
دعا
اللہ پاک سے مناجات کرنے ، اس کی قربت حاصل کرنے ، اس کے فضل وانعام کے مستحق ہونے
اور بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت آسان اورمجرب ذریعہ ہے ۔ دُعا ایک
عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیاتِ کریمہ اور احادیثِ طیبہ
وارِد ہیں۔ دعا کی نہایت عظمت میں ایک حکمت یہ ہے کہ دُعا اللہ پاک
سے ہماری محبت کے اِظہار، اُس کی شانِ اُلوہیت کے حضور ہماری عبدیت کی علامت،
اُس کے علم و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اور اُس کی ذاتِ پاک
پر ہمارے ایمان کا اقرار و ثبوت ہے۔اسی طرح دعا پیارے مصطفی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی متوارث سنت،اللہ پاک کے پیارے
بندوں کی متواتر عادت، درحقیقت عبادت بلکہ مغزِ عبادت، اورگنہگار بندوں کے حق
میں اللہ پاک کی طرف سے ایک بہت
بڑی نعمت و سعادت ہے ۔دُعا کی اہمیت ا ور وقعت کا اندازہ خود قرآنِ پاک میں اللہ رب
العزت ارشاد فرماتا ہے ۔ ترجمۂ کنزالایمان: مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا
جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہو کر۔(پ24، المؤمن:60) یہاں عبادت سے مُراد دُعا ہے ۔ (فضائل
دعا، ص48)ایک
اور مقام پر فرمایا :ترجمۂ کنزالایمان:میں دعا مانگنے والے کی دعا قبو ل کرتا ہوں
جب وہ مجھے پکارے ۔(پ2، البقرۃ :186)دُعا کے
فضائل کے متعلّق چند احادیثِ کریمہ ملاحظہ فرمائیں:٭دُعا مصیبت و بلا کو
اُترنے نہیں دیتی۔ (مستدرک،ج2،ص162، حدیث:18856)٭دعا
کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ (ترمذی،ج5،ص318، حدیث: 3551)٭دعا
رحمت کی چابی ہے۔(الفردوس،ج
2،ص224، حدیث:3086)اب یہاں قبولیتِ دعا کے کچھ اوقات ذکر کیے جاتے ہیں:قال
الرضا: اوّل(1): مَطاف:قال الرضا:یہ وسط ِمسجد الحرام شریف میں ایک گول
قِطْعَہ ہے ، سنگ ِمرمر سے مَفْرُوش(یعنی زمین کا وہ ٹکڑا جس پر سنگِ مرمر
بچھا ہوا ہے )اس
کے بیچ میں کعبۂ معظمہ ہے یہاں طواف کرتے ہیں،زمانۂ اقدس حضور سید
عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم میں مسجد
اسی قدر تھی،أَفَادَہُ
الْمُصَنِّفُ قُدِّسَ سِرُّہٗ فِيالْجَوَاہِرِ۔دُوُم(2):مُلتزَم۔قال
الرضا:یہ کعبۂ معظمہ کی دیوارِ شرقی کے پارۂ جنوبی کا نام ہے،جو درمیان درِ کعبہ
وسنگِ اَسود واقع ہے ، یہاں لپٹ کر دعا کرتے ہیں۔حدیث شریف میں ہے:حضور
اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے
ہیں :میں جب چاہوں جبرائیل کو دیکھ لوں کہ ملتزم سے لپٹا ہوا کہہ رہا ہے
: ((یَا
وَاجِدُ یَا مَاجِدُ لَا تُزِلْ عَنِّيْ نِعْمَۃً أَنْعَمْتَھَا عَلَيَّ))۔ ترجمۂ
کنزالایمان:الحمد للہ کہ حضور پُرنور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے کرم سے اللہ پاک نے اس گدائے بے
نوا کو بھی یہ دعا کرامت فرمائی بارہا ملتزم سے لپٹ کر عرض کیا ہے : ((یَا وَاجِدُ یَا
مَاجِدُ لَا تُزِلْ عَنِّيْ نِعْمَۃً أَنْعَمْتَھَا عَلَيَّ))۔أَرْحَمُ
الرَّاحِمِیْنَ عَمَّ نَوَالُہٗ سے اُمید ِ قبول ہے ۔وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ أَجْمَعِیْنَ۔)سِوُم(3):مُسْتَجار:رکنِ
شامی و یمانی کے درمیان مُحاذیٔ مُلتَزَم(ملتزم کے سامنے والی دیوار میں
)واقع
ہے۔قال الرضا:یا برقیاس سابق یوں کہئے کہ یہ کعبۂ معظمہ کی دیوارِ غربی کے
پارۂ جنوبی کا نام ہے ، جو درمیان درِ مَسْدُود ورکنِ یمانی واقع ہے ۔)چَہَارُم(4):داخلِ
بیت(بیت
اللہ شریف کی عمارت کے اندر)۔ پَنْجُم(5):زیرِ میزاب۔شَشُم(6):حطیم۔(5):سورج
ڈھلتے۔ حدیث میں ہے:اس وقت آسمان کے دروازے کھلتے ہیں۔( ابن ماجہ
ابواب اقامۃالصلوات والسنہ وبہا،باب فی الاربع الرکعات قبل الظہر ، حدیث :1157،ج2،ص40
)
نیز حدیثحَسَن
بِطُرُقِہٖ میں فرمایا:جب
سائے پلٹیں اور ہوائیں چلیں تو اپنی حاجات عرض کرو کہ وہ ساعت اَوَّابِین کی ہے(یعنی
وہ وقت اللہ پاک کی طرف رجوع کرنے والوں کا ہے )۔ رواہ الدیلمي
وأبو نعیم عن ابن أبي أوفی رضي اللہ عنہ۔(6):رات کو سونے سے جاگ کر۔قال
الرضا:حضور سید عالم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے
ہیں:جو رات کو سوتے سے جاگے پھر کہے:لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ
لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ، اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ وَسُبْحَانَ اللہِ وَلَا إِلٰـہَ إِلاَّ اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ
وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہ۔اس کے بعد اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ
لِيْ(اے اللہ
پاک! میری مغفرت فرما) کہے۔یا فرمایا:دعا مانگے ، قبول ہو اور اگر وضو کر کے
دو رکعت پڑھے نماز مقبول ہو۔رواہ البخاري، وأبو داود والترمذي والنسائي
وابن ماجہ عن عبادۃ بن الصامت رضي اللّٰہ تعالٰی عن(7):بعد قرأت
سورۂ اِخلاص وغیر ذلک۔(8):رجب کی چاند رات۔ (9): شبِ برأت(10):شبِ عیدالفطر۔(11):شبِ عید
الاضحی۔ابنِ
عساکر عن أبي أمامۃ رضي اللہ تعالٰی عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ
وسلم : خمس لیال لا تردّ فیھن الدعوۃ أوّل لیلۃ من رجب ولیلۃ النصف من
شعبان ولیلۃ الجمعۃ ولیلۃ الفطر ولیلۃ النحر)۔ (12):رات
کی پہلی تِہائی۔(13):رات کا پچھلا ثُلُث(یعنی آخری تہائی)۔ (14):
اذان سننے میں بعدحَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ (15): تلاوتِ سورہ ٔاَنعام میں
دو اسم جلالت کے ما بین یعنی آیۂ کریمہ:(مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰهِ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗؕ)ترجمۂ
کنزالایمان : جیسا اللہ کے رسولوں کو
ملااللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے۔میں دونوں لفظ اللہ کے درمیان
دعا کرے ۔ایسا نہیں کہ قبولیت کے تمام مواقع بیان کردیئے گئے ہوں بلکہ مذکورہ
اوقات کے علاوہ اور بھی ہوسکتے ہیں۔دعا مانگ کر نتیجہ اللہ پاک کے ذمہ
کرم پر چھوڑ دینا چاہیے کہ رحمٰن و رحیم خدا ہمارے ساتھ وہی معاملہ فرمائے جو
ہمارے حق میں بہتر ہے۔ قضائے الٰہی پر راضی رہنا بہت اعلیٰ مرتبہ ہے اور حقیقت میں
ہمارے لئے یہی مفید تر ہے کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے جبکہ خدا کا علم لامتناہی و محیط
ہے۔رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِرشاد
فرماتے ہیں: اے عزیز!دعا ایک عجیب نعمت اور عمدہ دولت ہے کہ پروردگار نے اپنے
بندوں کو کرامت فرمائی اور اُن کو تعلیم کی،حلِ مشکلات میں اس سے زیادہ کوئی
چیز مؤثر نہیں ، اور دفعِ بلا وآفت میں کوئی بات اس سے بہتر نہیں۔

دعا کے لغوی معنی : دُعا دَعی
ٰیَدعو سے نکلاہے ۔اس سے مرادطلب کرنا، بلانا، پکارنا، مدد چاہنا، درخواست کرنا ہے۔
مثال: دَعَوتُ اللہ میں نے اللہ پاک سے دعا یعنی درخواست کی۔ دعا کے اصطلاحی معنیٰ
:خیر و برکت کے حصول اور شر سے پناہ کے لیے اللہ پاک کے حضور گڑگڑانا اور پکارنا
دعا کہلاتا ہے ۔فضائلِ دُعا: دعا ایک عبادت ہے ۔تمام زمانے کے علما کا اتفاق ہے کہ
دعا مانگنا مستحب ہے ۔اس میں اللہ پاک کے سامنے اپنی عاجزی و انکساری کا اظہار اور
اللہ پاک کی عظمت و قدرت کا اعتراف کرتےہوئےاپنی حاجت پوری ہونے کی درخواست کرناہے۔
دعا نہ کرنا عبادت سے اعراض ہے۔ اس لیے اللہ پاک کی ناراضی کا باعث ہے۔(
ابن ماجہ کتاب) قرآنِ پاک سے دلیل: اللہ پاک فرماتا ہے :Ñ'ë¨o"K*`6 تمہارے رب نے فرمایا :مجھ
سے دعا کرو میں قبول کروں گا ۔ (پ24، سورۃ المومن: آیۃ
60)حدیثِ پاک سے دلیل: حضرت انس
رضی اللہ عنہ سےروایت ہے ، حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں :کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جو تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دے اور تمہارے رزق
وسیع کر دے!رات دن اللہ پاک سے دعا مانگتے رہو کہ یہ سلاح ِمومن (یعنی مومن کا ہتھیار) ہے۔ دعا مانگنا بہت بڑی
سعادت ہے۔دعا کے بہت سے فوائد بھی ہیں اور دعا مانگنا سنت بھی ہے ۔ہر روز کم از کم20
بار دعا کرنا واجب ہے ۔الحمدللہ نمازیوں کا یہ واجب نماز میں سورۃ الفاتحہ سے ادا
ہو جاتا ہے۔دعا قبول ہونے کے ایسے طریقے ہیں کہ جن پر عمل کیا جائے تو دعا قبول
ہوتی ہے یا ایسے الفاظ ہیں جن کو ادا کرنے
سے دعا قبول ہوتی ہے جیسےدعا سے پہلے اول و آخر درود ِپاک پڑھنا تو ایسی دعا اللہ
پاک کی بارگاہ میں مقبول ہے یا ایسے الفاظ مثلا ارحم الراحمین۔اللہ پاک کے ناموں
سے پکارنے پر دعا مقبول ہوتی ہے ۔اسی طرح اولیائے کرام کے وسیلے سے دعا کرنے سے
دعا قبول ہوتی ہے۔اسی طرح وہ اوقات اور حالات بھی ہیں جن میں دعا مانگنے سے دعا
قبولیت کا درجہ پاتی ہے مثلا شبِ جمعہ،
روز ِجمعہ، شبِ قدر، ماہِ رمضان مطلقاً ۔ان
اوقات میں دعا قبول ہوتی ہے۔اسی طرح وہ مقامات بھی ہیں جہاں جا کر دعا کریں تو دعا
قبول ہوتی ہے۔والدِ گرامی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں :وہ23 ہیں اور بعد میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ
نے 21 اور ملحق کئے یعنی وہ مقامات 44ہیں جن میں سے چند یہ ہیں ۔قبولیت دعا کے
پندرہ مقامات : 1) مطاف : یہ مسجدِ حرام شریف کے درمیان میں ایک گول قطعہ ہے اس کے
بیچ میں کعبہ معظمہ ہے یہاں طواف کرتے ہیں ۔زمانۂ اقدس حضور پاک سید عالم میں مسجد اسی
قدر تھی۔(فضائلِ دُعا فصل چہارم صفحہ 128)2)
ملتزم: یہ وہ مقام ہے جو کعبۃ اللہ شریف کی
مشرقی دیوار کے جنوبی حصہ میں حجرِ اسود اور بابِ کعبہ کے درمیان واقع ہے۔ یہی وہ
مقام ہے جہاں لوگ لپٹ لپٹ کر دعائیں مانگتے ہیں۔
ملتزم
سے تو گلے لگ کے نکالے ارماں ادب وشوق کا یاں باہم الجھنا دیکھو(حدائق بخشش،ص95)
3) زیرِ میزاب: امیرِ اہلسنّت مدظلہ
العالی ارشاد فرماتے ہیں: میزابِ
رحمت:سونے کا پرنالہ یہ رکنِ عراقی و شامی کی شمالی دیوار پر چھت پر نصب ہے،اس سے
بارش کا پانی حطیم میں نچھاور ہوتا ہے۔(رفیق الحرمین، ص37-38)
زیر
ِمیزاب ملے خوب کرم کے چھینٹے ابرِرحمت کا یہاں زورِ برسنا دیکھو(حدائق بخشش، ص94)
4)حجرِ اسود:یہ وہ جنتی پتھر ہے جوکعبۃ اللہ شریف کے جنوب مشرقی کونے
میں واقع رکنِ اسود میں نصب ہے۔مسلمان اسے چومتے اور استلام کر کے اپنے گناہ
دھلواتے ہیں۔
دھوچکا ظلمتِ دل بوسہ سنگ اسود خاک بوسی مدینہ کا بھی رتبہ دیکھو (حدائق بخشش، ص95)
5) رکن یمانی :اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:خصوصاً جب کہ طواف کرتے وہاں گزر
ہو۔حدیث شریف میں ہے:یہاںاَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ
الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِي الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ رَبَّنَا اٰتِنَا فِي
الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہے، ہزار فرشتے آمین کہیں گے۔
ایمنِ طور کا تھا رکنِ یمانی میں فروغ شعلہ طور یہاں انجمن آرا دیکھو (حدائق بخشش، ص95)
6)صفا :اس مقام پر بھی دعا مانگی جائے تو قبول ہوتی ہے ۔7) مروہ: اس
مقام پر بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ 8) نظر گاہ ِکعبہ : جہاں کہیں سے کعبہ نظر آئے وہ
جگہ مقام قبولیت ہے۔9) اولیاء و علماء کی
مجالس:نَفَعَنَا اللّٰہُ تَعَالٰی بِبَرَکَاتِھِمْ أَجْمَعِیْنَ (اللہ پاک ہمیں تمام ہی اولیاء وعلماء کی برکتوں سے نفع پہنچائے)۔10)مزارِ شاہِ عالم کے تخت کے نیچے کھڑے ہو کر دعا مانگنے سے دعا
قبول ہوتی ہے: گجرات احمد آباد ہندوستان میں شاہ ِعالم رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے ۔آپ علماء کو سبق پڑھاتے تھے۔بیمار
ہوگئے۔طلباء کا آٹھ دس دن کا نقصان ہوگیا ۔جب صحت یاب ہوئے تو فرمایا:آپ کا حرج ہو
گیا !تو علماء نے کہا: نہیں تو ! آپ تو روز ہمیں سبق پڑھاتے تھے ! یہ معمہ بن گیا ۔آقا علیہ السلام خواب میں آئے اورفرمایا :شاہ
ِعالم! آپ کے طلباء کا نقصان ہو رہا تھا اس لیے ہم نے روز سبق پڑھایا ۔ اس تخت پر
جس پر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے بیٹھ کر روزانہ سبق پڑھایالوگوں نے وہ درخت سے باندھ کر لٹکا دیا ہے ۔اب اس کے نیچے کوئی
اگر جائے تو پیارے مصطفی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی جلوہ گری کی برکت سے اس جگہ مانگی
گئی دعا قبول ہوتی ہے ۔( شیخ محدث شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی
کتاب اخبار الاخیار) 11)مزارِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہکے پاس: حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مجھے جب کوئی حاجت پیش آتی دو رکعت
نماز پڑھتا اور قبر ِامام ابو حنیفہ کے پاس جا کر دعا مانگتا ہوں اللہ پاک پوری فرماتا
ہے۔یہ مضمون امام ابن ِحجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے
الخیرات الحسان فی منا قب الامام الاعظم ابی حنیفہ نعمان میں نقل فرمایا ہے۔12) تربتِ سراپا برکت غوث ِاعظم رحمۃ اللہ علیہ 13) مرقدِ مبارک حضرت
خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ 14) مزار ِمبارک حضرت امام
موسی کاظم رحمۃ اللہ علیہ : امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دعا کے قبول ہونے میں نہایت تجربہ
شدہ عمل ہے۔15) وہ کنویں جنہیں حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف نسبت ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں
جہاں دعا کوقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ ہمیں بھی جب کبھی ان مقامات میں سے کسی مقام پر
جانے کا موقع ملے تو ہمیں بھی دین و دنیا کی بھلائی کی دعا کرنی چاہیے اور دوزخ کے
عذابات سے پناہ مانگنی چاہیے۔اللہ پاک ہمیں بھی ان زیاراتِ مقدسہ کی زیارات سے
مشرف فرمائے ۔آمین (فضائلِ دُعا رئیس المتکلمین مولانا
نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ )

اے عزیز!دعا ایک عجیب نعمت اور عمدہ دولت ہے کہ پروردگارِ عالم نے اپنے
بندوں کی کرامت فرمائی اور ان کو تعلیم کی۔حلِّ مشکلات میں اس سے زیادہ کوئی چیز
اثر نہیں رکھتی اور رَفعِ بلا وآفت میں اس سے زیادہ کوئی چیز اثر نہیں رکھتی اور
رَفعِ بلا وآفت میں کوئی بات اس سے بہتر نہیں۔(فضائلِ دُعا،
صفحہ 34)دُعادَعْویا دعوتٌ سے بنا ہے، جس کے
معنی بلانا یا پکارنا ہے۔قرآن شریف میں لفظ دعا پانچ معنوں میں استعمال ہوا ہے: 1۔
پکارنا، 2۔بلانا، 3۔مانگنا یا دعا کرنا، 4۔معبود سمجھ کر پکارنا، 5۔تمنا آرزو کرنا۔
اللہ پاک بندوں کی دعائیں اپنی رحمت سے قبول فرماتا ہے یا تو اس کی دعا دنیا میں ہی
قبول ہو جاتی ہے یا آخرت کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے یا اس سے اس کے گناہوں کا کفارہ کردیا
جاتا ہے۔دعا کی اہمیت اور وُقعت کااندازہ خود قرآن ِپاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ
عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ ۔ترجمہ:مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا،جو لوگ میری عبادت سے تکبر
کرتے ہیں، عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہو کر۔ (پارہ 24،
المؤمن:60) یہاں عبادت سے مراد دعا ہے۔(فضائلِ دُعا:48)قبولیتِ دعا کے بہت سے مقامات ہیں، جن میں سے 15 مقامات درج ذیل ہیں۔ 1۔داخلِ
بیت(بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر) 2۔حطیم(یہ کعبہ شریف کا حصّہ ہے، اس میں داخل ہونا عینِ کعبہ شریف میں داخل ہونا
ہے)3۔حجرِاسود(جنتی پتھر)۔(فضائلِ دُعا، صفحہ 133)4۔رکن یمانی۔ (فضائلِ دُعا، صفحہ 133)5۔صفا 6۔مروہ7۔مسعٰی خصوصاً
دونوں میل سبز کے درمیان(دونوں سبز نشانوں کے درمیان
پہنچے کہ وہ بھی قبولیتِ دعا کا مقام ہے) 8۔عرفات،خصوصا نزدِ
موقف نبی صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم 9۔مزدلفہ خصوصاً مشعر الحرام(یعنی جبلِ قزح)10۔منٰی 11۔نظر گاہِ کعبہ(جہاں کہیں سے کعبہ
شریف نظر آئے وہ جگہ بھی مقامِ قبولیت ہے)۔(فضائلِ دُعا، صفحہ 355) 12۔مسجد ِنبوی 13۔مکانِ
استجابت دعا،جہاں ایک مرتبہ دعا قبول ہو وہاں پھر دعا کریں۔ 14۔اولیاء علماء کی
مجالس(اللہ پاک ہمیں تمام ہی اولیاء علماء کی برکتوں سے نفع پہنچائے)(فضائلِ دُعا، صفحہ 136) 15۔خلفِ مقامِ
ابراہیم علیہ السلام(مقامِ ابراہیم کے پیچھے)۔ (فضائلِ دُعا، صفحہ 134)

اللہ پاک سے دعا کرنا عبادت ہے۔ اس میں اپنی بندگی کا اقرار و اظہار
ہے۔ دعا عبادت کارُکنِ اعلٰی ہے، جیسے مغز
کے بغیر ہڈی، گودے کے بغیر چھلکے کی کوئی قدر نہیں، ایسے ہی دعا سے خالی عبادت کی
کوئی قدر نہیں۔ یوں ہی دعا مانگنے پر ثواب ملتا ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ ربّ کریم دعا مانگنے کو پسند فرماتا ہے،خود
اللہ پاک قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْمجھ سے دعا مانگو میں قبول کرنے والا ہوں۔(پارہ
24، المؤمن:60)وہیں نہ مانگنے والوں کے بارے میں فرمایا:ترجمہ: تمہاری کچھ قدر نہیں،
میرے رب کے یہاں، اگر تم اسے نہ پوچھو۔ (پ25 :77)اسی طرح احادیث میں جا بجا دعا کی ترغیب دلائی، فرمایا:الدعاء
مخ العبادۃ دعا عبادت کا مغز ہے۔ الدعاء صلاح المؤمن دعا مؤمن کا ہتھیار ہے۔مزیدفرمایا:قال رسول
اللّٰہ من لم یسال اللّٰہ یغضب علیہ جو اللہ پاک سے نہ مانگے، اللہ پاک اس پر ناراض
ہوتا ہے۔(رواہ ترمذی حوالہ مراۃالمناجیح،
جلد 3، صفحہ 317، حدیث 2133)
آئیے
!ان مقامات کا ذکر پڑھئےجن میں دعا قبول ہوتی ہے۔1۔مطاف میں 2۔ملتزم وہ مقام ہے جو
خانہ کعبہ شریف کی مشرقی دیوار کے جنوبی حصہ میں حجرِ اسود(کالا
پتھر) اور کعبہ کے دروازے کے درمیان میں موجود ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں لوگ
لپٹ کر خوب دعائیں مانگتے ہیں۔ 3۔بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر۔ 4۔زیرِ میزاب:
سونے کا وہ پرنالہ جس سے بارش کا پانی حطیم میں نچھاور ہوتا ہے۔ 5۔حطیم کعبہ معظمہ
کے پاس گول دائرے کی شکل کا ہوتا ہے، یعنی اس باؤنڈری کے اندر کا حصّہ حطیم کہلاتا
ہے، اس مقام پر بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ 6۔حجرِ اسود، یہ جنتی پتھر ہے۔ 7۔نزد زم زم۔
8۔مقامِ ابراہیم کے پیچھے۔ 9۔جمراتِ ثلاثہ، تینوں جمروں کے پاس۔ 10۔صفا۔11۔مروہ۔
12۔مسجدِ نبوی۔ 13۔مواجہہ شریف حضور سید الشافعین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم 14۔اولیاء علماء کی مجالس میں 15۔حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مشاہدِ متبرکہ،
یعنی وہ تمام جگہ جہاں آخری نبی ہمارے آقا و مولا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیات ِطیبہ میں
تشریف لے گئے، جیسے حضرت سلمان فارسی رضی
اللہ عنہکا باغ۔( فضائلِ دُعا، ص128 تا136)خاص مقام: علماء کرام نے اس جگہ کو مقبولیت کا مقامات سے شمار کیا ہے،
جہاں کسی کی دعا قبول ہوئی ہو،یوں ہی جہاں اولیاء کا وجود ہو یا جہاں وہ رہے ہوں،خانہ
کعبہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم کے روضہ اقدس اور مزاراتِ اولیاء خاص مقامات ہیں، جہاں دعائیں قبول
ہوتی ہیں۔ایک ایسا واقعہ جس کا ذکر خود اللہ پاک نے بھی قرآن میں فرمایا اور سورۂ
الِ عمران آیت نمبر38 میں اس کا ذکر ہے:ترجمۂ کنزالایمان:یہاں پُکارا ز کریا نے اپنے رب کو بولا اے رب میرے مجھے
اپنے پاس سے دے ستھری اولاد، بے شک تو ہی دعا سننے والا ہے۔حضرت مریم رضی اللہ عنہا کی پیدائش کے بعد ان کی
کفالت حضرت زکریا علیہ
السلام نے کی۔حضرت ذکریا علیہ
السلام جب بھی حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے پاس جاتے تو وہ بے موسم پھل پاتے۔ ایک مرتبہ آپ نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے پوچھا:یہ پھل تمہارے پاس کہاں سے آتے ہیں؟ تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے بچپن کی عمر میں جواب
دیا:اللہ پاک کی طرف سے۔حضرت ذکریا علیہ
السلام نے سوچا جو پاک ذات حضرت مریم رضی
اللہ عنہا کو بے موسم اور بغیر ظاہری سبب کے میوہ دینے پر قادر ہے، وہ اس بات
پر بھی قادر ہے کہ میری بانجھ بیوی کو نئی تندرستی دے اور مجھے بڑھاپے کی عمر میں
اولاد کی امید ختم ہو جانے کے بعد فرزند عطا فرما دے، اس خیال سے آپ نے اس جگہ دعا
مانگی، آپ کی دعا قبول ہوئی اور آپ کو بشارت ملی کہ آپ کو ایسا بیٹا عطا کیا جائے
گا جس کا نام یحیٰ ہوگا۔اس واقعہ کا تفصیلی ذکر سورہ ٔمریم آیت 2 تا15 میں مذکور
ہے۔آج ہماری اکثریت دعا سے یکسر غافل نظر آتی ہے۔ جب کوئی مصیبت آ پڑی فورا ًدعا مانگنا
شروع کر دی، دعا ہمیشہ کرتی رہیں۔ یاد رکھئے! دعا کے دو فائدے ہوتے ہیں:ایک یہ کہ
اس کی برکت سے آئی بلا ٹل جاتی ہےاوردوسرا یہ کہ آنے والی بلا رُک جاتی ہے۔نیت فرمالیجئےکہ دعا کو اپنا معمول بنائیں گی اور
خوب دعائیں مانگیں گی۔ ان شاءاللہ

دعا اللہ پاک کے فضل و کرم کا مستحق ہونے کا نہایت ہی آسان اور مجرب
ذریعہ ہے۔گنہگار بندوں کے لئے دعا اللہ پاک کی طرف سے بہت بڑی سعادت ہے۔دعا کی اہمیت
کا اندازہ اللہ پاک کے اس فرمان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، اللہ پاک قرآن ِپاک میں
ارشاد فرماتا ہے:ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۔ترجمہ:مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا۔(پارہ
24، المؤمن:60)
ہےتیرا
فرمان اُدعونی ہے یہ دعا ہو قبر
نہ سونی (وسائل بخشش)
اس آیت کی تفسیر میں تفسیر صراط الجنان میں ہے:امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:یہ بات ضروری طور پر معلوم ہے کہ قیامت کے دن انسان کو اللہ پاک کی عبادت میں مشغول ہونا نہایت اہم ہے۔ چونکہ
عبادات کی اقسام میں دعاایک بہترین قسم ہے،اس لئے یہاں بندوں کو دعا مانگنے کا حکم
ہے۔نبی آخر الزماں صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبہ والاستففار الخ، حدیث:3551)جن مقامات پر دعا قبول ہوتی ہے، ان میں سے 15 مقامات کا ان شاء اللہ
ذکر کیا جائے گا۔1۔مطاف2۔ملتزم3۔مستجار4۔بیت ُاللہ کے اندر5۔حطیم 6۔صفا۔7۔مروہ۔8۔زم
زم کے کنویں کے قریب۔یہ جو مقامات ذکئے گئے ہیں، یہ مکہ مکرمہ میں واقع ہیں، اب ان
شاءاللہ ان مقامات کا ذکر کیا جائے گا، جو مدینہ منورہ میں واقع ہیں:9۔مسجد ِنبوی
شریف10۔منبر ِاطہر کے پاس11۔مسجد ِقبا شریف12۔جبلِ احد شریف۔13۔مسجدِ نبوی کے
ستونوں کے نزدیک۔14۔مزاراتِ بقیع15۔وہ مبارک کنویں جنہیں آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے۔(رفیق الحرمین، صفحہ 67،68)جس جگہ کوئی ولی
رہتے ہوں یا وہی ہوں اس جگہ زیادہ دعا قبول ہوتی ہے،فرمان ِ باری ہے:ترجمۂ
کنزالعرفان:وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا مانگی عرض کیا اے میرے رب مجھے اپنی بارگاہ
سے پاکیزہ اولاد عطا فرما بے شک تو ہی دعا سننے والا ہے۔(پ3،
عمران 38)اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے پاس کھڑے ہوکر اولاد کی
دعا مانگی، تاکہ قربِ ولی کی وجہ سے دعا جلد قبول ہو۔(علم
القرآن، صفحہ 219)مواجہہ شریف کے بارے میں امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا یہاں قبول
نہ ہوگی تو کہا کہ قبول ہوگی۔فضائلِ دُعا کتاب کا مطالعہ کرنے سے ان شاءاللہ دعا کرنے کا ذہن بنے گا۔اللہ پاک اپنے
حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم کے صدقے اپنی بارگاہ میں دعا کرنے کی سعادت سے نوازے ۔آمین

دعا اللہ رب العزت سے مناجات کرنے، اس کی قربت حاصل کرنے،اس کے فضل و
انعام کے مستحق ہونے اور بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت آسان و مجرب ذریعہ ہے۔اسی طرح دعا مصطفی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتِ مبارکہ اور
اللہ پاک کے نیک بندوں کی عادتِ متواترہ ہے۔ درحقیقت دعا عبادت بلکہ مغزِ عبادت
اور گنہگار بندوں کے حق میں اللہ رب العزت کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت و سعادت ہے۔دعا
کے بارے میں قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:(اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ) میں دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھےپکارے ۔
(پارہ 2، البقرۃ 186)رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا کے بارے میں ارشاد فرمایا : دعا
مسلمانوں کا ہتھیار،دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے۔(المستدرک
کتاب الدعا والتکبیر، حدیث1855، ج 2، ص 162)اللہ
پاک کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بزرگ تر نہیں۔(سنن
ترمذی کتاب الدعوات حدیث 3381، جلد 5 ص 243)
اس آیتِ قرآنی اور حدیث ِ مبارکہ کی روشنی میں معلوم ہوا کہ دعا کرنا بندے کے لیے دنیا
و آخرت میں بہت مفید beneficial ہے۔ بندے کوچاہیے کہ دعا
کرنے سے غافل نہ رہے بلکہ عاجزی اور انکساری سے اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کرتا
رہے۔ کئی مقامات (places)ہیں
جہاں دعا قبول ہوتی ہےان مقامات میں سے چند کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے:(1) مطاف:جہاں
طواف ہوتاہے2)زیرِ میزاب: یہ سونے کا پرنالہ ہے جو کعبہ مشرفہ کی شمالی دیوار پر
چھت پر نصب ہے۔(3)حطیم: کعبہ معظمہ کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں فصیل کے اندر کا حصہ حطیم
کعبہ شریف کا ہی حصہ ہے اور اس میں داخل ہونا عینِ کعبہ میں داخل ہونا ہے (4) حجرِ اسود :یہ جنتی پتھر ہے جو کعبہ شریف کے
جنوب مشرقی کونے میں واقع رکنِ اسود میں
نصب ہے۔مسلمان اسے چومتے اور استلام کر کے اپنے گناہ دھلواتے ہیں ۔(5)کوہِ صفا (6)
کوہ ِمروہ: یہ دو پہاڑوں کے نام ہیں جو
خانہ کعبہ سے فاصلے پر واقع ہے ۔ (7) عرفات (8)منی (9) مسجدِ نبوی (10) اولیاء و علماء
کی مجالس:حدیثِ قدسی میں ہے: یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا
۔(11)منبر ِاطہر کے پاس(12) مسجد قباء شریف میں(13)احد پہاڑ پر(14)حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تمام مشاہدہ متبرکہ یعنی وہ مقامات جہاں حضور
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی ظاہری حیاتِ
طیبہ میں تشریف لے گئے جیسے حضرت سلمان فارسی رضی
اللہ عنہکا باغ (15) مزاراتِ بقیع و احد اور مزارات ِاولیاء ۔یہ وہ مقامات ہیں
جہاں دعا کے قبول ہونے کی زیادہ امید ہے۔ بندۂ مومن جب ان مقاماتِ مقدسہ پر خوب
عاجزی اور انکساری سے دعا مانگیں اور ہرگز ان کی قیمتی لمحوں کو ضائع نہ کریں ۔اللہ
پاک ہمیں خشوع و خضوع سے دعائیں مانگنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے ۔دعا عرض وحاجت ہے اور اجابت یعنی قبولیت یہ
ہے کہ پروردگار اپنے بندے کی دعا پر لبیک عبدی فرماتا ہے ۔دلی مراد عطا فرمانا دوسری
چیز ہے دعا کی قبولیت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ آدابِ دعا کو ملحوظ ِخاطر رکھا
جائے۔ دعا کی قبولیت میں جلدی نہ کی جائے ۔ایک جگہ قرآنِ پاک میں رب کریم فرماتا
ہے:ادْعُوْنِیْۤ
اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ یعنی
مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔سبحان
اللہ!اس آیت ِکریمہ میں اللہ پاک نے اجابت کا وعدہ فرمایا ہے۔دعا کی اہمیت کے متعلق فرمانِ مصطفی ہے:دعا
عبادت کا مغز ہے۔(ترمذی کتاب الدعوات الحدیث 3382)دعا کے قبول ہونے کی چند شرائط یہ ہیں:(1)دعا
مانگنے میں اخلاص ہو ۔(2)دعا مانگنے والا اللہ پاک کی رحمت پر یقین رکھتا ہوں ۔(3)جو
دعا مانگی وہ کسی ایسی چیز پر مشتمل نہ ہو جو شرعی طور پر منع ہو ۔ (تفسیر صراط الجنان پارہ 24 سورۃ مومن)دعا کے آداب کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے :(1)
ہتھیلیاں پھیلا کر رکھے ۔(2)دعا کے اول و آخر حمدِباری بجالائے ۔(3)دعا کے اول آخر
آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اور ان کی آل پر درود
ِپاک بھیجے۔آئیے ! اب دعا کی قبولیت کے مقامات پڑھئے:قبولیت ِدعا کے پندرہ مقامات:(1)
مطاف:جس جگہ میں طواف کیا جاتا ہے ۔ (2)ملتزم: رکنِ اسود اور بابِ کعبہ کی درمیانی
دیوار۔(3)مستجار :رکن ِیمانی اور شامی کے بیچ میں مغربی دیوار کاوہ حصہ جو ملتزم کے
مقابل یعنی عین پیچھے کی سیدھ میں واقع ہے۔(4)مقامِ صفا :کعبہ کے جنوب میں واقع ہے
۔(5)مقام ِمروہ :کوہِ صفا کے سامنے واقع ہے۔(6)زم زم کے کنویں کے قریب: مکہ معظمہ
کا مقدس کنواں (7)منیٰ: مسجدِ حرام سے 5کلو میٹر کے فاصلے پر وادی کا نام۔(8)مسجدِ
نبوی شریف۔(9)جب جب کعبہ شریف پر نظر پڑے۔(10)مواجھہ شریف: امام ابن الجزری رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے
ہیں: دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں قبول ہوگی۔(حصن حصین ص:31) (11)مسجدِ
قباء شریف۔(12)مزاراتِ بقیع۔(13)جبل ِاحدشریف ۔ (14)حطیم:کعبہ معظمہ کی شمالی دیوار
کے پاس نصف دائرہ half circle کی
شکل میں فصیل کے اندر کا حصہ (15)حجرِ اسود:جنتی پتھر ۔ان مقامات پر دعا قبول ہوتی
ہے۔ اللہ پاک ان مقامات ِمقدس پر حاضری کا شرف نصیب فرمائے۔آمین بجاہِ النبی
الامین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔قبولیت کا ایک
وقت حدیثِ مبارکہ میں بھی بیان ہوا ہے۔ فرمان ِمصطفی ہے:آدھی رات کے وقت آسمانوں
کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے: کوئی ہے دعا
کرنے والاکہ اس کی دعا قبول کی جائے؟ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے؟ہے
کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کی جائے؟اس وقت بدکاری کرنے والی عورت اور
ظالمانہ ٹیکس لینے والے کے علاوہ ہر دعا کرنے والی مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے
گی۔(معجم اوسط باب الف، الحدیث 769)

اسلام رضائے الٰہی کے حصول کے لیے کیے جانے
والے ہر عمل پر ثواب اور اسے عبادت قرار دیتا ہے خواہ وہ عبادت حقوق اللہ سے ہوں
یا حقوق العباد سے نیز ایک طرف ان کے ہر ہر عمل کو عبادت قرار دیتا ہے۔ ان متعدد
عبادتوں میں سے ایک عبادت ذکر و اذکار اور دعا بھی ہے جس کے لیے وقت کی قید نہیں
نہ مقام کی۔ دعا بیچارگی کے اظہار کو کہتے
ہیں یعنی اللہ پاک کی قدرت کے سامنے اپنی کم مائیگی اور ذلت کا اظہار ہی عبادت کی
اصل روح ہے اس لیے دعا کو عین عبادت قرار
دیا گیا۔دعا رب العالمین سے مناجات کرنے، اس کی قربت حاصل کرنے اور اس کے فضل و
انعام کے مستحق ہونے اور بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت آسان ذریعہ ہے
۔اسی طرح پیارے مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی متوارث سنت ، اللہ رب العالمین کے پیارے بندوں کی عادت درحقیقت
عبادت بلکہ مغز ِعبادت اور ہم گناہ گاروں کے حق میں اللہ رب العزت کی طرف سے ایک
بہت بڑی نعمت اور سعادت ہے۔دعا کی اہمیت کا اندازہ اللہ رب العالمین کے اس ارشاد
سے کیا جاسکتا ہے:ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ؕ
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسْتَکْبِرُوۡنَ عَنْ عِبَادَتِیۡ سَیَدْخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ
دَاخِرِیۡنَ مجھ سے دعا مانگو میں
قبول فرماؤں گا جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل
ہو کر۔(پ24، المؤمن: 60)15امکنہ اجابت :چوالیس مقامات ایسے
ہیں جو امکنہ اجابت(یعنی وہ مقامات جہاں دعا قبول ہوتی ہے )میں سے ہیں جن میں سے پندرہ عنوان کے تحت
درج کیے جاتے ہیں:(1) مطاف :یہ وسطِ مسجد الحرام شریف میں ایک گول قِطْعَہ ہے، سنگ
ِمرمر سے مَفْرُوش(یعنی زمین کا وہ
ٹکڑا جس پر سنگِ مرمر بچھا ہوا ہے)اس کے بیچ میں کعبہ معظمہ ہے یہاں طواف کرتے ہیں۔زمانہ اقدس حضور سید
عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم میں مسجد اسی قدر
تھی ۔(2)ملتزم وہ مقام جو کعبۃ اللہ شریف کی مشرقی دیوار کے جنوبی حصہ میں حجرِ
اسود اور بابِ کعبہ کے درمیان واقع ہے یہی وہ مقام ہے جہاں لوگ لپٹ لپٹ کر دعائیں
مانگتے ہیں۔ (3)زیرِ میزاب: امیر اہل سنت دامت برکاتہمُ العالیہ ارشاد فرماتے ہیں:میزاب ِرحمت سونے کا پرنالہ :یہ رکنِ عراقی اور
شامی کی شمالی دیوار پر چھت پر نصب ہےاس سے بارش کا پانی حطیم پر نچھاور ہوتا ہے ۔مزید
اس پر بطور حاشیہ ارشاد فرماتے ہیں: میری ناقص معلومات کے مطابق مکے مدینے کے
تاجدار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اپنے مزارِ فائض الانوار میں چہرہ ٔا نور میزابِ رحمت کی طرف ہے
(4)حجرِ اسود :یہ وہ جنتی پتھر ہے جو کعبۃ اللہ شریف کے جنوب مشرقی کونے میں واقع رکنِ
اسود میں نصب ہے مسلمان اسے چومتے اور استلام کر کے اپنے گناہ دھلواتے ہیں (5)رکن ِیمانی:
یہ یمن کی جانب مغربی کونا ہے خصوصا جب کہ طواف کرتے وہاں سے گزر ہو حدیث شریف میں
ہے:یہاں اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ
الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِي الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ رَبَّنَا اٰتِنَا فِي
الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہے،ہزار فرشتے آمین کہیں گے، (6)خلفِ مقامِ
ابراہیم(7)مسعیٰ خصوصا دونوں میل سبز کے درمیان (8)صفا (9)مروہ(10)مقامِ استجابت
دعا جہاں ایک مرتبہ دعا قبول ہو وہاں پھر دعا کریں ۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :میں کہتا ہوں : اگر ان جگہوں
میں دعا کی قبولیت کو عام کہا جائے یعنی کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہ کیا جائے تو بھی
بعید نہیں کیوں یہی اللہ پاک کے فضل و کرم
کے زیادہ موافق ہیں۔قال اللہ:ھُنَالِکَ
دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہ یہاں پکارا ذکریا نے اپنے رب کو (11)مواجھہ شریف حضور سید الشافعین صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم :امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو
کہاں ہوگی؟ (12) منبر ِاطہر کے پاس (13) مسجد ِقباء شریف میں(14)مسجد الفتح میں
خصوصا ًروز چہار شنبہ بین الظہر والعصر(بدھ کے ظہر و عصر کے درمیان )حضور صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے مسجد فتح میں تین
دن دعا فرمائی(14)مسجد فتح میں تین دن دعا فرمائی، دوشنبہ، سہ شنبہ، چہار شنبہ (یعنی پیر، منگل اور
بدھ کے دن)۔ چہار شنبہ کے دن
دونوں نماز وں کے بیچ میں اِجابت فرمائی گئی کہ خوشی کے آثار چہرۂ انور پر نمودار
ہوئے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہفرماتے ہیں:جب مجھے کوئی امرِ مُہِم(اہم کام)بَشِدَّت پیش آتا ہے، میں اس ساعت میں دعا
کرتا ہوں اِجابت ظاہر ہوتی ہے۔(15)مزارِ مطہر ابو حنیفہ کے پاس:حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب
مجھے کوئی حاجت پیش آتی تو دو رکعت نماز پڑھتا اور قبر ِامام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پرجا کر دعا مانگتا ہوں ۔اللہ پاک روا (پوری) فرماتا ہے۔اس کے
علاوہ دیگر مزارات ِاولیا پر بھی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔

دعا اللہ پاک سے مناجات کرنے، اس کی قربت
حاصل کرنے،اس کے فضل و کرم کے مستحق ہونے اور بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا
نہایت آسان مجرب ذریعہ ہے۔دعا کی اہمیت کا اندازہ اللہ پاک کے اس ارشاد سے ہوتا ہے :ادْعُوۡنِیۡۤ
اَسْتَجِبْ لَکُمْ ؕ مجھ سے دعا مانگو میں قبول
فرماؤں گا۔ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی امت کے لیے
دعا کرتے ہیں:ربِّ ھب لی امتی ۔احادیثِ مبارکہ میں
بار بار دعا کی ترغیب دلانے اور دعا نہ مانگنے پر رب کریم کی ناراضی کا اظہار فرمایا
۔دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ کچھ مقامات ایسے
ہوتے ہیں جہاں بندے کی دعا قبول ہوتی ہے یعنی جس جگہ کوئی ولی رہتے ہوں یا رہے ہوں
یا کبھی بیٹھے ہوں وہ جگہ حرمت والی ہو جاتی ہے وہاں عبادت اور دعا زیادہ قبول ہوتی
ہے*بیت المقدس کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اور یاد کرو جب ہم نے کہا کہ
داخل ہو تم اس بستی میں پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ اور دروازے میں سجدہ
کرتے ہوئے داخل ہو اور کہو ہمارے گناہ معاف ہو ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے۔اس آیت ِمبارکہ
میں بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئےگھسو
اور معافی چاہو۔ بیت المقدس انبیاء کرام کی بستی ہے جس کی تعظیم کرائی گئی اور
قبولیت ِدعا کی جگہ بتائی گئی تو معلوم ہوا :جس جگہ کو اللہ پاک کے پیاروں کی نسبت
حاصل ہو جائے وہ متبرک ہو جاتی ہے۔ *حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے محراب کی جگہ :ترجمہ: وہاں مریم کے پاس زکریا نے دعا مانگی عرض کیا
اے میرے رب مجھے اپنی طرف سے ستھری اولاد دے بے شک تو دعا سننے والا ہے۔(سورہ ال عمران :38) حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے محراب کی جگہ کھڑے ہو کر دعا مانگی
اولاد کی تو ان کی دعا قبول ہوئی * ملتزم :قبولیت ِدعاکا مقام ہے۔(رفیق الحرمین: ص 117) *صفا:قبولیت کا مقام ہے۔(رفیق الحرمین: ص
125) *مطاف:(فضائلِ دُعا : ص
128) *داخلِ بیت:بیت
اللہ کی عمارت کے اندر *زیرِ میزاب *حطیم *حجرِ اسود (فضائلِ دُعا: ص 130) *رکنِ یمان* خلف ِمقام ِابراہیم (فضائلِ دُعا: ص
131) *مروہ *مسعیٰ خصوصا
دونوں میل سبز کے درمیان عرفات خصوصا مزدلفہ خصوصا مشعر الحرام *منیٰ* نظر گاہِ
کعبہ *مسجدِنبی (فضائلِ دُعا: ص 132 تا 133) یہ وہ مقامات ہیں جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔

دعا ایک عجیب نعمت اور عمدہ دولت ہے کہ پروردگار
عالم نے اپنے بندوں کو کرامت فرمائی اور ان کوتعلیم کی، حلِ مشکلات میں اس سے زیادہ
کوئی چیز موثر نہیں اور دفعِ بلا و آفت میں
کوئی بات اس سے بہتر نہیں ۔اسی طرح دعا پیارے
مصطفیٰ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی متواتر سنت، اللہ رب العزت کے پیارے بندوں کی متواتر عادت درحقیقت
عبادت بلکہ مغزِ عبادت اور گناہ گار بندوں کے حق میں رب العزت کی طرف سے ایک بہت
بڑی نعمت اور سعادت ہے۔دعا کی اہمیت اور وقعت کا اندازہ قرآنِ پاک میں اللہ رب
العزت کے ارشاد کے مطابق: اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙمیں دعا مانگنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں
جب وہ مجھے پکارے۔(فضائلِ دُعا: ص :
48) حدیثِ قدسی:رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے پاس
ہوں یعنی جیسا گمان مجھ سے رکھتاہے میں اس سے ویسا ہی کرتا ہوں وانا معہ اذا دعانیاور میں اس کے ساتھ ہوں جب مجھ سے دعا کرے ۔(فضائلِ دُعا: ص : 48) قبولیت دعا کے پندرہ مقامات : 1)میزابِ رحمت کے
نیچے 2)زم زم کے کنویں کے قریب 3)صفا 4)مروہ 5)تینوں جمعرات کے قریب 5)جب جب کعبہ
مشرفہ پر نظر پڑے 6)مواجہہ شریف امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا یہاں
قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی 7)منبر ِ اطہر کے پاس 8)مسجدِ نبوی کے ستونوں کے نزدیک 9)مسجد
قباء شریف 10)مشاہدمبارکہ جس جس مقام پر سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے گئے 11)مساجد
طیبہ جن کو سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے مثلاً
مسجد غمامہ اور مسجد قبلتین وغیرہ 12)مبارک کنویں جنہیں سرور ِکونین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے13) جبلِ احد 14)مزاراتِ بقیع ۔یہ وہ مقامات ہیں جہاں دعا
قبول ہوتی ہے۔آیت ِمبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ: اگروہ جب اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے حضور حاضر ہوں اور اللہ سے
معافی مانگیں اور رسول ان کی بخشش چاہیں
تو ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔(سورۃ النساء: 64)صحابہ کرام کا بھی یہ طریقہ کار رہا کہ وہ
حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حضور حاضر ہو کر دعا مانگتے تو ان کی دعا قبول ہوتی تھی ۔قال اللہ:
ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہ یہاں زکریا نے اپنے رب کو پکارا۔حضرت زکریا
علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا پر فضل ِاعظم ،ربِ اکرم کی طرف سےبے فصل
کے میوے انہیں ملنا دیکھ کر وہیں اپنے لیے
فرزند عطا ہونے کی دعا کی تو ان کی دعا پوری ہوئی ۔حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :مجھے جب
کوئی حاجت پیش آتی ہے دو رکعت نماز پڑھتا اور قبرِ امام ابو حنیفہ کے پاس جا کر
دعا مانگتا ہوں اللہ پاک پوری فرماتا ہے ۔(رسالہ قبولیت دعا کے اوقات)

اللہ پاک مقامات کا
خالق و مالک ہے اور تمام مقامات اسی کے پیدا کردہ ہیں ان میں سے ایسے مقامات بھی ہیں
جن میں کی جانے والی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ بہت جلد نصیب ہوتا ہے ۔اللہ پاک ہمیں
ان مقامات کی حاضری کی توفیق سے نوازے۔ ذیل میں چند مقامات کا تذکرہ کیا جاتا ہےجن میں دعائیں قبول ہوتی ہیں:(1)زم
زم کنواں :مکہ مکرمہ کا وہ مقدس کنواں جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بچپن شریف میں
آپ کے ننھے ننھے مبارک قدموں کی رگڑ سے جاری ہوا تھا۔ ( 2) مستجار :حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نماز پڑھنے کے مقام پر (3) مقامِ
ابراہیم: دروازہ کعبہ کے سامنے ایک گنبد میں وہ جنتی پتھر جس پر کھڑے ہو کر
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے کعبہ شریف کی
عمارت تعمیر کی تھی (4)حطیم :کعبہ معظمہ کی شمالی دیوار کے آس پاس دائرے کی شکل میں
باؤنڈری کے اندر کا حصہ ہے یہ کعبہ شریف ہی کا حصہ ہے۔(رفیق الحرمین ص61) (5)ملتزم: رکنِ
اسود اور کعبہ کی درمیانی دیوار ہے۔ ملتزم مقام پر بھی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔(رفیق الحرمین ص61) (6) مستجاب: رکنِ یمانی اور رکنِ اسود کے بیچ کی
جنوبی دیوار یہاں ستر ہزار فرشتے دعا پر آمین کہنے کے لیے مقرر ہیں اسی لیے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام کا نام
مستجاب رکھا ہے۔(رفیق الحرمین ص61) (7)اسی طرح حجرِ
اسود پر بھی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔(رفیق الحرمین ص61) (8)کوہِ صفا: کعبہ
معظمہ کےجنوب میں واقع ہے۔(رفیق الحرمین ص62) (9)کوہِ مروہ: کوہِ صفا کے سامنے واقع ہے۔(رفیق الحرمین ص61) (10)مسجدِ قباء :مسجد
ِطیبہ سے تقریباً تین کلومیٹر جنوب مغرب کی طرف قبا نامی قدیمی گاؤں ہے جہاں یہ
متبرک مسجد بنی ہوئی ہے۔(بخاری، جلد 1، ص 402، حدیث1193) (11)مواجہہ شریف :امام
ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعایہاں
قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی؟(حصن حصین ص:31) (12)مسجدِ نبوی کے ستونوں کے نزدیک دعائیں
قبول ہوتی ہیں ۔مسجد فتح میں خصوصا ًبدھ کو ظہر و عصر کے درمیان دعائیں قبول ہوتی
ہیں ۔(13)وہ مبارک کنویں جنہیں سرور کونین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے۔ (14)مشاہد متبرکہ :اس کے معنی ہیں:حاضر
ہونے کی جگہ ۔ یہاں مراد یہ ہے کہ جس جس مقام پر سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے گئے وہاں
دعا قبول ہوتی ہے مثلا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہکا مقدس باغ (15) مزاراتِ
بقیع ،تاریخی روایت کے مطابق جنت البقیع میں تقریبا دس ہزار صحابہ کرام آرام فرما ہیں
۔(رفیق الحرمین ص 67
+68)اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں ان مقامات پر دعا مانگنے کی توفیق سے نواز دے اوران مبارک
مقامات کی حاضری نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم

حضرت
جابر بن عبداللہ رضی
اللہ عنہسے
روایت ہے،رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے مسجد فتح میں تین روز تک دعا کی پیر کے دن اور منگل کے دن اور بدھ کے دن آپ کی
دعا دو نمازوں ظہر اور عصر کے درمیان قبول ہو گئی تو آپ کے چہرہ ٔانور پر خوشی کے
آثار نمایاں ہوگئے ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ
کہتے ہیں :اس کے بعد جب بھی مجھے کوئی شکل صورت حال پیش آئی تو میں نے انہی گھڑیوں
میں دعا مانگی اور میرا مسئلہ حل ہو گیا۔(مسند
احمد)اس
کے علاوہ ان مقامات میں دعائیں مقبول ہوتی ہیں: مکہ مکرمہ کے چند مقامات :(2)مطاف :وہ
جگہ جہاں طواف کیا جاتا ہے کہ یہاں رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور جہاں رحمتوں کا
نزول ہو وہاں دعا مقبول ہوتی ہے۔(3)مستجاب: کعبہ کی دو دیواروں رکن ِیمانی اور رکنِ
اسود کی بیچ کی جنوبی دیوار یہاں ستر ہزار فرشتے دعا پر آمین کہنے کے لیے مقرر ہیں
اسی لیے سیدی اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃ
اللہ علیہ نے اس مقام کا نام مستجاب یعنی
دعا کی قبولیت کی جگہ رکھا ہے۔ (4)ملتزم (5)زم زم کے کنویں کے قریب(6) آب زم زم پیتے
ہوئے ۔حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:زم زم جس مراد سے پیا جائے اسی کے لیے۔(ابن ماجہ ج 3 ص 490 حدیث 3062)(7)بیت اللہ کے اندر(8)عرفات خصوصا
مؤقف نبی پاک کے نزدیک مدینہ منورہ کے چند مقامات(9)مسجدِ نبوی (10) مواجہہ شریف:امام
ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا یہاں قبول نہ
ہوگی تو کہاں قبول ہوگی؟(11)منبرِ اطہر کے پاس(12)مسجدقباء شریف میں(13)مساجد طیبہ
جن کو سرکار مدینہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
سرورِ قلب و سینہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
سے نسبت ہے مثلا مسجد غمامہ و مسجد قبلتین(14)مشاہد ِمبارکہ(یعنی حاضر ہونے کی جگہ ) یہاں مراد یہ ہے جس جس مقام پر سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے گئے وہاں دعا قبول ہوتی
ہے مثلا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہکا مقدس باغ وغیرہ(15) مزاراتِ بقیع۔