اسلامی تعلیمات میں تمام مسلمان ایک ملت ایک قوم کی طرح ہیں۔ شریعت اسلامیہ نے اخوت و ہمدردی کو قائم کرنے کے لیے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کئی حقوق عائد کیے ہیں۔ جن کا ادا کرنا ضروری ہے، چند حقوق بیان کیے جا رہے ہیں:

1۔ایک دوسرے سے محبت کرنا: نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: تم جنت میں داخل نہ ہو گے یہاں تک کہ ایمان لے آؤ اور تم ایمان والے نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا میں تمہیں وہ کام نہ بتاؤں کہ جس کے کرنے سے تم ایک دوسرے سے محبت کرنا شروع کر دو گے؟ تم اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ یعنی ہر مسلمان کو سلام کہا کرو۔ (مسلم، ص 51، حدیث: 194)

نیز فرمایا تم ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرو۔ اس سے تمہارے درمیان بغض و کینہ ختم ہو جائے گا۔ اور ایک دوسرے کو ھدیہ دیا کرو، اس سے تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے اور تمہارے درمیان دشمنی ختم ہو جائے گی۔ (موطا امام 2/407، حدیث: 1731)

ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کو سلام کہنے اور مصافحہ کرنے اور ہدیہ دینے سے مسلمانوں کے درمیان باہمی محبت پیدا ہوتی ہے اور بغض و عداوت کا خاتمہ ہوتا ہے۔

2۔ایک دوسرے سے ہمدردی کرنا: ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا ہمدرد ہونا چاہیے اس طرح کہ اس کی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرے اور جہاں تک ہو سکے بوقت ضرورت اس کا ساتھ دے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: جس شخص کے پاس اضافی سواری ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس سواری نہ ہو۔ اور جس کے پاس کھانے پینے کا اضافی سامان ہو وہ اسے اس آدمی کو دے دے جس کے پاس کھانے پینے کا سامان نہ ہو۔ (مسلم، ص 737، حدیث: 4517)

3۔ایک دوسرے سے خندہ پیشانی سے ملنا: ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے خندہ پیشانی سے اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو ذر کو ارشاد فرمایا تھا: تم نیکی کے کسی کام کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ تم اپنے بھائی سے ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ہی ملاقات کرو۔ (مسلم، ص 1084، حدیث: 6690)

4۔مسلمانوں کے لیے رحم دلی، نرمی اور تواضع: مسلمانوں کو ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہونا چاہیے۔ جیسا کہ صحابہ کرام کا اللہ تعالی نے یہ وصف بیان فرمایا ہے کہ وہ آپس میں رحم دل ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے سے نرمی کا برتاؤ کرنا چاہیے سختی کا نہیں۔

اللہ تعالی نے مومنوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لیے نرم اور کافروں پر سخت ہونگے۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا: کہ اے عائشہ بےشک اللہ تعالی نرم ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر ہر وہ چیز عطا کرتا ہے جو سختی وغیرہ پر عطاء نہیں کرتا۔ (بخاری، 4/379، حدیث: 6927)

اس لیے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے نرمی عاجزی اور تواضع سے پیش آنا چاہیے۔ فخر، برائی اور تکبر سے نہیں۔

5۔ مسلمانوں کے لیے غائبانہ دعا کرنا: مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمان کی غیر موجودگی میں اس کے حق میں بہتری کی دعا کرےاور اس کے لیے خیر کی دعا کرے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : کوئی بندہ مسلمان جب اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے: اور تیرے لیے بھی وہی چیز ہو جس کا تو اپنے بھائی کے لیے سوال کر رہا ہے۔ (مسلم،ص 1121، حدیث: 6927)

ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمان سے محبت،شفقت، بھلائی سے پیش آئے اور تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے لیے خیر ہی کی دعا کرنی چاہیے اس سے ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کے لیے ہمدردی و محبت پیدا ہوگی اور بغض و کینہ ختم ہو جائے گا۔ ان شاءاللہ

آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو حقوق العباد میں کوتاہی سے محفوظ فرمائے اور آپس میں محبت و ہمدردی پیدا فرمائے۔