1۔ عام مسلمین کا ایک حق عدل و انصاف سے
گواہی دینا ہے، رب فرماتا ہے: انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے حکم پر خوب
قائم ہوجاؤ۔ آیت مبارکہ میں عدل و انصاف کا حکم فرمایا گیا ہے اور واضح فرما دیا
کہ کسی قسم کی قرابت یا عداوت کا کوئی اثر تمہیں عدل سے نہ ہٹا سکے۔ عدل کا آسان
معنی یہ ہے کہ ہر حق دار کو اسکا حق دیا جائے۔
2۔ اپنے والدین سے بھلائی کے ساتھ نرمی پیش آئے الله
پاک نے اس کے بارے میں فرمایا: اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے
اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس سے
معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی یہ ہے کہ
ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو ان کیلئے باعث تکلیف ہو اور
اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان سے محبت کرے، ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے،
ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے، ان کی خدمت کیلئے اپنا
مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے، اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے۔ ان کی
وفات کے بعد ان کیلئے ایصال ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا کرے، ان کے اچھے
تعلقات کو قائم رکھے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ
گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے ساتھ اصلاح و
تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہے۔
حقوق والدین کی تفصیل جاننے کیلئے فتاویٰ رضویہ کی
24 ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ بنام
”والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق“ کامطالعہ فرمائیں۔
3۔ عام مسلمان کا حق ہے کہ اپنے قرابت والوں کا
خیال رکھے انکے حقوق کی پاسداری کرے انکی خوشی غمی کا ساتھی بنے اللہ پاک نے قرآن
مجید میں رشتہ داروں سے بھلائی کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ یاد رہے! حقوق العباد میں
سب سے مقدم ماں باپ کا حق ہے پھر دوسرے رشتے داروں کا اورپھر غیروں کا۔ غیروں میں
بے کس یتیم سب سے مقدم ہے پھر دوسرے مساکین۔
4۔ عام مسلمان کا حق ہے کہ سب لوگوں سے اچھی بات
کہے۔ اچھی بات سے مراد نیکی کی دعوت اور برائیوں سے روکنا ہے۔ نیکی کی دعوت میں اس
کے تمام طریقے داخل ہیں، جیسے بیان کرنا، درس دینا، وعظ و نصیحت کرناوغیرہ۔ نیز
اچھی بات کہنے میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، حضور پرنور ﷺ کی شان، اولیاء کے مقام
ومرتبہ کا بیان اور نیکیوں اور برائیوں کے متعلق سمجھانا سب شامل ہیں۔
5۔ ہر ایک سے کیے ہوئے وعدہ کا لحاظ رکھے اس کو
کامل کرنے کی مکمل کوشش کرے اگر وعدہ کو مکمل نہ کیا تو اسکے بارے میں قرآن پاک
میں الله پاک نے فرمایا کہ اللہ نے انجام کے طور پر ان کے دلوں میں منافقت ڈال دی۔
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد
شکنی اور وعدہ خلافی سے نفاق پیدا ہوتا ہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ ان باتوں سے
احتراز کرے اور عہد پورا کرنے اور وعدہ وفا کرنے میں پوری کوشش کرے۔ (تفسیر کبیر، 6 / 108)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: (1) جب بات کرے جھوٹ بولے۔ (2)
جب وعدہ کرے خلاف کرے۔ (3) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/ 24، حدیث: 33)