موت کو یاد کرنے کے فوائد

Tue, 7 Jul , 2020
4 years ago

فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے: کثروا من ذکر ھاذ م اللذات ترجمہ ۔ لذتوں کو مٹانے والی( موت) کو بہت یاد کرو۔ (ترمذی، کتاب الزھد، باب ماجا فی ذکر الموت ۴۷/۱۳۸، الحدیث ۲۳۱۴)

چند فوائد:

۱۔ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بکثرت موت کو یاد کرتے رہنے کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ موت کو یاد کرنا ایک عظیم سنت ہے اور حضور علیہ السلام کے فرمان کی تکمیل بھی ہے۔

۲۔موت کو بکثرت یاد کرنے سے انسا ن کی خواہشات میں کمی ہوتی ہے اور وہ دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش ہوجاتا ہے۔

۳۔ موت کو یاد کرنے والے کو شہید کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

۴۔ موت کو یاد کرنے سے گناہ ختم ہوجاتے ہیں۔

۵۔موت کو یاد کرنے والا بہت باعزت اور ہوشیار ہے۔

۶۔موت کا انتظار سب سے بہتر ہے۔

۷۔ موت کی یاد کرنا صحابہ کرام اور تابعین کی سنت ہے۔

۸۔ موت کی یاد دل نرم کرتی ہے۔

مذکورہ فوائد مع اقوال :

فائدہ نمبر۱: پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لذتوں کو مٹانے والی(یعنی موت) کو بہت یاد کرو۔

اس فرمان میں یہ اشارہ ہے کہ انسان موت کو یاد کرکے دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش ہوجائے تاکہ اسے بارگاہِ ربوبیت میں مقبولیت حاصل ہو۔

اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوگیا کہ موت کو یاد کرنے کا حکم خود نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے یوں موت کو یاد کرنے سے اس فرمان پر عمل ہوگا۔

فائدہ ۲:

حضرت عطا خراسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ وسلم ایک ایسی مجلس سے گزرے جس میں لوگ زور زور سے ہنس رہے تھے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اپنی مجلس میں لذتوں کو فنا کردینے والی چیز کاذکر کرو۔ پوچھا گیا، حضور وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ موت ہے۔

۳۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کسی کا حشر شہیدوں کے ساتھ بھی ہوگا ؟ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہاں جو شخض دن رات میں بیس مرتبہ موت کو یاد کرتا ہے وہ شہید کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ (برتیہ محمودیہ فی شرح طریقہ محمدیہ، ۴۶۔۱۱۴، والمغنی عن جمال الاسفارہ ۲۔۲۶۰)

اس فضیلت کا سبب یہ ہے کہ موت کی یاد دنیا سے دل اُچاٹ کردیتی ہے اور آخرت کی تیاری پر اکساتی ہے لیکن موت کو بھول جانا انسان کو دنیاوی خواہشات میں منہمک کردیتا ہے۔

۴۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: موت کو کثرت سے یاد کرو، اس سے گناہ ختم ہوجاتے ہیں اور دنیا سے بے رغبتی بڑھتی ہے۔ (کنزالعمال ، کتاب الموت ، الباب الاول فی ذکر الموت و فضائل ۸۶/۲۳۱ الجز الخامس عشرہ الحدیث ۴۲۹۱)

نمبر۵۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں دسواں شخص تھا جو (ایک دن) حضور صلی اللہ علیہ وسم کی مجلس میں حاضر ت تھا، ایک انصاری جوان نے پوچھا، یارسول اللہ سب سے زیادہ باعزت اور ہوشیار کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : ”جو موت کو بہت یاد کرتا ہے اور اس کے لیے زبردست تیاری کرتا ہے، وہ ہوشیار ہے اور ایسے ہی لوگ دنیا اور آخرت میں باعزت ہوتے ہیں۔(المعجم الاوسط ۵/۳۱، الحدیث ۶۴۸۸)

نمبر۶:

حضرت ربیع بن خثیم کا قول ہے کہ مؤمن کے لیے موت کا انتظار سب انتظاروں سے بہتر ہے مزید فرمایا کہ ایک دانا نے اپنے دوست کو لکھا، ’’اے بھائی ! اس جگہ جانے سے پہلے جہاں آرزو کے باوجود بھی موت نہیں آئے گی (اس جگہ) موت سے ڈر اور نیک عمل کر۔ (مکاشفۃ القلوب ، باب ۲۸)

نمبر۷:

موت کو یاد کرنا صحابہ کرام و تابعین کی سنت بھی ہے ۔ چنانچہ امام ابن سیرین کی محفل میں جب موت کا تذکرہ کیا جاتا تو ان کا ہر عضو سُن ہوجاتا تھا۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کا دستو ر تھا ہر رات علما کو جمع کرتے ، موت ، قیامت، اور آخرت کا ذکر کرتے ہوئے اتنا روتے کہ معلوم ہوتا جنازہ سامنے رکھا ہے۔

حضرت اشعث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ، ہم جب بھی حضر تِ حسن رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے وہاں جہنم ، قیامت اور موت کا ذکر سنتے۔

نمبر۸:

حضرت اُم المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حضرت حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنی سنگدلی کی شکایت کی تو انہوں فرمایا: موت کو یاد کیا کرو، تمہارا دل نرم ہوجائے گا، اس نے ایسا ہی کیا اور اس کا دل نرم ہوگیا۔ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کا شکریہ کیا۔(مکاشفۃ القلوب باب ۲۸)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں