اللہ عزوجل نے قرآنِ مجید میں جگہ جگہ سرکار علیہ السلام سے امرٌ باالمعروف ونھیٌ عنِ المنکر اور تبلیغِ دین کی اشاعت کرنے کا حکم فرمایا ہے اور حضور علیہ السلام نے اپنی اُمّت کی تربیت کبھی قرآن کریم کے احکامات بیان کرکے کی ، کبھی پچھلی امّتوں کے حالات و واقعات بتاکر اور کبھی مثالوں کے ذریعے فرمائی ہے ۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ کسی کی راہنمائی کرنے کیلئے اسے کسی مثال کے ذریعے سمجھانا سامنے والے کیلئے بہت مفید ہوتا ہے ۔دیکھیے کس طرح سرکار علیہ الصلاۃ والسلام نے نماز میں بار بار ہاتھوں کے اٹھانے کو مثال کے ذریعے سمجھایا۔

(1) حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ایک عالِم کی فضیلت مثال کے ذریعے سمجھائی۔ حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ۔ایک ان میں سے عابد تھا دوسرا عالِم۔تو سرکا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ عابد پر عالِم کی فضیلت ایسی ہے جیسے کہ میری فضیلت تمہارے ادنٰی آدمی پر۔ (مشکٰوۃشریف،کتاب العلم حدیث نمبر 16،ص 183)

(2) اور ایک حدیث شریف میں باوضو رہنے کی فضلیت کو مثال کے ذریعے سمجھایا جیسا کہ حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ جو فرض نماز کیلئے اپنے گھر سے وضو کرکے نکلے تو اس کا ثواب احرام باندھنے والے حاجی کی طرح ہے اور جو چاشت کےلئے نکلے کہ یہ نماز ہی اسے نکالے تو اس کا ثواب عمرہ والے کی طرح ہے اور نماز کے بعد دوسری نماز جس کے درمیان کوئی بیہودہ بات نہ ہو اس کی علّیین میں تحریر ہے ۔( مشکٰوۃ شریف ، باب المساجد، فصل ثانی ، حدیث نمبر 40، ص 439)

(3) ایک حدیث شریف میں درست سجدہ کرنے کو مثال کے ذریعے سمجھایا، حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی ایک سجدہ کرے تو وہ اپنے گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پہلے زمین پر رکھے اور وہ اونٹ کے بیٹھنے کی طرح نہ بیٹھے ۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ،جلد اول، حدیث نمبر 235 ص2702)

(5) ایک مقام پر نا اَہل پر علم پیش کرنے کو مثال کے ذریعے سمجھایا جیسا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ نا اہل پر علم پیش کرنے والا ایسا ہے جیسے سوروں کو موتی ،جواہرات اور سونے کے ہار پہنانے والا ۔( مشکٰوۃشریف ،جلداول،کتاب العلم،حدیث نمبر206،ص196)

(6) ایک اور جگہ حلال و حرام کے مابین مُشتبہ والی چیزوں میں پڑجانے والی کی مثال بیان فرمائی جیسا کہ عامر (شعبی) سے روایت انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے تو جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہ کی چیزوں میں پڑگیا تو اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو بادشاہ کی محفوظ چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے تو ہوسکتا ہے کہ وہ جانور شاہی چراگاہ میں داخل ہوجائیں۔( مشکٰوۃ شریف ،جلد اول ، حدیث نمبر52،ص33)