اللہ جل شانہ نے آقا کریمﷺ کو نوع انسانیت کی رشد وھدایت کے لیے مکمل مثال بنایا اورفطرت انسانی کے قریب ترمذہب ، اسلام کے ساتھ مبعوث فرمایا نیز اپنی پاکیزہ کتاب میں نبی پاک ﷺ کے اطوارواخلاق نیز آپ کی حیات بابرکات کو ایمان والوں کے لیے بحیثیت رول ماڈل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہ ِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجمہ کنزالایمان: بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔ (الاحزاب: 21)

یعنی آپ ﷺکی حیات طیبہ زندگی کےہر موقع پر ہمارے لیے مشعل راہ ہے جس کا ایک پہلو مثالوں کے ذریعے تربیت کرنے کا عمدہ اور جامع طریقہ ہے۔

مثال کے ذریعے تربیت کی افادیت: کسی بھی چیز کو مثال کے ذریعے سمجھانا انسانی ذہن کے بہت قریب ہے وہ اس لیے کیونکہ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر شخص کے سوچنے اورسمجھنے کی ذہنی صلاحیت دوسرے سے بلکل جدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہر ایک شخص بات میں پوشیدہ معانی ومفاہیم کا ادراک نہیں کرسکتا لہذا اپنی بات کو سامنے والے تک درست اور واضح انداز میں پہنچانے کے لیے مختلف امثال سےمدد لی جاتی ہے تاکہ سامنے والے کے دل میں وہ بات گھر کرجائے اور وہ اس بات سے صحیح معنوں میں فائدہ حاصل کرسکے بالخصوص ایک مبلغ کے انداز تربیت میں اس عنصر کا پایا جانا بہت ضروری ہے تاکہ وہ نیکی کی دعوت کو مزید مؤثر بنا سکے۔

تربیت نبویﷺ کی مختلف مثالیں: سید المبلغینﷺکے انداز تربیت میں مثالوں کے ذریعےتربیت کا پہلو جا بجا پایا جاتا ہے چونکہ آپﷺصحابہ کرام علیہم الرضون بلکہ اپنی تمام امت کے لیے معلم کی حیثیت رکھتے ہیں ایک حدیث مبارکہ میں مصطفےٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً یعنی مجھے مُعلّم بناکر بھیجا گیا ہے ۔ (ابن ماجہ،1/150،حدیث :229)

آپ ﷺ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کی بحیثیت معلم دین ودنیا کے مختلف امور میں مثالوں کے ذریعے تربیت فرمائی کیونکہ بہترین معلم وہ ہوتا ہے جو اپنی بات انتہائی آسان اور سہل انداز میں سامنے والے پر واضح کردےجیسا کہ ایک موقع پر نماز کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ نمازوں کی مثال تم میں سے کسی ایک کے دروازے پر چلتی ہوئی نہر کی سی ہے، وہ اس میں سے روزانہ پانچ دفعہ غسل کرتا ہو۔ ( مسلم، كتاب المساجد ومواضع:(668)

یعنی جب کوئی شخص دن میں پانچ مرتبہ کسی نہر میں غسل کرے تو وہ بلکل میل کچیل سے پاک ہوجائے گا اسی طرح جوشخص دن میں پانچ نمازیں ان کے وقت پر ادا کرے بھلا اس پر گناہ کے اثرات کس طرح باقی رہ سکتے ہیں؟ سبحان اللہ !آپ ﷺنے نمازکی فضیلت کس عمدہ طریقے سے بیان فرمائی تاکہ نماز کے لیے اہتمام کرنےپر ایمان والوں کی رغبت میں اضافہ ہو اور وہ اس کی ادائیگی میں کوشش کریں اسی طرح حفظ قرآن پاک کی اہمیت و حساسیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حافظ قرآن کی مثال رسی سے بندھے ہوئے اونٹ کے مالک جیسی ہے اگروہ اس کی نگرانی رکھے گا تو وہ اسے روک سکے گا اور اگر چھوڑ دے گا تو وہ بھاگ جائے گا۔ (صحيح بخاري، كتاب فضائل القرآن، حدیث: 5031)

یعنی قرآن پاک کو حفظ کرنے کے بعد لازم ہے کہ بندہ اس کی قراءت کے ذریعے حفاظت کرے وگرنہ یہ قرآن اسے بھلا دیا جائے گا ۔

اب یہاں حدیث مبارکہ میں بیان کردہ ان مثالوں سے معلوم ہورہا ہے کہ کسی بات کی فضیلت یا عظمت کو بیان کرنے کے لیے مثال کے ذریعے اسے پیش کرنا کتنا مؤثر ہے کیونکہ اس طرح سامنے والے کے دل میں اس بات کی فضیلت یا عظمت گھر کرجاتی ہے اور اس کام کو کرنے یا نہ کرنے کی طرف رغبت میں اضافہ ہوتا ہے۔

امتیوں سے محبت کا بےمثال تعلق: سرکار کریم علیہ الصلوة والتسلیم نے جہاں مختلف مقامات پر تربیت فرمائی وہیں اپنی امت کے ساتھ شفقت اور محبت کے تعلق کو بھی مثال کے ذریعےبیان فرمایا: فرمان مصطفی ﷺ: میری اور میری امت کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی تو مکھیاں اور پتنگے اس میں پڑنے لگے اورمیں تمہاری پشتوں سے پکڑ پکڑ کر تمہیں بچا رہا ہوں اور تم ہو کہ اس میں (جہنم کی آگ میں) گرتےچلے جا رہے ہو۔( سنن ترمذي/كتاب الأمثال عن رسول الله ﷺ حدیث: 2874)

یعنی امتی اپنے گناہوں کے سبب جہنم کی آگ میں گرنے لگتے ہیں اور آقاکریم ﷺ اپنی شفاعت سے انھیں جہنم کی آگ سے نجات دلواتے ہیں اسی حدیث مبارکہ کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ اپنے کلام میں فرماتے ہیں :یعنی آپﷺ اپنی امت پر اتنے مشفق ومہربان ہیں کہ ان کا اپنے گناہوں کے سبب جہنم میں داخل ہونا آپﷺ کو گوارا نہیں۔

ختم نبوت پر مثال: اسی طرح اپنے آخری نبی ہونے اور آپ ﷺکے بعد نبوت کے دروازے بند ہونے کی طرف بھی ایک خوبصورت مثال کے ذریعے اشارہ فرمایا ، فرمان مصطفی ﷺ :ترجمہ:”میری مثال اور مجھ سے پہلے کے انبیاء کی مثال، اس شخص کی طرح ہے جس نے گھر بنایا پھر اسےمکمل کیا اور اسے خوبصورت بنایا، سوائے ایک اینٹ کی جگہ کے ، پھرلوگ اس گھر میں آنے لگے اور اسے دیکھ کر تعجب کرنے لگے، اور کہنے لگے: کاش یہ ایک اینٹ کی جگہ خالی نہ ہوتی (سنن ترمذی، كتاب الأمثال عن رسول الله ﷺحدیث: 2862)

یعنی حضورﷺ قصر نبوت کی اس آخری اینٹ کی طرح ہیں جس سے یہ مکمل ہوگیا یعنی اب آپ ﷺکے بعد اس تسلسل میں مزید کسی نبی کی گنجائش نہیں کیونکہ آپﷺ کی تشریف آوری سے اس خوبصورت گھر کی تکمیل ہوگئی لہذا اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آسکتا۔

مدنی آقاﷺ کے انداز تربیت کے ان چند پہلوؤں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک معلم کو چاہیے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی تربیت کے لیے وہ انداز اختیار کرے کہ جو ان کی سمجھ اور نفسیات کے زیادہ قریب ہوتبھی وہ بحیثیت استاد یا مبلغ کے کامیابی حاصل کرسکے گا جس کا سب سے بہترین انداز مثالوں کے ذریعے تربیت بھی ہے۔ رب تعالی ہمیں سیرت نبوی ﷺ کے اس پہلو پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ