنے کی ترغیب اور اس کی عادت بنانے میں مدد ملے گی۔ ان شاءاللّٰہ!
موت کو یاد کرنے کے فوائد پر احادیث مبارکہ:
حضرت
سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنھا نے
عرض کی؛”یا رسول اللّٰہ! کیا شہیدوں
کے ساتھ کسی اور کو بھی اٹھایا جائے گا؟ “ ارشاد فرمایا؛ ”ہاں اسے جو دن رات میں
20 مرتبہ موت کو یاد کرے“۔
موت
مومن کے لیے تحفہ ہے۔
موت
ہر مسلمان کے لیے کفارہ ہے۔
موت
کو زیادہ یاد کرو یہ گناہوں کو مٹاتی اور دنیا سے بے رغبت کرتی ہے۔
جدائی
ڈالنے کے لئے موت ہی کافی ہے۔
نصیحت
کے لیے موت ہی کافی ہے۔
حضرت
سیدنا عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں : میں بارگاہ رسالت میں
حاضر ہونے والا دسواں شخص تھا کہ کسی انصاری صحابی رضی
اللّہ عنہ نے عرض کی:” یا رسول اللّٰہ
صلی اللّٰہ علیہ وسلم لوگوں میں زیادہ عقلمند اور عزت والا کون ہے؟“ ارشاد فرمایا:
”موت کو زیادہ یاد کرنے اور اس کی زیادہ تیاری کرنے والا، یہی لوگ عقلمند ہیں کہ
دنیاوی اور اخروی اعزاز کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں“۔
موت کو یاد کرنے کے فوائد پر اقوال بزرگانِ دین:
حضرت
سیدتنا صفیہ بنت شیبہ رحمۃ اللّٰہ علیھا
فرماتی ہیں : کہ ایک عورت نے حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی
اللّٰہ عنھا سے اپنے دل کی سختی کے بارے میں شکایت کی تو انھوں نے فرمایا:
”موت کو زیادہ یاد کرو اس سے تمہارا دل نرم ہو جائے گا“ اس عورت نے ایسا ہی کیا تو
دل کی سختی جاتی رہی پھر اس نے حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی
اللّٰہ عنھا کا شکریہ ادا کیا۔
حضرت
سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللّٰہ قوی
فرماتے ہیں:”میں نے ہر عقل مند کو موت سے خوف زدہ اور غمگین ہی دیکھا ہے“۔
حضرت
عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللّٰہ العزیز نے
حضرت سیدنا عَنْبَسَہ سے فرمایا:”موت کو زیادہ
یاد کرو کہ اگر تم مالدار ہوئے تو یہ تم پر تنگ دستی لے آئے گی اور اگر تنگ دست ہوئے
تو خوشحالی لے آئے گی“۔ماخوذ از کتب "نجات دلانے والے اعمال کی معلومات“، ”احیاء
العلوم جلد 5‘‘
اللّٰہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو موت کو یاد کرنے اور
اس کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
فرمانِ مصطفی صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے: کثروا من ذکر ھاذ م اللذات ترجمہ ۔ لذتوں کو مٹانے والی( موت) کو بہت یاد کرو۔ (ترمذی،
کتاب الزھد، باب ماجا فی ذکر الموت
۴۷/۱۳۸، الحدیث ۲۳۱۴)
چند
فوائد:
۱۔ہمارے پیارے آقا صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بکثرت موت کو یاد کرتے رہنے کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ موت
کو یاد کرنا ایک عظیم سنت ہے اور حضور علیہ السلام کے فرمان کی تکمیل بھی ہے۔
۲۔موت کو بکثرت یاد
کرنے سے انسا ن کی خواہشات میں کمی ہوتی ہے اور وہ دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش
ہوجاتا ہے۔
۳۔ موت کو یاد کرنے
والے کو شہید کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
۴۔ موت کو یاد کرنے
سے گناہ ختم ہوجاتے ہیں۔
۵۔موت کو یاد کرنے
والا بہت باعزت اور ہوشیار ہے۔
۶۔موت کا انتظار سب
سے بہتر ہے۔
۷۔ موت کی یاد کرنا
صحابہ کرام اور تابعین کی سنت ہے۔
۸۔ موت کی یاد دل نرم
کرتی ہے۔
مذکورہ
فوائد مع اقوال :
فائدہ نمبر۱: پیارے آقا صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لذتوں
کو مٹانے والی(یعنی موت) کو بہت یاد کرو۔
اس فرمان میں یہ
اشارہ ہے کہ انسان موت کو یاد کرکے دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش ہوجائے تاکہ اسے
بارگاہِ ربوبیت میں مقبولیت حاصل ہو۔
اس حدیث مبارکہ سے
واضح ہوگیا کہ موت کو یاد کرنے کا حکم خود نبی پاک صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے یوں موت کو
یاد کرنے سے اس فرمان پر عمل ہوگا۔
فائدہ ۲:
حضرت عطا خراسانی رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ وسلم ایک ایسی مجلس سے گزرے جس میں لوگ زور زور سے ہنس رہے تھے
آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اپنی مجلس میں لذتوں کو فنا کردینے والی چیز کاذکر
کرو۔ پوچھا گیا، حضور وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ موت ہے۔
۳۔ حضرت عائشہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کسی کا حشر شہیدوں
کے ساتھ بھی ہوگا ؟ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہاں جو
شخض دن رات میں بیس مرتبہ موت کو یاد کرتا ہے وہ شہید کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ (برتیہ محمودیہ فی شرح طریقہ محمدیہ، ۴۶۔۱۱۴،
والمغنی عن جمال الاسفارہ ۲۔۲۶۰)
اس فضیلت کا سبب یہ
ہے کہ موت کی یاد دنیا سے دل اُچاٹ کردیتی ہے اور آخرت کی تیاری پر اکساتی ہے لیکن
موت کو بھول جانا انسان کو دنیاوی خواہشات میں منہمک کردیتا ہے۔
۴۔ حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: موت کو کثرت سے یاد کرو، اس سے گناہ ختم ہوجاتے
ہیں اور دنیا سے بے رغبتی بڑھتی ہے۔ (کنزالعمال ، کتاب الموت ، الباب الاول فی ذکر
الموت و فضائل ۸۶/۲۳۱ الجز الخامس عشرہ الحدیث ۴۲۹۱)
نمبر۵۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں دسواں شخص تھا جو (ایک دن) حضور صلی اللہ
علیہ وسم کی مجلس میں حاضر ت تھا، ایک انصاری جوان نے پوچھا، یارسول
اللہ سب سے زیادہ باعزت اور ہوشیار کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : ”جو
موت کو بہت یاد کرتا ہے اور اس کے لیے زبردست تیاری کرتا ہے، وہ ہوشیار ہے اور ایسے
ہی لوگ دنیا اور آخرت میں باعزت ہوتے ہیں۔(المعجم الاوسط ۵/۳۱، الحدیث ۶۴۸۸)
نمبر۶:
حضرت
ربیع بن خثیم کا قول ہے کہ مؤمن کے لیے موت کا انتظار سب انتظاروں سے بہتر ہے مزید فرمایا کہ ایک دانا نے اپنے
دوست کو لکھا، ’’اے بھائی ! اس جگہ جانے سے پہلے جہاں آرزو کے باوجود بھی موت نہیں
آئے گی (اس جگہ) موت سے ڈر اور نیک عمل کر۔ (مکاشفۃ القلوب ، باب ۲۸)
نمبر۷:
موت کو یاد کرنا
صحابہ کرام و تابعین کی سنت بھی ہے ۔ چنانچہ امام ابن سیرین کی محفل میں جب موت کا
تذکرہ کیا جاتا تو ان کا ہر عضو سُن ہوجاتا تھا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز
رضی اللہ عنہ کا دستو ر تھا ہر رات علما کو جمع کرتے ، موت ، قیامت، اور
آخرت کا ذکر کرتے ہوئے اتنا روتے کہ معلوم ہوتا جنازہ سامنے رکھا ہے۔
حضرت اشعث رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ، ہم جب بھی حضر تِ حسن رضی اللہ
عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے وہاں جہنم ، قیامت اور موت کا ذکر
سنتے۔
نمبر۸:
حضرت اُم المومنین
صفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک
عورت نے حضرت حضرتِ عائشہ رضی اللہ
عنہا سے اپنی سنگدلی کی
شکایت کی تو انہوں فرمایا: موت کو یاد کیا
کرو، تمہارا دل نرم ہوجائے گا، اس نے ایسا ہی کیا اور اس کا دل نرم ہوگیا۔ وہ حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر
ہوئی اور آپ کا شکریہ کیا۔(مکاشفۃ القلوب باب ۲۸)
اپنى اصلاح اور نفس کو گناہوں سے باز رکھنے کے لىے مو ت کا تصور بہت مفىد ہے، جو شخص
موت اور اس کے بعد والے معاملات سے صحىح معنوں مىں باخبر ہے وہ دنىا کى رنگنیوں
اور اس کى آسائشوں کے دھوکے مىں نہىں پڑ سکتا، اور موت کو ىاد کرنا موت کى
تىارى مىں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
تاجدار رسالت صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضى اللہ تعالىٰ عنہم اور دىگر بزرگانِ دىن رحمۃ اللہ
تعالىٰ علیہم موت کو بکثرت
یاد کیا کرتے اور لوگوں کو اس کی یاد
دلایا کرتے ۔
احادیث میں موت کو یاد کرنے کے بڑے فضائل بىان ہوئے
ہىں۔
چنانچہ ارشاد فرماىا: بے شک دل کو بھى زنگ لگ جاتا ہے جس طر ح لوہے کو
زنگ لگ جاتاہے۔عرض کى گئى، اس کى صفائى کىسے ہوگى؟ فرماىا ۔موت کو ىاد کرنے اور
قرآن پاک کى تلاوت کرنے سے۔(شعب الاىمان للبہیقى ، باب فى تعظىم القران ۲۵۲/۲ حدىث ۔۲۰۱۴ ملتقا)
(1) ارشاد فرماىا جو شخص دن رات مىں (۲۰) مرتبہ موت کو ىاد کرتاہے وہ شہىد کے ساتھ اٹھاىا جائے گا۔( قوت القلوب ذکر
السدواى الخ ۴۳/۲۔(۲) الموسوعة لا بن ابى الدنىا )
(2) ارشاد فرماىا: موت کو زىادہ ىاد کرو
کہ ىہ گناہوں کو مٹاتى اور دنىا سے بے رغبت کرتى ہے۔(کتاب ذکر الموت ، باب الموت
والا متعددالہ ۵۔۴۲۸ ۔ ۱۴۸ )
(3) ارشاد فرماىا: جسے موت کى ىاد خوفزدہ کرتى ہے قبر اس کے لىے جنت کا باغ بن
جائے گى۔( کتاب ذکر الموت ، باب الموت والا متعددالہ ۵۔۴۲۸ ۔ ۱۴۸ )
موت روح کے جسم سے جدا ہونے کا نام ہے اور ىہ جدائى انتہائى
سخت تکلىف اور اذىت کے ساتھ ہوگى، اور اس کى تکلىف دنىا مىں بندے کو پہنچنے والى
تمام تکلفىوں سے سخت ترہوگى۔
اور ہمىں مذکورہ بالا احادىث کو مدنظر رکھتے ہوئے اور عقل
مندى کا ثبوت دىتے ہوئے موت کو کثرت سے ىاد کرنا چاہىے، اگر ہم چاہتے ہىں کہ موت
کى ىاد ہر وقت ہمارے دلوں مىں موجود رہے اور ہم وقتا فوقتاموت کى تىارى کرتے رہىں،
اور اس کے علاوہ دىگر گناہوں سے بھى بچتے رہىں تو اس کے لىے ہمىں اىک اىسے ماحول کى ضرورت ہے کہ جس
ماحول مىں ہمیں گناہوں کى سزاؤں اور نىکوں
کى جزاؤں کے بارے مىں آگاہ کىا جاتا رہے، الحمدللہ عزوجل فى زمانہ دعوت اسلامى کے مشکبار مدنى ماحول مىں گناہوں سے نفرت اور نىکىوں سے
محبت کى ترغىب دلائى جاتى ہے، لہذا آپ بھى دعوت اسلامى کے مدنى ماحول سے وابستہ
ہوجائىے اور موت کے بارے مىں جاننےکے لىے موت کا تصور رسالے کا مطالعہ کرىں ۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح
کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں