محمد یاسر رضا عطّاری (درجہ ثانیہ
جامعۃ المدینہ غلامان رسول اوکاڑہ ، پاکستان)
الله کے حبیب
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام جہانوں کے لیے رحمت اور معلم انسانیت ہیں۔ اللہ
کریم نے آپ کی معلمانہ حیثیت و شان کو بیان کرتے ہوئے
سورہ آل عمران آیت نمبر 164 میں آیات تلاوت کرنے،
تزکیہ نفس فرمانے اور کتاب و حکمت سکھانے کا ذکر فرمایا۔ خود حضوراکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا
ترجمہ:میں معلم ہی بنا کر بھیجا
گیا ہوں۔ (ابن ماجہ، باب العلماء والحث على طلب العلم،
ص125، حدیث: 229)
قرآن کریم سرچشمہ
ہدایت ہے۔ اس میں ہر انداز سے تربیت کی گئی۔ ایک انداز امثلہ کے ذریعے تربیت کرنا
بھی ہے۔ اب جو جس طریقے کو آسان جانے اس پر عمل پیرا ہو
اور منزل مقصود تک پہنچ جائے۔ ارشادِ ربانی ہے:
وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا
لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَۚ(۲۷)ترجمہ کنزالایمان: اور بےشک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی
کہاوت بیان فرمائی کہ کسی طرح انہیں دھیان ہو ۔ (پ23، الزمر: 27)
اور مثال بیان
فرماتے ہوئے سورہ عنکبوت آیت نمبر 41 میں بتوں کے عاجز ہونے کو
مکڑی کی مثل کہا گیا۔
قرآن مجید کے طرزتربیت
پر عمل کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں مثالوں کو ذکر کیا ۔ چند
احادیث درج ذیل ہیں۔
روزے کی مثال: اَلصَّومُ جُنَّةٌ ترجمہ: روزہ ڈھال ہے۔ (بخاری،
باب الصوم، ج1، ص947، حدیث: 1894 پروگریسو بکس)
روزہ نفس کو
توڑنے کا ذریعہ ہے۔ نفس ٹوٹ جانے پر انسان بہت سی نیکیاں کر سکتا ہے۔ اور گناہوں
سے بچ سکتا ہے۔ (مراة المناجح شرح
مشکوة المصابیح ، ج1، ص 42، نعیمی مکتب خانہ گجرات)
نماز کی مثال: اَرَاَيْتُمْ لَوْ اَنَّ نَهْرًا
بِبَابِ اَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيْهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا هَلْ يَبقى مِن دَرَنه
شَيْءٌ قَالُوا:لَا يَبقى مِن دَرَنه شَيْءً.قَالَ فَذلَكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ
الْخَمْسِ يَمْحُواللّه بِهِنَّ الْخَطَايَا ترجمہ: بتاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازہ پر نہر ہو اس
میں روزانہ پانچ دفعہ نہائے کیا کچھ میل رہے گا؟ لوگوں نے عرض کیا کہ بالکل میل نہ
رہے گا۔ فرمایا : یہ پانچ نمازوں کی مثال ہے کہ اللہ ان کی برکت سے گناہ مٹاتا ہے۔
(بخاری، فصل الصلاة لوقتھا ، ج1،
ص325، حدیث: 528 پروگریسو بکس)
یہاں خطاؤں سے
مراد صغیرہ گناہ ہے کبیرہ گناہ اور حقوق العباد اس سے علیحدہ ہیں وہ نماز سے معاف نہیں ہوتے۔ (مراة المناجح شرح مشکوة
المصابیح ، ج1، ص 350، نعیمی مکتب خانہ گجرات )
الله
پر توکل: لَوْ
اَنَّكُمْ تَتَوَكَّلُوْنَ عَلَى اللهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا
يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاسًاوَ تَرُوحُ بِطَا نًا ترجمہ: اگر اللہ پر جیسا چاہیے ویسا توکل کرو تو تم کو
ایسا رزق دے جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو شکم
سیر لوٹتے ہیں۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب فِی التَّوَكُّلِ عَلَی اللہ، ص 481،
حدیث: 2344، دارالسلام)
حق توکل یہ ہے
کہ فاعل حقیقی اللہ تعالی کو ہی جانے، بعض نے فرمایا کہ کسب کرنا نتیجہ اللہ پر
چھوڑنا حق توکل ہے ۔ جسم کو کام میں لگائے دل کو اللہ سے وابستہ رکھے۔ (مراة المناجح شرح
مشکوة المصابیح ، ج7، ص 83، نعیمی مکتب خانہ گجرات )
دنیا کے عارضی
ہونے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: اَنَا وَالدُّنْیَا
اِلَّا کَرَاکِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَ تَرَکَہَا ترجمہ:میری اور دنیا کی مثال تو ایسی ہے جیسے
کوئی سوار کسی درخت کے سایہ میں (کچھ دیر )بیٹھ جاتا ہے
پھر اُس درخت کو چھوڑ کر چل دیتا ہے۔(مسند احمد ، ج1، ص 391، حدیث: 17104، مؤسسۃ
الرسالہ)
|
|
Dawateislami