ابو کلیم عبدالرحیم عطّاری (درجہ
سادسہ جامعۃ المدینہ سادھو کی لاہور ، پاکستان)
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم اللہ پاک کے آخری نبی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موڑ پر
اصلاح و تربیت فرمائی مگر یہ اصلاح فرمانے کا انداز مختلف تھا ،انہی میں سے ایک طریقہ
مثالوں کے ذریعے تربیت فرمانا بھی ہے ، آئیے ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے اس انداز کے متعلق چند احادیث پڑھتے ہیں اور علم میں اضافہ کرتے ہیں:
(1) علم سے نفع اٹھانے اور نہ اٹھانے والے کی
مثال: عَنْ
اَبِیْ مُوْسٰی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اِنَّ مَثَلَ مَا بَعَثَنِيَ اللهُ بِهِ مِنَ الْهُدَى
وَالْعِلْمِ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَصَابَ اَرْضًا فَكاَنَتْ مِنْهَا طَائِفَةٌ
طَيِّبَةٌ، قَبِلَتِ
الْمَاءَ فَاَنْبَتَتِ الْكَلَاَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيْرَ، وَكَانَ مِنْهَا اَجَادِبُ
اَمْسَكَتِ الْمَاءَ، فَنَفَعَ اللهُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِبُوْا مِنْهَا
وَسَقُوْا وَزَرَعُوْا، وَاَصَابَ طَائِفَةً مِنْهَا اُخْرَى، اِنَّمَا هِيَ قِيْعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً وَلَا تُنْبِتُ كَلَاً فَذٰلِكَ مَثَلَ مَنْ فَقُهَ فِي دِيْنِ اللهِ تَعَالیَ، وَنَفَعَهُ بِمَا بَعَثَنِي اللهُ بِهِ، فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذٰلِكَ رَاْسًا، وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللهِ الَّذِي اُرْسِلْتُ بِهِ
ترجمہ: حضرت
ابوموسٰی رضی اللہ عنہ سےروایت
ہے کہ حضورنبی کریم رؤف رحیم ﷺ نے ارشادفرمایا: ’’اللہ پاک نے
جس ہدایت اورعلم کے ساتھ مجھے بھیجا ہے اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی تو زمین کےایک عمدہ حصےنے اس پانی کو چوس کر گھاس اور بہت سبزہ اُگایااور
زمین کا کچھ حصہ بنجر تھا جس نے اس پانی کو روک لیاتواللہ پاک نےاس سےلوگوں کو
فائدہ پہنچایا اس طرح کہ انہوں نے خود پیا، دوسروں کو پلایااور کاشت کاری کی اور
وہ بارش زمین کے ایک ایسے حصے کو پہنچی جو چٹیل میدان تھا، اس نے نہ پانی روکا اور
نہ ہی گھاس اُگائی۔ (تو پہلی) اس شخص کی مثال ہے جس نےاللہ تعالی کے دین کو سمجھااور جس چیز کے ساتھ اللہ
تعالی نے مجھے بھیجا اس نےاُسے نفع پہنچایاتو اس نے خود بھی علم حاصل کیا اور
دوسروں کو بھی سکھایا۔ (اور دوسری) اس شخص کی مثال ہے کہ جس نے اس (علم) کی طرف توجہ نہ دی (تکبر
کی وجہ سے) اوراللہ عَزَّ وَجَلَّ کی وہ ہدایت جس کے ساتھ
مجھے بھیجا گیا ہےاسے قبول نہ کیا۔( مسلم شریف کتاب الفضائل باب بیان مثل ما بعث النبی من الھدی والعلم، ص
1283 حدیث 2287 )
(2) رسولُ اللہﷺ اور امت محمدیہ کی مثال : عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ
اَوْقَدَ نَاراً فَجَعَلَ الجَنَادِبُ والفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيْهَا وَهُوَ
يَذُبُّهُنَّ عَنْهَا وَاَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ، وَاَنْتُمْ تَفَلَّتُوْنَ
مِنْ يَدَيَّ ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسولُ اللہ ﷺ نے
ارشادفرمایا: ’’ میری اور تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہےجس نے آگ جلائی تو ٹڈیاں اور پروانے اس میں
گرنے لگےاور وہ شخص اُنہیں آگ میں گرنے سے بچاتا ہےاورمیں بھی تمہیں تمہاری کمر سے پکڑ کر آگ (میں گرنے) سےبچاتا ہوں اور تم میرے
ہاتھ سے نکلے جاتے ہو ۔ ( مسلم کتاب الفضائل باب الشفقت
علی امتہ ص 1284 حدیث 2285 )
(3) احکام الہی نافذ کرنے والے کی مثال: عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ
بَشِیرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ
: مَثَلُ الْقَائِمِ فِی حُدُوْدِ اللَّہِ ، وَالْوَاقِعِ فِیْہَا کَمَثَلِ
قَوْمٍ اسْتَہَمُوْا عَلَی سَفِیْنَۃٍ ، فَصَارَبَعْضُہُمْ اَعْلَاہَا وَبَعْضُہُمْ
اَسْفَلَہَا ، فَکَانَ الَّذِیْنَ فِی اَسْفَلِہَا اِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاء
ِ مَرُّوْا عَلَی مَنْ فَوْقَہُمْ ، فَقَالُوْا : لَوْ اَنَّا خَرَقْنَا فِی نَصِیْبِنَا
خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا ، فَاِنْ تَرُکُوْہُمْ وَمَا اَرَادُوْا ہَلَکُوْا جَمِیْعًا
، وَاِنْ اَخَذُوْا عَلَی اَیْدِیْہِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا جَمِیْعًا
ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبیِّ
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’اللہ پاک کی مقرر کردہ حدوں پر قائم رہنے والوں اور اس
میں مبتلا ہونے والوں کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے
جنہوں نے ایک بحری جہاز میں قرعہ اندازی کر کے اپنے حصے
تقسیم کر لیے ، بعض کے نصیب میں بالائی اور بعض کے نصیب میں نیچے کا حصہ آیا توجو
لوگ نچلے حصے میں تھے انہیں پانی لینے کے لیے اوپر والے حصے سے گزرنا پڑتا ۔ نچلے
حصے والوں نے کہا : کیوں نہ ہم اپنے حصے میں سوراخ کرلیں (تاکہ پانی لینے میں آسانی
ہو) اور اوپر والوں کو تکلیف میں نہ ڈالیں۔ اب اگر اوپر
والے نیچے والوں کو یہ ارادہ پورا کرنے دیں تو سب ہلاک ہو جائیں گے
اور اگر یہ ان کے ہاتھ پکڑ لیں تو خود بھی نجات پائیں گےاور دیگر لوگ بھی نجات پائیں
گے۔ (بخاری شریف کتاب الشرکت باب ھل یقرع فی القسمتہ والستھام فیہ، ج 2 ،ص 143 ،حدیث : 2593)
(4) اچھے اور برے دوست کی مثال نماز : عَنْ اَبِيْ مُوْسَى الْاَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ اَنَّ
النَّبِيَِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : اِنَّمَا مَثَلُ الْجَلِيْسِ
الصَّالِحِ وَالْجَلِيْسِ السُّوْءِ كَحَامِلِ الْمِسْكِ وَنَافِخِ الْكِيْرِ
فَحَامِلُ الْمِسْكِ اِمَّا اَنْ يُّحْذِيَكَ وَ اِمَّا اَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ وَ
اِمَّا اَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيْحًا طَيِّبَةً وَنَافِخُ الْكِيْرِ اِمَّا اَنْ يُّحْرِقَ
ثِيَابَكَ وَ اِمَّا اَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيْحًا مُّنْتَنِةً
ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ دو جہاں کے تاجور ، سلطانِ بحرو بَر ﷺ نے
ارشادفرمایا :اچھے اور برے دوست کی مثال مشک اٹھانے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی
طرح ہے ، مشك اٹھانے والا تمہیں تحفہ دے گا یا تم اس سے خریدو گے یا تمہیں اس سے
عمدہ خوشبو آئے گی جبکہ بھٹی جھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلائے گا یا تمہیں اس سے
ناگوار بو آئے گی ۔(بخاری کتاب الذبائح والصید و تسمیتہ علی الصید باب المسک ص 567
ج 3 حدیث 5534)
(5) دنیا و اخرت کی مثال: وَعَنِ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ
شَدَّادٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ : مَا
الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ اِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ اَحَدُكُمْ اِصْبَعَهُ فِي
الْيَمِّ ، فَلْيَنْظُرْ بِمَ يَرْجِعُ ترجمہ: حضرت مُسْتَوْرِدْ بن شَدَّاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : آخرت کے مقابلے
میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے پھر دیکھے
کہ وہ کتنا پانی لے کر لوٹتی ہے ۔ ( مسلم شریف، کتاب
الجنۃ و صفۃ نعیمھا اہلھا باب فناء الدنیا و بیان
الحشر یوم القیامۃ، ص 1529 ، حدیث 2886)
اللہ پاک ہمیں
ان احادیث پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
Dawateislami