موت نام ہے روح کا بدن سے تعلق ختم ہونے کا اور انسان کا دارِفانی سے داربقا کی طرف کوچ کرنے کا۔ ترقی یافتہ سائنس بھی روح کو سمجھنے سے قاصر ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر اعلان فرما دیا ہے، مفہوم : ’’ روح صرف اللہ کا حکم ہے۔‘‘

موت پر انسان کے اعمال کا رجسٹر بند کردیا جاتا ہے، اور موت پر توبہ کا دروازہ بند اور جزا و سزا کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا، مفہوم : اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے یہاں تک کہ اُس کا آخری وقت آجائے۔‘‘

ہم ہر روز، ہر گھنٹے، بل کہ ہر لمحے اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ سال، مہینے اور دن گزرنے پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری عمر اتنی ہوگئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایام ہماری زندگی سے کم ہوگئے۔ موت ایک مصیبت بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’اور وہیں تمہیں موت آجائے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی متعدد آیات میں موت اور اس کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔

فرمان الٰہی ہے، مفہوم: ’’ ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کو دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنّت میں داخل کردیا گیا، وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا، اور یہ دنیاوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی کامیابی کا معیار ذکر کیا ہے کہ اس حال میں ہماری موت آئے کہ ہمارے لیے جہنم سے چھٹکارے اور دخولِ جنت کا فیصلہ ہوچکا ہو۔

’’ اس زمین میں جو کوئی ہے فنا ہونے والا ہے۔ اور (صرف) تمہارے پروردگار کی جلال والی اور فضل و کرم والی ذات باقی رہے گی۔‘‘

’’ ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے اللہ کی ذات کے۔ حکومت اسی کی ہے، اور اُسی کی طرف تمہیں لوٹ کرجانا ہے۔‘‘

( اے پیغمبر صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم !) ’’ تم سے پہلے بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہم نے کسی فرد بشر کے لیے طے نہیں کیا۔ چنانچہ اگر تمہارا انتقال ہوگیا تو کیا یہ لوگ ایسے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں؟ ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے بُری اور اچھی حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہمارے ہی پاس لوٹ کر آؤ گے۔‘‘

’’ تم جہاں بھی ہونگے (ایک نہ ایک دن) موت تمہیں جا پکڑے گی۔ چاہے تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہے ہوں ۔‘‘

(اے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم !) ’’ آپ کہہ دیجیے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تم سے آملنے والی ہے۔ یعنی وقت آنے پر موت تمہیں ضرور اچک لے گی۔‘‘

’’ چنانچہ جب اُن کی مقررہ میعاد آجاتی ہے تو وہ گھڑی بھر بھی اُس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتے۔‘‘

’’ اور نہ کسی متنفس کو یہ پتا ہے کہ زمین کے کس حصے میں اُسے موت آئے گی۔‘‘

ان مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چنانچہ بعض بچپن میں، تو بعض عنفوانِ شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جب کہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تندرست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


موت کو ىاد کرنے کے فوائد

Tue, 7 Jul , 2020
3 years ago

آىت مبارکہ :  اللہ عزوجل قرآن مجىد مىں ارشاد فرماتا ہے: كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے،(پارہ ۱۷،سورة الانبىا

حدىث مبارکہ :

حضرتِ سىدناابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے حضور نبى رحمت شفىع امت صلى اللہ تعالىٰ علىہ وسلم کا فرمانِ عالىشان ہے، سب سے زىادہ عقلمند و دانا وہ مومن ہے جو موت کو کثر ت سے ىاد کرتا ہے،۔ اور اس کے لىے احسن طرىقے پر تىارى کرے۔۔ (شعب الاىمان الحدىث 1054 ، صفحہ 350)

حضرت سىدتنا کعب الاحبار علیہ الرحمۃ الغفار فرماتے ہىں: جو شخص موت کو پہچان لىتا ہے اس پر دنىا کى مصىبتىں اور غم ہلکے ہوجاتے ہىں۔(احىا العلوم جلد ۵، صفحہ ۴۸۰)

اعلىٰ حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہىں: ذکر ِموت ، ذکرِ خىر ذکر، آخرت ،ذکرِ انبىا و ذکرِ اولىائے علیہم افضل الصلوة والثنا سب ذکر الہى ہىں۔(فتاوىٰ رضوىہ مخرجہ جلد۹، صفحہ ۱۵۶)

تفسىر قرطبى مىں ہے کہ جو شخص موت کو کثرت سے ىاد کرا ہے اسے تىن کرامتىں عطا ہوتى ہىں۔(۱) اسے توبہ کى توفىق عطا ہوتى ہے،

۲۔ اسے تھوڑى دنىا پر قناعت نصىب ہوجاتى ہے۔

۳۔ اسے عبادت مىں نشاط حاصل ہوجاتا ہے۔(موت کى تىارى صفحہ ۹)

جو دن رات مىں بىس مرتبہ موت کو ىاد کرے اسے شہدوں کے ساتھ اٹھاىا جائے گا۔ موت کو زىادہ ىاد کرو کہ ىہ گناہوں کو مٹاتى اور دنىا سے بے رغبت کرتى ہے۔ نصىحت کے لىے موت ہى کافى ہے،موت کو زىادہ ىاد کرنے اور اس کى زىادہ تىارى کرنے والے لوگ عقلمند ہىں: ہر حال مىں موت کو ىاد کرتے ہىں ثواب اور فضىلت ہے اور ىہ ثواب اور فضیلت دنىا مىں مگن شخص بھى موت کو ىاد کرکے پاسکتا ہے۔۔ (احىا العلوم جلد ۵/ صفحہ ۴۷۷)

موت کو ىاد کرنا جنت کے اعمال مىں سے ىوں ہے کہ آدمى جب ہر وقت اس کو ىاد رکھے گا کہ مجھے اىک دن مرنا ہے اور سارا مال و سامان اور جائىداد و مکان چھوڑ کر خالى ہاتھ دنىا سے چلے جانا ہے تو اس کو دنىا سے بے رغبتى اور آخرت کے سامان جمع کرنے کى فکر ہوگى ىہ دونوں چىزىں ہر قسم کى نىکىوں کا سر چشمہ ہىں، اس لىے موت کو کثرت سے ىاد کرنا ىہ جنت دلانے والے اعمال مىں سے اىک عمل ہے اور جنت مىں لے جانے والى اىک بڑى شاہراہ ہے۔

موت کى ىاد اور فکر ِ آخرت پىدا کرنے کے لىے تبلىغ قران و سنت کى عالمگىر غىر سىاسى تحرىک دعوت اسلامى کى مرکزى مجلس شورىٰ کے نگران حضرت مولانا حاجى عمران عطارى مدظلہ العالی کے مدنى چىنل پر نشر کىے گئے سلسلے عبرت ناک خبرىں کى وىڈىو دىکھنا بھى مفىد ہے۔(نجات دلانے والے اعمال کى معلومات صفحہ 96)

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمىں موت کو کثرت سے ىاد کرنے کى توفىق مرحمت فرمائے۔امىن

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


مشہور قول :

تَوَلىَّ زمان لعبنا بہ

وھذا زمان بنا ىعلب

ترجمہ ۔ وہ وقت گزر گىا جس سے ہم کھىلتے تھے۔اور ىہ وہ و قت ہے جو ہم سے کھىلتا ہے

زندگى مىں انسان کى صرف اور چند گھڑى کا مہمان ہوتا ہے اور مہمان کو معلوم ہوتا ہے کہ گھر کہاں ہے، اور وہ گھر ىاد رکھتا ہے جو اس کے لىے بہتر ہے۔اللہ

آج موت کى یادوں سے دل دھل جاتے ہىں پہلے کہ عظىم ہستىاں تو رات کو اعمال کا محاسبہ اور موت کو ىاد کرتے تھے جن مىں اىک بزرگ کا قول ہے:

اىک رسمى سا تعلق ہے مىرى سانسوں سے

اور مجھے رسم نبھانے سے بڑى الجھن ہے

اىک جگہ کچھ نىک لوگوں کى مجلس تھى لوگ بڑى دلچسپ باتىں کررہے تھے ان مىں سے اىک نوجوان ان کى باتیں سن کر بے چىن ہوگىا اور موت کى تڑپ ہونے لگى اور کہنے لگا :

لوگ جوق در جوق چلے جاتے ہىں

نہىں معلوم شہر خاک تماشاکىا ہے

لمحہ فکر کے لىے بس اتنا ہى کافى ہے کہ قران کى آىتِ مبارکہ كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ- ہر ذى روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔(آل عمران ، 185)

اور زندگى مىں جو آس امىد ہم لوگوں سے لگاتے ہىں وہ کس کام کى ہىں، کىونکہ وہ ہى لوگ ہمىں اندھىرى قبرمىں اکىلا چھوڑ کر چلے جاتے ہىں۔

انسان ذرا اس بات کو سوچے کہ اس کے والدىن کے بزرگوں کو ہم کتنا ىاد کرتے ہىں لمحہ فکر ہے جب ہم ان کو اتنا ىاد نہىں کرتے تو کل ہمارے مرنے کے بعد ہمىں کون ىاد کرے گا۔ بس ىہ سننے کو کان ترستے ہىں اور مرنے کے بعد سنتے ہىں . ’’آدمى اچھا تھا‘‘ ىہ الفاظ تب سننے کو ملتے ہىں جب سماعتىں اس قابل نہىں ہوتى

ىہى ہے خوگر غم کى تمنا

اگر غم ہو تو غم بالائے غم ہو

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


موت برحق ہے اس کا آنا ایک اٹل حقیقت ہے ایک نہ ایک دن ہم سب نے اس دنیائے فانی سے دار ِبقاء کی طرف کوچ کرجانا ہے، مگر ہائے افسوس دنیا  کی زینت و آسائشوں نے ہمیں دھوکے میں ڈال دیا اور ہم موت کی یاد کو بھول بیٹھے ہیں ، موت کی یاد انتہائی ضروری ہے اس کے بہت سے فوائد ہیں۔

٭۔ موت کو بکثرت یاد کرنے سے جلد توبہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔

٭۔موت کو یاد کرنے سے دنیا کا جتنا مال میسر آجائے اس پر قناعت حاصل ہوتی ہے۔

٭۔موت کو باکثرت یاد کرنے سے عبادت کی حلاوت و مٹھاس اور خشو ع و خضوع بھی ملتا ہے اسی لیے کئی بزرگوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یوں تصور کرتے گویا یہ زندگی کی آخری نماز پڑھ رہے ہیں اس کے بعد انہیں موت آلے گی۔

٭۔موت کو یاد کرنے سے دل کی سختی دور ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا صفیہ بنت سمیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : کہ ایک عورت نے حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اپنے دل کی سختی کے بارے میں شکایت کی تو انہوں نے فرمایا ، موت کو زیادہ یاد کرو اس سے تمہارا دل نرم ہوجائے گا، اس عورت نے ایسا ہی کیا تو دل کی سختی جاتی رہی پھر اس نے سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا شکریہ ادا کیا۔(احیاء العلوم ج ٥، ص ٤٧١)

ہم غور کریں کہ کہیں ہمارے دل سخت ہونے کی وجہ بھی موت کی یاد سے غافل ہونا تو نہیں

٭۔ موت کو یاد کرنے سے گناہ ختم ہوتے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے کہ حدیث مبارکہ میں ہے موت کو کثرت سے یاد کرو اس سے گناہ ختم ہوجاتے ہیں اور دنیا سے بے رغبتی بڑھتی ہے۔(مکاشفۃ القلوب ص ٤٥)

اسی طرح حضرت عبید بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے حضرت عنیسہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا موت کو زیادہ یاد کرو کہ اگر تم مالدار ہو تو تم پر تنگ دستی لے آئے گی اور اگر تنگ دست ہو تو خوش دلی سے آئے گی۔ (احیا العلوم ج ٥، ص ٦٨١)

یہاں وہ تنگ دست افراد غور کریں ہماری تنگ دستی کی وجہ موت کو بھول جانا تو نہیں۔

موت کو باکثرت یاد کرنا مطعین (اطاعت کرنے والوں ) کے لیے سامانِ راحت ہے جیسے کسی شاعر نے کیا خوب کہا۔

واذکر الموت تجزراحۃ ً

فی اذکار الموت تقصیر الامل

موت کو یاد کر تجھے راحت ملے گی اور موت کو یاد کرنے سے خواہشات میں کمی ہوگی۔(فلسفہ موت، ص ٢٩)

اسی طرح موت کو یاد کرنے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہوئے ہمارے آقائے دو عالم نورِ مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لذتوں کو ختم کرنے والی (موت) کو یاد کرو۔

اس حدیث پاک کے تحت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب احیاء العلوم اور مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں : جس کا مفہوم ، موت لذتوں کو بدمزہ کرکے تمہیں یکسوئی کے ساتھ رب تعالیٰ کی طرف متوجہ کردیتی ہے موت یاد کرنے سے بارگاہِ الہی میں مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔(احیاء العلوم ص ٦١٦ ج٥ ، مکاشفۃ القلوب ١٩٤)

حضرت سیدنا کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص موت کو پہچان لیتا ہے اس پر دنیا کی مصیبتیں اور غم ہلکے ہوجاتے ہیں۔

معلوم ہوا موت کو یاد کرنے سے دنیا کی مصیبتیوں اور غموں سے بھی نجات نصیب ہوتی ہے ۔جہاں موت کو یاد کرنے کی دنیاوی و باطنی فوائد ہیں وہی موت کو یاد کرنے کی فضىلت بھی حدیث مبارکہ میں بیان ہوئی ہے۔ حضرت سىدنا عائشہ صدىقہ رضى اللہ عنہا نے پوچھا: ىارسول اللہ صلى اللہ تعالىٰ علىہ وسلم کىا کسى کا حشر شہىدوں کے ساتھ بھى ہوگا؟ آپ صلى اللہ تعالىٰ علی ہ وسلم نے فرماىا : ہاں جو شخص دن رات مىں بىس (۲۰) مرتبہ موت کو ىاد کرتا ہے وہ شہىد کے ساتھ اٹھاىا جائے گا۔ (مکاشفۃ القلوب ص ۲۹۶)

دىکھا آپ نے موت کو ىاد کرنے کى فضیلت اور فوائد لہذا ہمىں بھى موت کو ىاد کرنا چاہىے اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمىں مو ت کو کثرت سے ىاد کرکے اس کى فضىلت اور فوائد حاصل کرنے کى توفىق نصىب فرمائے۔ آمىن

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


گھڑی کی ٹِک ٹِک کو مزاق مت سمجھنا یہ کلہاڑی کے وار ہیں  جو زندگی کے درخت پر کیے جا رہے ہیں ۔

حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے اِرشادفرمایا: ’’ فَمَنْ اَ ثْقَلَہُ ذِکْرُ المَوْتِ وَجَدَ قَبْرَہُ رَوْضَۃً مِنْ رِیاضِ الجَنَّۃِ یعنی جسے موت کی یاد خوفزدہ کرتی ہے قَبر اُس کے لئے جنت کا باغ بن جائے گی ‘‘(جمع الجوامع، الحدیث ۳۵۷۶، ج۲، ص۱۴)

سہولیات وآسائشات کے ماحول میں سانس لینے کے باوجود حضرت سیِّدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃُ اللّٰہِ الْعَزِیز کا دل اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت اور خوف سے لبریز رہاچُنانچِہ طبیعت بچپن ہی سے پاکیزگی اور زُہد و تقویٰ کی طرف راغِب تھی ۔ آپ رحمۃاللّٰہ تعالٰی علیہ نے جس دن حِفظِ قراٰن مکمل کیا تو اچانک رونے لگے ، والدہ ماجِدہ حضرتِ سیِّدَتُنا اُمّ عاصم رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہا کو پتا چلا اور انہوں نے رونے کی وجہ دریافت کی تو عَرض کی:’’ذَ کَرْتُ الْمَوْتَ ‘‘یعنی مجھے موت یاد آگئی تھی ۔ ‘‘ اپنے چھوٹے سے مَدَنی مُنّے کی یادِ آخِرت دیکھ کر اُن کادل بھر آیا اورآنکھوں سے اَشکوں کی برسات ہونے لگی ۔ (تاریخِ دِمشق، ج۴۵ ، ص۱۳۵)

اے کاش!اِن نُفُوسِ قُدسِیَہ کے صدقے میں ہماری آنکھوں سے بھی غفلت کے پردے ہٹ جائیں اور ہم بھی اپنی موت کو یاد کرنے والے بن جائیں ، اگرچہ یہ طے ہے کہ’’ اِک دن مرنا ہے آخر موت ہے‘‘

حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز عَلَیْہِ رحمۃُ اللّٰہِ العزیزنے فرمایا: اِحْذَرُوا الْمَوْتَ فَاِنَّہُ اَشَدُّ مَاقَبْلَہُ وَاَھْوَلُ مَابَعْدَہُ یعنی موت سے ڈرو کیونکہ اس کے پہلے کے معاملات شدید اور بعد کے شدید تَر ہیں ۔ (سیرت ابن جوزی، ص،۲۳۹)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں