1۔ سلام کا جواب فورا دینا واجب ہے سلام بلند آواز میں کرنا چاہیے۔ سلام میں پہل کرنا سنت مبارکہ ہے۔ گھر میں آتے جاتے سلام کرنا سنت ہے۔ جس سے سلام کیا جارہا ہے وہ اگر تنہا ہے تو سلام کا جواب دینا فرض عین ہے اور اگر ایک سے زیادہ لوگ ہیں تو فرض کفایہ ہے۔

2۔ مریض کی تیمار داری کرنا فرض کفایہ ہے۔

3۔ جنازے کےساتھ چلنا فرض کفایہ ہے اس سے مراد جنازے کو اسکی یا نماز کی جگہ سے دفن کی جگہ تک لے جاناہے۔

4۔ شادی کے ولیمے کی دعوت، اگر فقہ کی کتابوں میں بیان کی گئی شرطوں کے مطابق ہو تو قبول کرنا واجب ہے جبکہ تقریبات کی دعوت قبول کرنا سنت مؤکدہ ہے۔

5۔ چھینک آنا اللہ کی نعمت ہے اس لیے کہ اس سے انسان کے اجزائے بدن میں جمع شدہ ہوا خارج ہوتی ہے اللہ تعالی اس کے نکلنے کے راستے کو کھول دیتا ہے اور یوں چھینک لینے والے کو راحت ہوتی ہے۔ چھینکنے والا جب الحمد لله کہے تو اسکا جواب دینا، کچھ علما کے نزدیک فرض عین ہے اور اگر ایک سے زیادہ لوگ ہیں تو فرض کفایہ ہے جبکہ کچھ دوسرے علما کا کہنا ہے یہ مستحب ہے۔

چھینک آنے پر الحمد لله کہنا سنت ہے۔ سننے والے پر واجب ہے کہ جواب میں یرحمک اللہ کہے۔ جواب سن کر چھینکنے والا کہے یغفراللہ لنا ولکم۔


قدرت الٰہی نے انسانوں کو ایک دوسرے کے باہمی جوڑ کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اور اسی جوڑ میں اس کے طرح طرح کے رشتے بنائے ہیں جیسے اولاد کا رشتہ ماں باپ سے، پڑوسی کا رشتہ ہمسائے سے، شوہر کا بیوی سے اور استاد کا طالب علم سے انہی رشتوں میں سے عام معاشرہ میں پائے جانے والے مسلمان کا بھی باہمی تعلق قائم کیا ہے اور ان کو حقوق و فرائض سے نوازا ہے۔ حدیث مبارک میں ہے: مومن مومن کے لئے عمارت کی مثل ہے، جس کا بعض حصہ بعض کو مضبوط رکھتا ہے۔ (بخاری، 2/127، حدیث: 2446)

حقوقِ مسلمان:

باہمی محبت: مسلمان آپس میں ایک عمارت کی مانند ہیں، عمارت کی مضبوطی باہمی محبت و اتفاق میں ہوتا ہے! لہذا ہر مسلمان کو چاہیے جو چیز اپنے لئے پسند کریں وہی چیز اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لئے چنے جیسے حدیث شریف میں ہے: باہمی محبت اور رحم دلی میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے، جب جسم کی کسی عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو تمام جسم بخار اور بیداری کی تکلیف برداشت کرتا ہے۔ (بخاری، 4/103، حدیث: 6011)

تکلیف نہ پہنچانا: ایک مسلمان بھائی کا حق ہے کہ اسی اپنے زبان و ہاتھ سے کسی بھی قسم کی تکلیف نہ دی جائے، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: افضل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(مسلم، ص 41، حدیث: 65)

عاجزی کرنا: عاجزی سے مراد جھک جانا، نرمی کرنا متکبر شخص اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے اس لئے مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اپنی دولت یا خوبصورتی کی وجہ سے اترائے۔ چونکہ حضور پاک ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی کہ عاجزی اختیار کرو حتی کہ تم سے کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے۔ (مسلم، ص 1174، حدیث: 7210)

معاف کردینا: جب کسی مسلمان کی کسی دوسرے مسلمان سے ناراضگی باسبب کسی طرح ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض نہ رہے اور معاف کردے۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی لغزش کو معاف کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی لغزش کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36، حدیث: 2199)

غیبت و چغلی سے بچنا: مسلمان کا ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرنا یا سننا یا کسی کی غیبت کرنا جائز نہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے: چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (بخاری، 4/115، حدیث: 6056)

ویسے تو مسلمان کے بہت سے حقوق ہیں جیسے دعوت قبول کرنا، چھینک کا جواب دینا وغیرہ اللہ تعالیٰ ہمیں سب کے حقوق پورا کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین


ہمارا پیارا دین اسلام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا درس دیتا ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ظلم و زیادتی سے منع کرتا اور مظلوم وکمزور لوگوں کی مدد کرنے کا درس دیتا ہے اسی طرح حدیث پاک کا مفہوم ہے: بہترین مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ، زبان اور فعل سے کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف نہ ہو کہ ایک مسلمان کو بلاوجہ شرعی کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچائے۔ (مسلم، ص 41، حدیث: 65) روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله ﷺ نے کہ الله تعالی قیامت کے دن فرمائے گا اے انسان میں بیمار ہوا تو نے میری مزاج پرسی نہ کی بندہ کہے گا الٰہی میں تیری عیادت کیسے کرتا تو تو جہانوں کا رب ہے فرمائے گا کیا تجھے خبر نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو تو نے اس کی بیمار پرسی نہ کی کیا تجھےخبرنہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا، اے آدمی میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے مجھے نہ کھلایا عرض کرے گا الٰہی تجھے میں کیسےکھلاتا تو تو جہانوں کا رب ہے فرمائے گا کیا تجھےعلم نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تونے اسے نہ کھلایا کیا تجھے پتہ نہیں کہ اگر تو اسے کھلاتا تو میرے پاس پاتا، اے انسان میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے نہ پلایا عرض کرے گا مولا میں تجھے کیسے پلاتا تو تو جہانوں کا رب ہے فرمائے گا تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تو نے اسے نہ پلایا اگر تو اسے پلاتا تو آج میرے پاس وہ پاتا۔ (مسلم، ص 1389، حدیث: 2569)

اس حدیث مبارکہ میں بیان فرمایا گیا ہے کہ مسلمان جب تکلیف میں ہوتا ہے تو اللہ عزوجل کے قریب ہوتا ہے جو کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کی تکلیف دور کرتا ہے کسی بھی حوالے سے کھلا کر، پلا کریاعیادت کر کے تو وہ اللہ سے ثواب حاصل کرتا ہے، حدیث پاک کا حصہ میرے پاس پاتا یعنی میرے پاس سے ثواب پاتا۔

اس سے پتا چلا کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق ہیں مختلف روایات میں مختلف حقوق بیان فرمائے گئے ہیں۔ چند حقوق ملاحظہ فرمائیں:

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله ﷺ نے: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں: (1) سلام کا جواب دینا(2)بیمارکی عیادت کرنا(3)جنازوں کے ساتھ جانا(4)دعوت قبول کرنا(5)چھینک کا جواب دینا۔ (مسلم، ص 1192، 2162)

اس حدیث مبارکہ کی رو سے جو حقوق ثابت ہوئے وہ کچھ تفصیل کے ساتھ درج ذیل ہیں:

پہلا حق: جب کوئی مسلمان سلام کرے تو اس کے سلام کا جواب دیا جائے جواب نہ دینے سے اس کی دل آزاری بھی ہوسکتی ہے۔ سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے۔

دوسرا حق: جب کوئی مسلمان بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کرے کہ یہ اس کیلئے خوشی کا باعث ہوگا۔ حدیث میں عیادت کرنے کے بہت فضائل ہیں حدیث پاک کا مفہوم ہے ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کی عیادت کرتا ہے تو لوٹنے تک جنت کے باغ میں رہتا ہے۔ (مسلم، ص 1388، حدیث:2568)

تیسرا حق: اگر کوئی مسلمان فوت ہوجائے اس کیلئے دعائے مغفرت کرے ہوسکے تو کچھ نہ کچھ ایصال ثواب بھی کرے اورجنازے میں شرکت کرے۔ جنازے میں شرکت کرنا فرض کفایہ ہے۔

چوتھا حق: اگر کوئی مسلمان دعوت کرے تو اس میں دلجوئی کی نیت سے اگر کوئی شرعی رکاوٹ نہیں تو شرکت کی جائے۔

پانچواں حق: اگر کسی کو چھینک آئے تو الحمد للہ کہے سننے والا جواب میں یرحمک اللہ کہے چھینکنے والا یہ سن کر یغفراللہ لنا ولکم کہے۔ چھینک کا جواب دینا واجب ہے۔