
دعا
دعو یا دعوۃ سے بنا ہے جس کا معنی بلا نا یا پکار نا ہے ۔ قرآن شریف میں لفظ دعا پانچ معانی
میں استعمال ہوا ہے :پکارنا، بلانا، مانگنا یا دعا کرنا،پوجنا یعنی معبود سمجھ کر
پکارنا ،تمنا آرزو کرنا۔اللہ پاک فرماتا ہے: وَّ الرَّسُوۡلُ یَدْعُوۡکُمْ فِیۡۤ اُخْرٰىکُمْ اور پیغمبر تم کو
تمہارے پیچھے پکارتے ہیں۔(پ4،اٰل
عمرٰن:153) دعا کے 15مقامات:حرمین شریفین میں ہرجگہ انوار و تجلیات کی چھماچھم
برسات برس رہی ہے۔ احسن الوعاء لآداب الدعاء سے دعا قبول ہونے کے پندرہ مقامات کا
ذکر کیا جاتا ہے: 1۔ حجر ِاسود 2۔بیت اللہ کے اندر 3۔جب دوران طواف وہاں سے گزر ہو۔4۔صفا۔
5۔ مروہ۔ 6 ۔مقامِ ابراہیم کے پیچھے۔7 ۔منی ۔ٰ8۔مزد لفہ خصوصا مشعر الحرام۔9۔مسجدِ
نبوی ۔10۔عرفات خصوصا موقفِ نبیِ پاک کے نزدیک۔ 11۔زم زم کے کنویں کے قریب۔12۔مقامِ
ابراہیم کے پیچھے۔ 13۔مطاف۔ 14۔ملتزم۔15 ۔مستجار ۔یا اللہ پاک! ہمیں بھی دعا کرنے
کی توفیق عطا فرما آمین

قرآن کریم کی روشنی میں دعا کی فضیلت:وَ اِذَاساَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ
الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ
یَرْشُدُوْنَترجمۂ کنزالایمان:اور
اے حبیب!جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو بیشک میں نزدیک ہوں ، میں
دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرے تو انہیں چاہئے کہ میرا
حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ ہدایت پائیں حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں
دعا کی فضیلت: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے، حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :اللہ پاک کے یہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں۔( ترمذی، سنن ابن ماجہ )حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :دعا عبادت کا مغز ہے ۔دُعا ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیاتِ کریمہ اور
احادیثِ طیبہ وارِد ہیں۔ دعا کی نہایت عظمت میں ایک حکمت یہ ہے کہ دُعا اللہ پاک سے
ہماری محبت کے اِظہار، اُس کی شانِ اُلوہیت کے حضور ہماری عبدیت کی علامت، اُس کے علم
و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اور اُس کی ذاتِ پاک پر ہمارے ایمان کا
اقرار و ثبوت ہے۔ دعا کی قبولیت کے مخصوص اوقات :دعا اللہ پاک اور بندے کے درمیان ایک
ایسا مخصوص تعلق اور مانگنے والے اور اس کے خالق کے درمیان براہِ راست رابطہ ہے جس
میں بندہ اپنے محبوب سے اپنے دل کا حال سیدھے سادہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے بندہ اپنے پروردگار سے دن یا
رات کے کسی بھی حصے میں دعا مانگ سکتا ہے کوئی خاص وقت اس مقصد کے لیے مقرر نہیں ۔
حدیث ِمبارکہ سے دعا کے لئے درج ذیل خاص اوقات ثابت ہیں: 1۔رات کے آخری حصے۔ 2۔جمعہ
کے دن میں بھی ایک قبولیت کی ساعت ہے اس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ 3۔ شب ِقدر میں
مانگی جانے والی دعا۔ 4۔اذان کے وقت کی دعا۔5۔فرض نمازوں کے بعد کی دعا۔ 6۔سجدے کی
حالت میں مانگے جانے والی دعا۔ 7۔قرآنِ مجید کی تلاوت اور ختم ِقرآن کے وقت مانگے
جانے والی دعا۔ 8۔ رمضان شریف کے مہینے میں افطار کے وقت کی دعا اسی طرح دعا کے لیے مخصوص مقامات کی بھی کوئی قید
نہیں۔ احسن الوعاء لآداب الدعا میں البتہ
دعا قبول ہونے کے مخصوص مقامات کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں سے پندرہ 15مقامات یہ ہیں1۔ مطاف 2۔
ملتزم 3۔بیت اللہ کے اندر 4۔میزابِ رحمت کے نیچے 5۔حجر ِاسود 6۔مقام ِابراہیم کے پیچھے
7صفا و مروہ 8مزدلفہ خصوصا مشعر الحرام 9۔مسجد نبوی 10۔مسجد شریف کے ستونوں کے نزدیک
11۔منٰی 12۔مواجہہ شریف۔ امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں :دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی! 13۔مسجد قبا شریف 14۔مسجد الفتح میں
خصوصا بدھ کو ظہر و عصر کے درمیان15۔ مشاہد مبارکہ۔ کسی ایک کی خاص فضیلت :مشاہد جمع ہے مشہد کی اور
مشہد کا معنی ہے حاضر ہونے کی جگہ یہاں مراد یہ ہے کہ جس جس مقام پر سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے گئے وہاں
دعا قبول ہوتی ہے اور خصوصا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بے شمار مقامات پر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف فرما ہوئے
مثلا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہکا
مقدس باغ وغیرہ۔

اللہ پاک سے خیر طلب کرنے کو دعا کہتے ہیں یعنی اپنے لیے خیر و برکت
کی طلب گار ہونا ،اللہ پاک کے حضور اپنی
تمنا اور جذبات کا اظہار کرنا اور خود کو اللہ پاک کے قریب محسوس کرنا دعا میں ہی شامل ہے۔ دعا ایک
عمدہ عبادت کے ساتھ ایک نعمت بھی ہے جسے بندہ اپنا کر سرخرو ہوتا ہے بلکہ اللہ پاک
کے مقربوں میں شمار ہوجاتا ہے ۔دعا کی فضیلت و اہمیت: دعا ایک ایسا خزانہ ہے جس کی
اہمیت اور فضیلت کے بارے میں خود آپ علیہ الصلوۃوالسلام نے ارشاد فرمایا ہےچنانچہ آپ کا ارشادِ خاص ہے:الدعاءُ
مخُّ العبادۃیعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔ (ترمذی، 5/243،
حدیث:3384)ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:الدعاء
سلاح المومن و عمادالدین و نورالسموت یعنی دعا مومن کا
ہتھیار، دین کا ستون اور آسمانوں کا نور ہے۔(
مستدرک حاکم، 2/162، حدیث: 1855) جیسے کہ حدیث سے معلوم ہواکہ دعا کتنی فضیلت کی
حامل ہے کہ خود حدیث میں ارشاد کیا گیا کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے جو ہر مسلمان مرد
اور عورت کی حفاظت اور اس کے قلب کے لئے فرحت بخش ہے لہٰذا مسلمانوں کی اس کی فضیلت کو سمجھتے ہوئے ہر گھڑی سے
فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اللہ پاک نےدعا کی
اہمیت اور اس سے حاصل ہونے والے فائدےسے مسلمانوں کو آگاہ کیا ہے چنانچہ ارشاد
فرماتا ہے:ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْترجمہ مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا۔(پارہ
24، المومن 60) ایک اور مقام پردعا نہ
مانگنے والوں سے ارشاد فرمایا: فَلَوْلَا إِذْ
جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ ترجمہ:تو نہ ہوا جب آئی تھی ان پر ہماری طرف سے سختی تو گڑگڑائے ہوتے لیکن سخت ہو گئے ہیں دل ان کے۔(پ7، الانعام 43) اس آیت ِمبارکہ میں اور
اس سے پہلے والی آیت میں دعا کی اہمیت کا احساس دلایا جا رہا ہے کہ دعا مسلمانوں
کے لیے کس قدر ضروری ہے کہ اگر کوئی دل سے
اس عبادت کو اپنائے تو فلاح پا گیا اور جس نے اس عبادت کو چھوڑ دیا دل کی سختی اس پر
لاگو ہو گی۔ پیاری بہنو! جیسے دعا اہمیت و فضلیت کے بارے میں ہم نے پڑھا اسی طرح کچھ
اور بھی اس کے متعلق پڑھتی ہیں اور وہ یہ کہ کن مقامات پر ربِّ کریم ہماری دعا مستجاب
فرماتا ہے۔قبولیتِ دعا کے پندرہ مقامات:اول:مطاف :قال الرضاء: یہ وسط ِ مسجد ِحرام
میں ایک گول قطعہ ہے سنگ ِمرمر سے مفروش یعنی وہ ٹکڑا جس پر سنگِ مرمر بچھا ہوا ہے
اور اس کے بیچ میں کعبہ معظمہ ہے یہاں طواف
کرتے ہیں۔(جواہر البیان فصل چہارم ص 75) دوم:
داخلِ بیت اللہ: بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر ۔سوم: حجر ِاسود :یہ وہ جنتی پتھر
ہے جو کعبۃ اللہ شریف کے جنوب مشرقی کونے میں واقع رکنِ اسود میں نصب ہے ،مسلمان
اسے چومتے اور استلام کر کے اپنے گناہ دھلواتے ہیں ۔چہارم: حطیم: کعبہ معظمہ کی
شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں فصیل یعنی باؤنڈری کے اندر کا حصہ حطیم کعبہ
شریف ہی کا حصہ ہے داخل ہونا ہے۔(رفیق الحرمین ص 37)پنجم:خلفِ مقامِ ابراہیم:مقام ِابراہیم کے پیچھے۔ ششم:صفا ۔ہفتم:مروہ۔
ہشتم:عرفات خصوصا موقف ِنبی ۔ نہم:رکن ِیمانی۔قال الرضا :خصوصا جبکہ طواف کرتے
وہاں گزر ہو۔ حدیث شریف میں ہے: یہاں اے اللہ پاک!میں تجھ سے دنیا آخرت میں معافی اور ہر برائی
سے عافیت کا سوال کرتا ہوں اے رب عذاب سے بچا کہے ہزار فرشتے آمین کہیں گے ۔(مسندفردوس الحدیث 7336 ج 2 ص 397)
دہم:نظر گاہِ کعبہ :جہاں کہیں ہو اور ان اماکن سے بعض میں اجابت یا بعض کے
نزدیک بعض اوقات سے خاص ہے یعنی جہاں کہیں سے کعبہ شریف نظر آئے وہ جگہ بھی مقامِ
قبولیت ہے۔امامِ اہلِ سنت رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں ارشاد فرمایا :میں کہتا ہوں :اگر
ان جگہوں میں دعا کی قبولیت کو عام کہا جائے یعنی کہ کسی خاص وقت میں مخصوص نہ کیا
جائے تو بھی بعید نہیں کیونکہ یہاں اللہ پاک کے فضل و کرم کےزیادہ موافق ہے۔ یازدہم:مسجد
ِنبوی۔ دوازدہم:اولیاء علماء کی مجالس۔اللہ پاک ہمیں تمام ہی اولیاء و علماء کی
برکتوں سے نفع پہنچائے ۔قال الرضا:رب کریم صحیح حدیث ِقدسی میں فرماتا ہے:یہ وہ لوگ
ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا۔ سیزدہم:مسجد قباء شریف ۔پانزدہم:مزار ِمطہر ابو
حنیفہ کے پاس :امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مجھے جب کوئی حاجت پیش آتی دو رکعت
نماز پڑھتا ہوں اور قبر ِامام ابو حنیفہ کے پاس جا کر دعا مانگتا ہوں اللہ پاک روا
فرماتا ہے۔ سیزدہم:مواجہہ شریف حضور سید الشافعین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں :دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی؟اقول:وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَآءُوكَ
فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ
تَوَّابًا رَحِيمًا اس پر دلیل کافی ہے۔اللہ پاک ہر طرح معاف کر سکتا ہے مگر ارشاد ہوتا
ہے کہ اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے
حضور حاضر ہوں اللہ پاک سے اور رسول ان کی بخشش چاہیں تو ضرور اللہ کو توبہ قبول
کرنے والا مہربان پائیں۔ ترغیب :پیاری بہنو! ان سے کئی معلومات پڑھنے کے بعد پتہ
چلتا ہے کہ ہمیں دعا کثرت سے مانگنی چاہیے اور قرب و راحت کے اندر اللہ کریم ہمیں
دل کی سکونی کے ساتھ دعا مانگنے والی بنائے ۔آمین

دعا اللہ پاک کی ایسی عمدہ نعمت ہے کہ مصائب و مشکلات میں اس سے بہتر اور مؤثر کوئی
چیز نہیں ۔اللہ پاک خود اس کی تعلیم فرماتا ہے ،چنانچہ ارشاد ِباری ہے :مجھ سے دعا مانگو میں
قبول کروں گا ۔(پارہ 24المومن 60) دعا مانگنے کا کوئی خاص
وقت مقرر نہیں جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے :رات دن اللہ پاک سے دعا کرتے رہو کہ دعا
مومن کا ہتھیار ہے۔(مسند ابی یعلی الحدیث 1806)البتہ بہت سی بابرکت جگہیں ہیں جہاں اللہ پاک کے فضل سے دعائیں قبول ہوتی ہیں جو کہ احادیث
و بزرگان ِدین کے قول سے ثابت ہیں ،ان میں
سے 15 مقامات قابلِ ذکر ہیں: 1۔مطاف :یہ سنگِ مرمر کا بنا گول قطعہ ہے جس کے درمیان
میں کعبہ معظمہ ہے۔ 2۔ملتزم: باب ِکعبہ اور حجر ِ اسود کے درمیان کا حصہ ہے جہاں
لوگ لپٹ لپٹ کر دعا مانگتے ہیں ۔حدیث شریف میں ہے: ملتزم ایسی جگہ ہے جہاں دعا
قبول ہوتی ہے کسی بندے نے ایسی دعا نہیں کی جو یہاں قبول نہ ہوئی ہو۔(الحصن الحصین) 3۔مقامِ ابراہیم :کئی
علماء و فقہائے کرام نے یہاں دعاقبول ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔ 4۔صفا و مروہ: صفا و مروہ پر اور ان کے درمیان سعی کرتے ہوئے
خصوصا مسعی پر۔ 5۔جہاں کہیں سے کعبۃ اللہ نظر آ جائے وہ جگہ بھی مقامِ قبولیت ہے۔
6۔عرفات: خصوصا نزدیک موقفِ نبی ۔ 7۔ مسجد ِنبوی خصوصا مواجہہ شریف کہ امام جزری رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعایہاں قبول نہیں ہوگی تو کہاں ہوگی!(الحصن الحصین)8۔جہاں ایک بار دعا قبول ہو جائے وہاں پھر دعا کرنا۔ 9۔مسجدِ فتح:
حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے تین دن پیر، منگل اور بدھ کے دن دو نمازوں کے درمیان دعا کی اور قبول
کی گئی۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہفرماتے ہیں:میں ان ساعتوں میں دعا کرتا ہوں تواجابت ضرور ہوتی ہے۔(المسنداحمد: الحدیث 14569) 10۔ایسی مساجد جن
کو سرکار علیہ السلام سے خاص نسبت ہو جیسے مسجد
غمامہ، مسجد قبلتین ،مسجد قباء وغیرہ۔ 11۔وہ تمام جگہیں جہاں نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی ظاہری حیات میں تشریف لے گئے جیسے حضرت
سلمان فارسی رضی اللہ عنہکا باغ 12۔مزارِ حضرت امام
موسی کاظم: امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں :وہ اجابتِ دعا کے لیے تریاق مجرب ہے۔(لمعات التنقیح،
باب زیارت القبور، ص137 فضائل دعا) 13۔ مزارِ امام ابو حنیفہ
کے پاس :امام شافعی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں :جب مجھے کوئی
حاجت پیش آتی ہے توقبر ِامام ابو حنیفہ کے
پاس جا کر دعا مانگتا ہوں اللہ پاک روا
فرماتا ہے۔ 14۔تربتِ غوثِ اعظم۔ 15۔اسی طرح تمام اولیاء، صلحاءومحبوبانِ خدا کی
بارگاہ میں اس کے علاوہ اولیاء اللہ و علماء کی مجالس کہ حدیثِ قدسی ہے: یہ وہ لوگ
ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا ۔(صحیح
مسلم حدیث: 2689) امامِ اہلِ سنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: آدمی اگر بلا سے پناہ
چاہتا ہے خدا پناہ دیتا ہے اور جو وہ کسی بات کی طلب کرتا ہے اپنی رحمت سے اس کو
عطا فرماتا ہے یا آخرت میں ثواب بخشتا ہے۔(فضائل دعا ص55) ترجمہ ٔکنزالایمان :دعا
قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب وہ مجھے پکارے (پ2 ، البقرۃ 186)اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں بھی ہر ساعت دعا کرنے اور اس عظیم عبادت سے
حصہ پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مختصر تمہید:دعا ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر کثرت
سے آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ وارد ہیں۔دعا کی نہایت عظمت میں ایک حکمت یہ ہے
کہ دعا اللہ پاک سے ہماری محبت کے اظہار،اس کی شانِ الوہیت کے حضور ہماری عبدیت کی
علامت،اس کے علم وقدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اوراس کی ذاتِ پاک پر
ہمارے ایمان کا اقرار و ثبوت ہے۔دعاکی عظمت پر آیاتِ کریمہ و احادیثِ مبارکہ:آیتِ مبارکہ:ارشادِ باری
ہے:وقال ربکم ادعونی استجب لکم ترجمہ:اور تمہارے رب نے فرمایا:مجھ سے دعا کرو میں
قبول کروں گا۔(المومن:60)تفسیر:اس آیت میں لفظ
ادعونی کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد دعا ہے معنی یہ ہوا کہ اے لوگو!
مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبو ل کروں گا۔ایک قول کے مطابق اس سے مراد عبادت
ہے معنی یہ ہوا کہ تم میری عبادت کرو میں
تمہیں ثواب دوں گا۔(تفسیر کبیر،13/350) احادیثِ مبارکہ:فرمانِ مصطفے ہے:1۔اللہ پاک کے نزدیک کوئی چیز دعا سے
بزرگ تر نہیں۔2۔حضور صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:دعا عبادت کا مغز ہے۔3۔آقائے دو جہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:دعا مومن کا ہتھیار ہے۔دعا قبول
ہوتی ہے:درج ذیل مقامات پر دعا قبول ہوتی ہے:1مطاف2ملتزم3داخل بیت(بیت اللہ کی عبارت کے اندر)4زیرِ
میزاب5حطیم6خلفِ مقامِ ابراہیم7حجرِ اسود8صفا9مروہ10منیٰ11جبلِ احد12مسجدِ
نبوی13مسجدِ نبوی14مشاہدِ مبارکہ15مزاراتِ بقیع و احد16مزاراتِ اولیا17مزارِ مطہر
ابوحنیفۃ کے پاس۔مختصر واقعہ:حضرت امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مجھے جب بھی کوئی حاجت
پیش آتی ہے تو میں دو رکعت نماز نفل ادا کرتا ہوں اور قبرِ امام ابو حنیفہ کے پاس
جاکر دعا کرتا ہوں تو اللہ پاک میری حاجت پوری فرمادیتا ہے۔

دعا کی اہمیت و فضیلت: اللہ پاک فرماتا ہے:مجھ سے مانگو میں قبول
فرماؤں گا ۔سرکار ِمدینہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :اللہ پاک کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بزرگ ترنہیں۔آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :دعا مسلمانوں کا ہتھیار ،
دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے۔ دعا کے بے شمار فضائل ہیں ۔اللہ پاک بندے
کی دعا سے بہت خوش ہوتا ہے اور اسے یہ پسند ہے کہ اس سے سوال کیا جائے۔ دعا سے مصیبتیں
اور بلائیں ٹل جاتی ہیں ،اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے رب سے دعا مانگیں۔ بے شک اللہ
پاک دعا مانگنے والے کی دعا قبول فرماتا
ہے۔ دعا کی قبولیت کے کئی مقامات بھی ہیں جن میں سے 15یہ ہیں: قبولیتِ دعا کے
پندرہ مقامات:1۔مطاف۔2۔ملتزم3۔مستجار4۔داخلِ بیت5۔زیر ِمیزاب6۔حطیم7۔حجرِ اسود۔8۔رکنِ
یمانی 9۔ مقامِ ابراہیم کے پیچھے۔ 10۔ چاہ ِزم زم کے پاس۔ 11۔صفا۔ 12۔ مروہ ۔ 13۔
عرفات۔ 14۔مزدلفہ۔ 15۔ منیٰ۔ ان پندرہ مقامات کے علاوہ اور بھی مقامات ہیں جہاں
دعا قبول ہوتی ہے جیسے حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ِمبارک کہ وہاں دعا
قبول ہوتی ہے۔علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ شرح مواہب میں فرماتے ہیں: وہاں اجابت مجرب ہے ۔کہتے
ہیں: سو بار سورۂ اخلاص وہاں پڑھ کر جو چاہے اللہ پاک سے مانگے حاجت پوری ہو۔ آب ِزم
زم پی کر دعا مانگنا ،یوں ہی آب ِزم زم پی کر اگر دعا مانگی جائے تو قبول ہوتی ہے۔
صحیح حدیث میں ہے: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہنے
قبلِ ظہورِ اسلام مہینہ بھر صرف آب ِزم زم پیا ،مکہ میں پوشیدہ تھے، کچھ کھانے کو
نہ ملتا ،تنہا اس مبارک پانی نے کھانے پانی دونوں کا کام دیا اور بدن نہایت ترو
تازہ اور فربہ ہو گیا ۔مجمع ِمسلمانان میں قبولیت ِدعا: اسی طرح جہاں چالیس مسلمان
جمع ہوں وہاں دعا مانگی جائے یہ تو قبول ہوتی ہے کہ جہاں چالیس مسلمان جمع ہوں ان میں
ایک ولی اللہ ضرور ہوگا ۔ ذکر ِخدا اور رسول کی مجلس میں دعا مانگنا : ذکر ِخدا
اور رسول کی مجلس میں بھی دعا مانگنے سے قبول ہوتی ہے ۔صحیح حدیث شریف میں ہے :فرشتے
ان کی دعا پر آمین کہتے ہیں۔ دعا اللہ پاک
سے دعا ہے۔ وہ ہمیں خوب خشوع و خضوع کے ساتھ دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائے اور
ہمیں اپنے پسندیدہ بندیوں میں شامل فرما لے۔آمین یا رب العالمین

چھوٹے کا اپنے بڑے سے اظہار عجز کے ساتھ مانگنا دعا کہلاتا ہے۔مشکلات
کو حل کرنے اور آفات و بلیات ٹالنے میں دعا سے زیادہ مؤثر اور بہترین کوئی چیز نہیں۔
خود اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا مفتی احمدیار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مراٰۃ المناجیح جلد 3صفحہ
314 پر حدیث ِمبارکہ دعا عبادت کا مغز ہے کےتحت فرماتے ہیں کہ دعا عبادت کا رکن ہے
جیسے مغز کے بغیر ہڈی ، گودے کے بغیر چھلکے کی کوئی قدر نہیں ایسے ہی دعا سے خالی
عبادت کی کوئی قدر نہیں ۔مزید فرماتے ہیں :عبادت نام ہے اپنی انتہائی عاجزی اور
اللہ پاک کی انتہائی عظمت کا دعا میں یہ دونوں چیزیں اعلیٰ طریقے سے موجود ہیں کہ
اس میں بندہ اقرار کرتا ہے کہ میں کچھ نہیں تو کریم ہے تو غنی ہے ۔اللہ پاک کو کچھ
مقامات زیادہ محبوب ہیں، اگر ان مقامات پر دعا مانگی جائے اور ساتھ ہی اللہ پاک پر
پختہ یقین بھی ہو تو وہ دعا ضرور مقبول ہوتی ہے جیسے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام صحابہ و اہلِ بیت علیہم
الرضوان اولیائے عظام اور سلفِ صالحین رحمۃ اللہ علیہ کے
مزارات یا وہ مکان جہاں وہ مقیم ہوں یا کوئی بھی ان سے نسبت رکھنے والی جگہ یہ سب
دعا کی مقبولیت کے مقامات ہیں۔مقبولیت ِدعا کے چند مقامات 1۔ پیارے آقا مکی مدنی
مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم کی قبرِ انور:اس مقام پر دن رات رحمتوں ،برکتوں اور تجلیات کا نزول
ہوتا ہے اور غلاموں کی مرادیں بھر لائی جاتی ہیں۔2۔ حجر ِاسود :خانہ کعبہ کی دیوار
میں جو پتھر نصب ہے نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے اسے بوسہ دیا۔3۔کعبہ معظمہ۔ 4۔حدودِ حرم ِکعبہ:خانہ کعبہ کے چاروں
اطراف میں چند کلو میٹر علاقہ 5۔مقام ِابراہیم:پتھر جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم
علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی
6۔حطیم : جو کعبہ شریف کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل ہے اس باؤنڈری کے
اندر داخل ہونا عین کعبۃ اللہ میں داخل ہونا ہے۔ 7۔میزابِ رحمت کے نیچے۔ 8۔مسجد ِنبوی
شریف کے ستونوں کے نزدیک۔ 9۔ملتزم: رکنِ اسود اور بابِ کعبہ کی درمیانی دیوار۔ 10۔کوہِ
صفا ،کوہِ مروہ اور ان کے درمیان والی جگہ۔ 11۔بیرِ زم زم: مکہ معظمہ کا وہ مقدس کنواں جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بچپن شریف میں آپ کے ننھے ننھے مبارک قدموں کی
رگڑ سے جاری ہوا۔(رفیق الحرمین صفحہ 62) 12۔مستجاب: رکنِ یمانی
اور رکن ِاسود کے بیچ جنوبی دیوار یہاں ستر ہزار فرشتے دعا پر آمین کہنے کے لیے
مقرر ہیں۔(رفیق الحرمین، صفحہ 61) 13۔غار حرا :وہ غار جہاں
پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نبوت سے پہلے
کئی دن اور ہفتے قیام فرمایا ۔14۔ اولیاء و علماء کی مجالس: حدیثِ قدسی ہے: یہ وہ
لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا۔ 15۔محراب ِمریم :مکان ِاستجابت
ِدعا یعنی جہاں ایک مرتبہ دعا قبول ہو
وہاں پھر دعا کریں اس کے متعلق ایک خاص واقعہ یہ ہے کہ جس طرح حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہُ عنہا پر فضلِ اعظم ربِّ اکرم
اور بے فصل کے میوے انہیں ملنا دیکھ کر وہی اپنے لیے فرزند عطا ہونے کی دعا فرمائی
اس کو اللہ کریم نے اپنے مبارک کلام قرآنِ مجید میں خوبصورت الفاظ میں بیان فرمایا:
ترجمۂ کنزالایمان :یہاں پکارا زکریا نے اپنے رب کو یعنی دعا مانگی(ال عمران آیت 38)ان کی دعا ایسی مقبول ہوئی
کہ ایسا عظیم بیٹا یحی عطا ہوا جو صالحین میں سے ہوا اور اس بیٹے کی تعریف قرآنِ
مجید میں اس طرح فرمائی: ترجمۂ کنزالایمان: بے شک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا
ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمے کی تصدیق کرے گا اور وہ سردار ہوگا اور ہمیشہ
عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے نبی ہوگا۔(
سورۃ آیت 39) (تفسیر صراط الجنان جلد 1
صفحہ 469 تا 472 پر بیان کی گئی تفسیرکا خلاصہ ) ان
کے علاوہ مسجد ِقباء شریف،مواجہہ شریف،مزارِ مبارک حضرت امام موسیٰ کاظم ،تربتِ
غوثِ اعظم قبولیت ِدعا کے مقامات ہیں اور کئی مقامات جن کا علمائے کرام نے تعین
فرمایاہے۔

سرکار
ِدو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
فرمانِ عالیشان ہے :الدُّعَاءُ
مُخُّ الْعِبَادَیعنی
دعا عبادت کا مغز ہے۔(مشکوٰۃ شریف حدیث نمبر 2230)
اس حدیث کی شرح میں حکیم الامت حضرتِ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دعا عبادت کا رکنِ
اعلیٰ ہے جیسے مغز کے بغیر ہڈی کی،گودے کے بغیر چھلکے کی کوئی قدر نہیں ایسے ہی
دعا سے خالی عبادت کی کوئی قدر نہیں۔ رب کریم مانگنے کو پسند فرماتا ہے جیسا کہ مشکوۃ شریف،حدیث نمبر 2232 میں
ہے:مَنْ فُتِحَ
لَهُ مِنْكُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ وَمَا سُئِلَ
اللَّهُ شَيْئًا يَعْنِی أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ الْعَافِيَةَیعنی تم
میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھولا
جائے تو اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔عافیت سے بڑھ کر کوئی کیسی
چیز اﷲ پاک سے نہ مانگی گئی ہو جو اسے زیادہ
پیاری ہو۔ اس حدیثِ پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے
ہیں:جسے ہر وقت ہر حال میں دعائیں مانگنے کی توفیق ملے تو یہ اس کی علامت ہے کہ اس
کے لیے رب کریم نے رحمت کے دروازے کھول دیئے ہیں۔اس میں اشارۃً فرمایا گیا کہ دعا
کی طرف دل کا راغب ہونا پھر دعا کے لیے اچھے الفاظ مل جانا رب کریم ہی کے کرم سے
ہے۔ جب وہ کچھ دینا چاہتا ہے تو ہمیں مانگنے کی توفیق بخشتا ہے۔
مری
طلب بھی تمہارےکرم کاصدقہ ہے قدم
یہ اٹھتےنہیں ہیں اٹھائےجاتےہیں
امام
ِاہل ِسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ
اللہ علیہ کے نزدیک چوالیس (44) مقاماتِ
مقدسہ ایسے ہیں جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ ان میں سے15
مقامات درج ذیل ہیں: (1)مَطاف:یہ
وسط ِمسجد الحرام شریف میں ایک گول قطعہ ہے،سنگ ِمرمر سے مَفْرُوش(یعنی
زمین کا وہ ٹکڑا جس پر سنگِ مرمر بچھا ہوا ہے)اس کے بیچ میں کعبہ معظمہ ہے یہاں
طواف کرتے ہیں۔(2)مُلتزَم:یہ
کعبہ معظمہ کی دیوارِ شرقی کے پارہ جنوبی کا نام ہے، جو درمیان درِ کعبہ وسنگِ
اَسود واقع ہے، یہاں لپٹ کر دعا کرتے ہیں۔(3) صفا (4)مروہ(5)عرفات،
خصوصاً نزدِموقفِ نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم(6)مکانِ
استجابتِ دعا،جہاں ایک مرتبہ دعا قبول ہو وہاں پھر دعا کرے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے: (ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا
رَبَّہ)
کہ جس طرح زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی
اللہُ عنہا
پر فضلِ اعظم ربِّ اکرم اور بے فصل کے میوے اُنہیں ملنا دیکھ کر وہیں اپنے لیے
فرزند عطا ہونے کی دعا کی۔(7)اولیاء
وعلماء کی مجالس: رب کریم صحیح حدیثِ قدسی
میں فرماتا ہے:ھُمُ
الْقَوْمُ لَا یَشْقٰی بِھِمْ جَلِیْسُھُمْ یعنی یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے پا س بیٹھنے والا
بدبخت نہیں رہتا۔ اللہ پاک ہمیں تمام ہی اولیاء وعلماء کی برکتوں سے نفع پہنچائے۔(8)مواجہہ
شریفہ حضورسَیِّدُ الشَّافِعِین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کہ امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی!(9) مسجد
اقدس کے ستونوں کے نزدیک(10)مسجد
قبا شریف(11)جبل
اُحُد شریف (یعنی
اُحُد پہاڑ)(12) مزاراتِ
بقیع و اُحُد(13)مزارِ
مُطَہَّر ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس۔ حضرت امام شافعی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے
ہیں:مجھے جب کوئی حاجت پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھتا ہوں اور قبرِ امام ابو حنیفہ کے پاس جا کر دعا
مانگتا ہوں، اللہ پاک رَوا(پوری)فرماتاہے۔(14)تربتِ
سراپا برکت حضور غوثِ اعظم (15) تمام
اولیاء وصلحاء ومحبوبانِ خدا کی بارگاہیں، خانقاہی آرامگاہیں۔(ماخوذ
از: احسن الوعاء لآداب الدعا،لامام احمد
رضا خان۔ ص 128-142)اللہ
پا ک ہمیں کثرت سے دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔ جب بندہ دعا کرتا ہے
تو اللہ پاکلَبَّیْکَ
عَبْدِیْ
فرماتا ہے۔(مسند
الفردوس، باب الالف، 1/286،
الحدیث: 1122)الٰہی!
صدقہ اپنے محبوبوں کا ہمیں دنیا وآخرت وقبر وحشر میں اپنے محبوبوں کے برکاتِ بے پایاں
سے بہر ہ مند فرما۔ آمین۔
لاج
رکھ میرے دستِ دعا کی مرے
مولا تو خیرات دے دے
اپنی
رحمت کی اپنی عطا کی مرے
مولا تو خیرات دے دے

دعا کا لغوی معنی ندا کرنے اور
پکارنے کے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں اللہ
پاک سے خیر یا بھلائی طلب کرنے کو دعاکہتے ہیں ۔دعا مسلمان کی زندگی کا ایک
بہت ہی خوبصورت اور تسکین آمیز پہلو ہونے کے ساتھ ساتھ شرعی اعتبار سے بہت ہی
اہمیت کا حامل بھی ہے۔ رب العزت اپنے پیارے کلام قرآن ِمجید میں خود دعا کرنے کا
حکم ارشاد فرماتا ہے۔چنانچہ پارہ 24 سورۃالمؤمن
کی آیت نمبر 60 میں ہے:ادعونی استجب لکمترجمہ: مجھ سے دعا مانگومیں قبول فرماؤں گا۔
جبکہ حدیثِ مبارکہ میں فرمایا :الدعاء
صلاح المؤمنیعنی دعا مومن کا ہتھیار ہے۔( المستدرک ج2 حدیث 1255)اکثر ہم یہ سوال سنتی ہیں کہ دعا کیسے ،کہاں اور کب
قبول ہو؟ ہمارے ذہن میں بھی کئی بار یہ سوال آتے ہیں۔دعا ہماری شریعت کا بہت اہم
پہلو ہے جس کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ۔علمائے
کرام نے اس بارے میں کئی ابواب اور موضوعات باندھے ہیں انہی میں ایک موضوع قبولیتِ دعا کے مقامات بھی ہے ۔کئی مقامات اس دنیا میں ایسے ہیں جو ربِّ
کائنات کی بارگاہ میں محبوبیت و مقبولیت کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ ان میں اکثر
مقامات کسی نہ کسی محبوبِ بارگاہ ِالٰہی سے منسوب ہوتے ہیں پھر یہ مقامات بھی وہ
درجہ پاتے ہیں کہ قیامت تک کے لیے ان جگہوں پر مانگی جانے والی دعاؤں کو قبولیت کا
شرف مل جاتا ہے ۔آج ایسے ہی عشق و محبت اور کیف و مستی سے بھر پور یادِ خدا و
مصطفیٰ سے لبریز دعا کی قبولیت کے کچھ مقامات
کے بارے میں جانتی ہیں ۔سب سےپہلے اپنے تصور کو سوئے حرم پرواز کرنے دیجئے اور
چلیے حرمِ کعبہ میں جس کا چپہ چپہ قبولیتِ دعا کا مرکز ہےجن میں سےچند کا مختصر ذکر درج ذیل ہے :1-مطاف:وہ
گولائی میں بنا ہوا احاطہ جس میں کعبہ معظمہ کا طواف کیا جاتا ہے۔2۔ ملتزم: باب ِکعبہ و حجرِ اسود کا درمیانی حصہ
جس سے لپٹ کر دعا مانگتے ہیں۔حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :میں جب چاہوں دیکھ لوں جبریل علیہ السلام ملتزم سے لپٹا ہوا کہہ رہا ہے: یَا
وَاجِدُ یَا مَاجِدُ لَا تُزِلْ عَنِّيْ نِعْمَۃً أَنْعَمْتَھَا عَلَيَّ جب جبریلِ امین علیہ السلام اس مبارک مقام پر دعا فرما رہے ہیں تو ہمارے لیے کیوں
نہ مقامِ قبولیت ہو گا کہ وہ پروردگار رجوع لانے والے گناہ گاروں پر زیادہ مہربان
ہے ۔3۔مستجار:رکنِ یمانی اوردرمسدود کا درمیانی حصہ۔
مُستجار و مُستجاب و بیرِ زم زم اور مَطاف اور حَطیمِ ِپاک کے دونوں
کَناروں کو سلام
4۔کعبہ معظمہ کا اندرونی حصہ۔5۔کعبہ
شریف کے پرنالے کی نیچے زیرِ میزاب۔
مانگی ہیں میں نے جتنی دعائیں منظور ہوں گی مقبول ہوں گی
میزابِ رحمت ہےمیرے سر پر اللہ ُاکبر اللہُ اکبر
6-حطیم:کعبہ کے گرد مشرقی دیوار
کے ساتھ بنی ہوئی نصف دائروی شکل کی باؤنڈری یہ کعبہ کا ہی حصہ ہے اس میں داخل
ہونا عین کعبہ میں داخل ہو نا ہی ہے۔7-حجرِ اسود:
حجرِ اسود، باب و میزاب و مقام و مُلتَزم اور غلافِ کعبہ کے رنگیں نظاروں
کو سلام
8-رکن ِیمانی: حدیثِ پاک میں ہے:یہاںاَللّٰھُمَّ
إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِي الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ
رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا
عَذَابَ النَّارِکہے،ہزار فرشتے آمین کہیں گے۔
( ابن ماجہ)8۔مقامِ ابراہیم کے پیچھے۔9۔ زم
زم کے قریب۔10۔صفا و مروہ کی سعی کی جگہ مسعی خصوصا میلین اخضر ین کے درمیان۔11۔عرفات خصوصاً وہ جگہ جہاں حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے وقوف فرمایا۔12۔مزدلفہ خصوصاً مشعر الحرام جبلِ قزح
کے اوپر۔ 13-تینوں جمرات کے قریب۔14-جہاں کہیں سے کعبہ نظر آئے وہ سب جگہیں قبولیت
کے مقامات ہیں۔اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ کا یہی موقف ہے۔15-عشاق کے دلوں کی دھڑکن مطلوب
و مقصودِ عاشقاں وسببِ راحت و تسکینِ دل و جاں مواجہ اقدس حضور سید المرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کہ سب سے بڑا مقامِ قبولیت ہے جس پر آیت ِ قرآنی شاہد
ہے: وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ
فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ
تَوَّابًا رَّحِیْمًا وہ مالکِ کائنات جیسے چاہے،جس کی
چاہے دعا قبول فرما سکتا ہے معاف کر سکتا ہے مگر ارشاد ہوتا ہے : اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں ،تیرے حضور حاضر ہوں
اور اللہ سے معافی مانگیں اور رسول ان کی بخشش چاہے تو ضرور اللہ کو توبہ قبول
کرنے والا مہربان پائیں ۔ (پ5، النساء : 64)
واں مطیعوں کا جگر خوف سے پانی پایا یاں سِیہ کاروں کا دامن
پہ مچلنا دیکھو
مہرِ مادر کا مزہ دیتی ہے آغوشِ حطیم جن پہ ماں باپ فدا یاں
کرم ان کا دیکھو
بے نیازی سے وہاں کانپتی پائی طاعت جوشِ رحمت پہ یہاں ناز
گنہ کا دیکھو
ربِّ کریم سے دعا ہے بار بار ان مقامات کے جلوے ہمارے سوئے نصیبوں
کو بیدار کرتے رہیں اورہماری خاک جنت البقیع کی خاک میں مل کر ہمیشہ کے لیے امر ہو
جائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
چلو
چوکھٹ پہ ان کی رکھ کے سرقربان ہو جائیں حیاتِ
جاوِدانی پائیں گی مر کر مدینے میں

ارشادِ
ربَّانی ہے:ترجمۂ
کنزالعرفان:اور اے حبیب !تم سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو
بیشک میں نزدیک ہوں، میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔( پارہ 2، سورہ بقرہ، آیت 186)اسی طرح
دعا کی قبولیت کے لئے کسی وقت اور مکان کی قید نہیں، البتہ جس طرح کچھ ماہ، کچھ دن،
اور کچھ راتیں افضل ہیں، اسی طرح کچھ مقام افضل ہیں، جن میں سے 15 مقامات درج ذیل
ہیں۔ 1۔بیت اللہ شریف کہ یہاں کی ایک نیکی ایک لاکھ نیکی کے برابر ہے۔(ترمذی)2۔بیت المقدس کہ ایک نیکی پچاس
ہزار نیکیوں کے برابر ہے۔(ابوداؤد)3۔ مسجدِ
نبوی۔ 4۔ریاض الجنۃ،جہاں ایک دعا پچاس ہزار دعاؤں کے برابر شمار ہوتی ہے۔5۔غارِ
حرا اور جبلِ حرا کہ ظہر کے وقت دعا کرنے والے کی دعا قبول ہوتی ہے اور آواز دی
جاتی ہے کہ جو ہم سے دعا کرتا ہے، ہم اس کی دعا قبول کرتے ہیں۔(مواہب اللدنیہ، جلد 1، صفحہ 108 ملتقضا)6۔مطاف۔7۔ملتزم۔8۔بیت اللہ کے اندر۔ 9۔ صفا و مروہ۔10۔زم زم کے کنویں کے قریب کہ یہ معجزہ
حضرت ہاجرہ رضی
اللہُ عنہا کی دعا کی قبولیت میں تاقیامت کے لئے اللہ پاک کی نشانیوں میں سے ہے۔11۔میزاب ِرحمت کے نیچے۔12۔عرفات،
خصوصاً موقف ِنبی ِپاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔13۔مواجہہ شریف: امام ابن الجزری
رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہا ں قبول ہوگی!(حصن حصین، صفحہ31)14۔جبلِ احد شریف۔15۔مقامِ
ابراہیم کے پاس کہ اس مقام پر وہ جنتی پتھر ہے، جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر فرمائی اور آپ کے ذریعے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم مبعوث فرمائے۔ مکی و مدنی آقا،محمد عربی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ ذی وقار ہے:میں جدّ
الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کی دُعا ہوں۔ (المستدرک الحاکم،ج2،ص453) اس سے
ثابت ہوا کہ جس چیز کو اللہ پاک کے پیاروں سے نسبت نصیب ہو جائے،
وہ عظمت و بزرگی والی ہو جاتی ہے۔ اس دورِ
پر فتن میں اولیاءاللہ کے دَر وہ مقام ہیں جہاں پر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ قرآنِ پاک میں حضرت ذکریا علیہ السلام نے ایک ولیہ حضرت
مریم رضی
اللہُ عنہا کی نماز پڑھنے کی جگہ پر بے موسم پھل دیکھ کر دعا مانگی، وہیں
حضرت ذکریا علیہ السلام نے اپنے ربّ سے دعا مانگی، عرض کی:اے میرے ربّ! مجھے اپنی
بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے۔(کنزالعرفان، آل عمران، آیت 38)اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارے آقا و مولا، احمدِ مجتبیٰ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مقامِ محمود عطا فرما اور ہم
گنہگارِ اُمت کو شفاعت کُبریٰ سے فیض یاب فرما۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

دعا اللہ رب
العزت سے مناجات
کرنے، اس کی قربت حاصل کرنے، ا س کے فضل و انعام کی مستحق ہونے اور
بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت ہی آسان اور مجرب نسخہ ہے۔ اسی طرح دعا
ہمارے پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی متواتر سنت،اللہ پاک کے پیارے
بندوں کی عادت، درحقیقت عبادت بلکہ مغزِ عبادت اورگنہگار بندوں کے حق میں اللہ پاک کی طرف
سے بہت بڑی سعادت ہے۔دعا کی اہمیت:دعا کی اہمیت کے بارے میں مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ فضائلِ
دُعا میں ارشاد فرماتے ہیں: اے عزیز!دعا ایک عجیب نعمت اور عمدہ دولت ہے کہ
پروردگار نے اپنے بندوں کو کرامت فرمائی اور ان کو تعلیم کی، حل مشکلات میں اس سے
زیادہ کوئی چیز اثر نہیں رکھتی اور دفعِ بلا وآفت میں کوئی بات اس سے بہتر نہیں۔دعا کی اہمیت کا
اندازہ خود قرآنِ پاک میں اللہ پاک کے اس ارشاد
سے لگایا جا سکتا ہے:اللہ پاک قرآنِ
پاک میں ارشاد فرماتا ہے:مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا، جو لوگ میری عبادت سے
تکبر کرتے ہیں، عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہو کر۔میں دعا مانگنے والے کی دعا
قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارے۔میں اس کام کے لئے ہوں، یعنی تمہاری شفاعت میرے
ذمہ ہے۔دعاایک ایسی عبادت ہے، جو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ گویا بندہ اللہ پاک سے ہم کلام ہے۔ دعا کے ذریعے ہی بندہ اللہ پاک کی بارگاہ
میں اپنی حاجات و ضروریات پیش کرتا ہے۔یہ بندے کو اپنے رب کریم کے حضور عاجز ی کرواتی
اور اس کی عظمتوں کا کلمہ پڑھواتی ہے۔دعا کی نیتیں:دعا اتنی اہم عبادت ہے تو اس سے
پہلے نیتیں بھی کر لینی چاہئیں کہ بغیر کسی نیت کے کسی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا،
جتنی اچھی نیتیں زیادہ ہوں گی، اتنا ثواب بھی زیادہ ملے گا، دعا مانگنے کی چند نیتیں
ملاحظہ کیجئے۔1۔اللہ پاک کی رضا اور ثواب کمانے کے لئے دعا کریں گی۔2۔احادیث ِمبارکہ
میں بیان کردہ دعا کے فضائل پائیں گی۔3۔دکھلاوے کے رونے سے پرہیز کریں گی۔4۔دعا میں
خشوع و خضوع پیدا کرنے کی کوشش کریں گی۔5۔عبادت سمجھ کر اتباعِ سنت میں دعا مانگیں
گی۔دعا کے آداب:دعا کی اہمیت و فضیلت کے پیشِ نظر اس کے آداب کا جاننا اور دورانِ
دعا انہیں بجالانا ضروری ہے، ہم دیکھتی ہیں کہ انسان کو جب کسی عہدہ داریا بادشاہ
سے کوئی غرض یا حاجت ہو تو انتہائی ادب و احترام کے ساتھ اس کو اپنی درخواست پیش کرتا ہے تو جب دنیاوی بادشاہوں اور عہدہ داروں کے پاس جانے کے آداب
بجالانے کا یہ عالم ہے تو اللہ پاک جو
بادشاہوں کا بادشاہ ہے، اس کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرنے میں کس قدر اہتمام
ہونا چاہئے۔علمائے کرام دعا کے کچھ آداب بیان فرماتے ہیں:باطہارت ہو کر، قبلہ رو
ہوکر، مکمل توجہ کے ساتھ دعا کرے، ہاتھوں کوآسمان کی طرف اٹھائے اور اپنی دعاؤں میں
مسلمانوں کو شامل کرے، دعا کے اوّل و آخر درود پڑھے۔دعا میں ہاتھ اٹھانے کا طریقہ:حضرت اسماعیل حقی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:افضل یہ ہے کہ دعا میں
دونوں ہاتھوں کو پھیلائے اور ان کے درمیان فاصلہ رکھے،اگرچہ قلیل ہو،ایک ہاتھ کو
دوسرے پر نہ چڑھائے،۔امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہمُ العالیہ دعا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ اٹھانے کے آداب بیان فرماتے ہیں:دعا
کے آداب میں سے ہے کہ جب بھی دعا مانگیں،نگاہیں نیچی رکھیے، ورنہ نظر کمزور ہونے
کا اندیشہ ہے،۔ دعا کے لئے دونوں ہاتھ اس طرح اٹھائیے کہ سینے کی سیدھ میں یا کندھوں
کی سیدھ میں یا چہرے کی سیدھ میں یا اتنے بلند ہوجائیں کہ بغلوں کی سفیدی نظر
آئے، ان صورتوں میں ہتھیلیاں آسمان کی طرف
پھیلی ہوں کہ دعا کا قبلہ آسمان ہے۔قبولیت دعا کے مقامات:1۔قبولیت دعا کے بے شمار
مقامات ہیں۔حضرت علامہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:جس مبارک مقام پر حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم کی ولادت ہوئی،اس مقام پر دعا قبول ہوتی ہے۔2۔جس جگہ
رحمتِ الٰہی کا نزول ہو، وہاں دعا مانگنی چاہئے۔3۔علمائےکرام نے اس جگہ کو مقبولیت
کے مقامات میں شمار کیا، جہاں کسی کی دعا قبول ہوئی ہو،جہاں علمائےکرام، اولیائے
کرام کا وجود ہو یا وہ رہے ہوں، وہاں دعا
کرنی چاہئے۔4۔حرمین شریفین میں ہر جگہ انوار و تجلیات کی برسات ہوتی ہے، وہاں پر
بعض مقامات ایسے ہیں جہاں دعا قبول ہوتی ہے، وہ یہ ہیں:1۔مطاف ۔2۔ملتزم۔3۔بیت
اللہ کے اندر 4۔عرفات۔5۔مسجد قباء۔6۔مواجہہ شریف۔7۔ مسجدِ نبوی
کے ستونوں کے نزدیک۔8۔جبل احد۔9۔منبر اطہر کے پاس۔10۔مسجد قباء شریف۔11۔جنت البقیع۔12۔زم
زم کے کنویں کے قریب۔13۔مقامِ ابراہیم کے پیچھے۔14۔حطیم۔15۔میزابِ رحمت۔دعا کے
فائدے:دعا کے بے شمار فائدے ہیں۔ مولانا نقی علی خان رحمۃ
اللہ علیہ فضائلِ دُعا میں دعا کے فائدے بیان
کرتے ہوئے فرماتے ہیں:1۔دعا کرنے سے بندہ عابدوں کے گروہ میں داخل ہوجاتا ہے، کیونکہ
دعا عبادت کا مغز ہے۔2۔دعا سے آفات و بلائیں دور ہوتی ہیں اور مقصود حاصل ہوتا ہے۔3۔جو شخص
دعا کرتا ہے وہ اپنے عجز و اختیار کا اقرار اور اپنے پروردگار کے کرم و قدرت کا
اعتراف کرتا ہے۔4۔مشکلات کو حل کرنے میں دعا سے زیادہ اثر کرنے والی اور آفات و بلیات
کوٹالنے میں دعا سے بہترین کوئی چیز نہیں۔ پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:دعا بندے کی تین
باتوں سے خالی نہیں ہوتی، اس کا گناہ بخش
دیا جاتا ہے یا اسے دنیا میں فائدہ حاصل ہوتا ہے یا اس کے لئے آخرت میں بھلائی جمع
کی جاتی ہے۔ جب بندہ اپنی ان دعاؤں کا ثواب دیکھے گا، جو دنیا میں قبول نہ ہوئی تھیں
تو دعا کرے گا کہ کاش! میری دنیا میں کوئی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی اورسب یہیں کے
واسطے جمع رہتیں۔اللہ
پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں
بھی دعا کے آداب بجالاتے ہوئے دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورجو ہمارے حق میں
بہتر ہے وہ عطا کرے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

اللہ پاک اپنے بندوں پر
لا احصی نوازشات کی۔ ان ہی نوازشات میں سے ایک یہ ہے کہ بندہ جب صعوبتیں
برداشت کر رہا ہو، جب اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے، تو فرمایا غمگین نہ ہو، نہ
آنسوؤں کا دریا بہا، بلکہ تو مجھ سے دعا کر ! میں تیری دعا پر اجابت کا سہرا سجاؤنگا۔ جیسا کہ
اللہ پاک پارہ 24 سورۃ المؤمن آیت نمبر 60 میں فرماتا ہے : وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ
اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-، ترجمہ کنزالعرفان : اور تمہارے
رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ۔(پ 24، المؤمن:60)اور
حضور ارشاد فرماتے ہیں : (1) عن
أنس بن مالك أكثِرْ من الدعاءِ، فإنَّ الدعاءَ يَردُّ القضاءَ المبْرَمَ. ترجمہ : کثرت سے دعا کروں بیشک دعا فضاء مبرم ٹالتی ہےاور
اگر دعا ان امکنہ (جگہوں) میں کی جائے جہاں پر اللہ کے محبوب کے قدم رنجا ہوئے ہو تو وہاں دعا کرنا اجابت کو اور قریب کر دیتا
ہے انہی جگہوں میں سے بعض کے نام رقم طراز ہیں تاکہ اگر وہی جانے کا شرف حاصل ہو
تو دعا کر کے اس مقام کے برکت سے اپنی دعا کو اجابت کے قبول کریں۔
(1) مطاف: اعلی حضرت فرماتے ہیں :
وسط مسجد الحرام شریف میں ایک گول قطعہ(ٹکرا) ہے ، سنگ مرمر سے مفروش (بچھا ہوا
ہے) اس کے بیچ میں کعبہ معظمہ ہے جہاں طواف کرتے ہیں ، زمانہ اقدس حضور سید عالم
صلی اللہ تعالی علی وسلم میں مسجد اسی قدر تھی ۔(فضائل دعا ،ص 128)
(2)ملتزم: اعلی حضرت کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ: ملتزم وہ مقام ہے جو کعبۃ اللہ شریف کی مشرقی دیوار کے جنوبی حصہ میں حجر
اسود اور باب کعبہ کے درمیان واقع ہے یہی وہ مقام ہے جہاں لوگ لپٹ لپٹ کر دعائیں
مانگتے ہیں ۔ (فضائل دعا ص 128)
(3)داخل بیت اللہ (بیت اللہ کے اندر) (4)زیر میزاب رحمت (میزاب رحمت کے نیچے)۔عاشق اعلی حضرت امیر اہلسنت
مدظلہ العالی اپنی مایہ ناز تالیف رفیق الحرمین میں ارشاد فر ماتے ہیں : میزاب
رحمت سونے کا پرنالہ یہ رکن عراقی و شامی کی شمالی دیوار کی چھت پر نصب ہے ، اس سے
بارش کا پانی حطیم میں نچھاور ہوتا ہے ۔(رفیق الحرمین ص 37)
(5)حطیم :کعبہ معظمہ کی شمالی
دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں فصیل ( یعنی بائونڈری ) کے اندر کا حصہ۔ حطیم
کعبہ شریف ہی کا حصہ ہے اور اس میں داخل ہونا عین کعبۃ اللہ شریف میں داخل ہونا ہے
۔ ( رفیق الحرمین ص 37 )
(6)حجر اسود:یہ وہ جنتی پتھر ہے
جو کعبۃ اللہ شریف کے جنوب مشرقی کونے میں واقع رکن اسود میں نصب ہے ، مسلمان اسے
چومتے اور استلام کر کے اپنے گناہ دھلواتے ہیں ۔
(7)خلف مقام ابراہیم(فضائل دعا ص
131) (8)چاہ زمزم کے پاس(فضائل دعا ص 131) (9)صفا و مروہ نیز مسعی: مقام سعی یعنی صفا و مروہ کے درمیان کا راستہ ،
خصوصاً جب دونوں سبز نشانوں کے درمیان پہنچے کہ وہ بھی قبولیت دعا کا مقام ہے
۔(فضائل دعا ص 132)
(10)عرفات،منی،مزدلفہ،جمرات ثلاثہ:منی
اور مکہ کے بیچ میں تین ستون بنے ہیں ان کو جمرہ کہتے ہیں پہلامنی سے قریب جمرہ
اولی کہلاتا ہے اور بیچ کا جمرہ وسطی اور اخیر کا مکہ معظمہ سے قریب ہے جمرة
العقبہ کہلاتا ہے (فضائل دعا ص 132)(11) مسجد نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(فضائل دعا ص 133)
(12) اولیاء و علماء کی مجالس بھی
مکان اجابت ہے ۔اعلی حضرت فضائل دعا میں فرماتے ہیں کہ : رب عز وجل صحیح حدیث قدسی
میں فرماتا ہے : (هم القوم لا يشقى بهم جليسهم )یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بد بخت نہیں رہتا ۔(فضائل دعا ص
134)
(13) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مواجہ شریف بھی قبول
دعا کی جگہ ہے۔امام ابن الجزری مواجہ شریف کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: دعا یہاں
قبول نہیں ہوگی تو کہا ہوگی۔(فضائل دعا ص 134)
(14)مزارِ امام اعظم و مزارِ امام
کاظم و مزارِ معروف کرخی کے پاس ۔حضرت امام شافعی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں : مجھے
جب کوئی حاجت پیش آتی ہے دو رکعت نماز پڑھتا اور قبر امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ
کے پاس جا کر دعا مانگتا ہوں ، اللہ پاک روا ( پوری )فرماتا ہے۔(فضائل دعا ص 136)امام
شافعی قدس سرہ فرماتے ہیں : وہ یعنی مزار
امام موسیٰ کاظم)استجابت دعا کے لئے تریاق مجرب ہے ۔ ( یعنی دعا کے قبول ہونے میں
نہایت تجربہ شدہ عمل ہے )۔(فضائل دعا ص 138(علامہ زرقالی شرح مواہب میں فرماتے ہیں : وہاں یعنی مزار
معروف کرخی) اجابت مجرب ہے ۔ کہتے ہیں سو بار سورہ اخلاص وہاں پڑھ کر جو چاہے اللہ
پاک سے مانگے ، حاجت پوری ہو ۔ (فضائل دعا ص 138) (15) تربت سراپا رحمت غوث اعظم
دستگیر و خواجہ خواجگان خواجہ ہند خواجہ غریب نواز (فضائل دعا ص 138)
اگر کوئی مصیبت آ جائے یا کوئی مسائل پیش ہو تو دڑیے نہیں
بلکہ میرا مشورہ ہے کہ حضور اور محبوبان خدا کے وسیلہ سے ان مقامات میں سے جو بھی
میسر ہو وہی جا کر گڑگڑا کر اللہ کے بارگاہ میں اپنے دست فقیرانہ اور اپنی خالی
جھولی کو پھیلا کر رب سے مانگیے ان شاء اللہ ضرور رب ہمارے دست کی لاچ رکھےگا اور
ہماری خالی جھولی کو اللہ بھر دے گا۔