حضور رمضان کیسے
گزارتے تھے؟از بنتِ ناہید مدنیہ، تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ
رمضان المبارک کا پیارا پیارا میٹھا میٹھا مہینا
اپنی عظمت و برکت،فضیلت و اہمیت اور رحمت و مغفرت کے اعتبار سے دوسرے تمام اسلامی
مہینوں سے ممتاز ہے۔اسی مہینے میں اللہ پاک نے قرآنِ کریم کو نازل فرما کر اسے
سعادتوں کی معراج عطا فرمائی۔اسی بابرکت مہینے میں اللہ پاک نے جنت کے دروازوں کو
کھول دیا اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا۔رمضان المبارک کی فضیلت،اہمیت، برکت اور
رحمت کی بنا پر ہی ہمارے پیارے آقا ﷺ بھی رمضان المبارک کی تشریف آوری سے قبل ہی
اس کی تیاری میں مصروفِ عمل ہو جایا کرتے تھے۔جب رمضان المبارک کی تشریف آوری ہو
جاتی تو پیارے آقا کریم ﷺ عام دنوں کی بنسبت عبادات و ریاضات،تلاوتِ قرآنِ کریم اور ذکر و اذکار میں زیادہ
مصروف ہو جایا کرتے تھے۔اب ہم بھی اپنے آقا کریم ﷺ کے رمضان المبارک میں کیے جانے
والے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے دلوں کو تقویت بخشیں گی۔اے کاش!رسول اللہ ﷺ کی
ہر ہر سنت کو ہر مسلمان اپنانے میں کامیاب ہو جائے ۔امین بجاہِ خاتِم النبی الامین
ﷺ
رمضان المبارک کے روزوں کی فضیلت حدیثِ مبارک کی
روشنی میں:
عَنْ اَبِی هُرَيْرَةَرَضِیَ اﷲ عَنْہُ عَنِ
النَّبيِّ صَلَّی ﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِيْمَانًا
وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِیعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسولُ اﷲ ﷺ
نے ارشادفرمایا:جس نے ایمان اور ثواب کی اُمِّید پر ماہِ رمضان کے روزے رکھے اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔(مسند احمد،3/333،حدیث:9011)
معلوم ہواکہ جس نےرمضان کے روزہ رکھےاﷲپاک اس کےتمام صغیرہ گناہ معاف فرما دیتا ہے مگر اس
فضیلت کا حق دار وہی مسلمان ہو گا جو ایمان والا ہو اورحصولِ ثواب کے لئے روزہ رکھے،کیونکہ عمل کی قبولیت کے لئے
ایمان و اخلاص شرط ہے۔چنانچہ اشعۃ اللمعات جلد 2 صفحہ77 پر ہے:جوشخص اﷲ پاک پرایمان رکھتے ہوئے،اس کے احکام وفرامین کی بجا آوری کے لئے اور اس کے وعدہ کی تصدیق کرتے ہوئے اجر و ثواب
کی امید پرایک دن کاروزہ رکھے تو اﷲ پاک اس کے پچھلے گناہ معاف فرما دے گا۔(اشعۃ اللمعات،2/77
ملخصاً)
مراۃ المناجیح میں ہے:جس روزہ کے ساتھ ایمان اور
اخلاص جمع ہوجائیں اس کا نفع تو بے شمار ہے،دفعِ ضرریہ ہے کہ اس کے سارے صغیرہ
گناہ اورحقوقُ اﷲمعاف ہوجاتے ہیں۔جوشخص بیماری کے علاج کے
لیے روزہ رکھے نہ کہ طلبِ ثواب کے لیے تو کوئی ثواب نہیں۔(مراۃ المناجیح،3/134ملتقطاً)
گناہوں کی معافی: احادیثِ مبارکہ میں جہاں مختلف اعمال کی بجا
آوری پر گناہوں کی مغفرت کی بشارت ہوتی ہے
وہاں صغیرہ گناہوں کی معافی مراد ہوتی ہے۔چنانچہ
دلیل الفالحین میں ہے :اعمالِ صالحہ کی
برکت سے وہ صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں جوحقوقُ اﷲسے متعلق ہوں۔(دلیل
الفالحین،4/30،تحت حدیث::1217) مرآۃ المناجیح میں ہے:اس طرح کے نیک اعمال سے صغیرہ
گناہ معاف ہو تے ہیں اور کبیرہ گناہ صغیرہ بن جاتے ہیں ۔ اور جن بندوں کے گناہ ہی نہ ہوں ان کے درجات بلند
کردئیے جاتےہیں۔رمضان میں روزوں کی برکت
سے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں، تراویح کی برکت سے کبیرہ گناہ خفیف ہوجاتے ہیں اور شبِ قدر کی
برکت سے درجات بلند کر دئیے جاتے ہیں ۔(مراۃ المناجیح،3/134ملخصاً)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رمضان المبارک کے چاند کی مبارک باد:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم،رحمتِ عالم،نورِ مجسم ﷺ اپنے صحابہ کرام کو خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد
فرمایا کرتے تھے کہ رمضان کا مہینا آگیا ہے جو کہ بہت ہی بابرکت ہے۔ اللہ پاک نے اس کے روزے تم پر فرض کیے ہیں۔اس میں آسمان
کے دروازے کھول دیئے جاتے اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔نیز سرکش شیطانوں
کو قید کر لیا جاتا ہے۔اس میں ایک رات شبِ قدر ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ جو
اس کی بھلائی سے محروم ہوا وہی محروم ہے ۔ (نسائی،ص355،حدیث:2103)
رسول اللہ ﷺ کا رمضان المبارک میں اندازِ سخاوت
اور دورۂ قرآنِ کریم:وَعَنِ ابنِ عباس قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ،وَكَانَ أَجْوَدَ
مَا يَكُوْنُ فِيْ رَمَضَانَ، كَانَ جِبْرِيْلُ يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِيْ
رَمَضَانَ، يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى
اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ، فَإِذَا لَقِيَهٗ جِبْرِيْلُ كَانَ
أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيْحِ الْمُرْسَلَةِحضرت ابنِ
عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ
ﷺ تمام سے بڑھ کر ہر بھلائی کے سخی داتا تھے1۔آپ
رمضان میں تو بہت ہی سخاوت فرماتے تھے2 ۔ہر
رات جبریلِ امین آپ سے ملتے تھے۔نبیِ کریم ﷺ حضرت جبریل پر قرآن پیش فرماتے تھے3۔تو جب آپ سے جبریل ملتے تب آپ بھیجی
ہوئی تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی بالخیر ہوتے تھے4۔(
بُخاری،1/9، حدیث:6)
1-ہمیشہ ہی مال کی،اعمال کی ،علم کی،ہر رحمتِ الٰہیہ
کی سخاوت کرتے تھے۔حضور انور ﷺ کی سی سخاوت آج تک نہ کسی نے کی نہ کوئی کرسکتا ہے۔حضور
انور ﷺ اللہ کی صفتِ جواد کے مظہر ِاتم ہیں۔قرآنِ
کریم نے حضور انور ﷺ کو کریم یعنی سخی داتا فرمایا۔
2- ماہِ
رمضان میں تو کسی کو کسی طرح رد فرماتے ہی نہ تھے،جنت مانگنے والوں کوجنت، رحمت کے
سائلوں کو رحمت،خودحضور انورﷺ سے حضور کو مانگنے والوں کو اپنی توجہ کرم،مال
مانگنے والوں کو مال،اعمال،کمال، لقائے ذوالجلال غرضیکہ جو سائل جو مانگتا تھا منہ
مانگی پاتا تھا۔بعض عشاق اب بھی رمضان میں حضور انور ﷺ سے ہر چیز مانگتے ہیں۔مسلمانوں کو بھی رمضان میں
بہت سخاوت کرنی چاہیے کہ یہ سنتِ رسول ہے۔
3-یہاں مرقات نے فرمایا کہ ہر رمضان میں
حضور انور ﷺ حضرت جبریل کے ساتھ اول سے آخر تک سارا قرآن مع تجوید و مخارجِ حروف
کے دور فرماتے تھے ۔اس سے دو مسئلے معلوم
ہوئے: ایک یہ کہ رمضان میں دورِ قرآن کرنا یا قرآن کا دورہ کرنا سنتِ رسول بھی ہے
اور سنتِ جبریل بھی۔ دوسرے یہ کہ حضور انور ﷺ اول ہی سے سارا قرآن جانتے ہیں۔نزولِ
قرآن تو امت پر احکام جاری کرنے کیلیے ہوا،کیونکہ ہر رمضان میں حضور انور ﷺ پورا
قرآن سن بھی رہے ہیں اور حضرت جبریل کو سنا بھی رہے ہیں،حالانکہ ابھی سارا قرآن
نازل نہیں ہوا تھا،نزول کی تکمیل تو وفات سے کچھ پہلے ہوئی۔
4-یعنی جیسے ہوا کی سخاوت پر عالم قائم
ہے کہ ہر شخص ہوا سے ہی سانس لیتا ہے اور ہوا ہی سے بارش آتی ہے،ہوا سے ہی کھیت و
باغ پھلتے پھولتے ہیں، پھر ہر جگہ ہوا موجود ہے، ہر جاندار وغیر جاندار کو ہر طرح
فیض پہنچاتی ہے، ایسے ہی حضور انور ﷺ ملاقاتِ جبریل کے موقعہ پر ہر ایک کو ہر طرح
ہرچیز دیتے تھے۔ خیال رہے کہ رب کریم رمضان میں بہت جودو کرم فرماتا ہے،اس سنتِ
الہٰیہ کے مطابق حضور انور ﷺ بھی رمضان میں زیادہ سخاوت کرتے تھے،ہوئے جو رب کریم
کے مظہر اتم ﷺ۔(مراۃ المناجیح،/213)
رسول اللہ ﷺ کا رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں
خصوصیت کے ساتھ اہتمام:وَعَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ: كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهٗ، وَأَحْيَا لَيْلَهٗ،
وَأَيْقَظَ أَهْلَهٗ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے ،فرماتی ہیں
کہ جب آخری عشرہ آتا تو رسول اللہ ﷺ کمر بستہ ہوجاتے1۔راتوں کو خود جاگتے اور گھر
والوں کو جگاتے2۔
(مسلم،ص462، حدیث: 2787)
1-میزر ازار سے بنا،بمعنی تہبند یا پائجامہ،لفظی معنے ہوئے اپنا تہبند باندھ لیتے۔ظاہر
یہ ہے کہ اس سے مراد ہے شاق کاموں کے لیے تیار ہوجاتے جیسے کہا جاتا ہے اٹھ باندھ
کمر کیا بیٹھا ہے۔ ہوسکتاہے کہ مقصد یہ ہو کہ حضور انور ﷺ اس زمانہ میں ازواج ِپاک
سے قطعًا علیحدہ رہتے، اعتکاف کی وجہ سے بھی اور زیادہ عبادتوں میں مشغولیت کے سبب
سے بھی۔
2-یعنی اس عشرہ کی راتوں میں قریباًتمام رات جاگتے
تھے تلاوتِ قرآن ،نوافل،ذکر اللہ میں راتیں گزارتے تھے اور ازواجِ پاک کو بھی اس
کا حکم دیتے تھے۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ حضور انور ﷺ نے تمام رات بیداری و عبادت
کبھی نہ کیں۔خیال رہے کہ یہاں احیاءٌ سے مراد ہے
عبادت کے لیے جاگنا اورلیلہ اس کا ظرف ہے
یعنی رات بھر عبادت کے لیے جاگتے،ہوسکتا ہے کہ لیلہ
مفعول بہ ہو یعنی رات کے اوقات کو اپنی عبادت سے زندہ کردیتے یا زندہ رکھتے۔ جو
وقت اللہ کی یاد میں گزرے وہ زندہ ہے جو
غفلت میں گزرے وہ مردہ۔(مراۃ المناجیح،3 ، /207)
قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا:كَانَ
رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ
الْأَوَاخِرِ مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ۔حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ آخری عشرہ میں اس قدر مشقت فرماتے تھے جو دیگر
ایام میں نہ کرتے تھے1۔(مسلم،ص462،حدیث:2788)
1- حضور انورﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں
اعتکاف بھی کرتے تھے اور عمومًا شب بیداری بھی یا تو اس لیے کہ اس عشرہ میں شبِ
قدر ہے یا ا س لیے کہ مہمان جارہا ہے الوداع سامنے ہے جو اوقات مل جائیں غنیمت ہے یا
اس لیے کہ مہینا کا خاتمہ زیادہ عبادتوں پر ہو۔بزرگوں کو دیکھا گیا ہے کہ بڑھاپے میں
دنیا سے کنارہ کرکے عبادت زیادہ کرتے ہیں کہ اب چلتا وقت ہے جو ہوسکے کرلیں۔
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہوسکے کرلے اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ
دو دن کی اجالی ہے
(مراۃ المناجیح،3 /207)
رسول اللہ ﷺ کا رمضان المبارک میں قیام:عَنْ
اَبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ
عَلَيْهِ وسَلَّم يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ اَنْ يَاْمُرَهُمْ
فِيْهِ بِعَزِيْمَةٍ فَيَقُوْلُ:مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِيْمَانًاوَاِحْتِسَابًا
غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اﷲ
عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولُ اﷲ ﷺ قیامِ رمضان(یعنی تراویح) کی ترغیب دیتے تھے،تاکیداً
اس کا حکم نہ دیتے اور فرماتے:جس نے رمضان میں ایمان اور ثواب کی نیت
سے قیام کیااس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئےجاتے ہیں۔
(مسلم،ص 298،حدیث:1780)
صغیرہ گناہوں کی معافی:مذکورہ
اَحادیث میں قیامِ رمضان یعنی نمازِ تراویح کی فضیلت بیان کی گئی ہے، احادیثِ
مبارکہ میں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیامِ
رمضان کرنے والے کے لئے فرمایا گیا کہ اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں یعنی
تراویح کی پابندی کی برکت سے سارے صغیرہ گناہ معاف ہوجائیں گے کیونکہ گناہِ کبیرہ
توبہ سے اور حقوقُ العباد حق والے کے معاف کرنے سے معاف ہوتے ہیں۔دوسری حدیثِ پاک
میں فرمایا گیا کہ رسولُ اﷲ ﷺ قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے تھے تاکیداً اس کا حکم ارشاد
نہ فرماتے۔یعنی آپ نے) تراویح کوفرض یا واجب نہ قرار دیالہٰذا اس سے یہ لازم نہیں
کہ یہ سُنَّتِ مُؤکَّدہ بھی نہ ہوں۔
(مراۃ المناجیح،2/288)
اللہ کریم
ہم سب کو رسول اللہ ﷺ کا صدقہ عطا فرمائے اور جس طرح پیارے آقا ﷺ رمضان المبارک کے ایام گزارا کرتے تھے ہم کو بھی اسی طرح رمضان گزارنے کی توفیق
عطا فرمائے ۔ امین
رمضان کے مہینے اور اس کے روزوں کی بہت سی فضیلتیں
ہیں۔اللہ پاک کے محبوب ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:روزہ عبادت کا دروازہ ہے۔ (جامع صغیر،
ص 142، حدیث: 2415)
رمضان المبارک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک
نے اس ماہ میں قرآنِ مجید نازل فرمایا۔
ہمارے آقائے
دو جہاںﷺ بھی رمضان میں بہت عبادت کیا کرتے تھے۔چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب ماہِ رمضان آتا تو شہنشاہِ
نبوت،تاجدار ِرسالتﷺ بیس دن نماز اور نیند کو ملاتے تھے۔جب آخری عشرہ ہوتا تو اللہ
پاک کی عبادت کے لیے کمر بستہ ہو جاتے۔
(مسند امام احمد،9/338،حديث:24444)
ایک اور روایت میں فرماتی ہیں: جب ماہِ رمضان تشریف
لاتا تو حضور اکرم،نورِ مجسم، شاہِ بنی آدمﷺ کا رنگ مبارک متغیر (یعنی تبدیل) ہو
جاتا اور نماز کی کثرت فرماتے اور خوب دعائیں مانگتے۔ (شعب الايمان، 3 /310 ،حديث:
2625)
سبحان اللہ! ہمارے پیارے آقا ﷺ رمضان کیسے گزارتے تھے! ہمیں بھی چاہیے کہ رمضان المبارک
میں ڈھیروں دعائیں مانگیں کہ امیرمومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ انور، مدینے کے تاجورﷺ
کا فرمانِ روح پرور ہے:رمضان میں ذکر اللہ کرنے والے کو بخش دیا جاتا ہے اور اس مہینے
میں اللہ سے مانگنے والا محروم نہیں رہتا۔
(شُعَبُ الْایمان،3/311،حدیث:3627)
سبحان اللہ!ہمیں بھی اپنے پیارے پیارے نبیﷺ کی سنت
پر عمل کرنا چاہیے اور ثواب اور بخشش سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔
سب سے بڑھ کر سخی:
ہمارے آقاﷺ سب سے بڑھ کر سخی ہیں۔چنانچہ حضرت عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:رسول اللہﷺ لوگوں میں سب سے
بڑھ کر سخی تھے اور رمضان المبارک میں آپ (خصوصاً) بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔
جبریل امین علیہ السلام رمضان المبارک کی ہر رات میں ملاقات کے لیے حاضر ہوتے اور رسولِ
کریم، روف الرحیمﷺ ان کے ساتھ قرآن عظیم کا دور فرماتے۔ جب بھی جبرائیلِ امین علیہ
السلام آپ کی خدمت میں آتے تو آپ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر (یعنی بھلائی) کے معاملے میں سخاوت فرماتے۔ (بخاری،1/9،حديث:6)ایک
اور مقام پر حضرت عبد الله ابنِ عباس رضی
اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب ماہِ رمضان آتا
تو سرکارِ مدینہﷺ ہر قیدی کو رہا کر دیتے اور ہر سائل کو عطا فرماتے۔ (شعب الایمان،3
/311 ،حديث: 3629)
حکیم الامت
مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ بیان کردہ حدیثِ پاک کے حصے” ہر قیدی کو رہا کر
دیتے“کے تحت مراة المناجیح،جلد 3
صفحہ 142 پر فرماتے ہیں: حق یہ ہے کہ یہاں قیدی سے مراد وہ شخص ہے جو حقوق اللہ
اور حقوق العبد (یعنی بندوں کے حق) میں گرفتار ہو اور آزاد فرمانے سے اس کے حق ادا
کر دینا یا کرا دینا مراد ہے۔
ہاتھ اٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم! ہیں سخی کے مال میں حقدار ہم
(حدائقِ بخشش، ص73)
روزہ ایک
عظیم نیکی ہے۔انسان بھوکا رہ کر رب کی عبادت کر کےاسے راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے
تو اللہ پاک بھی اپنے اس بندے کو عظیم ثواب عطا فرماتا ہے۔اس کے علاوہ روزہ دار کو
قیامت کے دن سیراب بھی کیا جائے گا۔چنانچہ ایک حدیثِ مبارک کا حصہ ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم، نورِ
مجسمﷺ تشریف لائے اور فرمایا:آج رات میں نے اپنے ایک امتی کو خواب میں دیکھا کہ پیاس
کی شدت سے زبان نکالے ہوئے تھا اور ایک حوض پر پانی پینے جاتا تھا مگر لوٹا دیا جاتا
تھا کہ اتنے میں اس کے روزے آگئے (اور اس نیکی نے) اس کو سیراب کر دیا۔(نوادر الاصول،2/1023 ، حدیث : 1329)
سبحان
اللہ! روزے کیسی عظیم نعمت ہیں جو اللہ پاک نے ہمیں عطا فرمائے ہیں! ہمیں اس نعمت سے خوب فائدہ اٹھانا چاہیے اور رمضان
مبارک میں خوب خوب عبادت کر کے اپنی بخشش کا سامان کرنا چاہیے۔اللہ پاک ہمیں عمل کی
توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ
پیارے آقاﷺ بہت ہی خشوع وخضوع کے ساتھ رمضان المبارک
گزارا کرتے تھے۔ آئیے! رمضان کی فضیلت حدیثِ مبارک سے سنتی ہیں اور رمضان کیا ہے یہ
بھی سنتی ہیں۔
حدیثِ مبارک : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ نبیِ
پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس مہینے کا نام رمضان رکھا گیا ہے کیونکہ یہ گناہوں کو
جلا دیتا ہے۔
(کنز العمال،جز: 8،4 / 217،حدیث:23683)
حدیثِ مبارک:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،حضور پاکﷺ کا فرمان ہے:پانچوں نمازیں
اور جمعہ اگلے جمعہ تک اور ماہِ رمضان اگلے ماہِ رمضان تک گناہوں کا کفارہ ہیں جب
تک کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے ۔( مسلم، ص 144،حدیث:233)
پیارے آقا ﷺ رمضان کیسے گزارتے تھے؟اس کے متعلق حدیثِ
مبارک پیش خدمت کرتی ہوں۔ ہمارے پیارے پیارے اور میٹھے میٹھے آقا ﷺ اس مبارک مہینے
کی آمد کے ساتھ ہی عبادتِ الٰہی میں بہت زیادہ مگن ہو جایا کرتے تھے۔چنانچہ اُم
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہافرماتی ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو میرے سرتاج،صاحبِ معراجﷺالله پاک کی عبادت کیلئے
کمر بستہ ہوجاتے اور سارا مہینا اپنے بستر منور پر تشریف نہ لاتے۔ (در منثور،1/449)
ایک اور جگہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب ماہِ رمضان تشریف
لاتا تو حضور اکرم، نورِ مجسمﷺ کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا اور آپ نماز کی کثرت
فرماتے اور خوب گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے اور اللہ پاک کا خوف آپ پر طاری رہتا۔
(شعب الایمان،3/310،حدیث:3625)
پیارے آقا ﷺ
رمضان میں خوب خیرات کرتے تھے ۔ چنانچہ عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما
فرماتے ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو سرکارِ مدینہ ﷺ ہر قیدی کو رہا کر دیتے اور ہر
سائل کو عطا فرماتے۔
(شعب الایمان،3/311، حدیث: 3629 )
ہمارے پیارے آقا ﷺ بہت زیادہ سخی تھے۔چنانچہ حضرت عبد
اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللهﷺ لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی ہیں اور
سخاوت کا دریا سب سے زیادہ اس وقت جوش پر ہوتا جب رمضان میں آپ سے جبرئیلِ امین علیہ السلام ملاقات کے لئے حاضر ہوتے۔جبرئیلِ امین علیہ
سلام رمضان المبارک کی ہر رات میں ملاقات کیلئے حاضر ہوتے اور رسولِ کریمﷺان کے
ساتھ قرآنِ عظیم کا دور فرماتے۔ پس رسول الله ﷺ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر
کے معاملے میں سخاوت فرماتے۔
(بخاری،1/9،حدیث: 6)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے
اللہ پاک کے محبوبﷺ کو کبھی اسی طرح نہیں دیکھا کہ آپ نے افطار سے پہلے نمازِ مغرب ادا فرمائی ہو، چاہیے
ایک گھونٹ پانی ہی ہوتا۔آپ اس سے افطار
فرماتے۔ (ترغیب و ترہیب،2/91 ،حدیث: 91)
سرکارِ مدینہﷺ جب رمضان المبارک کے آخری دس دن آتے
تو عبادت پر کمر باندھ لیتے،ان میں راتوں کو جاگا کرتے اور اپنے اہلِ خانہ کو جگایا
کرتے۔ (مسلم،ص462،حدیث: 2787)
رمضان البارک کی برکتوں کے کیا کہنے!یوں تو اس کی
ہر ہرگھڑی رحمت بھری اور ہرہر ساعت اپنے دامن میں بے پایاں برکتیں لئے ہوئے ہے،مگر
اس ماہِ محترم میں شبِ قدر سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، اسے پانے کے لئے ہمارے پیارے
آقاﷺنے ماہِ رمضان کا پورا مہینا بھی اعتکاف فرمایا ہے اور آخری دس دن کا بہت زیادہ
اہتمام تھا ،یہاں تک کہ ایک بار کسی خاص عذر کے تحت آپ رمضان المبارک میں اعتکاف
نہ کر سکے تو شوال المکرم کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا۔ (بخاری،1/ 671، حدیث:
2031)ایک مرتبہ سفر کی وجہ سے آپ کا
اعتکاف رہ گیا تو اگلے رمضان شریف میں بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔(ترمذی،2/212، حدیث:803)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،ہمارے پیارے آقاﷺ نماز سے پہلے تر کھجوروں سے روزہ افطار
فرماتے،تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوریں یعنی چھوہاروں سے اور یہ بھی نہ
ہوتیں تو چند چلوپانی پیتے۔( ابو داود،2/447 ،حدیث: 2356)
ماشاءاللہ! ہمارے پیارے آقا ﷺ رمضان کا کتنا اہتمام
فرماتے تھے!اللہ پاک ہمیں بھی پیارے آقا ﷺ کے طریقے پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اور ہمیں سنتِ مصطفےٰ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
رمضان المبارک بہت برکتوں اور رفعتوں والا مہینا ہے
۔اسی مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے
جاتے ہیں ۔بعض نادان مسلمان ایسے بھی ہوتے
ہیں جو روزہ تو رکھ لیتے مگر وہ اپنا وقت گزارنے کے لیے طرح طرح کے کھیل کھیلتے ہیں،جیسے
لڈو،تاش وغیرہ،حالانکہ انہیں چاہیے کہ اللہ
پاک کی عبادت کریں اور قرآنِ مجید کی تلاوت کریں۔آئیے!پیارے نبی ﷺ رمضان المبارک کیسے
گزارتے تھے ملاحظہ فرمائیے :
آقاﷺ عبادت پر کمر بستہ ہو جاتے :ام
المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں: جب ماہِ رمضان آتا تو آقا ﷺ بیس دن نماز اور نیند کو ملاتے تھے، پس جب آخری
عشرہ ہوتا تو اللہ پاک کی عبادت کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ۔(مسند امام احمد،9/338،حدیث:
24444)
آقاﷺ رمضان المبارک میں خوب دعائیں
مانگتے تھے:جب
ماہِ رمضان تشریف لاتا تو آقا ﷺ کا رنگ مبارک متغیر(یعنی تبدیل )ہو جاتا اور نماز
کی کثرت فرماتے اور خوب دعائیں مانگتے۔
(شعب الایمان،3/310،حدیث: 3625)
آ پ ﷺ رمضان المبارک میں خوب خیرات کرتے:جب
رمضان المبارک آتا تو آقا ﷺ ہر قیدی کو رہا کر دیتے اور ہر سائل کو عطا
فرماتے۔(شعب الایمان، 3/311،حدیث: 3269)
سحری و افطاری کا معمول :پیارے
نبی ﷺ اپنے روزے کا آغاز سحری کھانے اور اختتام جلدی افطاری کرنے سے کرتے تھے ۔
اعتکاف:ہر سال رمضان
المبارک میں آقاﷺ دس دن اعتکاف فرماتے تھے لیکن جس سال آپ کا انتقال ہونا تھا اس
سال 20 دن اعتکاف فرمایا۔ (بخاری، 1/ 671،
حدیث:2044)
ہمارے نبی ﷺ کس چیز سے روزہ افطار
فرماتے تھے؟نبی
ﷺ تر کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے تھے۔
اگر یہ نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں سے یعنی چھوہاروں سے۔اگر یہ بھی نہ ہوتے تو چند
چلو پانی سے افطار فرماتے۔
(ابو داود،2/447، حدیث: 2356)
اللہ پاک ہم سب کو رمضان المبارک جیسے پیارے مہینے
کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورجس
طرح ہمارے پیارے نبی ﷺ خوب عبادت وریاضت اور قیام کر کے رمضان المبارک گزارتے تھے اسی طرح اللہ پاک ہمیں بھی رمضان گزارنے کی توفیق
عطا فرمائے ۔اٰمین
حضور ﷺ رمضان سے بہت محبت فرماتے اور اس کو پانے کیلئے
دعا کرتے رہتے تھے۔چنانچہ حضور ﷺ کا معمول
تھا کہ رجب کے شروع ہوتے ہی آپ یہ دعا فرماتے: اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ
وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ یعنی اے اللہ پاک ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان سے ملا دے۔(معجم اوسط،3/85، حدیث : 3939)
نبیِ اکرم ﷺ کی رمضان میں عبادت:جب
رمضان کا چاند نظر آتا تو حضور ﷺ عبادت و
ریاضت میں مشغول ہوجاتے تھے،جیساکہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو میرے سرتاج،صاحبِ معراج ﷺ اللہ پاک کی عبادت پر کمر بستہ ہوجاتےاور
سارا مہینا اپنے بستر منور پر تشریف نہیں لاتے۔ (در منثور،1/449)
رمضان المبارک میں نبیِ کریم ﷺ کا صدقہ و خیرات:رمضان
المبارک میں حضور ﷺ خوب صدقہ و خیرات فرماتےتھےجیساکہ حضرت ابنِ
عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب رمضان
المبارک آتا تو سرکار ﷺ ہر قیدی کو رہا کرتے اور ہر سائل کو عطافرماتے۔(شعب
الایمان،3/311، حدیث: 3629 )
شب بیداری:رمضان المبارک
کی آخری راتوں میں حضور ﷺ شب بیداری
فرماتے اور خود ہی بیدار نہ رہتے بلکہ گھر والوں کو بھی بیدار رکھتے۔( مسلم،ص462،حدیث: 2787)
نبیِ کریم ﷺ کا رمضان المبارک میں اعتکاف:آپ
رمضان کے آخری عشرے کے علاوہ رمضان کے پہلے اور دوسرے عشرے کابہی اعتکاف فرماتے۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ حضورﷺ نے رمضان
کے آخری عشرے میں ہمیشہ اعتکاف فرماتے یہاں تک کہ الله نے آپ کو وفات
دی، آپ کے بعد ازواجِ مطہرات اعتکاف فرماتی
تھیں۔ (بُخاری،1/664،حدیث:2026)
لیلۃ القدر کا معمول:آپ
لیلۃ القدر میں تمام رات قیام فرماتے،خوب عبادت و دعا کا
اہتمام فرماتے۔نیز آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:جس
نے لَیْلَۃُ الْقَدْر میں ایمان اور
اِخلاص کے ساتھ قیام کیا (یعنی نماز پڑھی) تو اُس کے گزشتہ(صغیرہ) گناہ معاف
کردئیے جائیں گے ۔(بخاری،1/660،حدیث:2014)
یقیناً حضورﷺ کی زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔اللہ پاک آقا ﷺ کے صدقے میں ہمیں رمضان
المبارک میں خوب خوب نیکیاں کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔آمین
آقا ﷺ کو رمضان مبارک سے بہت محبت تھی۔جب رمضان کا مہینا
تشریف لاتا تو آقا ﷺ اپنی عبادت میں اضافہ فرما دیتے تھے۔ رمضان المبارک کو شھر
اللہ بھی
کہا گیا ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مہینے کا خاص تعلق اللہ پاک سے ہے یعنی رمضان
کا مہینا اللہ پاک کا مہینا ہے، اس لیے اس مہینے کی فضیلت دوسرے مہینوں سے ممتاز
ہے ، کیونکہ رمضان میں ہر نیکی کا ثواب بڑھ جاتا ہے۔رمضان المبارک میں آقا ﷺ دوسرے
مہینوں کی نسبت اپنے معمولاتِ عبادت وریاضت میں اضافہ فرما دیا کرتے تھے ۔چنانچہ
آقا ﷺ کی رمضان سے محبت :حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
روایت کرتی ہیں کہ جب ماہِ رمضان تشریف لاتا تو حضور اکرم، نورِ مجسم ﷺ کا رنگ
مبارک تبدیل ہو جاتا،آپ کی نماز زیادہ ہو جاتی اور خوب دُعا ئیں مانگتے ۔(شُعَبُ
الْایمان، 3/310،حدیث:3625
)
آقا ﷺ کا رمضان میں صدقہ خیرات کرنے کا
معمول :حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب
ماہِ رمضان آتا تو حضور ﷺ ہر قیدی کو رہا کر دیتے اور ہر سائل کو عطا فرماتے ۔
(شعب الایمان، 3/ 311،حدیث:3629)
آقا ﷺ کا رمضان المبارک میں ختمِ قرآن
کا معمول :آقا
ﷺ رمضان المبارک میں ایک ختمِ قرآن فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے امت کو بھی اسی اعتدال
پر چلنے کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے ۔
آقا ﷺ کا رمضان المبارک میں قیام کا معمول:حضور ﷺ کا
معمول رمضان کی راتوں میں تواتر کے ساتھ کھڑے رہنا،نماز،تسبیح اورتہلیل کرنا ثابت
ہے۔حضور ﷺ رمضان میں قیام کرنے کی فضلیت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: جو شخص رَمضان میں روزے رکھے اور ایمان
کے ساتھ اورحصولِ ثواب کی نیت سے قیام کرے (یعنی تراویح پڑھے) تو وہ اپنے گناہوں
سے ایسے نکل گیا جیسے ولادت کے دن اس کو اس کی ماں نے جنا تھا۔(نَسائی،ص 329، حدیث:2207)
آقا ﷺ کا رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت
کے لیے کمر بستہ ہونے کا معمول :ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا فرماتی ہیں: جب ماہِ رمضان آتا تو آقا ﷺ بیس دن نمازاور نیند کو ملاتے (یعنی نماز اور آرام دونوں کرتے تھے)پس
جب آخری عشرہ ہوتا تو اللہ پاک کی عبادت کے لیے کمر بستہ ہوجاتے تھے ۔(مسند امام احمد،9/338،حدیث:24444)
آقا ﷺ کا رمضان المبارک میں تراویح کا
معمول:حضور
ﷺ رمضان المبارک میں تراویح بھی ادا کیا کرتے تھے۔ تراویح ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہے۔پیارے
آقا ﷺ نے فرمایا: جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ
سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔
(تاریخِ ابنِ عساکر، 9/ 343)
آقا ﷺ کا رمضان المبارک میں تہجد کا
معمول:حضور
ﷺ عام دنوں میں نمازِ تہجد ادا فرماتے تھےبلکہ رمضان المبارک میں اس کو مزید مضبوط
ادا کرنے کی ترکیب فرماتے تھے ۔
آقا ﷺ کےسحری کا معمول :سحری
و افطار کے بے شمار فیوض وبرکات ہیں۔ آقا ﷺ روزے کا آغاز سحری کے کھانے سے فرمایا
کرتے تھے۔چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا ﷺ نے فرمایا: سحری
کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔(بخاری، 1/633،حدیث:1923)
آقا ﷺ کا رمضان المبارک میں کثرت سے
دعاؤں کا معمول :آقا ﷺ رمضان المبارک میں خوب دعا ئیں مانگا کرتے
تھے،چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب رمضان المبارک کا مہینا آتا تو آقا ﷺ کا رنگ
مبارک متغیر ہو جاتا،نماز کی کثرت فرماتے اور دعائیں مانگتے تھے۔
(شعب الایمان،3/ 311،حدیث:3629)
آقا ﷺ رمضان المبارک میں سب سے زیادہ
سخاوت فرمانے والے تھے:حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے
زیادہ سخاوت والے تھے اور رمضان المبارک میں آپ خصوصاً بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔جبرئیلِ
امین ﷺ رمضان المبارک کی ہر رات میں ملاقات کے لیے حاضر ہوتے اور آقا ﷺ ان کے ساتھ
قرآنِ کریم کا دور فرماتے۔جب بھی حضرت جبرئیلِ امین علیہ السلام آپ کی خدمت میں آتے تو آپ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر یعنی بھلائی کے معاملے میں
سخاوت فرماتے ۔ ( بُخاری،1/9،
حدیث:6)
الحمد للہ ہم نے پڑھا کہ آقا ﷺ رمضان المبارک کیسے
گزارتے تھے کہ اپنی عبادت میں اضافہ فرماتے تھے ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ آقا ﷺ کی رمضان المبارک سے کیسی محبت تھی۔اللہ کریم
ہمیں پیارے آقا ﷺ کے صدقے رمضان المبارک سے محبت کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔اللہ کریم
ہمیں رمضان المبارک میں اخلاص و استقامت کے ساتھ ماہِ رمضان کا ادب اور اس میں
عبادت بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ شعبان میں بھی قریب
قریب مہینا بھر آپ روزہ دار رہتے تھے۔سال
کے باقی مہینوں میں بھی یہی کیفیت رہتی تھی کہ اگر روزہ رکھنا شروع فرما دیتے تو
معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے،پھر ترک فرما دیتے تو معلوم ہوتا
تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ خاص کر ہر مہینے میں تین دن ایامِ بیض کے
روزے، دو شنبہ و جمعرات کے روزے،عاشورہ کے روزے، عشرہ ذوالحجہ کے روزے، شوال کے چھ
روزے، معمولاً رکھا کرتے تھے۔ رمضان المبارک خصوصاً آخری عشرہ میں آپ کی عبادت بہت
ذیادہ بڑھ جاتی تھی۔(سیرتِ مصطفیٰ،ص596)
آقا ﷺ عبادت پر کمر بستہ
ہو جاتے:جب
ماہِ رمضان آتا تو نبیِ کریم ﷺ اللہ پاک کی عبادت کے لیے کمر بستہ ہو جاتے اور
سارا مہینا اپنے بسترِ منور پر تشریف نہ لاتے۔ آقا ﷺ رمضان میں خوب دعائیں مانگتے
تھے۔ جب ماہِ رمضان آتا تو نبیِ کریم ﷺ کا رنگ مبارک متغیر ہوجاتااورآپ نماز کی کثرت فرماتے اور خوب گڑ گڑا کر دعائیں
مانگتے اور اللہ پاک کا خوف آپ پر طاری رہتا۔
(شُعَبُ الْایمان، 3/310،حدیث:3625 )
آپ رمضان میں خوب خیرات کرتے:اس
ماہِ مبارک میں خوب صدقہ و خیرات کرنا بھی سنت ہے۔ چنانچہ عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب
ماہِ رمضان آتا تو نبیِ کریم ﷺ ہر قیدی کو رہا کر دیتے اور ہر سائل کو عطا فرماتے۔(شعب
الایمان،3/311، حدیث: 3629 )
رمضان المبارک میں آپ سے جبریلِ امین علیہ
السلام ملاقات کے لیے حاضر ہوتے:جبریلِ امین علیہ السلام رمضان المبارک
کی ہر رات میں ملاقات کے لیے حاضر ہوتے اور نبیِ کریم ﷺ ان کے ساتھ قرآنِ کریم کا
عظیم دور فرماتے۔( بُخاری،1/9، حدیث:6)
رمضان المبارک میں آپ کا اعتکاف:ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری
عشرہ کا اعتکاف فر مایا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ پاک نے آپ کو وفات دی اور آپ کے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات
رضی اللہ عنہن اعتکاف کیا کرتیں۔
(بُخاری،1/664،حدیث:2026)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:سرکارِ
مدینہ ﷺ نے ایک ترکی خیمے کے اندر رَمضانُ الْمُبارَک کے پہلے عشرے کااعتکاف
فرمایا،پھر درمیانی عشرے کا،پھر سرِ اقدس باہر نکالا اور فرمایا:میں نے پہلے عشرے
کا اعتکاف شبِ قدر تلاش کرنے کیلئے کیا،پھراسی مقصد کے تحت دوسرے عشرے کااعتکاف
بھی کیا،پھر مجھے اللہ پاک کی طرف سے یہ خبر دی گئی کہ شبِ قدر آخری عشرے میں
ہے۔لہٰذا جوشخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے وہ آخری عشرے کا اعتکاف کرے۔اس لئے کہ
مجھے پہلے شبِ قدر دکھادی گئی تھی پھر بھلادی گئی اور اب میں نے یہ دیکھاہے کہ شبِ
قدر کی صبح کو گیلی مٹی میں سجدہ کررہا ہوں ۔لہٰذا اب تم شبِ قدر کو آخری عشرے کی
طاق راتوں میں تلاش کرو۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُس شب
بارِش ہوئی اور مسجِد شر یف کی چھت مبارک ٹپکنے لگی ، چنانچِہ اکیس رَمضانُ
الْمُبارَک کی صبح کو میری آنکھوں نے میٹھے میٹھےآقا،مکی مَدَنی مصطفٰے ﷺ کواس
حالت میں دیکھاکہ آپ کی مبارک پیشانی پر گیلی مٹی کانشان عالی شان تھا۔ (مشکوۃ المصابیح،1/392،حدیث:2086)
سحری کرنے میں تاخیر اور افطاری کرنے میں جلدی حضرت
محمد ﷺ کا زندگی بھر معمول رہا۔اللہ پاک اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر اپنی
رحمتیں نازل کرتے ہیں۔
(مسند امام احمد،4/88، حدیث:11396)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے علاوہ صرف شعبان میں ہی پورے ماہ کے
روزے رکھا کرتے تھے ،اس لیے کہ یہ رمضان کے ساتھ متصل ہے۔(معجم کبیر،23/ 256، حدیث:528)اللہ
پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے حبیب
ﷺ کی سنتوں پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین
رمضان المبارک تمام مہینوں کا سردار ہے۔(معجم کبیر،9/205،حدیث:9000)
یہ اسلامی مہینوں کا نواں مہینا ہے اور اس مہینے کا
چاند دیکھنا فرضِ کفایہ ہے۔
(اسلامی مہینوں کے فضائل،ص204)
ماہِ رمضان بڑی عظمت و شان والا ہے۔ماہِ رمضان میں
اللہ پاک کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ماہِ رمضان میں نیکیوں کا ثواب بڑھ جاتاہے۔نفل کا
ثواب فرض کے برابر دیا جاتا ہےاور فرض کا ثواب ستر 70 گنا بڑھا دیا جاتا ہے ۔ (ابن خُزَیمہ،3/191، حدیث: 1887)
حدیثِ مبارک میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اگر بندوں کو
معلوم ہوتاکہ رمضان کیا ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ کاش! پورا سال رمضان ہی ہو۔(ابن
خزیمہ،3/190،حدیث:1886)
اس حدیثِ مبارک سے بھی رمضان کی فضیلت کا اندازہ
لگایا جا سکتاہے کہ رمضان کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔لہٰذا ہمیں اس ماہ میں زیادہ سے
زیادہ نیکیاں کرنے کی کوشش کرنی چاہیےاور رمضان المبارک کو سنت کے مطابق گزارنےکی
بھی کوشش کرنی چاہیے۔آئیے!حضور ﷺ رمضان
المبارک کے مہینے کو کیسے گزارتے تھے اس بارے میں سننے کی سعادت حاصل کرتی ہیں ۔
آقاﷺ عبادت پر کمر بستہ ہوجاتے:ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو شہنشاہِ
نبوت،تاجدارِ رسالت ﷺ بیس دن نماز اور نیند کو ملاتے تھے۔پس جب آخری عشرہ ہوتا تو
اللہ کریم کی عبادت کیلئے کمر بستہ ہوجاتے۔(مسند امام احمد،9/338،حدیث:24444)
آقاﷺ رمضان میں خوب دعائیں مانگتے تھے:ایک
اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب ماہِ رمضان تشریف لاتا تو
حضور ﷺ کا رنگ مبارک متغیر(تبدیل) ہوجاتااور نماز کی کثرت فرماتے اور خوب دعائیں
مانگتے۔(شعب الایمان،3/310،حدیث:3625)
آقاﷺ رمضان میں خوب خیرات کرتے:حضرت عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب
ماہِ رمضان آتا تو سرکارِ مدینہ ﷺ ہر قیدی کو رہا کر دیتے اور ہر سائل کو عطا
فرماتے۔
(شعب الایمان،3/311،حدیث:3629)
مانگ من مانتی مُنھ مانگی مُرادیں لے گا نہ
یہاں ’’نا‘‘ ہے نہ منگتا
سے یہ کہنا ’’کیا ہے‘‘
(حدائقِ بخشش، ص 171)
حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ بیان کردہ حدیث کے حصے( ہر قیدی کو رہا
کردیتے )کے تحت مراۃ المصابیح،3/142پر فرماتے ہیں:حق یہ ہے کہ یہاں قیدی سے مراد
وہ شخص ہے جو حقُّ اللہ یا حقُّ العبد میں گرفتار ہو اور آزاد فرمانے سے اس کے حق
ادا کر دینا یا کرا دینا مراد ہے۔
سب سے بڑھ کر سخی:حضرت عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:رسول
اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور رمضان میں آپ (خصوصاً) بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔ جبرئیلِ امین علیہ السلام رمضان المبارک کی ہر
رات میں ملاقات کیلئے حاضرہوتے اور رسولِ کریم ﷺ ان کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دور
فرماتے۔جب بھی حضرت جبرئیلِ امین علیہ السلام آپ کی خدمت میں آتے تو آپ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر ( بھلائی)
کے معاملے میں سخاوت فرماتے۔ ( بُخاری،1/9، حدیث:6)
ہا تھ اٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم! ہیں سخی کے مال میں حقدار ہم
(حدائقِ بخشش، ص 83)
سبحان اللہ!حضور ﷺ کس پیارے انداز میں رمضان
المبارک کے مہینے کو گزارا کرتے تھے!ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے آقا کریم ﷺ کے مبارک
طریقہ کے مطابق ماہِ رمضان میں خوب صدقات اور عبادات کریں۔اللہ کریم ہمیں رمضان المبارک کو حضور ﷺ کے
طریقہ کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور رمضان المبارک کی برکتوں سے مالا
مال فرمائے ۔آمین بجاہِ النبی الامین ﷺ
ہمارے پیارے نبی،حضرت محمد ﷺ دینِ اسلام کی تعلیم و
تبلیغ کی دن رات مصروفیات کے باوجود اللہ
پاک کی بہت عبادت کیا کرتے تھے ۔اعلانِ
نبوت سے پہلے بھی غار ِحرا میں قیام و مراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر اللہ کریم کی
عبادت میں مصروف رہتے تھے اور اعلانِ نبوت کے بعد بھی آپ اللہ پاک کی عبادت میں ساری ساری رات گزار دیتے
اور طویل قیام کرنے کی وجہ سے آپ کے قدمین
شریفین سوج جاتے تھے پھر بھی عبادت میں
مشغول رہا کرتے تھے ۔جب رمضان المبارک کا مہینا تشریف لاتا تو رسول ﷺ اپنی عبادات
میں مزید اضافہ فرما دیا کرتے تھے ۔
رمضان المبارک کی تشریف آوری پر حضور ﷺ
کی کیفیت:
1۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :جب ماہِ رمضان المبارک تشریف لاتا تو حضور اکرم ﷺ کا رنگ مبارک
متغیر (یعنی تبدیل) ہو جاتا اور نماز کی کثرت فرماتے اور خوب دعائیں مانگتے۔ (1)
آقا کریم ﷺ رمضان المبارک میں خوب خیرات
کرتے:
2۔حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
جب ماہِ رمضان المبارک آتا تو سرکارِ مدینہ ﷺ ہر قیدی کو رہا کر دیتے اور ہر سائل
کو عطا فرماتے۔ (2)
حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ
علیہ بیان کردہ حدیثِ پاک کے حصے ہر قیدی کو رہا کر دیتےکے تحت مراۃ المناجیح،جلد
3 صفحہ 142 پر فرماتے ہیں: حق یہ ہے کہ یہاں قیدی سے مراد وہ شخص ہو جو حق اللہ
اور حق العبد (یعنی بندے )کے حق میں گرفتار ہو اور آزاد فرمانے سے اس کے حق کا ادا کر دینا یا دینا مراد ہے ۔
سب سے بڑھ کر سخاوت فرماتے:
3۔حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے
بڑھ کر سخی تھے اور رمضان شریف میں آپ خصوصاً بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔جبریلِ
امین علیہ السلام رمضان المبارک کی ہر رات میں ملاقات کے لیے حاضر ہوتے تو رسول
اللہ ﷺ ان کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دور فرماتے ۔جب بھی حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کی خدمت میں آتے تو آپ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر( یعنی بھلائی)
کے معاملے میں سخاوت فرماتے۔(3)
دس دن کا اعتکاف:
4۔حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں
کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کےآخری عشرے یعنی ( دس دن) کا اعتکاف فرمایا کرتے یہاں
تک کہ اللہ پاک نے آپ کو وفات ظاہری عطا
فرمائی ،پھر آپ کے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اعتکاف کرتی رہیں ۔ (4)
بے شک رمضان المبارک کی ہر ہر گھڑی رحمت بھری اور
برکتوں والی ہے، مگر اس ماہِ مبارک میں شبِ قدر سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، اسے
پانے کے لیے ہمارے آقا ﷺ نے ماہِ رمضان المبارک کا پورا مہینا بھی اعتکاف فرمایا
ہے اور آخری دس دن کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیثِ
مبارک سے پتہ چلتا ہے کہ آپ خصوصیت کے
ساتھ آخری عشرہ( یعنی دس دن) کا اعتکاف فرماتے تھے۔
اعتکاف سے محبت:
ایک مرتبہ
سفر کی وجہ سے آپ کا اعتکاف رہ گیا تو
اگلے رمضان شریف میں 20 دن کا اعتکاف فرمایا۔(5)
آخری عشرے میں ذوق عبادت:
آپ آخری عشرے میں بہت زیادہ عبادت کرتے ،آپ ساری رات بیدار رہتے،اپنی ازواجِ مطہرات رضی
اللہ عنہن سے بے تعلق ہو جاتے تھے، گھر
والوں کو نماز کے لیے جگایا کرتے تھے ،عموماً اعتکاف فرماتے تھے، نمازوں کے ساتھ
ساتھ کبھی کھڑے ہو کر، کبھی بیٹھ کر، کبھی سر بسجود ہو کر نہایت آہ و زاری اور گریہ و بکا کے ساتھ گڑ گڑا کر راتوں میں دعائیں بھی مانگا کرتے تھے۔
(6)
ہمارے پیارے آقا ﷺ جو کہ معصوم ہیں اور تمام انبیائے
کرام کے سردار ہیں اور دوسروں کی شفاعت فرمانے والے ہیں وہ تو اتنی اتنی عبادات کریں اور رمضان
المبارک میں اپنی عبادات کو مزید بڑھا دیں اور ہم فرائض و واجبات کو ادا کرنے میں سستی کریں؟ہمیں بھی چاہیے کہ
رمضان المبارک کے روزے تو ہرگز نہ چھوڑیں ،رمضان
المبارک میں تلاوتِ قرآن مزید بڑھا دیں اور کوشش کر کے ذکر اللہ کے لیے ایک وقت
مقرر کر لیں۔یا اللہ پاک!ہمیں عبادات کی توفیق اور اس پر استقامت عطا فرما اور نبیِ
کریم ﷺ کے ذوقِ عبادت اور محبتِ رمضان میں
سے کچھ حصہ نصیب فرما۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
حوالہ جات :
1۔ شعب الایمان، 3 /310 ،حدیث: 3625
2۔شعب الایمان، 3 /311 ،حدیث: 3629
3۔بخاری،1 /9 ،حدیث: 6
4۔بخاری، 1/664 ،حدیث:2026
5۔ترمذی،2/212 ،حدیث:803
6۔تفسیر صراط الجنان ، 8/377
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ ماہِ رمضان کے فیضان
کے کیا کہنے!اس کی تو ہر گھڑی رحمت بھری ہے۔ اس مہینے میں اَجر و ثواب بہت بڑھ
جاتا ہے۔نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70 گنا کر دیا جاتا ہے ۔اس ماہِ
مبارک کا ہر دن اور ہر رات اپنے اندر بے شمار برکتیں سمیٹے ہوتا ہے۔اللہ پاک ہمیں
اس ماہِ مبارک كا خوب خوب فیضان لوٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اے کاش! ہم سارے روزے
ظاہری و باطنی آداب کے ساتھ رکھنے اور خشوع و خضوع کے ساتھ فرض نمازیں، نوافل اور
نمازِ تراویح ادا کرنے میں کامیاب ہو جائیں ۔آئیے !اب جانتی ہیں کہ ہمارے آقا ﷺ
رمضان المبارک کیسے گزارتے تھے۔
1-آقا ﷺ کی عبادت:
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو میرے سرتاج،صاحبِ معراج ﷺاللہ پاک کی عبادت کے لیے کمر
بستہ ہو جاتے اور سارا مہینا اپنے بسترِ منور پر تشریف نہ لاتے۔ مزید فرماتی ہیں:جب
ماہِ رمضان تشریف لاتا تو شاہِ بنی آدم ،رسولِ محتشم ﷺ کا رنگ مبارک تبدیل ہو جاتا
تھا۔آپ نماز کی کثرت فرماتے، خوب گڑگڑا کر
دعائیں مانگتے اور اللہ پاک کا خوف آپ پر طاری رہتا۔
2-سب سے بڑھ کر سخی:
حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے بڑھ کر
سخی تھے۔رمضان شریف میں آپ خصوصاً بہت زیادہ
سخاوت فرماتے تھے۔جبرائیلِ امین علیہ التسلیم رمضان المبارک کی ہر رات میں ملاقات
کے لیے حاضر ہوتے اور رسولِ کریم،رؤف رحيم ﷺ ان کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دَور فرماتے۔
جب بھی حضرت جبرائیلِ امین آپ کی خدمت میں
آتے تو آپ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر ( بھلائی )کے معاملے میں سخاوت
فرماتے۔
3-آقا ﷺ رمضان میں خوب خیرات کرتے :
حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو سرکارِ مدینہ ﷺ ہر قیدی کو رہا کر دیتے
اور ہر سائل کو عطا فرماتے۔
4-آقا ﷺ رمضان میں خوب دعائیں مانگتے
تھے:
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہمافرماتی
ہیں: جب ماہِ رمضان تشریف لاتا تو حضور اکرم،نورِ مجسم، شاہِ آدم ﷺ کا رنگ مبارک
متغیر یعنی تبدیل ہو جاتا،نماز کی کثرت فرماتے اور خوب دعائیں مانگتے۔
حوالہ جات:
1-تفسیردر منثور ، 310/3 ، حدیث 3625
2-بخارى، 1 / 9 ،حديث: 6
3-شُعَبُ الايمان، 3 / 311 ،حديث: 3629
4-شُعَبُ الايمان،3 /310 ،حديث:3625
حضور رمضان کیسے گزارتے تھے؟از بنتِ محمد زاہد، فیضِ مدینہ نارتھ کراچی
نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر لوگوں کو معلوم
ہوتا کہ رمضان میں کیا ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ کاش! پورا سال رمضان ہی ہو۔ (ابنِ خُزَیمہ،3/190،حدیث:1886)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں
نے فرمایا:جب رجب المرجب کا مہینا شروع ہوتا تو حضور ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے: اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي
رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ یعنی اے
اللہ پاک ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان سے
ملا دے۔
(معجم اوسط،3/85،
حدیث : 3939)
نبیِ اکرم ﷺ کی رمضان میں عبادت:جب
رمضان المبارک کا چاند نظر آتا تو ہمارے پیارے آقا و مولا ﷺ عبادتِ الٰہی میں
مشغول ہو جایا کرتے تھے ،چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو میرے سر تاج،
صاحِبِ معراج ﷺ اللہ پاک کی عبادت کیلئے
کمر بستہ ہو جاتے اور سارا مہینا اپنے بستر منور پر تشریف نہ لاتے۔ مزید فرماتی ہیں
کہ جب ماهِ رمضان تشریف لاتا تو شاهِ بنی
آدم،رسولِ محتشم ﷺکار رنگ مبارک تبدیل( ہو کر پیلا یالال ) ہو جاتا۔ آپ نماز کی
کثرت فرماتے ، خوب گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے اور اللہ پاک کا خوف آپ پر طاری رہتا۔
(شعب الایمان،3 ،حدیث: 3625)
امام العابدین،سید الساجدين ﷺ رمضان شریف خصوصاً
آخری عشرے میں آپ کی عبادت بہت زیادہ بڑھ
جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار رہتے اور گھر والوں کو نمازوں کیلئے جگایا کرتے تھے
اور عموماً اعتکاف فرماتے تھے۔نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر،کبھی بیٹھ
کر،کبھی سجدے کی حالت میں نہایت آہ و زاری اور گڑ گڑا کر راتوں میں دعائیں بھی
مانگا کرتے۔رمضان شریف میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دور بھی
فرماتے اور تلاوتِ قرآن کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی مختلف دعاؤں کا ورد بھی فرماتے
تھے اور کبھی کبھی ساری رات نمازوں میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ مبارک قدموں میں سوجن
آجایا کرتی تھی۔(سیرتِ مصطفیٰ،ص 596 )
یقیناً ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ کا عبادت سے متعلق یہ
طرزِ عمل ہمارے لئے تربیت کا باعث ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی پیارے آقاﷺ کی پیاری
اداؤں کو اپنائیں۔یقیناً ماہِ رمضان المبارک میں نیکیوں کا اجر بہت بڑھ جاتا ہے، لہٰذا
کوشش کر کے زیادہ سے زیادہ نیکیاں اس ماہ میں جمع کر لینی چاہئیں کیونکہ کم وقت میں
زیادہ نیکیاں جمع کرنے کے لئے اس ماہِ مبارک سے بہتر اور کوئی مہینا نہیں ۔
رمضان المبارک میں نبیِ کریم ﷺ کا صدقہ و خیرات:رمضان
المبارک میں حضور اکرم ﷺ خوب صدقہ و خیرات کرتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جب
رمضان المبارک آتا تو سرکارِ مدینہ ﷺ ہر قیدی کو رہا کرتے اور ہر سائل کو عطا
فرماتے۔ ( تفسیردرمنشور ،1/ 449)
نبیِ کریم ﷺ کا رمضان المبارک میں اعتکاف: حضور
ﷺ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
کہ اللہ کے نبی ﷺ رمضان کے آخری دس دنو ں کااعتکاف کیاکرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ
نے آپ کووفات دے دی۔( بخاری،3/47)اللہ پاک ہمیں رمضان المبارک میں خوب عبادت و نیکیاں
کرنے کے توفیق عطا فرمائے۔آمین
میزبان کے پانچ حقوق از بنت راجہ واجد حسین، ھدی للناس اکیڈمی راولپنڈی
جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے
مہمان کا احترام کرے، مہمان کا احترام یہ
ہے کہ اسے مسکرا کر اچھی طرح ملے۔اچھے لوگ مہمانوں کے کھانے پینے پرمسرت محسوس
کرتے ہیں، مہمان کو زحمت نہیں رحمت اور برکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مہمان کو ایذا
نہ دیں جب کوئی
مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر
آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ (گھر والے) کے گناہ بخشے جانے
کا سبب ہوتا ہے، حدیث پاک میں ہے: جس نے نماز قائم
کی، زکوة ادا کی، حج کیا رمضان کے روزے رکھے اور مہمان کی مہمان نوازی کی وہ جنت
میں داخل ہوگا۔ (معجم کبیر، 12/136، حدیث: 12692)
میزبان کے حقوق:
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کو
چار باتیں ضروری ہیں: 1۔ جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے 2۔
جو کچھ اسکے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش
ہو، یہ نہ ہو کہ کہنے لگے اس سے اچھا تو میں اپنے گھر ہی کھایا کرتا ہوں یا اس قسم
کے دوسرے الفاظ3۔ میزبان سے اجازت لیے بغیر وہاں سے نہ اٹھے 4۔ جب وہاں سے جائے
تو اس کےلیے دعا کرے۔ (بہار شریعت، 3/349)
گھر یا کھانے وغیرہ کے معاملے میں مہمان کسی قسم کی
تنقید کرے نہ جھوٹی تعریف کرے۔ میزبان بھی مہمان کو جھوٹ کے
خطرے میں ڈالنے والےسوالات نہ کرے، مثلاً کہنا کہ ہماراگھر کیسا لگا؟ یا کہا:
ہمارا کھانا آپکو پسند آیا یا نہیں؟ ایسے موقع پر اگر پسند نہ ہونے کے باوجود
مہمان مروت میں گھر یا کھانے کی جھوٹی تعریف کرےگا تو گناہگار ہوگا۔
میزبان اسطرح کا سوال بھی نہ کرے کہ آپ نے پیٹ بھر
کر کھایا یا نہیں؟ کہ یہاں بھی جواباً جھوٹ
کا اندیشہ ہے کہ کم کھانے کی عادت یا پرہیزی یا کسی بھی وجہ سے کم کھانے کےباوجود
اصراروتکرار سے بچنے کے لیے مہمان کو جھوٹ موٹ کہنا پڑجائے
کہ میں نے خوب ڈٹ کر کھایا ہے۔
حضرت امام ابو حامد محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں : ساتھی کم کھاتا ہو تو رغبت دلاتے ہوئے
اس سے کہے : کھائیے! لیکن تین
بار سے زیادہ نہ کہا جائے کیونکہ یہ اصرار کرنا اور حد سے بڑھنا ہوا۔
میزبان کو بالکل خاموش نہ رہنا چائیے
اور یہ بھی نہ کرنا چائیے کہ کھانا
رکھ کر غائب
ہو جائے
بلکہ وہاں حاضر رہے میزبان کو چائیے کہ مہمان
کی خاطر داری میں خود مشغول ہو خادموں کے ذمے اسکو نہ چھوڑے، مہمان کی آؤ بھگت
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت ہے۔
حضرت امام غزالی فرماتے ہیں: جو شخص کم خوراک ہو جب
وہ لوگوں کے ساتھ کھائے تو کچھ دیر بعد کھانا شروع کرے اور چھوٹے لقمے
اٹھائے
اور آہستہ کھائے
تاکہ آخر تک لوگوں کا ساتھ دے سکے۔ اگر کسی نے اس لیے جلدی ہاتھ روک لیا تاکہ
لوگوں کے دلوں میں مقام پیدا ہو اور اسکو بھوک سے کم کھانے والا تصور کریں تو
ریاکار اور عذاب کا حقدار ہے۔ اگر بھوک سے کچھ زیادہ اس لیے کھالیا کہ مہمان کے
ساتھ کھا رہا ہے اور معلوم ہے کہ ہاتھ روک دے گا تو مہمان شرما جائے
گا اور سیر ہو کر نہ کھائے گا تو اس
صورت میں بھی کچھ زیادہ کھالینے کی اجازت ہےجبکہ اتنی ہی زیادتی ہو جس سے معدہ
خراب ہونے کا خطرہ نہ ہو۔
اللہ پاک ہمیں سنت کو اپنانے اور مہمان کے حقوق ادا
کرنے کی توفیق دے۔ آمین