اسلام سے پہلے جاہلیت کا دور دورہ تھا۔ ہر طرف جہالت پھیلی ہوئی تھی جب اسلام آیا تو اسلام نے ہمیں زندگی گزارنے کے سنہری اصول بھی بتائیں۔ جن پر عمل کر کے ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔اسلام میں جہاں، حقوق اللہ، پڑوسیوں کے حقوق، رشتے داروں کے حقوق، والدین کے حقوق، اساتذہ کرام کے حقوق وغیرہا بیان فرمائے وہاں ہمیں مسلمانوں کے حقوق کو ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ جس کا ہمیں قرآن و احادیث سے بخوبی پتا چلتا ہے۔

سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: مسلمان وہ ہے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (مسلم، ص 41، حدیث: 65) اسی طرح بہت سی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں جن میں مسلمانوں کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے اور بہت سی احادیث میں مسلمانوں کے حقوق ادا نہ کرنے کی وعیدات وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضور ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے ( بلا وجہ شرعی) کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی۔ ( معجم اوسط، 2/387، حدیث: 3607)

اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دینے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ پارہ 22 سورۃ الاحزاب آیت نمبر 57 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۵۷)ترجمہ کنز الایمان: بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا و آخرت میں اور ان کیلئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے: ہمارے پیارے پیارے آقا ﷺ نے کعبہ معظمہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: مومن کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے۔ ( معجم اوسط، 4/203، حدیث: 5719)

اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: بیشک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ لہذا ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ دوسرے مسلمان سے بھلائی اور خیر خواہی کا ہی سلوک کرے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: کہ سرکار کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے۔ (مسلم،ص 47، حدیث: 170) اسلام میں مسلمانوں کے حقوق کا کس قدر خیال رکھا گیا ہے اس کا اندازہ مذکورہ بالا اور درج ذیل احادیث مبارکہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے دوسرے مسلمان کے اوپر چھ حقوق ہیں (۱)جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرے (۲)جب وہ مرجائے تواس کے جنازہ پرحاضر ہو (۳) جب دعوت کرے تواس کی دعوت قبول کرے (۴)جب وہ ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے (۵)جب وہ چھینکے تو یرحمک اﷲ کہہ کر اس کی چھینک کا جواب دے (۶) اس کی غیر حاضری اور موجودگی دونوں صورتوں میں اس کی خیر خواہی کرے۔ (ترمذی، 4/338، حدیث:: 2746)

اسی طرح حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک مومن دوسرے مومن کیلئے عمارت کی طرح ہے جسکا ایک حصہ دوسرے کو تقویت دیتا ہے۔ (بخاری، 2/127، حدیث: 2446)

شرح حدیث: حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ مراۃ المناجیح میں مذکور ہ حدیث کے تحت فرماتے ہیں: یعنی مومنوں کے دنیاوی اور دینی کام ایک دوسرے سے مل جل کر مکمل ہوتے ہیں جیسے مکان کی دیوار ایک دوسرے سے مل کر مکان مکمل کرتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6/549)

یہ مثال یہی بتانے کے لیے ہے کہ مسلمانوں کے بعض کے بعض پر حقوق ہیں۔

اللہ ہمیں تمام مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ