ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق یہ ہے کہ جب ملاقات ہو تو سلام کرے جب دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے چھینکے تو يرحمك الله کہے بیمار ہو تو عیادت کرے مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو قسم کھائے تو اس کی قسم پوری کرے نصیحت چاہے تو اچھی نصیحت کرے پیٹھ پیچھے بھی اسے برا نہ کہے جو اپنے لئے پسند کرے وہی اس کے لئے پسند کرے اس کے حق میں وہ بات بری سمجھے جو اپنے حق میں بری سمجھتا ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں: مسلمانوں کے سلسلے میں تجھ پر چار باتیں لازم ہیں: ایک یہ کہ ان میں سے نیکی کرنے والے کے ساتھ اعانت کر، برائی کرنے والے کے لئے مغفرت طلب کر بد نصیب کے لئے دعا کر اور توبہ کرنے والے کے ساتھ محبت کر۔

پہلا حق: تمام مسلمانوں کے لئے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند ہو ہر وہ بات نا پسند کرے جسے اپنے حق میں نا پسند کرتا ہو۔

نعمان بن بشیر کہتے ہیں میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: آپس میں محبت کرنے اور رحم و کرم کرنے میں مسلمان کی مثال ایسی ہے جیسے جسم کہ جب اس کا کوئی عضو دکھتا ہے تو تمام جسم بخار اور بیداری کی تکلیف برداشت کرتا ہے۔ (بخاری، 4/103، حدیث: 6011)

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک صاحب ایمان دوسرے صاحب ایمان کے لئے ایسا ہے جیسے عمارت کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط بناتا ہے۔ (بخاری، 2/127، حدیث: 2446)

دوسرا حق: یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو ایذا نہ پہنچائے نہ قول سے نہ فعل سے سرکار ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا) سے مسلمان محفوظ رہیں۔ (مسلم، ص 41، حدیث: 65)

ایک مرتبہ آپ نے ایک مقام پر کچھ افعال کی فضیلت بیان فرمائی آخر میں مخاطب سے فرمایا: اگر تم اب فضائل پر عمل نہ کر سکو تو اتنا ہی کرو کہ لوگوں کو تم سے تکلیف نہ پہنچے یہ عمل بھی ایک صدقہ ہے جسے تم اپنی طرف سے خیرات کرتے ہو۔ (بخاری، 2/150، حدیث: 2518)

ایک مرتبہ سرکار ﷺ نے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ (صحیح معنی میں) مسلمان کون ہے؟ صحابہ نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔(مسلم، ص 41، حدیث: 65)

تیسرا حق: یہ ہے کہ ہر مسلمان کے ساتھ تواضع سے پیش آئے اور تکبر اور غرور مت کرے اللہ کسی تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: اللہ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی کہ تم تواضع کرو یہاں تک کہ کوئی شخص دوسرے پر فخر نہ کرے۔ (مسلم، ص 1174، حدیث: 7210) اگر کوئی شخص فخر بھی کرے تو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے جوابی کاروائی کرنا مناسب نہیں ہے۔

چوتھا حق: یہ ہے کہ کسی مسلمان کی چغلی نہ کھائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (بخاری، 4/115، حدیث: 6056)

پانچواں حق: یہ ہے کہ اگر آپس میں رنجش پیدا ہو جائے تو تین دن سے زیادہ ملاقات ترک نہ کرے حضرت ابو ایوب انصاری آپ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے کہ وہ دونوں باہم ملیں تو ایک ادھر منہ پھیر لے تو دوسرا ادھر ان دونوں میں بہتر شخص وہ ہے جو سلام کی ابتدا کرے۔ اگر کسی بھائی سے کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو اسے معاف کر دے ترک تعلق کی نوبت اس لیے آتی ہے کہ غلطیوں سے چشم پوشی نہیں کی جاتی اور معمولی معمولی خطاؤں کو سنگین سمجھا جاتا ہے، حالانکہ حدیث میں ہے: جس نے کسی مسلمان کی غلطی معاف کی اللہ قیامت کے دن اس کی لغزشوں کو درگزر فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36، حدیث: 2199)