دین اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے، بلکہ احادیث میں یہاں تک ہے کہ حقوق اللہ پورا کرنے کے باوجود بہت سے لوگ حقوق العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوں گے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے عرض کی:ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور سازو سامان نہ ہو۔ آپ ﷺ نے  ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ (وغیرہ اعمال) لے کر آئے اور اس کا حال یہ ہو کہ اس نے(دنیا میں ) کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا تھا تو ان میں سے ہر ایک کو ا س کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور ان کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اگر اس کی نیکیاں (اس کے پاس سے) ختم ہوگئیں تو ان کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے،پھر اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔ (مسلم، ص 1394، حدیث: 2581)

حقوق عامہ کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے، ہمارے اسلاف اس بارے میں بے حد محتاط ہوا کرتے تھے چنانچہ حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک شخص حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے پاس(حصول علم کے لئے)کئی سال تک آتا جاتا رہا، اس کے بعد آپ نے اس سے اعراض (یعنی پہلو تہی، بے توجّہی)فرماکر کلام کرنا ترک کردیا۔ وہ آپ سے مسلسل اس تبدیلی کا سبب پوچھتا لیکن آپ جواب نہ دیتے، آخر کار آپ نے ارشاد فرمایا: مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے سڑک کی جانب سے اپنی دیوار کو لیپا ہے اور سڑک کے کنارے سے قد آدم کے برابر مٹی لی ہے حالانکہ وہ مسلمانوں کی عام گزرگاہ ہے اس لئے تم علم منتقل کئے جانے کے قابل نہیں ہو۔ (احیاء علوم الدین، 5/92)

مسلمانوں کے حقوق: (1)جو اپنے لیے پسند کرے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے، جو اپنے لیے ناپسند کرے وہی اپنے بھائی کے لیے ناپسند کرے۔ (2)اپنے قول وفعل سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچائے۔ (3) ہر مسلمان کے ساتھ عاجزی سے پیش آئے اور کسی پر تکبر نہ کرے کیونکہ اللہ کسی متکبر اور اترانے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (4) ایک دوسرے کے خلاف باتیں نہ سنے اور نہ ہی کسی کی بات دوسروں تک پہنچائے۔ (5)جس مسلمان کے ساتھ جان پہچان ہے اگر اس کے ساتھ ناراضی ہو جائے تو تین دن سے زیادہ بول چال ترک نہ کرے۔(6)جس قدر ممکن ہو ہر مسلمان کے ساتھ اچھا سلوک کرے خواہ وہ حسن سلوک کا مستحق ہو یا نہ ہو۔(7)کسی مسلمان کے ہاں اجازت لیے بغیرداخل نہ ہو بلکہ تین بار اجازت طلب کرے اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جائے۔(8)ہر ایک سے حسن اخلاق کے ساتھ پیش آئے اور ان کے مقام و مرتبے کا خیال رکھتے ہوئے ان سے معاملات کرے کیونکہ اگر وہ جاہل کےساتھ علمی، ان پڑھ کے ساتھ فقہی اور کم پڑھے لکھے کے ساتھ فصاحت و بلاغت سے بھرپور گفتگو کرے گا تو انہیں بھی تکلیف دے گا اور خود بھی تکلیف اٹھائے گا۔ (9)بڑوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئے اور بچوں پر شفقت و مہربانی کا معاملہ کرے۔ (10)تمام مخلوق کے ساتھ ہشاش بشاش نرم مزاج رہے۔ (11) کسی مسلمان کے ساتھ وعدہ کرے تو وفا کرے۔(12)لوگوں کے ساتھ اپنی طرف سے منصفانہ رویہ اپنائے اور انہیں وہ نہ دے جو خود نہیں لینا چاہتا۔(13)جس شخص کی ہیئت اور کپڑے اس کے بلند مرتبہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں اس شخص کی عزت و اکرام زیادہ کرے اور لوگوں کے ساتھ ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق پیش آئے۔ (14)جس قدر ممکن ہو مسلمانوں کے درمیان صلح کروائے۔ (15)مسلمانوں کی پردہ پوشی کرے۔ (16)تہمت کی جگہوں سے بچے تاکہ لوگوں کے دل اس کے بارے میں بدگمانی کا شکار نہ ہوں اور زبانیں اس کی غیبت کرنے سے محفوظ رہیں، کیونکہ جب لوگ اس کی غیبت کی وجہ سے اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہوں گے تو وہ اس نافرمانی کا سبب ہونے کی وجہ سے اس میں شریک ہوگا۔(17)ہر حاجت مند مسلمان کی اپنی وجاہت کے باعث جائزسفارش کرے اور جس قدر ممکن ہو اس کی حاجت روائی کی کوشش کرے۔ (18)ہر مسلمان کے ساتھ بات کرنے سے پہلے سلام کرے اور سلام کے وقت مصافحہ کرے۔ (19)جہاں تک ممکن ہو اپنے مسلمان بھائی کی عزت اور اس کے جان و مال کو دوسروں کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھے۔ اپنی زبان اور ہاتھ کے ذریعے اس کا دفاع کرے اور اس کی مدد کرے کیونکہ اسلامی بھائی چارہ اسی بات کا تقاضا کرتا ہے۔ (20)مسلمان کی چھینک کا جواب دے۔ (احیاء العلوم، 2/ 407)

ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا: جانتے ہو مسلمان کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ تو ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کی: مؤمن کون ہے؟ ارشاد فرمایا: مؤمن وہ ہے کہ جس سے دوسرے مؤمن اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ سمجھیں۔ (مسند امام احمد، 2/ 654، حدیث: 6942)

حقوق العباد ادا کرنےکا ذہن بنائیے: حقوق العباد کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے اور ان کی ادائیگی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ احترام مسلم صحیح طورپر بجالانے کے لیے مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی بہت ضروری ہے اور ان حقوق میں والدین، بہن بھائی، رشتہ دار، پڑوسی، دوست احباب کے حقوق بھی شامل ہیں اگر بندہ ان تمام حقوق کو کامل طورپر ادا کرنے کا ذہن بنائے تو اس کے سبب اس کے دل میں احترام مسلم کا جذبہ بیدار ہوگا کیونکہ یہ ہی وہ تمام حقوق ہیں جن کو پورا کرنے سے احترام مسلم ادا ہوتا ہے۔

حسن اخلاق ایسی صفت ہے کہ جو احترام مسلم کی اصل ہے کیونکہ حسن اخلاق اچھائیوں کی جامع ہے، حسن اخلاق سے متصف انسان ایثار، دل جوئی، سخاوت، بردباری، تحمل مزاجی، ہمدردی، اخوت و رواداری جیسی اعلیٰ صفات سے متصف ہوتا ہے اور یہ ہی وہ صفات ہیں جن سے انسان میں احترام مسلم کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔

الله کریم ہم پر لازم حقوق کی ادائیگی کرنے میں ہماری مدد فرمائے،اللہ کریم ہمیں مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے ان کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ان کے دکھ درد دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین