اللہ پاک سے خیر طلب کرنے کو دعا کہتے ہیں یعنی اپنے لیے خیر و برکت
کی طلب گار ہونا ،اللہ پاک کے حضور اپنی
تمنا اور جذبات کا اظہار کرنا اور خود کو اللہ پاک کے قریب محسوس کرنا دعا میں ہی شامل ہے۔ دعا ایک
عمدہ عبادت کے ساتھ ایک نعمت بھی ہے جسے بندہ اپنا کر سرخرو ہوتا ہے بلکہ اللہ پاک
کے مقربوں میں شمار ہوجاتا ہے ۔دعا کی فضیلت و اہمیت: دعا ایک ایسا خزانہ ہے جس کی
اہمیت اور فضیلت کے بارے میں خود آپ علیہ الصلوۃوالسلام نے ارشاد فرمایا ہےچنانچہ آپ کا ارشادِ خاص ہے:الدعاءُ
مخُّ العبادۃیعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔ (ترمذی، 5/243،
حدیث:3384)ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:الدعاء
سلاح المومن و عمادالدین و نورالسموت یعنی دعا مومن کا
ہتھیار، دین کا ستون اور آسمانوں کا نور ہے۔(
مستدرک حاکم، 2/162، حدیث: 1855) جیسے کہ حدیث سے معلوم ہواکہ دعا کتنی فضیلت کی
حامل ہے کہ خود حدیث میں ارشاد کیا گیا کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے جو ہر مسلمان مرد
اور عورت کی حفاظت اور اس کے قلب کے لئے فرحت بخش ہے لہٰذا مسلمانوں کی اس کی فضیلت کو سمجھتے ہوئے ہر گھڑی سے
فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اللہ پاک نےدعا کی
اہمیت اور اس سے حاصل ہونے والے فائدےسے مسلمانوں کو آگاہ کیا ہے چنانچہ ارشاد
فرماتا ہے:ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْترجمہ مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا۔(پارہ
24، المومن 60) ایک اور مقام پردعا نہ
مانگنے والوں سے ارشاد فرمایا: فَلَوْلَا إِذْ
جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ ترجمہ:تو نہ ہوا جب آئی تھی ان پر ہماری طرف سے سختی تو گڑگڑائے ہوتے لیکن سخت ہو گئے ہیں دل ان کے۔(پ7، الانعام 43) اس آیت ِمبارکہ میں اور
اس سے پہلے والی آیت میں دعا کی اہمیت کا احساس دلایا جا رہا ہے کہ دعا مسلمانوں
کے لیے کس قدر ضروری ہے کہ اگر کوئی دل سے
اس عبادت کو اپنائے تو فلاح پا گیا اور جس نے اس عبادت کو چھوڑ دیا دل کی سختی اس پر
لاگو ہو گی۔ پیاری بہنو! جیسے دعا اہمیت و فضلیت کے بارے میں ہم نے پڑھا اسی طرح کچھ
اور بھی اس کے متعلق پڑھتی ہیں اور وہ یہ کہ کن مقامات پر ربِّ کریم ہماری دعا مستجاب
فرماتا ہے۔قبولیتِ دعا کے پندرہ مقامات:اول:مطاف :قال الرضاء: یہ وسط ِ مسجد ِحرام
میں ایک گول قطعہ ہے سنگ ِمرمر سے مفروش یعنی وہ ٹکڑا جس پر سنگِ مرمر بچھا ہوا ہے
اور اس کے بیچ میں کعبہ معظمہ ہے یہاں طواف
کرتے ہیں۔(جواہر البیان فصل چہارم ص 75) دوم:
داخلِ بیت اللہ: بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر ۔سوم: حجر ِاسود :یہ وہ جنتی پتھر
ہے جو کعبۃ اللہ شریف کے جنوب مشرقی کونے میں واقع رکنِ اسود میں نصب ہے ،مسلمان
اسے چومتے اور استلام کر کے اپنے گناہ دھلواتے ہیں ۔چہارم: حطیم: کعبہ معظمہ کی
شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں فصیل یعنی باؤنڈری کے اندر کا حصہ حطیم کعبہ
شریف ہی کا حصہ ہے داخل ہونا ہے۔(رفیق الحرمین ص 37)پنجم:خلفِ مقامِ ابراہیم:مقام ِابراہیم کے پیچھے۔ ششم:صفا ۔ہفتم:مروہ۔
ہشتم:عرفات خصوصا موقف ِنبی ۔ نہم:رکن ِیمانی۔قال الرضا :خصوصا جبکہ طواف کرتے
وہاں گزر ہو۔ حدیث شریف میں ہے: یہاں اے اللہ پاک!میں تجھ سے دنیا آخرت میں معافی اور ہر برائی
سے عافیت کا سوال کرتا ہوں اے رب عذاب سے بچا کہے ہزار فرشتے آمین کہیں گے ۔(مسندفردوس الحدیث 7336 ج 2 ص 397)
دہم:نظر گاہِ کعبہ :جہاں کہیں ہو اور ان اماکن سے بعض میں اجابت یا بعض کے
نزدیک بعض اوقات سے خاص ہے یعنی جہاں کہیں سے کعبہ شریف نظر آئے وہ جگہ بھی مقامِ
قبولیت ہے۔امامِ اہلِ سنت رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں ارشاد فرمایا :میں کہتا ہوں :اگر
ان جگہوں میں دعا کی قبولیت کو عام کہا جائے یعنی کہ کسی خاص وقت میں مخصوص نہ کیا
جائے تو بھی بعید نہیں کیونکہ یہاں اللہ پاک کے فضل و کرم کےزیادہ موافق ہے۔ یازدہم:مسجد
ِنبوی۔ دوازدہم:اولیاء علماء کی مجالس۔اللہ پاک ہمیں تمام ہی اولیاء و علماء کی
برکتوں سے نفع پہنچائے ۔قال الرضا:رب کریم صحیح حدیث ِقدسی میں فرماتا ہے:یہ وہ لوگ
ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا۔ سیزدہم:مسجد قباء شریف ۔پانزدہم:مزار ِمطہر ابو
حنیفہ کے پاس :امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مجھے جب کوئی حاجت پیش آتی دو رکعت
نماز پڑھتا ہوں اور قبر ِامام ابو حنیفہ کے پاس جا کر دعا مانگتا ہوں اللہ پاک روا
فرماتا ہے۔ سیزدہم:مواجہہ شریف حضور سید الشافعین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں :دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی؟اقول:وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَآءُوكَ
فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ
تَوَّابًا رَحِيمًا اس پر دلیل کافی ہے۔اللہ پاک ہر طرح معاف کر سکتا ہے مگر ارشاد ہوتا
ہے کہ اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے
حضور حاضر ہوں اللہ پاک سے اور رسول ان کی بخشش چاہیں تو ضرور اللہ کو توبہ قبول
کرنے والا مہربان پائیں۔ ترغیب :پیاری بہنو! ان سے کئی معلومات پڑھنے کے بعد پتہ
چلتا ہے کہ ہمیں دعا کثرت سے مانگنی چاہیے اور قرب و راحت کے اندر اللہ کریم ہمیں
دل کی سکونی کے ساتھ دعا مانگنے والی بنائے ۔آمین