دعوتِ اسلامی کے شعبہ شارٹ کورسز کے زیرِ اہتمام گزشتہ دنوں یوکے بریڈفورڈ(Bradford)ریجن میں
نیو کورس بنام”Fruitful learning“کا
انعقاد کیا گیا جس میں 3 سے
لیکر 10 سال تک کے 24 بچوں نے شرکت کی ۔
اس کورس میں بچوں کو اللہ عزوجل کی وحدانیت کے بارے میں سکھایا گیا اور حضورﷺسے جو
کھانے تناول فرمانے کا ذکر ہے اس کی معلومات فراہم کی گئیں۔
یوکے اسکاٹ لینڈ
ریجن کے گلاسگو اور ایڈنبرگ کابینہ میں
ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد
دعوت اسلامی کے زیراہتمام گزشتہ ہفتے یوکے اسکاٹ لینڈ ریجن کے گلاسگو اور ایڈنبرگ ( Glasgow and Edinburgh) کابینہ میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا
گیا جن میں تقریباً77 اسلامی بہنوں نے
شرکت کی۔
مبلغات دعوت اسلامی نے”نیکیوں کی حرص کیسے پیدا
ہو؟“کے موضوع پر سنتوں بھرے بیانات کئے اور اجتماعات میں شریک اسلامی بہنوں کو قراٰن وحدیث کی روشنی
میں نیکی کی اہمیت وفضائل بیان کئے نیز اس
کے اسباب بیان کرتے ہوئے پابندی سے سنتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کرنے اور دعوتِ
اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ رہنے کی ترغیب دلائی۔
دعوت اسلامی کے شعبہ اصلاحِ اعمال للبنات کے زیر
اہتمام گزشتہ دنوں یوکے کے شہر اسٹوک (Stoke)میں اصلاح اعمال اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں 22 اسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔
مبلغۂ دعوتِ اسلامی نے سنتوں بھرا بیان کیا اور
اجتماعِ پاک میں شرکت کرنے والی اسلامی بہنوں کو رسالہ نیک اعمال کے بارے میں معلومات فراہم کرتے
ہوئے اپنی آخرت کو بہتر بنانے کے لئے روز مرہ زندگی میں نیک اعمال کے رسالے کو
نافذ کرنے کا ذہن دیا نیز اس کے ذریعے
روزانہ اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ترغیب دلائی۔
دعوت اسلامی کے شعبہ کفن دفن للبنات کے زیر اہتمام پچھلے دنوں یوکے بریڈفورڈ شہروں کیگلی، ہالی فیکس اور ویک فیلڈ (Keighley, Halifax, Wakefield)میں کفن دفن تربیتی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا
جن میں کم و بیش 34 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
مبلغات دعوت اسلامی نے سنتوں بھرے بیانات کئے
اور تربیتی اجتماعات میں شریک اسلامی بہنوں کو میت کو غسل دینے اور کفن
پہنانے کا طریقہ کار بتایا نیز کفن دفن ٹیسٹ کے متعلق ذہن دیا جس پر اسلامی بہنوں
نے ٹیسٹ کے حوالے سے اچھی اچھی نیتیں پیش کیں ۔
یوکے بریڈفورڈ
کےعلاقے روتھرہم میں اسلامی بہن کے ایصال ثواب کے لئے محفل نعت كا انعقاد
دعوتِ اسلامی کے شعبہ علاقائی دورہ للبنات کے زیر اہتمام یوکے بریڈفورڈ کےعلاقے روتھرہم(Rotherham) میں اسلامی بہن کے ایصال ثواب کے لئے محفل نعت
كا انعقاد كیا گیا جس میں 34 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
ریجن ذمہ دار ا سلامی بہن نے ’’ میت کے حقوق
و تعزیت کے آداب ‘‘ کےموضوع پر بیان کیا اور اجتماعِ پاک میں شریک اسلامی بہنوں کو اپنے مرحومین کو ایصال ثواب کرتے رہنے کا ذہن
دیا نیز ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں
شرکت کرنے اور دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ رہنے کی ترغیب دلائی۔آخر میں
مرحومین کے ایصال ثواب کے لئے دعائے مغفرت بھی کی گئی ۔
دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام پچھلے دنوں یوکے اسکاٹ لینڈ( Scotland ) ریجن گلاسگو( Glasgow ) کابینہ
میں مدنی مشورے کاانعقادہوا جس میں اسکاٹ لینڈ کی مقامی ذمہ داراسلامی بہنوں نے
شرکت کی ۔
ریجن نگران اسلامی بہن نے مدنی
مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی کافالواپ کرتے ہوئے تربیت کی اور چرم قربانی کے اہداف دیئے نیز دعوت ِاسلامی کے دینی
کاموں اور ڈونیشن کو مزید بڑھانے کی ترغیب
دلائی۔
یوکےبریڈفورڈ ریجن میں
مختلف مقامات پر بذریعہ اسکائپ نیکی کی دعوت
کا سلسلہ
دعوتِ اسلامی کے شعبہ علاقائی دورہ للبنات کے زیر
اہتمام گزشتہ دنوں یوکےبریڈفورڈ ریجن میں مختلف مقامات(Rotherham,
Sheffield, Doncaster, Batley, Heckmondwike, West Town, Wakefield and
Huddersfield) پر بذریعہ اسکائپ نیکی کی دعوت کا سلسلہ ہوا جن
میں ریجن اور کابینہ ذمہ دار اسلامی بہنوں
سمیت تقریباً 40 اسلامی بہنوں نے حصہ لیا۔
ان اسلامی
بہنوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق
رکھنے والی خواتین کو نیکی کی دعوت پیش کی
اور انہیں دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہونے، ہفتہ وار اجتماع
میں شرکت کرنے اور دینی کاموں میں بھی حصہ لینے کی ترغیب دلائی۔
علامہ ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ ثمود کے لوگ طویل القامت
اور کثیر الاعمار تھے، بدیں سب پہاڑوں میں
بڑے بڑے عالیشان محلات بناتے رہتے تھے، اٹھارہ مربع میل میں یہ قوم پھیلی
ہوئی تھی، دولت و قوت اسے میسر تھی، دیارِ ثمود میں پانی کی بڑی قلت تھی، لوگ دریا کے نہ ہونے کے باعث کنویں کھود کر
پانی حاصل کرتے اور زراعت کا کام سرانجام دیتے تھے، اس کے علاوہ ان کے پاس صرف ایک چشمہ تھا، جو
ضرورت کے اعتبار سے ناکافی تھا، ثمود کے
لوگ اعلیٰ محلات بنوانے کے بڑے شائق تھے، وہ تجربہ کار اور ماہر وں کو
بلواتے، عمارتیں تیار کرواتے، مختصراً یہ کہ قومِ ثمود کا بیشتر حصّہ انہی
کاموں میں لگا دیتے، آہستہ آہستہ ان کا یہ
شوق اُ نہیں اپنے خداؤں کی سنگین مورتیں بنوانے لگے اور ان کی پرستش کرنے لگے۔
حضرت صالح نے فرمایا:" کہ اے لوگو!اللہ کے سوا کسی
اور کو پُوجنا چھوڑ دو، صرف اُس کی عبادت
کرو ، جو اس کائنات کا واحد خالق ہے اس کا شکر ادا کرو اور غرور سے بازآؤ، ورنہ ایسی مصیبت آئے گی کہ بجز خدا تمہیں چُھڑا
نہ سکیں گے، اس پر قومِ ثمود نے کہا کہ اے
صالح! ہمیں تُم سے یہ اُمید نہیں تھی تو حضرت صالح نے عرض کی: کہ مجھ پر اللہ کی
عنایت ہے کہ مجھے اُس نے تم لوگوں کی رہنمائی کے لئے چنا، تمہاری عمارتیں، محلات وغیرہ کسی کام نہ آئیں گے، یہ سب فنا ہو جائیں گے، تُم ان سے دل مت لگاؤ، قوم کہنے لگی: کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم ہر کسی
نے جادو کر دیا ہے، ورنہ تُو ہمارے جیسا
آدمی ہے، پھر کہنے لگے:کہ تم سچے ہو تو
کوئی نشانی دکھاؤ، اس پر استفسار فرمایا
اور کہا: برابر والے پہاڑ سے ایک دس ماہ کی حاملہ قد آور اُونٹنی پیدا کر کے دکھاؤ اور تھوڑی دیر میں اس کےقد جتنا بچہ بھی پیدا ہو، آپنے پہاڑ کے قریب جا کر
دعا مانگی اور ویسا ہی ہوا، لوگ دیکھ کر
حیران ہو گئے اور ایمان لانے لگے تو شیطان نے وسوسے ڈالنے شروع کر دئیے اور وہ لوگ شیطان کی باتوں میں آگئے اور ایمان نہ
لے کر آئے، قومِ ثمود نے اونٹنی کو قتل کر
دیا اور بچہ بھاگ کر پہاڑ میں غائب ہو
گیا، لیکن قومِ ثمود میں متکبر کہنے لگے:
ہم تو جس پر تُم ایمان لائے ہو، اسے نہیں
مانتے، آخرکار اونٹنی کاٹ ڈالی اور
کہا:"اگر تم پیغمبر ہو تو وہ عذاب ہم پر لے ہی آ، جس سے تو ہمیں ڈراتا ہے، پھر زلزلے نے انہیں آ دبایا، صبح کو وہ اپنے گھر میں اوندھے مرے پڑے تھے، آپ نے منہ پھیر لیا اور کہا: میں نے تو تمہیں اپنے ربّ کا پیغام پہنچا
دیا اور تمہاری خیر خواہی کی، لیکن تم خیر خواہی کو پسند نہیں کرتے۔(اعراف)(قصص الانبيا ء، ہمارے پیغمبر)
قومِ ثمود کی نافرمانیاں ا
ز بنت محمد الیاس پیروانی ،( فیضِ مکہ،
نیو ٹاون)
حضرت صالح علیہ السلام قومِ ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجے
گئے، آپ نے جب قومِ ثمود کو خدا کا فرمان سُنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش
قوم نے آپ سے یہ معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اُونٹنی
نکالئے، جو خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و
نقائص سے پاک ہو ، چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ
فوراً ہی پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت و تندرست اور خُوب
بلند قامت اُونٹنی نکل پڑی، جو گابھن تھی
اور نکل کر اس نے ایک بچہ بھی جنا اور یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں چرتی پھرتی
رہی، اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا، جس میں پہاڑوں کے چشموں سے پانی گر کر جمع ہوتا
تھا، آپ علیہ السلام نے فرمایا: کہ اے
لوگو! دیکھو یہ معجزہ کی اُونٹنی ہے، ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی یہ پی ڈالے گی اور ایک روز تم لوگ
پینا، قوم نے اس کو مان لیا، پھر آپ نے
قومِ ثمود کے سامنے یہ تقریر فرمائی:
يٰقَوْمِ
اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ
بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا
تَاْكُلْ فِيْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَيَاْخُذَكُمْ
عَذَابٌ اَلِيْمٌ(پ8، الاعراف: 73)
ترجمۂ کنزالایمان:"اے میری قوم اللہ کو پوجو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بے شک
تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے روشن دلیل آئی ہے، یہ اللہ کا ناقہ ہے، تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اُسے برائی
برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آئے گا۔"
چند دن تو قومِ ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن
اُن کا پانی نہیں ملتا تھا، کیونکہ اس دن
تالاب کا سارا پانی اُونٹنی پی جاتی تھی، اس لئے ان لوگوں نے طے کر لیا کہ اس اُونٹنی کو قتل کر ڈالیں، چنانچہ
اس میں قدار بن سالف جو سُرخ رنگ کا بھوری آنکھوں والا اور پست قد آدمی تھا اور ایک زنا کار عورت کا لڑکا
تھا، ساری قوم کے حکم سے اس اُونٹنی کو
قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا، حضرت صالح
علیہ السلام منع ہی کرتے رہے، لیکن قدار
بن سالف نے پہلے تو اُونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا، پھر اس کو ذبح کردیا اور اِنتہائی سرکشی کے
ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا، چنانچہ خداوندِ قدوس کا ارشاد ہے کہ فَعَقَرُوا
النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا يٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا
تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۷۷ (پ8، الاعراف: 77)
ترجمہ کنزالایمان:"پس ناقہ کونچیں کاٹ دیں اور اپنے ربّ کے حکم سے
سرکشی کی اور بولے اےصالح! لے آؤ جس کا تم
وعدہ دے رہے ہو، اگر تم رسول ہو۔"
قومِ ثمود کی اس سرکشی پہ عذابِ خُداوندی کا ظہور اس طرح
ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی، پھر شدید زلزلہ آیا، جس سے پوری آبادی اتھل پتھل ہو کر چکنا چور ہو
گئی، تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہو
گئیں اور قومِ ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر گیا، قرآن مجید نے فرمایا کہ
فَاَخَذَتْهُمُ
الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ
ترجمہ کنزالایمان:"تو اُنہیں زلزلہ نے آلیا تو صبح
کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے ۔"(پ8، الاعراف: 78)
حضرت صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ پوری بستی زلزلوں کے
جھٹکوں سے تباہ و برباد ہو کر اینٹ پتھروں کا ڈھیر بن گئی اور پوری قوم ہلاک ہوگئی
تو آپ کو بڑا صدمہ اور قلق ہوا اور آپ کو قومِ ثمود اور ان کی بستی کے ویرانوں سے
اس قدر نفرت ہوگئی کہ آپ نے اُن لوگوں کی طرف سے منہ پھیر لیا اور اُس بستی کو
چھوڑ کر دوسری جگہ تشریف لے گئے اور چلتے وقت مُردہ لاشوں سے یہ فرما کر روانہ
ہوگئے کہ : فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ يٰقَوْمِ لَقَدْ
اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّيْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ
النّٰصِحِيْنَ۷۹
ترجمہ کنزالایمان:"اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں
اپنے ربّ کی رسالت پہنچا دی اور تمہارا بھلا چاہا، مگر تم خیر خوا ہوں کے غرضی (پسند کرنے والے) ہی نہیں۔"(پ8،الاعراف:79)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قومِ ثمود کی پوری بستی بربادو
ویران ہوکر کھنڈر بن گئی اور پوری قوم فنا
کے گھاٹ اُتر گئی، کہ آج ان کی نسل کا
کوئی انسان روئے زمین پر باقی نہیں رہ گیا۔
قومِ ثمود کی نافرمانیاں از بنت ذوالفقارعلی ،( مکہ کالونی گلبرگ، لاہور)
دنیا میں بہت سی قومیں آئیں، اللہ پاک نے ان قوموں کی طرف انبیاء کو ہدایت کے لئے بھیجا، جو قوم اپنے نبی علیہ السلام پر ایمان لے آتی، وہ کامیاب ہو جاتی اور جو نافرمانی کرتی، وہ عذابِ الٰہی کی مستحق ٹھہرتی، انہی قوموں میں سے ایک قوم قومِ
ثمود بھی ہے۔
2۔قومِ
ثمود کس نبی علیہ السلام کی قوم تھی:
قومِ ثمود حضرت صالح علیہ السلام کی قوم تھی، جب حضرت صالح علیہ السلام کو قومِ ثمود کی طرف
مبعوث فرما یا گیا تو آپ نے قومِ ثمود کو اللہ پاک کا فرمان سنا کر ایمان کی دعوت
دی تو اس سرکش قوم نے آپ سے معجزہ طلب کیا۔
3۔ ثمود بھی عرب
کا ہی ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور حجاز و شام کے درمیان
سرزمینِ حِجر میں رہتے تھے۔
4۔حضرت
صالح علیہ السلام کی اُونٹنی:
معجزہ یہ طلب کیا
کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن
اُونٹنی نکالئے، جو خُوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو، چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ فوراً ہی پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت اور تندرست
اور کو بلند قامت اُونٹنی نکل پڑی، جو
گابھن تھی اور نکل کر اس نے ایک بچہ
بھی جنا اور یہ اپنے بچے کے ساتھ
میدانوں میں چرتی پھرتی رہی، اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا، جس میں پہاڑوں کے چشموں سے پانی گر کر جمع ہوتا تھا۔
آپ نے فرمایا: اے لوگو! دیکھو یہ معجزہ کی اونٹنی ہے، ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی یہ پی
ڈالے گی اور ایک روز تم لوگ پینا"، قوم نے اس کو مان لیا، پھر آپ نے قومِ ثمود کے سامنے یہ
تقریر فرمائی:
ترجمہ کنزالایمان:"اے میری قوم!اللہ کو پوجو، اس کے
سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بے شک تمہارے
پاس تمہارے ربّ کی طرف سے روشن دلیل آئی، یہ اللہ کا ناقہ ہے، تمہارے
لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی سے ہاتھ نہ
لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آئے گا۔"( پ8،اعراف:73)
چنددن تو قومِ
ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ
ایک دن ان کو پانی نہیں ملتا تھا، کیونکہ اس دن تالاب کا سارا پانی اُونٹنی پی جاتی تھی، اس لئے ان لوگوں نے طے کر لیا کہ اس اونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔
چنانچہ اس قوم میں قدار بن سالف جو سُرخ رنگ کا بھوری
آنکھوں والا پستہ قد آدمی تھا اور ایک زنا
کار عورت کا لڑکا تھا، ساری قوم کے حکم سے اُونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو
گیا، حضرت صالح علیہ السلام منع فرماتے
رہے، لیکن پھر بھی اس شخص نے بات نہ سُنی
اور اُونٹنی کے چاروں پاؤں کاٹ ڈالے، پھر اس کو ذبح کر دیا اور اِنتہائی سرکشی کے
ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ
گفتگو کرنے لگا۔
چنانچہ خداوند قُدُّوس کا اِرشاد ہے:
ترجمہ کنزالایمان:"پس نا قہ کی کوچیں کاٹ دیں اور
اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح! ہم پر لے آؤ، جس کا تم وعدہ دے رہے ہو، اگر تم رسول ہو۔"(پ8، اعراف:77)
قومِ ثمود کی اس سرکشی پر عذابِ خداوندی کا ظہور ہوا، ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی، پھر شدید زلزلہ آیا، جس سے پوری آبادی تباہ ہوگئی، تمام عمارتیں بھی تہس نہس ہوگئیں اور قومِ ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں
کے بل اوندھا گر کر مر گیا۔
حضرت صالح علیہ السلام نے قومِ ثمود کو اللہ پاک کی نعمتیں
یاد دلاکر بھی سمجھایا کہ اے قومِ ثمود!تم اس وقت کو یاد کرو، جب اللہ پاک نے تمہیں قومِ عاد کے بعد ان کا
جانشین بنایا، قومِ عاد کو ان کے گناہوں
کے سبب ہلاک کرکے تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا
کی، تمہارا حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم
میں آرام کرنے کے لئے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم میں پہاڑوں
کو تراش کر مکانات بناتے ہو، لہذا تم اللہ
کی نعمتوں کو یاد کرو اور نافرمانی نہ کرو، لیکن یہ قوم کفر پر قائم رہی، چند
لوگ اُونٹنی والا معجزہ دیکھ کر ایمان لے
آئے اور باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے۔
آپ علیہ السلام کی قوم میں سے ایک شخص نے کہا: اے صالح!اگر تم رسول ہو تو
ہم پر وہ عذاب لے آؤ، جس کی وعیدیں سناتے رہتے ہو۔"
انہوں نے بدھ کے دن جب اونٹنی کی کوچیں کاٹیں تو حضرت صالح
علیہ السلام نے ان سے فرمایا: کہ تم تین دن بعد ہلاک ہوجاؤگے، پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سُرخ اور تیسرے دن سیاہ ہوجائیں
گے"، چنانچہ ایسا ہی ہوا، وہ لوگ اتوار کے دن دوپہر کے وقت اولاً ہولناک آواز میں گرفتار ہوئے، جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور وہ ہلاک ہوگئے۔
روایت ہے کہ جب جنگِ تبوک کے موقع پر سفر میں حضور صلی
اللہ علیہ والہ وسلم قومِ ثمود کی بستیوں کے کھنڈرات کے پاس سے گزرے تو آپ نے
فرمایا کہ خبردار! کوئی شخص اس گاؤں میں
داخل نہ ہو اور نہ ہی اس گاؤں کے کنویں کا کوئی شخص پانی پئے اور تم لوگ اس عذاب
کی جگہ سے خوفِ الہی میں ڈوب کر روتے ہوئے اور مُنہ ڈھانپے ہوئے جلدی سے گزر جاؤ۔
اس قوم کی ہلاکت سے ہمیں عبرت پکڑنی چاہئے اور اللہ پاک کی
نافرمانی والے کام نہیں کرنے چاہئیں اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی
سنتوں پر عمل کرکے اپنی زندگی بسر کرنی چاہئے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنا اور اپنے پیارے حبیب صلی
اللہ علیہ والہ وسلم کا مطیع و فرمانبردار بنا دے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
علیہ والہ وسلم
اللہ پاک نے قرآن کریم میں اُمّتِ محمدی علی صاحبہا
الصلوٰۃ والسلام کی عبرت و نصیحت کے لئے سابقہ اُمتوں کی نافرمانیوں کو بیان
فرمایا ہے، انہی میں سے ایک قومِ ثمود بھی
ہے۔
قومِ ثمود کا تعارف:
ثمود عرب کا ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن
نوح علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد میں سے تھے اور حجاز و شام کے
درمیان سرزمین حجر میں رہتے تھے، اللہ پاک
نے ان کی طرف حضرت صالح علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا۔
قومِ ثمود کی نافرمانیوں کا واقعہ:
جب حضرت صالح علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے قومِ
ثمود کو اللہ پاک کی وحدانیت و عبادت کی طرف بلایا، تو وہ کہنے لگے:اگر آپ پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں
فلاں صفات کی اُونٹنی ظاہر کریں تو ہم
ایمان لے آئیں گے، حضرت صالح علیہ السلام
نے ان سے ایمان کا وعدہ لے کر ربّ پاک سے
دعا کی، سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی
شکل و صورت کی پوری جوان اُونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ
جنا، یہ معجزہ دیکھ کر بہت سے لوگ ایمان
لے آئے، جبکہ اکثر لوگ اپنے وعدے سے پھر
گئے اور کفر پر قائم رہے۔
حضرت صالح علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے
فرمایا:" کہ تم اس اُونٹنی کو چھوڑ دو کہ زمین میں کھائے اور اس کو نقصان نہ
پہنچانا، ورنہ تمہیں دردناک عذاب پہنچے
گا۔" قوم نے اس بات پر اتفاق کر لیا اور یہ اُونٹنی ان میں رہے گی، جہاں سے چاہے چرے گی اور ایک دن چھوڑ کر پانی
پئے گی، جب وہ کنویں کا پانی پینے کے لئے
آتی تو اس دن کنویں کا سارا پانی پی لیتی، وہ اپنی باری کے دن کل کے لئے پانی
جمع کر لیتے۔
جب اس حالت پر کچھ مدت لمبی ہو گئی تو انہوں نے متفقہ
فیصلہ کیا کہ اس اُونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں تاکہ اس مصیبت سے نجات پائیں، چنانچہ انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں، اسے ذبح کر ڈالا اور کہا کہ اے صالح! اگرتم ر
سول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ، جس کی وعیدیں سُناتے رہتے ہو، انہوں نے اپنی اس بات میں کفر کی انتہائی حدوں کو چُھوا۔
اللہ پاک نے ان کو اُونٹنی نشانی کے طور پر دی تھی اور اِس
کو نقصان پہنچانے سے منع کیا تھا، مگر
انہوں نے اُونٹنی کو قتل کر دیا اور عذاب کو جلدی طلب کیا، اپنے اس رسول کی تکذیب کی، جس کی نبوت و سچائی پر قطعی اورپُختہ دلیل قائم ہوچکی تھی۔
حضرت صالح علی
نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے ان سے فرمایا: کہ تم تین دن کے بعد ہلاک کر دیئے
جاؤ گے، لیکن انہوں نے اس وعدے کی بھی
تصدیق نہ کی، بلکہ اور زیادہ دلیری کرکے
حضرت صالح علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا۔
چنانچہ ان کی نافرمانیوں کے سبب اللہ پاک نے انہیں
ہولناک چیخ اور زلزلے کے ذریعہ ہلاک فرما
دیا۔(صراط الجنان، سورہ اعراف، آیت83 تا 89، قصص
الانبیاء، ملتقطاً)
اللہ پاک ہمیں عبرت حاصل کرنے، اپنی نافرمانی سے بچنے، اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی
اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
قومِ ثمود کی نافرمانیاں از
بنت محمد سعید ، (فیضان عالم شاہ بخاری کراچی)
ثمود عرب کا ایک قبیلہ تھا اور یہ لوگ ثمود بن رام بن سام
بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں تھے اور
حجاز و شام کے درمیان سرزمینِ حِجر میں رہتے تھے، قومِ ثمود قومِ عاد کے بعد
ہوئی، اس قوم کی طرف حضرت صالح علیہ
السلام مبعوث کئے گئے، قومِ ثمود نے گرمیوں کے لئے بستیوں میں محل
بنائے ہوئے تھے اور سردی کے موسم کے لئے پہاڑوں میں گرم مکانات تعمیر کئے
تھے، اس قوم نے حضرت صالح علیہ السلام کی
نافرمانیاں کیں، ان میں سے 5 مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ایمان کے وعدے کا انکار:
قومِ ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السلام سے عرض کیا:"اگر آپ سچے نبی ہیں تو
پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی اُونٹنی ظاہر کریں، اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو ایمان لے آئیں
گے، حضرت صالح علیہ السلام نے ایمان کا وعدہ لے کر ربّ پاک سے دعا کی، سب کے سامنے
وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری
جوان اونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا، یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا، جبکہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر
قائم رہے۔"(صراط الجنان، جلد 3، صفحہ 360)
2۔اونٹنی کی ہلاکت:
حضرت صالح علیہ السلام نے اس معجزے والی اونٹنی کے متعلق فرمایا تھا کہ تم اس
اُونٹنی کو تنگ نہ کرنا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، تاکہ اللہ پاک کی زمین میں کھائے اور اسے
بُرائی کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا، نہ مارنا، نہ ہنکانا اور نہ قتل کرنا ، اس کے
بعد قومِ ثمود کے دو شخص قدار اور مصدع نے حضرت صالح علیہ السلام کے حکم کی
نافرمانی کرتے ہوئے اُونٹنی کو ایک جگہ پاکر اسے ذبح کر دیا، قدار نے اُونٹنی کو ذبح کیا اور مصدع نے ذبح پر مدد دی۔"(صراط الجنان، جلد 3، صفحہ 360)
3۔رسالت کا انکار:
حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے متکبرسردار کمزور
مسلمانوں سے کہنے لگے: کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح علیہ السلام اپنے
ربّ کے رسول ہیں؟ انہوں نے کہا:بے شک ہمارا یہی عقیدہ ہے، ہم انہیں اور ان کی تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں،
" سرداروں نے کہا :جس پر تم ایمان رکھتے ہو، ہم تو اس کا انکار کرتے ہیں۔(صراط
الجنان، جلد 3، صفحہ 360)
4۔قیامت کا انکار:
قومِ ثمود نے طرح
طرح کی دہشتوں اور ہولناکیوں سے دلوں کو
دہلا دینے والی قیامت کو جھٹلایا تو (دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ اس جُرم کی وجہ سے
بھی)حد سے گزری ہوئی چنگاڑیعنی سخت
ہولناک آواز سے ہلاک کر دیئے گئے۔(صراط الجنان، جلد
10، صفحہ 316)
5۔اللہ کی عبادت سے انکار:
اللہ پاک نے قومِ ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام
کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اے لوگو!تم
اللہ پاک کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ تو
وہ اُسی وقت جھگڑا کرتے ہوئے دو گروہ بن گئے، ایک گروہ حضرت صالح علیہ السلام پر ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے ایمان لانے سے
انکار کر دیا۔(صراط الجنان، جلد
1، صفحہ 209)