گھڑی کی ٹِک ٹِک کو مزاق مت سمجھنا یہ کلہاڑی کے
وار ہیں جو زندگی کے درخت پر کیے جا رہے ہیں
۔
حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے اِرشادفرمایا: ’’ فَمَنْ اَ ثْقَلَہُ ذِکْرُ المَوْتِ وَجَدَ قَبْرَہُ
رَوْضَۃً مِنْ رِیاضِ الجَنَّۃِ یعنی
جسے موت کی یاد خوفزدہ کرتی ہے قَبر اُس کے لئے جنت کا باغ بن جائے گی ‘‘(جمع
الجوامع، الحدیث ۳۵۷۶، ج۲، ص۱۴)
سہولیات وآسائشات کے ماحول میں سانس لینے کے
باوجود حضرت سیِّدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ
رحمۃُ
اللّٰہِ الْعَزِیز کا دل اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت اور خوف سے لبریز رہاچُنانچِہ طبیعت بچپن ہی
سے پاکیزگی اور زُہد و تقویٰ کی طرف راغِب تھی ۔ آپ رحمۃاللّٰہ تعالٰی علیہ نے جس دن حِفظِ قراٰن مکمل کیا تو اچانک رونے
لگے ، والدہ ماجِدہ حضرتِ سیِّدَتُنا اُمّ عاصم رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہا کو پتا
چلا اور انہوں نے رونے کی وجہ دریافت کی تو عَرض کی:’’ذَ کَرْتُ الْمَوْتَ ‘‘یعنی مجھے موت یاد آگئی تھی ۔ ‘‘ اپنے چھوٹے
سے مَدَنی مُنّے کی یادِ آخِرت دیکھ کر اُن کادل بھر آیا اورآنکھوں سے اَشکوں کی
برسات ہونے لگی ۔ (تاریخِ دِمشق، ج۴۵ ، ص۱۳۵)
اے کاش!اِن نُفُوسِ قُدسِیَہ کے صدقے میں ہماری آنکھوں سے بھی غفلت کے
پردے ہٹ جائیں اور ہم بھی اپنی موت کو یاد کرنے والے بن جائیں ، اگرچہ یہ طے ہے
کہ’’ اِک دن مرنا ہے آخر موت ہے‘‘
حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز عَلَیْہِ رحمۃُ اللّٰہِ العزیزنے فرمایا: اِحْذَرُوا الْمَوْتَ فَاِنَّہُ اَشَدُّ مَاقَبْلَہُ
وَاَھْوَلُ مَابَعْدَہُ یعنی موت سے ڈرو کیونکہ اس کے پہلے کے معاملات
شدید اور بعد کے شدید تَر ہیں ۔ (سیرت ابن جوزی، ص،۲۳۹)