موت برحق ہے اس کا آنا ایک اٹل حقیقت ہے ایک نہ ایک دن ہم سب نے اس دنیائے فانی سے دار ِبقاء کی طرف کوچ کرجانا ہے، مگر ہائے افسوس دنیا  کی زینت و آسائشوں نے ہمیں دھوکے میں ڈال دیا اور ہم موت کی یاد کو بھول بیٹھے ہیں ، موت کی یاد انتہائی ضروری ہے اس کے بہت سے فوائد ہیں۔

٭۔ موت کو بکثرت یاد کرنے سے جلد توبہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔

٭۔موت کو یاد کرنے سے دنیا کا جتنا مال میسر آجائے اس پر قناعت حاصل ہوتی ہے۔

٭۔موت کو باکثرت یاد کرنے سے عبادت کی حلاوت و مٹھاس اور خشو ع و خضوع بھی ملتا ہے اسی لیے کئی بزرگوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یوں تصور کرتے گویا یہ زندگی کی آخری نماز پڑھ رہے ہیں اس کے بعد انہیں موت آلے گی۔

٭۔موت کو یاد کرنے سے دل کی سختی دور ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا صفیہ بنت سمیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : کہ ایک عورت نے حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اپنے دل کی سختی کے بارے میں شکایت کی تو انہوں نے فرمایا ، موت کو زیادہ یاد کرو اس سے تمہارا دل نرم ہوجائے گا، اس عورت نے ایسا ہی کیا تو دل کی سختی جاتی رہی پھر اس نے سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا شکریہ ادا کیا۔(احیاء العلوم ج ٥، ص ٤٧١)

ہم غور کریں کہ کہیں ہمارے دل سخت ہونے کی وجہ بھی موت کی یاد سے غافل ہونا تو نہیں

٭۔ موت کو یاد کرنے سے گناہ ختم ہوتے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے کہ حدیث مبارکہ میں ہے موت کو کثرت سے یاد کرو اس سے گناہ ختم ہوجاتے ہیں اور دنیا سے بے رغبتی بڑھتی ہے۔(مکاشفۃ القلوب ص ٤٥)

اسی طرح حضرت عبید بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے حضرت عنیسہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا موت کو زیادہ یاد کرو کہ اگر تم مالدار ہو تو تم پر تنگ دستی لے آئے گی اور اگر تنگ دست ہو تو خوش دلی سے آئے گی۔ (احیا العلوم ج ٥، ص ٦٨١)

یہاں وہ تنگ دست افراد غور کریں ہماری تنگ دستی کی وجہ موت کو بھول جانا تو نہیں۔

موت کو باکثرت یاد کرنا مطعین (اطاعت کرنے والوں ) کے لیے سامانِ راحت ہے جیسے کسی شاعر نے کیا خوب کہا۔

واذکر الموت تجزراحۃ ً

فی اذکار الموت تقصیر الامل

موت کو یاد کر تجھے راحت ملے گی اور موت کو یاد کرنے سے خواہشات میں کمی ہوگی۔(فلسفہ موت، ص ٢٩)

اسی طرح موت کو یاد کرنے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہوئے ہمارے آقائے دو عالم نورِ مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لذتوں کو ختم کرنے والی (موت) کو یاد کرو۔

اس حدیث پاک کے تحت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب احیاء العلوم اور مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں : جس کا مفہوم ، موت لذتوں کو بدمزہ کرکے تمہیں یکسوئی کے ساتھ رب تعالیٰ کی طرف متوجہ کردیتی ہے موت یاد کرنے سے بارگاہِ الہی میں مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔(احیاء العلوم ص ٦١٦ ج٥ ، مکاشفۃ القلوب ١٩٤)

حضرت سیدنا کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص موت کو پہچان لیتا ہے اس پر دنیا کی مصیبتیں اور غم ہلکے ہوجاتے ہیں۔

معلوم ہوا موت کو یاد کرنے سے دنیا کی مصیبتیوں اور غموں سے بھی نجات نصیب ہوتی ہے ۔جہاں موت کو یاد کرنے کی دنیاوی و باطنی فوائد ہیں وہی موت کو یاد کرنے کی فضىلت بھی حدیث مبارکہ میں بیان ہوئی ہے۔ حضرت سىدنا عائشہ صدىقہ رضى اللہ عنہا نے پوچھا: ىارسول اللہ صلى اللہ تعالىٰ علىہ وسلم کىا کسى کا حشر شہىدوں کے ساتھ بھى ہوگا؟ آپ صلى اللہ تعالىٰ علی ہ وسلم نے فرماىا : ہاں جو شخص دن رات مىں بىس (۲۰) مرتبہ موت کو ىاد کرتا ہے وہ شہىد کے ساتھ اٹھاىا جائے گا۔ (مکاشفۃ القلوب ص ۲۹۶)

دىکھا آپ نے موت کو ىاد کرنے کى فضیلت اور فوائد لہذا ہمىں بھى موت کو ىاد کرنا چاہىے اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمىں مو ت کو کثرت سے ىاد کرکے اس کى فضىلت اور فوائد حاصل کرنے کى توفىق نصىب فرمائے۔ آمىن

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں