حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے معاشرے کے اخلاقی حالات بہت ہی خراب تھے لوگوں میں

شرک اور بت پرستی، ظلم و جبر اور ناانصافی، قتل و غارت، معمولی باتوں پر لڑائیاں وغیرہ عام تھیں ، تو اس وقت اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم کائنات بنا کر بھیجا، تاکہ آپ لوگوں کی تربیت فرمائیں ، انہیں اخلاقِ حسنہ سکھائیں اور آپ علیہ السلام نے اس فریضے کو احسن انداز میں ادا فرمایا ،آپ علیہ السلام کا مبارک انداز تھا کہ جب آپ علیہ السلام لوگوں کی تربیت فرماتےتو مثال دیکر تربیت فرماتے کیونکہ مثال کے ساتھ سمجھانا فہم کے زیادہ قریب ہے جیسا کہ ان احادیث مبارکہ میں ملاحظہ فرمائیں ۔

(1) علم سے فائدہ اٹھانے کی تربیت خزانہ کی مثال دیکر فرمائی: وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَثَلُ عِلْمٍ لَا يُنْتَفَعُ بِهِ كَمَثَلِ كَنْزٍ لَا يُنْفَقُ مِنْهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّارمِيُّ روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس علم کی مثال جس سے نفع نہ اٹھایا جائے ا س خزانہ کی سی ہے جس سےاللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جائے ۔(لمعات التنقیح فی شرح مشکات المصابیح جلد1، کتاب العلم ۔فصل الاول ، ص 615 ۔حدیث: 280 مکتبہ علومِ اسلامیہ)

(2) اچھے دوست بنانے کی تربیت مشک اٹھانے والے کی مثال دیکر فرمائی : عنْ اَبِيْ مُوْسَى الْاَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ اَنَّ النَّبِيَِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : اِنَّمَا مَثَلُ الْجَلِيْسِ الصَّالِحِ وَالْجَلِيْسِ السُّوْءِ كَحَامِلِ الْمِسْكِ وَنَافِخِ الْكِيْرِ فَحَامِلُ الْمِسْكِ اِمَّا اَنْ يُّحْذِيَكَ وَ اِمَّا اَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ وَ اِمَّا اَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيْحًا طَيِّبَةً وَنَافِخُ الْكِيْرِ اِمَّا اَنْ يُّحْرِقَ ثِيَابَكَ وَ اِمَّا اَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيْحًا مُّنْتَنِةً

ترجمہ : حضرتِ سَیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو جہاں کے تاجور ، سلطانِ بحرو بَر نے ارشادفرمایا : ’’اچھے اور برے دوست کی مثال مشک اٹھانے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے ، مشك اٹھانے والا تمہیں تحفہ دے گا یا تم اس سے خریدو گے یا تمہیں اس سے عمدہ خوشبو آئے گی جبکہ بھٹی جھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلائے گا یا تمہیں اس سے ناگوار بو آئے گی ۔ ( صحیح مسلم۔جلد 2 ۔ کتاب البر و الصلۃ والادب ۔باب استحباب مجالسۃ الصاحین و مجانبۃ قرناء السوء ۔ رقم1305۔ حدیث نمبر: 2628)

سبحان اللہ کتنے پیارے انداز میں صالحین کی صحبت اختیار کرنے اور برے لوگوں کی صحبت سے بچنے کی تربیت فرمائی ۔

(3) اللہ پاک کا ذکر کرنے کی اہمیت کو زندگی کی مثال دیکر بیان فرمایا: عَنْ أَبِيْ مُوْسٰى قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ ِ صَلَّى اللہ ُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَثَلُ الَّذِيْ يَذْكُرُ رَبَّهٗ وَالَّذِيْ لَا يَذْكُرُ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ ترجمہ : حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کی مثال جو رب کا ذکر کرے اور جو نہ کرے زندہ و مردہ کی سی ہے ۔( کتاب: لمعات التنقیح فی شرح مشکوٰۃ المصابیح ۔ جلد 5 ۔ کتاب الدعوات ۔ باب ذکر اللہ والتقرب اِلیہ ، حدیث نمبر:2263 ، مکتبہ علومِ اسلامیہ)

(4) قرآنِ پاک کو یاد رکھنے کے متعلق تربیت کرتے ہوئے مثال دیکر فرمایا: عنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اِنَّمَامَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْاٰنِ كَمَثَلِ الْاِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ اِنْ عَاهَدَ عَلَيْهَا اَمْسَكَهَا وَاِنْ اَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ ترجمہ : حضرت سَیِّدُنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:حافِظِ قرآن کی مثال بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہےکہ اگر(مالک) اس کی حفاظت کرے گا تو اسے روکے رکھے گا اور اگر اسے کھلا چھوڑ دے گا تو وہ بھاگ جائے گا۔( صحیح بخاری ۔جلد 3/ الجزء الثالث۔ کتاب فضائل القرآن ۔ باب استذکار القرآن وتعاھُدِہٖ ۔ ص 1434۔ حدیث نمبر5031۔ مکتبہ الطاف اینڈ سَنز)

ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت کا جو انداز اپنایا وہ انسانی فہم کے عین مطابق تھا، اسی لیے آپ علیہ السلام نے علم، دوستی، ذکرِ الٰہی اور قرآن کی حفاظت کو روزمرہ زندگی کی مثالوں سے سمجھایا۔ یقیناً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ہمارے لیے أسوَأِ حسنہ ہے، اگر ہم بھی آپ علیہ السلام کے مبارک انداز کو اپنالیں تو اپنے ماتحت افراد ( چاہےوہ اپنی فیملی کے ہوں یا دفتر کے) انکی تربیت کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے ۔ ان شاء اللہ