اسلامی تعلیمات میں تمام مسلمان ایک ملت ایک قوم کی طرح ہیں۔ سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں شریعت اسلامیہ نے اخوت وہمدردی کو قائم کرنے کے لیے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کی حقوق عائد کئے ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے۔

ایک دوسرے سے محبت کرنا: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم جنت میں داخل نہ ہوگے یہاں تک کہ ایمان لے آؤ اور تم ایمان والے نہیں ہو سکتے یہاں کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔کیا میں تمہیں وہ کام نہ بتاؤں کہ جسکے کرنے سے تم ایک دوسرے سے محبت کرنا شروع کر دو گے؟ تم اپنے درمیان سلام کو پھیلا دو یعنی ہر مسلمان کو سلام کہا کرو۔(مسلم، ص 51، حدیث: 194)

ایک دوسرے سے ہمدردی کرنا: ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا ہمدرد ہونا چاہیے اس طرح کی اسکی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرے اور جہاں تک ہو سکے بوقت ضرورت اسکا ساتھ دے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے پاس اضافی سواری ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس سواری نہ ہو اور جس کے پاس کھانے پینے کا اضافی سامان ہو وہ اسے اس آدمی کو دے دے جس کے پاس کھانے پینے کا سامان نہ ہو۔ (مسلم، ص 737، حدیث: 4517)

ایک دوسرے سے خندہ پیشانی سے ملنا: ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے خندہ پیشانی سے اور مسکراتے ہوئے چہرے کیساتھ ملنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا: تم نیکی کے کسی کام کو حقیر مت سمجھو اگرچہ تم اپنے بھائی سے ہشاش بشاش چہرے کیساتھ ہی ملاقات کرو۔ (مسلم، ص 1084، حدیث: 6690)

مسلمانوں کا ملاقات کے وقت آپس میں مصافحہ کرنا بھی مغفرت کے اسباب میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان بوقت ملاقات ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ ے ( مصافحہ کرتے ) ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ انکی دعا قبول کرے اور انکے ہاتھ الگ ہونے سے پہلے انکی مغفرت کردے۔ (مسند امام احمد، 4/286، حدیث: 12454)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کے دکھ درد دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلامی تعلیمات میں تمام مسلمان ایک ملت ایک قوم کی طرح ہیں۔ شریعت اسلامیہ نے اخوت و ہمدردی کو قائم کرنے کے لیے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کئی حقوق عائد کیے ہیں۔ جن کا ادا کرنا ضروری ہے، چند حقوق بیان کیے جا رہے ہیں:

1۔ایک دوسرے سے محبت کرنا: نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: تم جنت میں داخل نہ ہو گے یہاں تک کہ ایمان لے آؤ اور تم ایمان والے نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا میں تمہیں وہ کام نہ بتاؤں کہ جس کے کرنے سے تم ایک دوسرے سے محبت کرنا شروع کر دو گے؟ تم اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ یعنی ہر مسلمان کو سلام کہا کرو۔ (مسلم، ص 51، حدیث: 194)

نیز فرمایا تم ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرو۔ اس سے تمہارے درمیان بغض و کینہ ختم ہو جائے گا۔ اور ایک دوسرے کو ھدیہ دیا کرو، اس سے تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے اور تمہارے درمیان دشمنی ختم ہو جائے گی۔ (موطا امام 2/407، حدیث: 1731)

ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کو سلام کہنے اور مصافحہ کرنے اور ہدیہ دینے سے مسلمانوں کے درمیان باہمی محبت پیدا ہوتی ہے اور بغض و عداوت کا خاتمہ ہوتا ہے۔

2۔ایک دوسرے سے ہمدردی کرنا: ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا ہمدرد ہونا چاہیے اس طرح کہ اس کی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرے اور جہاں تک ہو سکے بوقت ضرورت اس کا ساتھ دے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: جس شخص کے پاس اضافی سواری ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس سواری نہ ہو۔ اور جس کے پاس کھانے پینے کا اضافی سامان ہو وہ اسے اس آدمی کو دے دے جس کے پاس کھانے پینے کا سامان نہ ہو۔ (مسلم، ص 737، حدیث: 4517)

3۔ایک دوسرے سے خندہ پیشانی سے ملنا: ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے خندہ پیشانی سے اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو ذر کو ارشاد فرمایا تھا: تم نیکی کے کسی کام کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ تم اپنے بھائی سے ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ہی ملاقات کرو۔ (مسلم، ص 1084، حدیث: 6690)

4۔مسلمانوں کے لیے رحم دلی، نرمی اور تواضع: مسلمانوں کو ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہونا چاہیے۔ جیسا کہ صحابہ کرام کا اللہ تعالی نے یہ وصف بیان فرمایا ہے کہ وہ آپس میں رحم دل ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے سے نرمی کا برتاؤ کرنا چاہیے سختی کا نہیں۔

اللہ تعالی نے مومنوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لیے نرم اور کافروں پر سخت ہونگے۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا: کہ اے عائشہ بےشک اللہ تعالی نرم ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر ہر وہ چیز عطا کرتا ہے جو سختی وغیرہ پر عطاء نہیں کرتا۔ (بخاری، 4/379، حدیث: 6927)

اس لیے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے نرمی عاجزی اور تواضع سے پیش آنا چاہیے۔ فخر، برائی اور تکبر سے نہیں۔

5۔ مسلمانوں کے لیے غائبانہ دعا کرنا: مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمان کی غیر موجودگی میں اس کے حق میں بہتری کی دعا کرےاور اس کے لیے خیر کی دعا کرے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : کوئی بندہ مسلمان جب اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے: اور تیرے لیے بھی وہی چیز ہو جس کا تو اپنے بھائی کے لیے سوال کر رہا ہے۔ (مسلم،ص 1121، حدیث: 6927)

ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمان سے محبت،شفقت، بھلائی سے پیش آئے اور تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے لیے خیر ہی کی دعا کرنی چاہیے اس سے ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کے لیے ہمدردی و محبت پیدا ہوگی اور بغض و کینہ ختم ہو جائے گا۔ ان شاءاللہ

آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو حقوق العباد میں کوتاہی سے محفوظ فرمائے اور آپس میں محبت و ہمدردی پیدا فرمائے۔


دین اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے، بلکہ احادیث میں یہاں تک ہے کہ حقوق اللہ پورا کرنے کے باوجود بہت سے لوگ حقوق العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوں گے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے عرض کی:ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور سازو سامان نہ ہو۔ آپ ﷺ نے  ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ (وغیرہ اعمال) لے کر آئے اور اس کا حال یہ ہو کہ اس نے(دنیا میں ) کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا تھا تو ان میں سے ہر ایک کو ا س کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور ان کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اگر اس کی نیکیاں (اس کے پاس سے) ختم ہوگئیں تو ان کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے،پھر اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔ (مسلم، ص 1394، حدیث: 2581)

حقوق عامہ کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے، ہمارے اسلاف اس بارے میں بے حد محتاط ہوا کرتے تھے چنانچہ حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک شخص حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے پاس(حصول علم کے لئے)کئی سال تک آتا جاتا رہا، اس کے بعد آپ نے اس سے اعراض (یعنی پہلو تہی، بے توجّہی)فرماکر کلام کرنا ترک کردیا۔ وہ آپ سے مسلسل اس تبدیلی کا سبب پوچھتا لیکن آپ جواب نہ دیتے، آخر کار آپ نے ارشاد فرمایا: مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے سڑک کی جانب سے اپنی دیوار کو لیپا ہے اور سڑک کے کنارے سے قد آدم کے برابر مٹی لی ہے حالانکہ وہ مسلمانوں کی عام گزرگاہ ہے اس لئے تم علم منتقل کئے جانے کے قابل نہیں ہو۔ (احیاء علوم الدین، 5/92)

مسلمانوں کے حقوق: (1)جو اپنے لیے پسند کرے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے، جو اپنے لیے ناپسند کرے وہی اپنے بھائی کے لیے ناپسند کرے۔ (2)اپنے قول وفعل سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچائے۔ (3) ہر مسلمان کے ساتھ عاجزی سے پیش آئے اور کسی پر تکبر نہ کرے کیونکہ اللہ کسی متکبر اور اترانے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (4) ایک دوسرے کے خلاف باتیں نہ سنے اور نہ ہی کسی کی بات دوسروں تک پہنچائے۔ (5)جس مسلمان کے ساتھ جان پہچان ہے اگر اس کے ساتھ ناراضی ہو جائے تو تین دن سے زیادہ بول چال ترک نہ کرے۔(6)جس قدر ممکن ہو ہر مسلمان کے ساتھ اچھا سلوک کرے خواہ وہ حسن سلوک کا مستحق ہو یا نہ ہو۔(7)کسی مسلمان کے ہاں اجازت لیے بغیرداخل نہ ہو بلکہ تین بار اجازت طلب کرے اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جائے۔(8)ہر ایک سے حسن اخلاق کے ساتھ پیش آئے اور ان کے مقام و مرتبے کا خیال رکھتے ہوئے ان سے معاملات کرے کیونکہ اگر وہ جاہل کےساتھ علمی، ان پڑھ کے ساتھ فقہی اور کم پڑھے لکھے کے ساتھ فصاحت و بلاغت سے بھرپور گفتگو کرے گا تو انہیں بھی تکلیف دے گا اور خود بھی تکلیف اٹھائے گا۔ (9)بڑوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئے اور بچوں پر شفقت و مہربانی کا معاملہ کرے۔ (10)تمام مخلوق کے ساتھ ہشاش بشاش نرم مزاج رہے۔ (11) کسی مسلمان کے ساتھ وعدہ کرے تو وفا کرے۔(12)لوگوں کے ساتھ اپنی طرف سے منصفانہ رویہ اپنائے اور انہیں وہ نہ دے جو خود نہیں لینا چاہتا۔(13)جس شخص کی ہیئت اور کپڑے اس کے بلند مرتبہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں اس شخص کی عزت و اکرام زیادہ کرے اور لوگوں کے ساتھ ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق پیش آئے۔ (14)جس قدر ممکن ہو مسلمانوں کے درمیان صلح کروائے۔ (15)مسلمانوں کی پردہ پوشی کرے۔ (16)تہمت کی جگہوں سے بچے تاکہ لوگوں کے دل اس کے بارے میں بدگمانی کا شکار نہ ہوں اور زبانیں اس کی غیبت کرنے سے محفوظ رہیں، کیونکہ جب لوگ اس کی غیبت کی وجہ سے اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہوں گے تو وہ اس نافرمانی کا سبب ہونے کی وجہ سے اس میں شریک ہوگا۔(17)ہر حاجت مند مسلمان کی اپنی وجاہت کے باعث جائزسفارش کرے اور جس قدر ممکن ہو اس کی حاجت روائی کی کوشش کرے۔ (18)ہر مسلمان کے ساتھ بات کرنے سے پہلے سلام کرے اور سلام کے وقت مصافحہ کرے۔ (19)جہاں تک ممکن ہو اپنے مسلمان بھائی کی عزت اور اس کے جان و مال کو دوسروں کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھے۔ اپنی زبان اور ہاتھ کے ذریعے اس کا دفاع کرے اور اس کی مدد کرے کیونکہ اسلامی بھائی چارہ اسی بات کا تقاضا کرتا ہے۔ (20)مسلمان کی چھینک کا جواب دے۔ (احیاء العلوم، 2/ 407)

ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا: جانتے ہو مسلمان کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ تو ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کی: مؤمن کون ہے؟ ارشاد فرمایا: مؤمن وہ ہے کہ جس سے دوسرے مؤمن اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ سمجھیں۔ (مسند امام احمد، 2/ 654، حدیث: 6942)

حقوق العباد ادا کرنےکا ذہن بنائیے: حقوق العباد کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے اور ان کی ادائیگی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ احترام مسلم صحیح طورپر بجالانے کے لیے مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی بہت ضروری ہے اور ان حقوق میں والدین، بہن بھائی، رشتہ دار، پڑوسی، دوست احباب کے حقوق بھی شامل ہیں اگر بندہ ان تمام حقوق کو کامل طورپر ادا کرنے کا ذہن بنائے تو اس کے سبب اس کے دل میں احترام مسلم کا جذبہ بیدار ہوگا کیونکہ یہ ہی وہ تمام حقوق ہیں جن کو پورا کرنے سے احترام مسلم ادا ہوتا ہے۔

حسن اخلاق ایسی صفت ہے کہ جو احترام مسلم کی اصل ہے کیونکہ حسن اخلاق اچھائیوں کی جامع ہے، حسن اخلاق سے متصف انسان ایثار، دل جوئی، سخاوت، بردباری، تحمل مزاجی، ہمدردی، اخوت و رواداری جیسی اعلیٰ صفات سے متصف ہوتا ہے اور یہ ہی وہ صفات ہیں جن سے انسان میں احترام مسلم کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔

الله کریم ہم پر لازم حقوق کی ادائیگی کرنے میں ہماری مدد فرمائے،اللہ کریم ہمیں مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے ان کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ان کے دکھ درد دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام ایک قوم ملت ہم دین اسلام میں جتنی بھی مسلمان ہیں ان سب کے ایک دوسرے پر بہت سے حقوق ہیں ان میں سے کچھ والدین کے حقوق ہیں کچھ ہمسائیوں کے حقوق ہیں بہن بھائیوں اس طرح مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں حقوق العباد میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے پھر دوسرے رشتے داروں کا پھر غیروں کا غیروں میں بے کس یتیم سب سے مقدم پھر مسکین ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین اسلام میں ایک دوسرے کے حقوق کی کتنی اہمیت ہے بلکہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ حقوق الله پورے کرنے کے باوجود بہت سے لوگ حقوق العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوں گے۔ اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کے حقوق  پورے نہ کرنا نہ صرف دنیا میں نقصان کا باعث ہے کہ معاشرے کا نظام درهم برہم ہوتا ہے بلکہ آخرت میں بھی وہ شخص جہنم کا مستحق ہے۔ اور اللہ پاک کی ناراضگی کو مول لینے والا ہے۔

چند حقوق:

مسلمان کو لوگوں کے سامنے ذلیل و رسوا نہ کرے۔ اگر کسی بات میں کسی مسلمان سے ناراضی ہو جائے تو تین دن سے زیادہ اس سے سلام و کلام بند نہ رکھے۔ کسی مسلمان پر بہتان نہ لگانا بھی حقوق میں سے ہے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے خندہ پیشانی سے اور مسکراتے ہوئے چہرے کیساتھ ملنا چاہیے، حدیث مبارکہ میں ہے: تم نیکی کے کسی کام کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ تم اپنے بھائی سے ہشاش بشاش چہرے کیسا تھ ملاقات کرو۔ (مسلم، ص 1084، حدیث: 6690)مسلمانوں سے اچھی اور پاکیزہ گفتگو کرنا بھی حقوق میں شامل ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پاکیزہ کلمہ (اچھی بات) صدقہ ہے۔(بخاری، 2/279، حدیث: 2891)

سرکار مدینہ ﷺ کا ارشاد ہے: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا بیمار کی عیادت کرنا، جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا۔ (مسلم، ص 1192، 2162)

مسلمان دل دکھا دے تو اسے معاف کر دیجئے، حدیث مبارکہ ہے: اللہ پاک بندے کے معاف کرنے کی وجہ سے اس کی عزت میں اضافہ فرما دیتا ہے اور جو شخص اللہ پاک کیلئے عاجزی اپناتا ہے اللہ پاک اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔

الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں تمام مسلمانوں کے حقوق تہہ دل سے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے میرے والدین،میرے اساتذہ اور پیر و مرشد کی بے حساب مغفرت عطا فرمائے۔ آمین بجا النبی آمین ﷺ


حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: 1: سلام کا جواب دینا۔ 2: بیمار کی عیادت کرنا۔ 3: جنازوں کے ساتھ جانا۔ 4: دعوت قبول کرنا۔ 5: چھینک کا جواب دینا۔  (مسلم، ص 1192، 2162)

عام مسلمانوں کے چند حقوق انسان پر اپنے رشتہ داروں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے حقوق صرف ہمارے رشتہ داروں پر ہی ہیں بلکہ یہ بات غلط ہے کیوں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے حقوق دوسرے مسلمانوں پر بھی ہیں چند حقوق ملاحظہ ہوں:

1۔ ملاقات کے وقت پہلے سلام کرے اور اگر سلام کرنے والے دونوں مرد ہیں تو آپس میں مصافحہ کریں اور اگر دونوں عورتیں ہیں تو وہ بھی آپس میں مصافحہ کریں کیونکہ مصافحہ کرنا اچھی عادت ہے اور اس سے مسلمان کے دل میں خوشی داخل ہوگی۔

2۔ جب کوئی سلام کرے تو اس کا جواب دے کیونکہ سلام کا جواب دینا واجب ہے اگر آپ مسلمان کے سلام کا جواب دیں گے تو اس سے وہ خوش ہوگا اور کسی کے دل میں خوشی داخل کرنا ثواب کا ذریعہ ہے۔

3۔ اگر کسی مسلمان کو چھینک ائے تو وہ الحمدللہ کہے تو سننے والا مسلمان یرحمک اللہ کہہ کر اس کا جواب دیں۔

4۔ اگر کسی مسلمان کے ہاں کسی کی وفات ہو جائے تو دوسرا مسلمان اس کے جنازہ اور دفن میں شریک ہو۔

5۔ اگر دو مسلمانوں کا آپس میں جھگڑا ہو جائے تو کوئی دوسرا مسلمان ان میں صلح کروائے کیونکہ صلح کروانا سنت ہے۔

6۔ مسلمان اپنے بڑوں کا ادب و احترام کریں اور اپنے چھوٹوں سے محبت شفقت کریں کیونکہ چھوٹوں سے محبت اور شفقت کرنا حضور ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔

7۔ اگر کوئی مسلمان بیمار ہو جائے تو اس کی تیمارداری کرے اور دوسرے مسلمان اس کی عیادت کو جائیں۔

8۔ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان پر تہمت یا بہتان نہ لگائے۔

9۔ کسی مسلمان کی غیبت دوسرے مسلمان بھائی سے نہ کرے۔

10۔ جو چیز اپنے لیے پسند کرے وہی دوسرے مسلمان کے لیے پسند کرے،

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں مسلمانوں کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اسلامی تعلیمات میں تمام مسلمان ایک ملت ایک قوم کی طرح ہیں۔ سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں شریعت اسلامیہ نے اخوت وہمدردی کو قائم کرنے کے لیے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کی حقوق عائد کئے ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے۔

ایک دوسرے سے محبت کرنا: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم جنت میں داخل نہ ہوگے یہاں تک کہ ایمان لے آؤ اور تم ایمان والے نہیں ہو سکتے یہاں کے ایک دوسرے سے محبت کرو۔کیا میں تمہیں وہ کام نہ بتاؤں کہ جس کے کرنے سے تم ایک دوسرے سے محبت کرنا شروع کر دو گے؟ تم اپنے درمیان اسلام کو پھیلا دو۔ یعنی ہر مسلمان کو سلام کہا کرو۔ (مسلم، ص 51، حدیث: 194)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرو۔ اس سے تمہارے درمیان بغض و کینہ ختم ہو جائے گا۔ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اس سے تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے اور تمہارے درمیان دشمنی ختم ہو جائے گی۔ (موطا امام 2/407، حدیث: 1731)

ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کو سلام کہنے، مصافحہ کرنے اور ہدیہ دینے سے مسلمانوں کے درمیان باہمی محبت پیدا ہوتی ہے اور بغض و عداوت کا خاتمہ ہوتا ہے۔

ایک دوسرے سے ہمدردی کرنا: ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا ہمدرد ہونا چاہیے اس طرح کی اسکی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرے اور جہاں تک ہو سکے بوقت ضرورت اسکا ساتھ دے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے پاس اضافی سواری ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس سواری نہ ہو اور جس کے پاس کھانے پینے کا اضافی سامان ہو وہ اسے اس آدمی کو دے دے جس کے پاس کھانے پینے کا سامان نہ ہو۔ (مسلم، ص 737، حدیث: 4517)

ایک دوسرے سے خندہ پیشانی سے ملنا: ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے خندہ پیشانی سے اور مسکراتے ہوئے چہرے کیساتھ ملنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا تھا: تم نیکی کے کسی کام کو حقیر مت سمجھو۔ اگرچہ تم اپنے بھائی سے ہشاش بشاش چہرے کیساتھ ہی ملاقات کرو۔ (مسلم، ص 1084، حدیث: 6690)مسلمان بھائی سے مسکراتے ہوئے چہرے کیساتھ ملنا بھی صدقہ ہے جیسا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا بھی صدقہ ہے راستہ بھولے ہوئے آدمی کو راستہ دیکھنا تمہارے لیے صدقہ ہے۔ کمزور نظر والے کو راستہ دیکھنا تمہارے لیے صدقہ ہے راستے پر پڑے ہوئے پتھر کانٹے اور ہڈی کو ہٹانا تمہارے لیے صدقہ ہے اور اپنے ڈول سے بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنا تمہارے لیے صدقہ ہے۔

مسلمانوں کا ملاقات کے وقت آپس میں مصافحہ کرنا بھی مغفرت کے اسباب میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان بوقت ملاقات ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ تے ( مصافحہ کرتے ) ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ انکی دعا قبول کرے اور انکے ہاتھ الگ ہونے سے پہلے انکی مغفرت کردے۔ (مسند امام احمد، 4/286، حدیث: 12454)

ارشاد باری تعالیٰ: وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا(۵۳) (پ 15، الاسراء: 53) ترجمہ کنز الایمان: میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی بات کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہو کیونکہ شیطان (بری باتوں) سے ان میں فساد ڈلوادیتا ہے کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

مسلمانوں سے اچھی اور پاکیزہ گفتگو کرنا بھی صدقہ ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: پاکیزہ کلمہ (اچھی بات) صدقہ ہے۔ (بخاری، 2/279، حدیث: 2891)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کے دکھ درد دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ


اسلامی تعلیمات میں تمام مسلمان ایک ملّت کی طرح ہیں سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، شریعت اسلامیہ نے اخوت و ہمدردی کو قائم کرنے کے لئے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کئی حقوق عائد کئے ہیں، جن کا ادا کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے چند حقوق درج ذیل ہیں:

(1) بیمار مسلمان کی عیادت کرنا: دین ہمیں جہاں دیگر تعلیمات سکھاتا ہے اور اس پر عمل کرنے پر ڈھیروں ڈھیر انعامات عطا فرماتا ہے اسی طرح ہمیں مسلمانوں کی تیمارداری کرنے کا بھی حکم دیتا ہے اور اس پر ڈھیروں ڈھیر انعامات عطا فرماتا ہے، جیسا کہ فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کیلئے صبح کو جائے تو شام تک اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کیلئے استغفار کرتے ہیں اور اس کیلئے جنت میں ایک باغ ہوگا۔ (ترمذی، 2/290، حدیث: 971)

(2)ایک دوسرے سے اچھی گفتگو کرنا: ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ اچھی گفتگو کرنی چاہیئے اور آپس میں ایسی گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے مسلمان کی دل آزاری ہو یا اسکی عزت مجروح ہو کہ اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (پ 1، البقرۃ: 83) ترجمہ: اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔ مسلمان سے اچھی بات کرنا بھی صدقہ ہے جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اچھی بات کرنا صدقہ ہے۔ (بخاری، 2/279، حدیث: 2891)

(3)نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرنا: والدین کو اپنی اولاد کو،استاد کو اپنے شاگرد کو،شوہر کو اپنی بیوی کو،بھائی کو اپنی بہن کو گویا ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرناچاہیے۔ حدیث مبارکہ میں بھی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا حکم دیا گیا ہے: چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، تم یا تو ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے یا قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے تم پر عذاب بھیجے، پھر تم اس سے دعا مانگو گے مگر تمہاری دعا قبول نہ ہوگی۔ (ترمذی، 4/69، حدیث: 2176)

(4)مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنا: ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کرنا دینی تعلیمات میں سے ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:دین خیر خواہی ہے، ہم نے عرض کی:کس کی؟ فرمایا: اللہ کی، اس کی کتاب، اس کے رسول اور مسلمانوں کے اماموں اور عوام کی۔ (مسلم، ص 51، حدیث:196)

(5)مسلمان سے ملاقات کے وقت سلام کرنا: سلام کرنا پیارے آقا ﷺ کی سنت مبارکہ ہے سلام کرنے پر سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ اللہ پاک سورۂ نساء کی آیت نمبر86 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا(۸۶)ترجمہ کنز العرفان: اور جب تمہیں کسی لفظ سے سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر لفظ سے جواب دو یا وہی الفاظ کہہ دو۔ بیشک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے۔

فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں:(1)جب اس سے ملاقات ہو تو سلام کرے(2)جب دعوت دے تو قبول کرے (3)جب وہ مشورہ مانگے تو اچھا مشورہ دے(4)جب اسے چھینک آئے اور وہ اللہ کی حمد کرے تو اسے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دے ۔(5)جب بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کرے (6)انتقال ہو جائے تو وہاں موجود رہے۔ (مسندامام احمد،3/306، حدیث: 8854)

اللہ پاک ہمیں مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اسلام سے پہلے جاہلیت کا دور دورہ تھا۔ ہر طرف جہالت پھیلی ہوئی تھی جب اسلام آیا تو اسلام نے ہمیں زندگی گزارنے کے سنہری اصول بھی بتائیں۔ جن پر عمل کر کے ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔اسلام میں جہاں، حقوق اللہ، پڑوسیوں کے حقوق، رشتے داروں کے حقوق، والدین کے حقوق، اساتذہ کرام کے حقوق وغیرہا بیان فرمائے وہاں ہمیں مسلمانوں کے حقوق کو ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ جس کا ہمیں قرآن و احادیث سے بخوبی پتا چلتا ہے۔

سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: مسلمان وہ ہے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (مسلم، ص 41، حدیث: 65) اسی طرح بہت سی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں جن میں مسلمانوں کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے اور بہت سی احادیث میں مسلمانوں کے حقوق ادا نہ کرنے کی وعیدات وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضور ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے ( بلا وجہ شرعی) کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی۔ ( معجم اوسط، 2/387، حدیث: 3607)

اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دینے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ پارہ 22 سورۃ الاحزاب آیت نمبر 57 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۵۷)ترجمہ کنز الایمان: بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا و آخرت میں اور ان کیلئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے: ہمارے پیارے پیارے آقا ﷺ نے کعبہ معظمہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: مومن کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے۔ ( معجم اوسط، 4/203، حدیث: 5719)

اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: بیشک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ لہذا ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ دوسرے مسلمان سے بھلائی اور خیر خواہی کا ہی سلوک کرے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: کہ سرکار کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے۔ (مسلم،ص 47، حدیث: 170) اسلام میں مسلمانوں کے حقوق کا کس قدر خیال رکھا گیا ہے اس کا اندازہ مذکورہ بالا اور درج ذیل احادیث مبارکہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے دوسرے مسلمان کے اوپر چھ حقوق ہیں (۱)جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرے (۲)جب وہ مرجائے تواس کے جنازہ پرحاضر ہو (۳) جب دعوت کرے تواس کی دعوت قبول کرے (۴)جب وہ ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے (۵)جب وہ چھینکے تو یرحمک اﷲ کہہ کر اس کی چھینک کا جواب دے (۶) اس کی غیر حاضری اور موجودگی دونوں صورتوں میں اس کی خیر خواہی کرے۔ (ترمذی، 4/338، حدیث:: 2746)

اسی طرح حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک مومن دوسرے مومن کیلئے عمارت کی طرح ہے جسکا ایک حصہ دوسرے کو تقویت دیتا ہے۔ (بخاری، 2/127، حدیث: 2446)

شرح حدیث: حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ مراۃ المناجیح میں مذکور ہ حدیث کے تحت فرماتے ہیں: یعنی مومنوں کے دنیاوی اور دینی کام ایک دوسرے سے مل جل کر مکمل ہوتے ہیں جیسے مکان کی دیوار ایک دوسرے سے مل کر مکان مکمل کرتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6/549)

یہ مثال یہی بتانے کے لیے ہے کہ مسلمانوں کے بعض کے بعض پر حقوق ہیں۔

اللہ ہمیں تمام مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


فرمان مصطفی ﷺ ہے: تجھ پر مسلمان کے چار حق ہیں ان کے نیک کی امداد کر، برے کے لیے طلب مغفرت کر، ان میں سے جانے والے (مرنے والے )کے لیے دعا مانگ اور ان میں سے توبہ کرنے والوں کے ساتھ محبت رکھ۔ (فردوس الاخبار، 1/ 215، حدیث: 1502)

مسلمان کے مسلمان پر حقوق:

مسلمان کا مسلمان پر حق ہے کہ جو کچھ اپنے لیے پسند کرتا ہے وہ دوسرے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرے اور جو چیز اپنے لیے بری سمجھتا ہے وہی دوسرے مسلمان کے لیے بھی اسے برا سمجھے۔

افضل مسلمان کون؟ افضل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہے۔ حدیث نبوی ﷺ ہے: مسلمان کی مثال ایک جسم جیسی ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ایک دوسرے سے محبت کرنے اور باہم مشقت کرنے میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم جیسی ہے، جب جسم کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو تمام جسم اس کے احساس اور بخار میں مبتلا ہوتا ہے۔ (بخاری، 4/103، حدیث: 6011)

مسلمان کے حقوق: ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ جب دوسرے مسلمان بھائی سے ملے تو اسے سلام کہے جب وہ اسے مدعو کرے تو اس کی دعوت قبول کرے جب اسے چھینک آئے تو اس کا جواب دے جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کو جائے جب وہ مر جائے تو اس کے جنازہ میں حاضر ہو جب وہ قسم دلائے تو اس کی قسم کو پورا کرے جب وہ نصیحت کا خواستگار ہو تو اسے نصیحت کرے اس کی عدم موجودگی میں اس کی پیٹھ کی حفاظت کرے یعنی اس کی غیبت نہ کرے کے لیے وہی کچھ کریں جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور وہ چیز جسے وہ اپنے لیے پسند سمجھتا ہے اس کے لیے بھی بھی پسند سمجھے اور وہ چیز جس سے وہ اپنے لیے ناپسند سمجھتا ہے تو اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی مکروہ سمجھے۔

فرمان مصطفی ﷺ ہے: مسلمان ایک دیوار کی طرح ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے کو تقویت دیتا ہے۔ (بخاری، 2/127، حدیث: 2446)

حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ایسا عمل بتائیں جس سے میں نفع حاصل کروں! آپ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کے راستے سے تکلیف دینے والی چیز کو دور کیا کرو۔ (مشکوۃالمصابیح، 1‏ / 362، حدیث: 1906)

نبی پاک ﷺ ہر شخص سے تواضع سے پیش آتے اور بیوہ اور مساکین کے ساتھ چل کر ان کی حاجت روائی کرنے میں عار محسوس نہ فرماتے اور نہ تو تکبر سے کام لیتے۔ (شعب الایمان، 6/269، حدیث: 8114)

جب کوئی مسلمان کسی نیک مسلمان مرد کو دیکھے تو کہے: اے اللہ تو نے اسے جو بھلائی مرحمت فرمائی ہے اس میں برکت دے اسے ثابت قدم رکھ اور ہمیں اس کی برکتوں سے نواز! اور جب کوئی نیک کسی بدکار کو دیکھے تو کہے: اے اللہ اسے ہدایت دے اور اس کی توبہ قبول فرما اور اس کی لغزشوں کو معاف فرما!

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مسلمانوں کے حقوق پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مسلمانوں کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں۔


ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق یہ ہے کہ جب ملاقات ہو تو سلام کرے جب دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے چھینکے تو يرحمك الله کہے بیمار ہو تو عیادت کرے مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو قسم کھائے تو اس کی قسم پوری کرے نصیحت چاہے تو اچھی نصیحت کرے پیٹھ پیچھے بھی اسے برا نہ کہے جو اپنے لئے پسند کرے وہی اس کے لئے پسند کرے اس کے حق میں وہ بات بری سمجھے جو اپنے حق میں بری سمجھتا ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں: مسلمانوں کے سلسلے میں تجھ پر چار باتیں لازم ہیں: ایک یہ کہ ان میں سے نیکی کرنے والے کے ساتھ اعانت کر، برائی کرنے والے کے لئے مغفرت طلب کر بد نصیب کے لئے دعا کر اور توبہ کرنے والے کے ساتھ محبت کر۔

پہلا حق: تمام مسلمانوں کے لئے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند ہو ہر وہ بات نا پسند کرے جسے اپنے حق میں نا پسند کرتا ہو۔

نعمان بن بشیر کہتے ہیں میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: آپس میں محبت کرنے اور رحم و کرم کرنے میں مسلمان کی مثال ایسی ہے جیسے جسم کہ جب اس کا کوئی عضو دکھتا ہے تو تمام جسم بخار اور بیداری کی تکلیف برداشت کرتا ہے۔ (بخاری، 4/103، حدیث: 6011)

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک صاحب ایمان دوسرے صاحب ایمان کے لئے ایسا ہے جیسے عمارت کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط بناتا ہے۔ (بخاری، 2/127، حدیث: 2446)

دوسرا حق: یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو ایذا نہ پہنچائے نہ قول سے نہ فعل سے سرکار ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا) سے مسلمان محفوظ رہیں۔ (مسلم، ص 41، حدیث: 65)

ایک مرتبہ آپ نے ایک مقام پر کچھ افعال کی فضیلت بیان فرمائی آخر میں مخاطب سے فرمایا: اگر تم اب فضائل پر عمل نہ کر سکو تو اتنا ہی کرو کہ لوگوں کو تم سے تکلیف نہ پہنچے یہ عمل بھی ایک صدقہ ہے جسے تم اپنی طرف سے خیرات کرتے ہو۔ (بخاری، 2/150، حدیث: 2518)

ایک مرتبہ سرکار ﷺ نے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ (صحیح معنی میں) مسلمان کون ہے؟ صحابہ نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔(مسلم، ص 41، حدیث: 65)

تیسرا حق: یہ ہے کہ ہر مسلمان کے ساتھ تواضع سے پیش آئے اور تکبر اور غرور مت کرے اللہ کسی تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: اللہ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی کہ تم تواضع کرو یہاں تک کہ کوئی شخص دوسرے پر فخر نہ کرے۔ (مسلم، ص 1174، حدیث: 7210) اگر کوئی شخص فخر بھی کرے تو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے جوابی کاروائی کرنا مناسب نہیں ہے۔

چوتھا حق: یہ ہے کہ کسی مسلمان کی چغلی نہ کھائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (بخاری، 4/115، حدیث: 6056)

پانچواں حق: یہ ہے کہ اگر آپس میں رنجش پیدا ہو جائے تو تین دن سے زیادہ ملاقات ترک نہ کرے حضرت ابو ایوب انصاری آپ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے کہ وہ دونوں باہم ملیں تو ایک ادھر منہ پھیر لے تو دوسرا ادھر ان دونوں میں بہتر شخص وہ ہے جو سلام کی ابتدا کرے۔ اگر کسی بھائی سے کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو اسے معاف کر دے ترک تعلق کی نوبت اس لیے آتی ہے کہ غلطیوں سے چشم پوشی نہیں کی جاتی اور معمولی معمولی خطاؤں کو سنگین سمجھا جاتا ہے، حالانکہ حدیث میں ہے: جس نے کسی مسلمان کی غلطی معاف کی اللہ قیامت کے دن اس کی لغزشوں کو درگزر فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36، حدیث: 2199)


1۔ عام مسلمین کا ایک حق عدل و انصاف سے گواہی دینا ہے، رب فرماتا ہے: انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ۔ آیت مبارکہ میں عدل و انصاف کا حکم فرمایا گیا ہے اور واضح فرما دیا کہ کسی قسم کی قرابت یا عداوت کا کوئی اثر تمہیں عدل سے نہ ہٹا سکے۔ عدل کا آسان معنی یہ ہے کہ ہر حق دار کو اسکا حق دیا جائے۔

2۔ اپنے والدین سے بھلائی کے ساتھ نرمی پیش آئے الله پاک نے اس کے بارے میں فرمایا: اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی یہ ہے کہ ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو ان کیلئے باعث تکلیف ہو اور اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان سے محبت کرے، ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے، ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے، ان کی خدمت کیلئے اپنا مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے، اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کیلئے ایصال ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا کرے، ان کے اچھے تعلقات کو قائم رکھے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے ساتھ اصلاح و تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہے۔

حقوق والدین کی تفصیل جاننے کیلئے فتاویٰ رضویہ کی 24 ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ بنام ”والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق“ کامطالعہ فرمائیں۔

3۔ عام مسلمان کا حق ہے کہ اپنے قرابت والوں کا خیال رکھے انکے حقوق کی پاسداری کرے انکی خوشی غمی کا ساتھی بنے اللہ پاک نے قرآن مجید میں رشتہ داروں سے بھلائی کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ یاد رہے! حقوق العباد میں سب سے مقدم ماں باپ کا حق ہے پھر دوسرے رشتے داروں کا اورپھر غیروں کا۔ غیروں میں بے کس یتیم سب سے مقدم ہے پھر دوسرے مساکین۔

4۔ عام مسلمان کا حق ہے کہ سب لوگوں سے اچھی بات کہے۔ اچھی بات سے مراد نیکی کی دعوت اور برائیوں سے روکنا ہے۔ نیکی کی دعوت میں اس کے تمام طریقے داخل ہیں، جیسے بیان کرنا، درس دینا، وعظ و نصیحت کرناوغیرہ۔ نیز اچھی بات کہنے میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، حضور پرنور ﷺ کی شان، اولیاء کے مقام ومرتبہ کا بیان اور نیکیوں اور برائیوں کے متعلق سمجھانا سب شامل ہیں۔

5۔ ہر ایک سے کیے ہوئے وعدہ کا لحاظ رکھے اس کو کامل کرنے کی مکمل کوشش کرے اگر وعدہ کو مکمل نہ کیا تو اسکے بارے میں قرآن پاک میں الله پاک نے فرمایا کہ اللہ نے انجام کے طور پر ان کے دلوں میں منافقت ڈال دی۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد شکنی اور وعدہ خلافی سے نفاق پیدا ہوتا ہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ ان باتوں سے احتراز کرے اور عہد پورا کرنے اور وعدہ وفا کرنے میں پوری کوشش کرے۔ (تفسیر کبیر، 6 / 108)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: (1) جب بات کرے جھوٹ بولے۔ (2) جب وعدہ کرے خلاف کرے۔ (3) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/ 24، حدیث: 33)


اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ- وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَؕ-ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۸۳) (پ 1، البقرۃ: 83) ترجمہ: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں سے اور لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو پھر تم پھر گئے مگر تم میں سے تھوڑے اور تم روگرداں ہو۔

اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت: اس آیت میں والدین اور دیگر لوگوں کے حقوق بیان کرنے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے بلکہ احادیث میں یہاں تک ہے کہ حقوق اللہ پورا کرنے کے باوجود بہت سے لوگ حقوق العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوں گے۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہیں قیامت کے دن حق داروں کو ان کے حقوق ادا کرنے ہوں گے، یہاں تک کہ بے سینگ بکری کو بھی سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔ (مسلم، ص 1070، حدیث: 6570)

عام مسلمانوں کے حقوق بہت زیادہ ہیں چند مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ جب تومسلمان کو ملے تو سلام کرے۔ السلام علیکم سنت موکدہ ہے اور مسلمانوں میں انس و محبت پیدا کرنے کے اسباب و وسائل میں سے ایک اہم سبب ہے جیسا کہ یہ بات مشاہدے میں آچکی ہے اور اس پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم! جب تک تم مومن نہ بن جاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے اور جب تم آپس میں محبت نہ کرو مومن نہیں بن سکتے کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ دوں کہ جب تم اسے کرو توآپس میں میں محبت کرنے لگو؟ آپس میں السلام علیکم کو خوب پھیلاؤ۔ (مسلم، ص 51، حدیث: 194)

رسول اللہ ﷺ کو جو بھی ملتا آپ اسے سلام کہنے میں پہل کرتے اور جب بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں بھی سلام کہتے۔

2۔ جب وہ تیری دعوت کرے تو قبول کر۔ جب تجھے مسلمان بھائی دعوت دے تو اسے قبول کر، یعنی جب تجھے اپنے گھر کھانے پر یا کسی اور کام کے لئے بلائے تو تجھے جانا چاہئے کیونکہ دعوت قبول کرنا سنت موکدہ ہے اور اس لیے بھی کہ بلانے والے کی دلجوئی اور قدرشناسی ہے اس سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے جو شخص دعوت قبول نہیں کرتا اس کے بارے میں نبی پاک ﷺ نے فرمایا جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی۔ (مسلم، ص 576، حديث:3521)

3۔ جب کوئی مسلمان تجھ سے خیر خواہی طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کر، یعنی جب وہ تیرے پاس آکر اپنے لیے کسی چیز میں تجھ سے خیر خواہی کا طالب ہوتو اس کی خیر خواہی کر کیونکہ یہ بھی دین کا حصہ ہے جیسا کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: دین خیر خواہی ہے ہم نے پوچھا: کس سے؟ آپ نے فرمایا: اللہ سے، اس کی کتاب سے، اس کے رسول سے، مسلمانوں کے اماموں سے اور عام مسلمانوں سے۔ (مسلم، ص 51، حدیث:196) البتہ اگر وہ خیر خواہی طلب کرنے کے لیے تیرے پاس نہ آئے اور صورت حال یہ ہو کہ اسے کوئی نقصان پہنچنے والا ہو یا وہ کسی گناہ میں مبتلا ہونے والا ہوتو تجھ پر واجب ہے کہ اس کی خیر خواہی کر۔

4۔ جب کوئی مسلمان چھینک مارے اور اس کے بعد الحمداللہ کہے تو دوسرا مسلمان اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہے البتہ اگر وہ چھینک مارتے وقت الحمداللہ نہ کہے تو پھر اس کا کوئی حق نہیں کہ اس کے لیے یرحمک اللہ کہا جائے کیونکہ اس نے اللہ کی تعریف بیان نہیں کی، لہذا اس کے لیے یہی مناسب ہے کہ یرحمک اللہ نہ کہا جائے اور جب چھینک مارنے والا الحمدللہ کہے تو پھر یرحمک اللہ کہنا فرض ہے اور چھینک مارنے والے پر اس کا جواب دینا واجب ہے کہ یہدیکم اللہ یصلح بالکم یعنی اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال درست کرے کہے اور جب اسے بار بار چھینکیں آرہی ہوں تو تین بار چھینک یرحمک اللہ کہے اور چوتھی بار یرحمک اللہ کے بجائے عافاک اللہ یعنی اللہ تمہیں عافیت میں رکھے کہے۔

5۔جب مسلمان مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ رہے۔ مسلمان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے بھائی کے جنازے میں شریک ہو، اس میں بہت بڑا اجر ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص جنازے کے ساتھ چلے حتی کہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے، اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے اور جو اس کے ساتھ چلے یہاں تک کہ دفن کیا جائے اس کے لئے دو قیراط ہیں، آپ سے پوچھا گیا کہ یہ دو قیراط کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: جیسے دو پہاڑ۔ (بخاری، 1/446، حدیث: 1325)

مسلمان پر مسلمان کے بہت سے حقوق ہیں نبی کریم ﷺ کا فرمان مسلمان، مسلمان کا بھائی ہےکا یہی تقاضا ہے کہ جو چیز اپنے لیے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرو اور اس کی ہر ممکن بھلائی کے لیے کوشش کرتے رہو۔

اللہ پاک تمام مسلمانوں کو ان کے حقوق کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین